پہلے اپنے آپ کو مسمار کر(تشریح)

جاسمن

لائبریرین
محمداحمد کی غزل کے چند اشعار کی تشریح
پہلے اپنے آپ کو مِسمار کر
پھر نیا اک آدمی تیار کر
یہ غُرور و فخر ہے کِس بات کا
عاجزی کو طُرہٴ دستار کر
شعراء و ادباء اکثر جان بوجھ کے یعنی کہ دانستہ یعنی کہ شعوری طور پہ عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہیں۔ (حالانکہ اندر ہی اندر وہ ماسوائے خود کے کسی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔) اب یہاں شاعر خود کو خود ہی سمجھا رہے ہیں۔ اپنے لیے ناصح کا کردار خود ادا کر رہے ہیں(حالانکہ اکثر شاعر ناصح سے پرہیز ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔) کہ بھئی غرور نہ کرو، عاجزی کو اپنی ٹوپی پہ کلغی بنا کے لگا لو۔ واہ واہ! اب ظاہر ہے کہ سوئی دھاگے سے ٹوپی پہ کلغی لگانے کا کام بھابھی نے سرانجام دینا ہے۔
جی پہلے اور دوسرے شعر کا آپس میں بڑا تعلق ہے۔ شاعر نے مطلع کی مجبوری میں پہلے والا خیال بعد میں اور بعد والا خیال پہلے ظاہر کیا ہے لیکن ہمیں ایسی کوئی مجبوری نہ ہے۔ شاعر سے جب پوچھا جاتا کہ جناب کیا کرتے ہیں تو جواب یہی ملتا کہ بندہ مزدور آدمی ہے۔ دیکھ لیں عاجزی کی کلغی والی ٹوپی پہنتے ہیں سو اسی لیے خود کو ہمیشہ مزدور بتاتے ہیں کہ جس کا فائدہ بھی ہوتا ہے کہ سید عمران بھائی کو چائے نہیں پلانی پڑتی بلکہ وہ دو چار کپ پیشگی پلا دیتے ہیں جو اگلے دو تین دنوں تک کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ تو شاعر خود کو مزدور بتاتے رہے لیکن آج راز فاش ہو ہی گیا کہ موصوف مستری ہوا کرتے تھے اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے ٹھیکیدار بن گئے۔ اب جیسا کہ ظہیراحمدظہیر بھائی جیسے سمجھدار شخص کی طرح آپ بھی جانتے ہوں گے کہ ہر شخص دوسرے کو اپنے پیشے کے آئینہ میں دیکھتا ہے۔ موچی کی نظر آپ کے جوتوں اور درزی کی آپ کے کپڑوں پہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مستری اور ٹھیکیدار حضرات ہر چیز کو "ڈھا" کے دوبارہ بنانے کے ٹھیکے لینے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ ویسے کراچی کی پرانی عمارتوں کا ٹھیکہ لگتا ہے کہ آج کل شاعر کے پاس ہی ہے سو انھیں ہر چیز انسان سمیت ڈھا ڈھا کے بنانے کا تازہ ترین شوق ہوا ہوا ہے۔ اب آپ سب بچ بچا کے رہیں۔ خاص کر نیرنگ خیال جیسے لوگوں کو بچ کے رہنا چاہیے کہ احمد بھائی اپنے چند شعروں کے نئے رنگ ان میں شامل کرنا چاہ رہے ہوں گے۔

سہل انگاری کہاں تک، اُٹھ ذرا
زندگی کو اور مت دشوار کر
اللہ اکبر! یہ سراسر نیرنگ خیال پہ ذاتی حملہ ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس شعر کے خلاف جلد ہی ہم دھرنے کا اعلان کریں گے۔ نیرنگ! فکر مت کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کمال ہے بھئی! یعنی کہ اتنی دیدہ دلیری! اف توبہ! :noxxx: :unsure::unsure::eek::X3:

