پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہراہ
کیا بحث چھڑ گئی ہے یہاں پہ۔
ویسے اتنی بحث کا شاعری پڑھنے اور سننے والی عام عوام پہ کوئی اثر نہیں پڑھنا۔
جب آپ نے غزل لکھ دی ہے تو وہ آپ کو پتہ ہے کہ کیسے لکھی ہے، آمد، آورد ہے، الہام ہے، لیکن سامنے والے کو نہیں نہ پتہ۔ بس بحث ختم۔:laughing3:
 

محمد وارث

لائبریرین
بات پھر وہیں پہنچتی ہے جو پہلے بھی کرچکا۔ کے آمد میں آمد کیسے ہوتی ہے؟ کیا خود بخود ایک لا علم شخص آمد کے سہارے سے مقفی اور مردف شاعری کرسکتا ہے؟ نہیں کرسکتا۔ آمد مضمون کی تو ہوسکتی ہے لیکن ردیف و قافیہ کے ہمراہ غزلیات کس پر اترتی ہیں حضرت؟

اسی وجہ سے میں اصل بات کی طرف آنا چاہتا تھا۔
اور میں بھی صحیح تصور کیا کرتا تھا ان اشعار کو اور بہت داد بھی سمیٹ چکا ہوں ان اشعار سے۔ لیکن غلط کو غنیمت جان کر صحیح تصور کرلینا کوئی عقلمندی نہیں۔ اور نثری نظم کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا میں۔

مزمل صاحب، اس بات میں شاکر القادری صاحب کی تائید کرونگا۔ قافیہ ردیف کےساتھ موزوں اشعار ڈھلے ڈھلائے بھی اترتے ہیں لیکن شروع شروع میں کم ہی ایسا ہوتا۔ جب کوئی شاعر نو آموز ہوتا ہے تو اس کا دھیان ضرور وزن، اور قافیہ ردیف میں الجھ جاتا ہے لیکن برسوں کی محنت، مشقت، ریاضت اور مشقِ سخن کے بعد شاعر کا دھیان کم ہی ان چیزوں میں الجھتا ہے بلکہ اس وقت دھیان مضمون آفرینی کی طرف ہوتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
انتہائی دلچسپ سلسلہ ہے۔ بچپن میں ایک جگہ پڑھا تھا کہ ایک مشہور شاعر نے (وسطی یورپ کے کسی پہاڑی علاقے کا تھا) نے ایک بار کہا تھا کہ

شعر بچوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں۔ میں انہیں کپڑے پہنا کر اور نہا دھلا کر پیش کر دیتا ہوں

باقی شاعری میری فیلڈ نہیں کہ یہاں بہت بڑے بڑے نام موجود ہیں۔ اس لئے ناچیز کی گستاخی صرف نظر کی جائے :)
 
مزمل صاحب، اس بات میں شاکر القادری صاحب کی تائید کرونگا۔ قافیہ ردیف کےساتھ موزوں اشعار ڈھلے ڈھلائے بھی اترتے ہیں لیکن شروع شروع میں کم ہی ایسا ہوتا۔ جب کوئی شاعر نو آموز ہوتا ہے تو اس کا دھیان ضرور وزن، اور قافیہ ردیف میں الجھ جاتا ہے لیکن برسوں کی محنت، مشقت، ریاضت اور مشقِ سخن کے بعد شاعر کا دھیان کم ہی ان چیزوں میں الجھتا ہے بلکہ اس وقت دھیان مضمون آفرینی کی طرف ہوتا ہے۔