خوش امیدی کو بنا بانگِ جرس
آرزو کو قافلہ سالار کر
شاعر جدید رجحانات کا علمبردار ہے اور عورت کی حکومت کا سخت ترین حامی ہے سو کہہ رہا ہے کہ آرزو کو لیڈرشپ ملنی چاہیے اور خوش امیدی کو میڈیا میں اہم مقام ملنا چاہیے۔ یہ دراصل استعاراتی شعر ہے اور خوش امیدی اور آرزو کس سیاسی پارٹی میں ہوتی ہیں؟ یہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے محمد وارث اور جاسم محمد جیسے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سہل انگاری کہاں تک، اُٹھ ذرا
زندگی کو اور مت دشوار کر
اللہ اکبر! یہ سراسر @نیرنگ خیال پہ ذاتی حملہ ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس شعر کے خلاف جلد ہی ہم دھرنے کا اعلان کریں گے۔ نیرنگ! فکر مت کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کمال ہے بھئی! یعنی کہ اتنی دیدہ دلیری! اف توبہ! :noxxx: :unsure::unsure::eek::X3:
:D:D:D

نین بھائی پر یہ حملہ احمد بھائی نے کیا ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے لکھنے سے ڈر لگ رہا ہے ۔اس قلمی دہشت گردی میں کہیں میں ہی نہ مارا جاؤں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پہلے تو جاسمن صاحبہ داد حاضر ہے۔۔۔ آپ بہت اچھا کام کر رہی ہے۔۔۔ اس غزلیہ دہشت گردی کو یوں ہی ختم کرنا ہوگا۔۔۔۔ ہر روز نت نئے مضامین لیکر آجاتے ہیں یہ لوگ۔۔۔۔ اعلی اعلی


سہل انگاری کہاں تک، اُٹھ ذرا
زندگی کو اور مت دشوار کر
اللہ اکبر! یہ سراسر @نیرنگ خیال پہ ذاتی حملہ ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس شعر کے خلاف جلد ہی ہم دھرنے کا اعلان کریں گے۔ نیرنگ! فکر مت کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کمال ہے بھئی! یعنی کہ اتنی دیدہ دلیری! اف توبہ! :noxxx: :unsure::unsure::eek::X3:
اور اب۔۔۔۔
جب ہم پانچ لوگ اکھٹے ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔۔۔ تو میں اکثر ماسٹر کا تعارف کروایا کرتا تھا۔۔۔۔ لیکن جب بھی میں تعارف کروانا شروع کرتا۔۔۔ ماسٹر فورا کہتا۔۔۔ یار بس کر۔۔۔ میں خود بتا دوں گا اپنا نام پتا۔۔۔ تو مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔۔۔ کہ جاسمن صاحبہ یہاں بڑی مشکل مجھے یہی نظر آ رہی ہے کہ آپ میرے ساتھ کھڑی ہیں۔۔۔ ورنہ احمد بھائی سے تو میں نبٹ ہی لیتا۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
:D:D:D

نین بھائی پر یہ حملہ احمد بھائی نے کیا ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے لکھنے سے ڈر لگ رہا ہے ۔اس قلمی دہشت گردی میں کہیں میں ہی نہ مارا جاؤں۔
قلمی دہشت گردی کی اصطلاح خوب گھڑی ہے آپ نے جاسمن صاحبہ واسطے۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے بھی جوابا ان کا ساتھ دینا ہوگا۔۔۔ اور احتجاج کرنا پڑے گا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
شعراء و ادباء اکثر جان بوجھ کے یعنی کہ دانستہ یعنی کہ شعوری طور پہ عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہیں۔ (حالانکہ اندر ہی اندر وہ ماسوائے خود کے کسی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔) اب یہاں شاعر خود کو خود ہی سمجھا رہے ہیں۔ اپنے لیے ناصح کا کردار خود ادا کر رہے ہیں(حالانکہ اکثر شاعر ناصح سے پرہیز ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔) کہ بھئی غرور نہ کرو، عاجزی کو اپنی ٹوپی پہ کلغی بنا کے لگا
:LOL:
بہت خوب ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قلمی دہشت گردی کی اصطلاح خوب گھڑی ہے آپ نے جاسمن صاحبہ واسطے۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے بھی جوابا ان کا ساتھ دینا ہوگا۔۔۔ اور احتجاج کرنا پڑے گا۔
بالکل متوقع ردِ عمل!
بیشک تمام دہشت گرد ایک قوم ہیں ۔ یہ تو ہم مظلوم و معصوم و محروم و محکوم ومغموم شعرا ہی ہیں جو معلوم نہیں آپس میں کیوں منظوم نہیں ۔ اور ڈر ہے کہ مذموم و مسموم دہشت گردی کے سبب معدوم ہی نہ ہوجائیں ۔ لگتا ہے کہ اب شعرائے محفل کو بھی اپنی بقا کی خاطر ایک تنظیم بنانی پڑے گی ۔
تنظیم کے تا حیات صدر تو محمداحمد بھائی ہوگئے کہ سب سے زیادہ ظلم انہی پر ہوئے ہیں۔ اب نائب صدر ، سیکریٹری اور اعلانچی یعنی ناظم شعبۂ نشر و اشاعت کےامیدوار اپنے ہاتھ کھڑے کریں۔ اور مجھے رشوت دینے کی قطعی کوشش نہ کی جائے۔ میں کبھی کسی کو انکار نہیں کرتا۔
 

سید عمران

محفلین
جاسمن صاحبہ فل فارم میں نظر آئیں. خدا انہیں شَاعروں، ٹھیکیدار نما مستریوں اور ایک ایک کپ چائے کے لیے ترسانے والے مہا کنجوس مزدوروں کی نظر بد سے بچائے.
لگے ہاتھوں ایک انکشاف ہم بھی کرتے چلیں. اور ہم کیا کرتے شاعر دوسرے شعر میں خود کر رہا ہے کہ روپے کے ریٹ گرنے اور پیٹرول کے ریٹ اٹھنے کے باعث سریئے کی گردن میں سریا آگیا. اس لیے کنسٹریکشن کے ریٹ آسمانوں کو چھونے لگے اور گاہک بازار سے عنقا ہوگئے.
عدم دستیابی گراہک کی زبوں حالی کے باعث ٹھیکیداری کا کاروبار چوپٹ ہوا اور ٹھیکیدار نما شاعر بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوا.
تاہم شاعر نے کراچوی ہونے کا بلاجواز فائدہ اٹھایا اور ترنت پیشہ تبدیل کرکے شامل حلقہ بزازاں ہوا. لگے ہاتھوں عادت سے مجبور کپڑے کی کاٹ چھانٹ کے ہنر میں بھی یکتا ہوا. دوسرا شعر شاعر کی اسی پیشہ پلٹ حالت کا غماز ہے...
یہ غُرور و فخر ہے کِس بات کا
عاجزی کو طُرہٴ دستار کر
بظاہر شاعر اپنی جھینپ مٹانے کے لیے خود کو ایسا عاجز ظاہر کررہا ہے جس کی غرور و تکبر سے دور دور تک کی بھی صاحب سلامت نہیں ہے. جبکہ مدعا سراسر یہ ہے کہ جب شاعر کو پاپی پیٹ کے لالے پڑے اور ٹھیکیداری جیسا کروڑ پتی بنانے والا بزنس چھوڑ کر تیرے میرے کی دستار میں عاجزی کے طرے لگانے پڑے تو شاعر کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا، ساتھ ہی وہ نانی بھی یاد آگئی جو چھٹی کا دودھ چھڑانے کے بعد شاعر کو گاؤں کی سب سے چھٹی ہوئی بھینس کا دودھ پلاتی تھی.