وارث بھائی مجھے اس بات سے بالکل اختلاف نہیں کے قافیہ اور ردیف کے ہمراہ اشعار اترا کرتے ہیں. لیکن میں صرف اتنی بات پعچھنا چاہتا ہوں کے کیا وہ اشعار اس صورت میں ہوتے ہیں کہ آپ کو پتا بھی نہ ہو اور قافیہ و ردیف خود ہی آجائیں.؟ آپ اپنی ہی مثال لیکر محاسبہ کر سکتے ہیں اگر آپ پر کبھی اشعار کی آمد ہوئی ہو.
کیا آپ کو اس وقت قافیہ و ردیف کا بالکل علم نہ تھا؟ یقیناً علم تھا تبھی وہ اشعار مقفی ہو کر آپ کے دماغ میں یا مضمون دماغ آکر وہ مقفی صورت میں لفظوں میں ڈھل گیا.
یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی زبان سیکھنے کو پہلے اصول اور قوانین سیکھنی ضرورت ہوتی ہے. جب قوانین ذہن میں سماجائیں تو پھر آپ بے سوچے سمجھے بھی کچھ بول لیجئے تو اس میں کوئی غلطی نہیں ہوگی. کیونکہ اصول تو لا شعوری طور پر ذہن میں موجود ہوتے ہیں جنہیں دماغ اپنی جگہ پر خود استعمال کرتا ہے اور ایک صحیح جملہ آپ بول لیتے ہیں.
بات اب بھی وہی ہے کہ آمد مضمون کی ہوتی ہے. شعر کی نہیں. :)
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی مجھے اس بات سے بالکل اختلاف نہیں کے قافیہ اور ردیف کے ہمراہ اشعار اترا کرتے ہیں. لیکن میں صرف اتنی بات پعچھنا چاہتا ہوں کے کیا وہ اشعار اس صورت میں ہوتے ہیں کہ آپ کو پتا بھی نہ ہو اور قافیہ و ردیف خود ہی آجائیں.؟ آپ اپنی ہی مثال لیکر محاسبہ کر سکتے ہیں اگر آپ پر کبھی اشعار کی آمد ہوئی ہو.
کیا آپ کو اس وقت قافیہ و ردیف کا بالکل علم نہ تھا؟ یقیناً علم تھا تبھی وہ اشعار مقفی ہو کر آپ کے دماغ میں یا مضمون دماغ آکر وہ مقفی صورت میں لفظوں میں ڈھل گیا.
یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی زبان سیکھنے کو پہلے اصول اور قوانین سیکھنی ضرورت ہوتی ہے. جب قوانین ذہن میں سماجائیں تو پھر آپ بے سوچے سمجھے بھی کچھ بول لیجئے تو اس میں کوئی غلطی نہیں ہوگی. کیونکہ اصول تو لا شعوری طور پر ذہن میں موجود ہوتے ہیں جنہیں دماغ اپنی جگہ پر خود استعمال کرتا ہے اور ایک صحیح جملہ آپ بول لیتے ہیں.
بات اب بھی وہی ہے کہ آمد مضمون کی ہوتی ہے. شعر کی نہیں. :)

آپ کی بات ایک حد تک درست ہے مزمل صاحب، شاعروں پر اشعار جب اترتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہ اشعار ہیں۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ غیر شاعروں پر بھی اشعار اتر سکتے ہیں چاہے انہیں علم نہ بھی ہو کہ یہ اشعار ہیں۔ رباعی کے حوالے سے ایک مثال شاکر القادری صاحب نے لکھی، ایسی ہی ایک ذاتی مثال میرے پاس بھی ہے۔ میری چھ سالہ بیٹی ایک دن اپنی موج میں کوئی جملہ بار بار دہرا رہی تھی، میں نے سنا تو علم ہوا کہ یہ تو فلاں بحر میں موزوں ہو رہا ہے، اس کو وہ تو نہیں جانتی تھی اور میں بھی ظاہر ہے کہ اس کو شعر یا مصرع نہیں کہہ سکتا تھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ جملہ موزوں تھا۔

لیکن اس سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شاعری کو کسی قانون کے تابع نہیں ہونا چاہیے، اور اصل سوال بھی شاید یہی ہے :)
 
بیشک وارث بھائی. بحر میں موزوں ہوتا ہوگا بہت کچھ.
اور بہر حال رباعی کی جو روایت رودکی سے منسوب کی جاتی ہے وہ بھی ضعیف ہے جس کے دلائل بھی بہت ڈھیلے اور قابل اعتراض ہیں. تفصیل پھر سہی.
رہی بات کلام موزوں کی تو میرے ٹوٹے پھوٹے کلام کا 98 فیصد حصہ وہ ہے جب مجھے عروض کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا. اور وہ عروض کے سارے قوانین پر پورا بھی اترتا ہے. یہ کا کام لا علمی میں بھی صحیح اس لئے ہوا کہ علم عروض کی ایجاد.. بلکہ دریافت ہی موزوں طبع لوگوں کے کلام سے ہوئی ہے. بقول شمس الرحمن صاحب کے ہر بحر مترنم ہوتی ہے. اور یہ بات سو فیصد درست ہے. کیونکہ کوئی بڑے سے بڑا موزوں طبع انسان اپنی موزوں طبعی کے سہارے سب بحور میں موزوں شعر نہیں کہہ سکتا. ہر موزوں طبع انسان کی موزوں طبعی کی حد بھی چند بحور تک محدود ہوتی ہے. یعنی بعض بحور ایسی ہیں جنہیں میں بے ساختہ استعمال کروں اور وہ ٹھیک ہونگی. لیکن انکا استعمال آپ کے لئے دشوار ہوگا. جن بحور کی آپ کی طبع موزوں اجازت دے انہیں استعمال کرنا ممکن ہے کہ مرے لئے دشوار ہو.
اب میں آپ کو کہتا ہوں کے آپ کچھ بھی گن گنا لیجئے اس کی عروضی بحر ضرور نکل آئے گی. چاہے ترنم غیر مانوس ہی ہو لیکن زحافات کی مدد سے اسے ترتیب دیا جاسکے گا اور یہ کام عروض کے عین مطابق ہوگا. یہی کچھ رودکی کے ساتھ ہوا تھا :)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ایک مثال شاکر القادری صاحب نے لکھی، ایسی ہی ایک ذاتی مثال میرے پاس بھی ہے۔ میری چھ سالہ بیٹی ایک دن اپنی موج میں کوئی جملہ بار بار دہرا رہی تھی، میں نے سنا تو علم ہوا کہ یہ تو فلاں بحر میں موزوں ہو رہا ہے، اس کو وہ تو نہیں جانتی تھی اور میں بھی ظاہر ہے کہ اس کو شعر یا مصرع نہیں کہہ سکتا تھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ جملہ موزوں تھا۔

:)
کمال ہے اتنی قریب کی بات ہے اور میں رودکی کی مثالیں دے کر ۔۔۔۔ علم حدیث کے ماہرین سے صعیف روایت کا فتویٰ سن رہا ہوں
مجھے رودکی کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت ہی کیا ہے
میرے ارد گرد روزانہ لمحہ بہ لمحہ ماہ بہ ماہ سال بہ سال ایسا شعری ادب تخلیق ہو رہا ہے جس کے خالقوں کو کافیے ردیف کا کوئی علم نہیں لیکن ان کا کلام مقفی بھی ہے مردف بھی ہے اور موزوں بھی ۔۔۔۔۔۔۔ ننھے منے بچے ۔۔۔ روزانہ ایسے مصرعے کہتے رہتے ہیں اور اپنی معصومیت اور سادگی کی بنا پر وہ اپنے اپنے تخلص لگا کر مقطعے نہیں لکھتے بلہ ایک بچے کا کلام سب کی ملکیت ہوتا ہے اور سب ہی اس میں اضافے کرتے رہے ہیں
اکڑ بکڑ بمبے بو
اسی نوے پورے سو
===========
امی ابو آئیں گے
چار کھلونے لائیں گے
===============
وغیرہ وغیرہ
اتنی مثالیں ہیں کہ لکھتے لکھتے تھک جاؤں
اور یہ بچوں کا تخلیق کردہ لوک ورثہ ہر زبان میں موجود ہے

اور کوئی کیا جانے۔۔۔
ہمارے بسمل نے اپنے معصوم بچپنے میں ایسے کتنے ہی مصرعے موزوں کر کے بچوں کے لوک ادب میں اضافہ کیا ہوگیا :)
کسی نے کیا خوب کہا تھا

بچے بہت اچھے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ شاید اس لیے کہ وہ بچے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن افسوس کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں :)
 