انتہائی اہم وضاحت:
مذکورہ بالا تشریح میں شاعر سے مراد اپنے محمد احمد شاعر بھائی نہیں ہیں. یہ کوئی اور شاعر ہیں!!!
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جاسمن صاحبہ فل فارم میں نظر آئیں. خدا انہیں شَاعروں، ٹھیکیدار نما مستریوں اور ایک ایک کپ چائے کے لیے ترسانے والے مہا کنجوس مزدوروں کی نظر بد سے بچائے.
لگے ہاتھوں ایک انکشاف ہم بھی کرتے چلیں. اور ہم کیا کرتے شاعر دوسرے شعر میں خود کر رہا ہے کہ روپے کے ریٹ گرنے اور پیٹرول کے ریٹ اٹھنے کے باعث سریئے کی گردن میں سریا آگیا. اس لیے کنسٹریکشن کے ریٹ آسمانوں کو چھونے لگے اور گاہک بازار سے عنقا ہوگئے.
عدم دستیابی گراہک کی زبوں حالی کے باعث ٹھیکیداری کا کاروبار چوپٹ ہوا اور ٹھیکیدار نما شاعر بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوا.
تاہم شاعر نے کراچوی ہونے کا بلاجواز فائدہ اٹھایا اور ترنت پیشہ تبدیل کرکے شامل حلقہ بزازاں ہوا. لگے ہاتھوں عادت سے مجبور کپڑے کی کاٹ چھانٹ کے ہنر میں بھی یکتا ہوا. دوسرا شعر شاعر کی اسی پیشہ پلٹ حالت کا غماز ہے...
یہ غُرور و فخر ہے کِس بات کا
عاجزی کو طُرہٴ دستار کر
بظاہر شاعر اپنی جھینپ مٹانے کے لیے خود کو ایسا عاجز ظاہر کررہا ہے جس کی غرور و تکبر سے دور دور تک کی بھی صاحب سلامت نہیں ہے. جبکہ مدعا سراسر یہ ہے کہ جب شاعر کو پاپی پیٹ کے لالے پڑے اور ٹھیکیداری جیسا کروڑ پتی بنانے والا بزنس چھوڑ کر تیرے میرے کی دستار میں عاجزی کے طرے لگانے پڑے تو شاعر کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا، ساتھ ہی وہ نانی بھی یاد آگئی جو چھٹی کا دودھ چھڑانے کے بعد شاعر کو گاؤں کی سب سے چھٹی ہوئی بھینس کا دودھ پلاتی تھی.

انتہائی اہم وضاحت:
مذکورہ بالا تشریح میں شاعر سے مراد اپنے محمد احمد شاعر بھائی نہیں ہیں. یہ کوئی اور شاعر ہیں!!!
ظہیراحمدظہیر بھائی، دیکھیے، دہشتگردوں کا گروہ تو بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جاسمن صاحبہ فل فارم میں نظر آئیں. خدا انہیں شَاعروں، ٹھیکیدار نما مستریوں اور ایک ایک کپ چائے کے لیے ترسانے والے مہا کنجوس مزدوروں کی نظر بد سے بچائے.
لگے ہاتھوں ایک انکشاف ہم بھی کرتے چلیں. اور ہم کیا کرتے شاعر دوسرے شعر میں خود کر رہا ہے کہ روپے کے ریٹ گرنے اور پیٹرول کے ریٹ اٹھنے کے باعث سریئے کی گردن میں سریا آگیا. اس لیے کنسٹریکشن کے ریٹ آسمانوں کو چھونے لگے اور گاہک بازار سے عنقا ہوگئے.
عدم دستیابی گراہک کی زبوں حالی کے باعث ٹھیکیداری کا کاروبار چوپٹ ہوا اور ٹھیکیدار نما شاعر بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوا.
تاہم شاعر نے کراچوی ہونے کا بلاجواز فائدہ اٹھایا اور ترنت پیشہ تبدیل کرکے شامل حلقہ بزازاں ہوا. لگے ہاتھوں عادت سے مجبور کپڑے کی کاٹ چھانٹ کے ہنر میں بھی یکتا ہوا. دوسرا شعر شاعر کی اسی پیشہ پلٹ حالت کا غماز ہے...
یہ غُرور و فخر ہے کِس بات کا
عاجزی کو طُرہٴ دستار کر
بظاہر شاعر اپنی جھینپ مٹانے کے لیے خود کو ایسا عاجز ظاہر کررہا ہے جس کی غرور و تکبر سے دور دور تک کی بھی صاحب سلامت نہیں ہے. جبکہ مدعا سراسر یہ ہے کہ جب شاعر کو پاپی پیٹ کے لالے پڑے اور ٹھیکیداری جیسا کروڑ پتی بنانے والا بزنس چھوڑ کر تیرے میرے کی دستار میں عاجزی کے طرے لگانے پڑے تو شاعر کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا، ساتھ ہی وہ نانی بھی یاد آگئی جو چھٹی کا دودھ چھڑانے کے بعد شاعر کو گاؤں کی سب سے چھٹی ہوئی بھینس کا دودھ پلاتی تھی.