اکڑ بکڑ بمبے بو
اسی نوے پورے سو
===========
امی ابو آئیں گے
چار کھلونے لائیں گے
===============
وغیرہ وغیرہ
اتنی مثالیں ہیں کہ لکھتے لکھتے تھک جاؤں
اور یہ بچوں کا تخلیق کردہ لوک ورثہ ہر زبان میں موجود ہے

اور کوئی کیا جانے۔۔۔
ہمارے بسمل نے اپنے معصوم بچپنے میں ایسے کتنے ہی مصرعے موزوں کر کے بچوں کے لوک ادب میں اضافہ کیا ہوگیا :)
کسی نے کیا خوب کہا تھا

بچے بہت اچھے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ شاید اس لیے کہ وہ بچے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن افسوس کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں :)

جی بالکل آپ اسے اشعار کا ہی نام دے سکتے ہیں . کیا عجب :)
بقول فاتح
اکتر بہتر پچھتر
فعولن فعولن فعولن

ردیف و قافیہ :)

غور طلب بات یہ کے اکڑ بکڑ بمبے بو شاید آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے کھیلا جاتا ہے جس کا تخلیق کار کون جانے کون تھا؟ کیا ضروری ہے کہ کوئی معصوم نا سمجھ بچہ ہو؟
اس طریقے کی منظوم چیزیں اگر بچے کہہ بھی لیں تو کیا وہ شاعری ہوئی؟
بچے جس وقت روٹی کو ٹوٹی بولتے ہیں اس وقت انہیں نظمیں یاد کروا دی جاتی ہیں

لڑنا بھڑا کام برا ہے
لڑنے کا انجام برا ہے

جاڑا دھوم مچاتا آیا

تو اگر کوئی بچہ دھن میں ہم آواز الفاظ کے ساتھ کچھ بے مطلب سی باتیں بول بھی جائے تو کیا وہ شاعری ہوگی؟
ایک اور بات یہ بھیبدیکھیں کے بچوں کا جو کلام آپ موزوں ہونے کی مثال دے رہے ہیں وہ ایک ایسا وزن ہے جس میں ہر زبان کے بچے نظمیں بچپن سے ہی یاد کرتے ہیں.

فعلن فعلن فعلن فع

یہ وزن ایک ایسا پیمانہ ہے جس میں نہ صرف اردو فارسی ہندی عربی بلکہ حد تو یہ کہ انگریزی اور رومن نظمیں بھی موزعں ہوئی ہیں. اور ایک نہیں بلکہ سینکڑوں.

Baby baby yes mama

twinkle twinkle little star.

تقطیع فرما لیجئے تو عقدہ کھل جائے کے ایک بچہ جس نے پیدا ہوتے اردو سے انگریزی تک نظمیں ہی اسی وزن میں سنی تو اس کے لئے کیا مشکل ہے ؟
 

نایاب

لائبریرین
اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبدالرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں جن کا زمانہ دوسری صدی ہجری تھا۔
اس علم کے قوانین بننے سے پہلے بھی شعر کہے جاتے تھے بلکہ ایام جاہلیت کے عربی شعراء تو بہت مشہور ہیں تو کیا اس وقت اشعار میں وزن موجود نہیں تھا؟ یقیناً تھا لیکن اس وقت کے شعرا کے نزدیک وزن کا معیار علمِ عروض کے قوانین کی بجائے، ذوقِ سلیم اور وجدان تھا اور انہی شعرا کے کلام کو سامنے رکھ کر خلیل بن احمد نے اس علم کے قوانین متعین کیے
اس علم پر پہلی مستقل کتاب تیسری صدی ہجری میں ابو اسحاق زجاج (وفات 300 ھ) لکھی اور ان کے بعد کئی ایک کتب اس موضوع پر عربی اور فارسی میں لکھی گئیں لیکن اس موضوع پر سب سے مشہور کتب شمس قیس رازی کی "المعجم" اور نصیر الدین طوسی کی "معیار الاشعار" ہے اور بعد والی کتب میں عموماً انہی دو کتب کی بازگشت ہے۔
اردو میں اس علم پر اتھارٹی کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب مولوی نجم الغنی رامپوری کی "بحر الفصاحت" ہے جو کہ بیسویں صدی کے اوائل میں چھپی تھی جب کہ 1924ء میں مصنف نے کافی اضافے اور ترامیم کے بعد اس کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا اور اب یہی ایڈیشن مروج ہے۔ اس موضوع پر دوسری اہم ترین کتاب مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی "چراغِ سخن" ہے جو کہ 1914ء میں پہلی بار طبع ہوئی۔