انتہائی اہم وضاحت:
مذکورہ بالا تشریح میں شاعر سے مراد اپنے محمد احمد شاعر بھائی نہیں ہیں. یہ کوئی اور شاعر ہیں!!!
ہا ہا ہاہ!بہت خوب! یعنی دو نہ شد سہ شد!
 

جاسمن

لائبریرین
ایک سابقہ لطیفے کے مطابق کچھ شاعر حضرات "تشریح/دہشت گردی" کرانے کے زیادہ کی مشتاق ہوئے جاتے ہیں۔ خود ہی کہتے رہتے ہیں کہ بس ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ہماری شامت نہ آ جائے۔ کہیں ہماری معصوم سی غزل/نظم کے ساتھ چھ چھ ہاتھ نہ ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔
اسے ضرب مثل
 

محمداحمد

لائبریرین
شعراء و ادباء اکثر جان بوجھ کے یعنی کہ دانستہ یعنی کہ شعوری طور پہ عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہیں۔ (حالانکہ اندر ہی اندر وہ ماسوائے خود کے کسی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔) اب یہاں شاعر خود کو خود ہی سمجھا رہے ہیں۔ اپنے لیے ناصح کا کردار خود ادا کر رہے ہیں(حالانکہ اکثر شاعر ناصح سے پرہیز ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔) کہ بھئی غرور نہ کرو، عاجزی کو اپنی ٹوپی پہ کلغی بنا کے لگا لو۔ واہ واہ! اب ظاہر ہے کہ سوئی دھاگے سے ٹوپی پہ کلغی لگانے کا کام بھابھی نے سرانجام دینا ہے۔
:) :) :)
جی پہلے اور دوسرے شعر کا آپس میں بڑا تعلق ہے۔ شاعر نے مطلع کی مجبوری میں پہلے والا خیال بعد میں اور بعد والا خیال پہلے ظاہر کیا ہے لیکن ہمیں ایسی کوئی مجبوری نہ ہے۔ شاعر سے جب پوچھا جاتا کہ جناب کیا کرتے ہیں تو جواب یہی ملتا کہ بندہ مزدور آدمی ہے۔ دیکھ لیں عاجزی کی کلغی والی ٹوپی پہنتے ہیں سو اسی لیے خود کو ہمیشہ مزدور بتاتے ہیں کہ جس کا فائدہ بھی ہوتا ہے کہ @سید عمران بھائی کو چائے نہیں پلانی پڑتی بلکہ وہ دو چار کپ پیشگی پلا دیتے ہیں جو اگلے دو تین دنوں تک کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ تو شاعر خود کو مزدور بتاتے رہے لیکن آج راز فاش ہو ہی گیا کہ موصوف مستری ہوا کرتے تھے اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے ٹھیکیدار بن گئے۔
:) :) :)
اب جیسا کہ @ظہیراحمدظہیر بھائی جیسے سمجھدار شخص کی طرح آپ بھی جانتے ہوں گے کہ ہر شخص دوسرے کو اپنے پیشے کے آئینہ میں دیکھتا ہے۔ موچی کی نظر آپ کے جوتوں اور درزی کی آپ کے کپڑوں پہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مستری اور ٹھیکیدار حضرات ہر چیز کو "ڈھا" کے دوبارہ بنانے کے ٹھیکے لینے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ ویسے کراچی کی پرانی عمارتوں کا ٹھیکہ لگتا ہے کہ آج کل شاعر کے پاس ہی ہے سو انھیں ہر چیز انسان سمیت ڈھا ڈھا کے بنانے کا تازہ ترین شوق ہوا ہوا ہے۔ اب آپ سب بچ بچا کے رہیں۔ خاص کر @نیرنگ خیال جیسے لوگوں کو بچ کے رہنا چاہیے کہ احمد بھائی اپنے چند شعروں کے نئے رنگ ان میں شامل کرنا چاہ رہے ہوں گے۔
:) :) :)
سہل انگاری کہاں تک، اُٹھ ذرا
زندگی کو اور مت دشوار کر
اللہ اکبر! یہ سراسر @نیرنگ خیال پہ ذاتی حملہ ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس شعر کے خلاف جلد ہی ہم دھرنے کا اعلان کریں گے۔ نیرنگ! فکر مت کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ کمال ہے بھئی! یعنی کہ اتنی دیدہ دلیری! اف توبہ! :noxxx: :unsure::unsure::eek::X3:
نین بھائی کے تو فرشتوں کو بھی نہیں پتہ ہوگا کہ اس شعر کی اُن سے کوئی دور کی رشتہ داری بھی ہے۔ :)

کسی اور کو البتہ یہ شعر بہت پسند آیا اور اُس کے نتائج آپ سب کے سامنے ہیں۔ :)

خوش امیدی کو بنا بانگِ جرس
آرزو کو قافلہ سالار کر
شاعر جدید رجحانات کا علمبردار ہے اور عورت کی حکومت کا سخت ترین حامی ہے سو کہہ رہا ہے کہ آرزو کو لیڈرشپ ملنی چاہیے اور خوش امیدی کو میڈیا میں اہم مقام ملنا چاہیے۔ یہ دراصل استعاراتی شعر ہے اور خوش امیدی اور آرزو کس سیاسی پارٹی میں ہوتی ہیں؟ یہ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے @محمد وارث اور @جاسم محمد جیسے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔

اللہ اللہ !

ماشاء اللہ ! آج کل آپ کا قلم شوخیوں پر اترا ہوا ہے۔ :) :) :)

دو چار ماہ تک غزلیات ڈرافٹ موڈ میں ہی رکھی جائیں تو بہتر ہوگا۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
پہلے تو @جاسمن صاحبہ داد حاضر ہے۔۔۔ آپ بہت اچھا کام کر رہی ہے۔۔۔ اس غزلیہ دہشت گردی کو یوں ہی ختم کرنا ہوگا۔۔۔۔ ہر روز نت نئے مضامین لیکر آجاتے ہیں یہ لوگ۔۔۔۔

:thinking:


اور اب۔۔۔۔
جب ہم پانچ لوگ اکھٹے ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔۔۔ تو میں اکثر ماسٹر کا تعارف کروایا کرتا تھا۔۔۔۔ لیکن جب بھی میں تعارف کروانا شروع کرتا۔۔۔ ماسٹر فورا کہتا۔۔۔ یار بس کر۔۔۔ میں خود بتا دوں گا اپنا نام پتا۔۔۔ تو مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔۔۔ کہ @جاسمن صاحبہ یہاں بڑی مشکل مجھے یہی نظر آ رہی ہے کہ آپ میرے ساتھ کھڑی ہیں۔۔۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگے سب دہشت گرد :) :)

ہاہاہاہاہا۔۔۔ !
 