منطقی طور پر شعر کی ایک جامع اور انتہائی وسیع تعریف جو کہ ماہرینِ علم منطق بیان کرتے ہیں،
وہ شعر کی اساس تخیل کو قرار دیتے ہیں۔
بو علی سینا نے "کتاب الشفا" کی بحثِ منطق میں کہتے ہیں کہ
"منطقی کی نظر قافیے اور وزن کی طرف نہیں ہوتی، اسکے نزدیک تو یہ چاہیئے کہ وہ کلام مخیل ہو۔"
نصیر الدین طوسی کہتے ہیں کہ
"منطقی کے نزدیک کلامِ مخیل شعر ہے۔"
مولانا شبلی نعمانی "شعر العجم" میں لکھتے ہیں
"اب منطقی پیرایہ میں شعر کی تعریف کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ
جو جذبات الفاظ کے ذریعہ سے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔"
مولانا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب "مقدمۂ شعر و شاعری" میں قافیے اور وزن کی قید کو شعر کی تعریف سے اڑا دیا ہے اور شعر کی تخلیق میں تین چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے، تخیل، مطالعہ کائنات اور تفحص الفاظ۔
اسلیے غالب کہتے ہیں کہ
"شاعری خیال آفرینی کا نام ہے نہ کہ قافیہ پیمائی کا"۔

جبکہ علمِ عروض کے ماہرین دو اور دو چار ہی گمان کرتے بائیس سے دور رہتے معروضی معیار کے قائل ہیں اور کسی بھی شعر کہلائے جانے کے امیدوار جملے کو ریاضی کے اصولوں پر وضع کردہ معیار پر جانچتے ہیں اور اس پر "ہاں" یا "ناں" کا حکم لگاتے ہیں۔ اور ابنِ رشیق کے تقریباً ہزار سال قبل بنائے گئے معیار کو ہی، کسی نہ کسی شکل، میں مانتے ہیں جو کہ کچھ یوں ہے:
شعر ایسا کلام ہے جو موزوں اور مقفیٰ ہو اور بالقصد (بالاارادہ) کہا گیا ہو -
ابنِ رشیق کسی بھی کلام کےشعر ہونے کیلیے " وزن ، قافیہ ۔ قصد یا ارادہ یا کوشش "کا پایا جانا لازم قرار دیتے ہیں ۔
ان معیارات کو واضح کرنے کے لیئے ستم ظریفوں نے آیات قرانی کو بھی اوزان بحر و قافیوں میں تول ڈالا ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جی بالکل آپ اسے اشعار کا ہی نام دے سکتے ہیں . کیا عجب :)
بقول فاتح
اکتر بہتر پچھتر
فعولن فعولن فعولن
ردیف و قافیہ :)
غور طلب بات یہ کے اکڑ بکڑ بمبے بو شاید آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے کھیلا جاتا ہے جس کا تخلیق کار کون جانے کون تھا؟ کیا ضروری ہے کہ کوئی معصوم نا سمجھ بچہ ہو؟
اس طریقے کی منظوم چیزیں اگر بچے کہہ بھی لیں تو کیا وہ شاعری ہوئی؟
بچے جس وقت روٹی کو ٹوٹی بولتے ہیں اس وقت انہیں نظمیں یاد کروا دی جاتی ہیں
لڑنا بھڑا کام برا ہے
لڑنے کا انجام برا ہے

جاڑا دھوم مچاتا آیا
تو اگر کوئی بچہ دھن میں ہم آواز الفاظ کے ساتھ کچھ بے مطلب سی باتیں بول بھی جائے تو کیا وہ شاعری ہوگی؟
ایک اور بات یہ بھیبدیکھیں کے بچوں کا جو کلام آپ موزوں ہونے کی مثال دے رہے ہیں وہ ایک ایسا وزن ہے جس میں ہر زبان کے بچے نظمیں بچپن سے ہی یاد کرتے ہیں.