محمداحمد

لائبریرین
بیشک تمام دہشت گرد ایک قوم ہیں ۔
ہاہاہاہا۔۔!
یہ تو ہم مظلوم و معصوم و محروم و محکوم ومغموم شعرا ہی ہیں جو معلوم نہیں آپس میں کیوں منظوم نہیں ۔
افسوس کہ یہ تو نثری نظم کی طرح ہمیشہ تتر بتر ہی نظر آتے ہیں۔ :) :)


اور ڈر ہے کہ مذموم و مسموم دہشت گردی کے سبب معدوم ہی نہ ہوجائیں ۔
معدوم نہ بھی ہوں تو آپ کی شاعری میں نظر نہیں آنے والے۔ :) :)


لگتا ہے کہ اب شعرائے محفل کو بھی اپنی بقا کی خاطر ایک تنظیم بنانی پڑے گی ۔
ہم تو آج تک کوچہء آلکساں کو ہی اپنی بقا کا آخری مسکن سمجھتے رہے ہیں۔ :) :)


تنظیم کے تا حیات صدر تو @محمداحمد بھائی ہوگئے کہ سب سے زیادہ ظلم انہی پر ہوئے ہیں۔
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے :) :)


اب نائب صدر ، سیکریٹری اور اعلانچی یعنی ناظم شعبۂ نشر و اشاعت کےامیدوار اپنے ہاتھ کھڑے کریں۔
پہلے جاسمن آپا اور نین بھیا کے تو ہاتھ نیچے کروائیں۔ :)

اور مجھے رشوت دینے کی قطعی کوشش نہ کی جائے۔ میں کبھی کسی کو انکار نہیں کرتا۔

رشوت کرایہ ہم دے دیں گے آپ سالم تانگہ کرواکے ہمیں کوچے میں پہنچوا دیجے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
جاسمن صاحبہ فل فارم میں نظر آئیں. خدا انہیں شَاعروں، ٹھیکیدار نما مستریوں اور ایک ایک کپ چائے کے لیے ترسانے والے مہا کنجوس مزدوروں کی نظر بد سے بچائے.
لگے ہاتھوں ایک انکشاف ہم بھی کرتے چلیں. اور ہم کیا کرتے شاعر دوسرے شعر میں خود کر رہا ہے کہ روپے کے ریٹ گرنے اور پیٹرول کے ریٹ اٹھنے کے باعث سریئے کی گردن میں سریا آگیا. اس لیے کنسٹریکشن کے ریٹ آسمانوں کو چھونے لگے اور گاہک بازار سے عنقا ہوگئے.
عدم دستیابی گراہک کی زبوں حالی کے باعث ٹھیکیداری کا کاروبار چوپٹ ہوا اور ٹھیکیدار نما شاعر بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوا.
تاہم شاعر نے کراچوی ہونے کا بلاجواز فائدہ اٹھایا اور ترنت پیشہ تبدیل کرکے شامل حلقہ بزازاں ہوا. لگے ہاتھوں عادت سے مجبور کپڑے کی کاٹ چھانٹ کے ہنر میں بھی یکتا ہوا. دوسرا شعر شاعر کی اسی پیشہ پلٹ حالت کا غماز ہے...
یہ غُرور و فخر ہے کِس بات کا
عاجزی کو طُرہٴ دستار کر
بظاہر شاعر اپنی جھینپ مٹانے کے لیے خود کو ایسا عاجز ظاہر کررہا ہے جس کی غرور و تکبر سے دور دور تک کی بھی صاحب سلامت نہیں ہے. جبکہ مدعا سراسر یہ ہے کہ جب شاعر کو پاپی پیٹ کے لالے پڑے اور ٹھیکیداری جیسا کروڑ پتی بنانے والا بزنس چھوڑ کر تیرے میرے کی دستار میں عاجزی کے طرے لگانے پڑے تو شاعر کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا، ساتھ ہی وہ نانی بھی یاد آگئی جو چھٹی کا دودھ چھڑانے کے بعد شاعر کو گاؤں کی سب سے چھٹی ہوئی بھینس کا دودھ پلاتی تھی.
اِسے کہتے ہیں "مرے پہ سو دُرّے"! جاسمن آپا نے خود تو ہاتھ صاف کیے ہی کیے۔ ٹیگ کرکے مفتی صاحب کو بھی بلوا لیا۔ :) :)

مفتی صاحب کے قلم کی کاٹ سے کون واقف نہیں ہے۔ اللہ کسی دشمن کو بھی ان کے حوالے نہ کرے۔ :) :)

ویسے ہمارا تو کوئی دشمن ہے ہی نہیں! :)

انتہائی اہم وضاحت:
مذکورہ بالا تشریح میں شاعر سے مراد اپنے محمد احمد شاعر بھائی نہیں ہیں. یہ کوئی اور شاعر ہیں

جی جی!

گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو۔ :) :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک سابقہ لطیفے کے مطابق کچھ شاعر حضرات "تشریح/دہشت گردی" کرانے کے زیادہ کی مشتاق ہوئے جاتے ہیں۔ خود ہی کہتے رہتے ہیں کہ بس ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ہماری شامت نہ آ جائے۔ کہیں ہماری معصوم سی غزل/نظم کے ساتھ چھ چھ ہاتھ نہ ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔
اسے ضرب مثل
ان شاعر حضرات کا نام بھی بتادیتیں آپ تو اچھا ہوتا ۔ :) کم از کم بچارے خوف اور دہشت سے بچاؤ کی تدبیر تو کرلیتے ۔ شربت کا گلاس اور دستی پنکھا پاس رکھ کر آل تو جلال تو پڑھتے ہوئے لاگ اِن ہوتے۔
ویسے جس تیزی سے آپ اتنی اچھی دھنائی کررہی ہیں لگتا یہی ہے کہ دو نہیں بلکہ چھ ہاتھ ہیں ۔ :D:D:D

غضب خدا کا ، پہلے تو بھائیوں کی جیب پر حملہ کیا کرتی تھیں بہنیں ۔ اب غزلوں اور نظموں پر بھی ڈاکے ڈالنے لگیں ۔ اب بھیالوگ جائیں تو کہاں جائیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
رشوت کرایہ ہم دے دیں گے آپ سالم تانگہ کرواکے ہمیں کوچے میں پہنچوا دیجے۔ :)
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں اُدھر جائیں گے
اُتھے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

سوچ لیں احمد بھائی ۔ ادھر کوچے میں مہابلی نین سرکار آرام فرما ہوتے ہیں ۔ اگر آپ نے غلطی سے کہیں اُن کی استراحت میں خلل ڈال دیا تویوں نہ ہو کہ وہ انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھیں اور کہیں کہ بچہ ذرا ادھر آؤ ۔
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں اُدھر جائیں گے
اُتھے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

سوچ لیں احمد بھائی ۔ ادھر کوچے میں مہابلی نین سرکار آرام فرما ہوتے ہیں ۔ اگر آپ نے غلطی سے کہیں اُن کی استراحت میں خلل ڈال دیا تویوں نہ ہو کہ وہ انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھیں اور کہیں کہ بچہ ذرا ادھر آؤ ۔
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
:) :) :)
ظہیر بھائی کوچے میں یہ والی نفسا نفسی نہیں ہے۔

وہاں تو ہم اور نین بھائی شیرو شکر ہیں۔ وہاں اتنی فرصت کسے کہ شاعری یا لکھنے لکھانے کے بارے میں سوچا بھی جائے۔ :) :) :)
 
آخری تدوین:
Top