فعلن فعلن فعلن فع

یہ وزن ایک ایسا پیمانہ ہے جس میں نہ صرف اردو فارسی ہندی عربی بلکہ حد تو یہ کہ انگریزی اور رومن نظمیں بھی موزعں ہوئی ہیں. اور ایک نہیں بلکہ سینکڑوں.

Baby baby yes mama

twinkle twinkle little star.

تقطیع فرما لیجئے تو عقدہ کھل جائے کے ایک بچہ جس نے پیدا ہوتے اردو سے انگریزی تک نظمیں ہی اسی وزن میں سنی تو اس کے لئے کیا مشکل ہے ؟

بسمل! مجھے پہلے تمہاری بات پر یقین نہ تھا کہ تم انیس سال کے بچے ہو ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ تمہاری
بالک ہٹ
سے کم از کم تمہاری یہ بات ت پایہ ثبوت کو پہنچ چکی
اب بچوں کی ضد سے کون لڑ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ تمہارے لیے اتمام حجت ہم نے کر دیا ۔۔۔۔ اکڑ بکڑ کی مثال تو ہم نے ایک دی ہے ناں جو بقول تمہارے ہمارے پیدائش سے بھی پہلے کے ہیں ۔۔۔ اور تم نے فاتح والی بہتر تہتر کو کوٹ کر دیا ہمیں جھٹلانے کے لیے ۔۔۔
تم نے کہا تھا کوئی مثال دو ۔۔۔۔ جس میں قافیہ ردیف کے متعلق علم نہ رکھنے والا کوئی انسان ہو ۔۔۔۔ اور اس پر قافیے والے اشعار نازل ہوئے ہوں ۔۔۔ ہم نے مثال دے دی ۔۔۔۔ اگر تم ان معصوم بچوں کے ہم آواز الفاظ پر مشتمل کلام کو شعر کے درجہ سے خارج کرتے ہوتو کرتے رہو ۔۔۔ اس لیے کہ تمہاری ذہنی سطح ابھی ان معصوم بچوں سے قدرے بلند ہو گئی ہے۔۔۔ ان بچوں کو ابھی قافیہ ردیف کا علم نہیں ۔۔۔ اور تم تو نجم الغنی پر بھی کمند ڈال چکے ہو اسے بھی اپنا نخچیر کر چکے ہو ۔۔۔۔ لیکن اس دور کا کوئی بھی سینئر شاعر شاید تمہاری قافیہ پیمائی کو شاعری تسلیم نہ کرے۔ ۔ ۔ غالب و اقبال تو دور کی بات ہے۔۔۔ اپنے اپنے معیارات ہوتے ہیں ۔۔۔ تم ان بچوں کی صلاحیت سے انکاری ہو ۔۔۔۔ کوئی تمہاری صلاحیتوں سے انکاری ہوگا ۔۔۔ میاں مشاعروں میں داد وصول کرنا اور بات ہے اور کسی ناقد کی تنقید سننا اور بات ہے
ہم نے تو ہمیشہ تمہاری صلاحیتوں کی داد دی نہ کے تمہارے گھڑے ہوئے اشعار کی
ہم تو یہی کہتے ہیں کہ اللہ نے تمہیں طبع موزوں سے نوازا ہے ۔۔۔ اس پر بھروسہ کرو اور شعر کی دیگر خوبیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔۔۔ ایک غزل میں چھ چھ مطلعے کہنے کی بجائے ڈھنگ کا ایک ہی مطلع کہہ دیا کرو تو بات بنے ۔۔۔ مشکل پسندی کا ڈنڈا لے کر استادی جھاڑنے کی کوشش نہ کرو ۔۔۔۔ انیس برس کی عمر میں جو نظریات تم قائم کر چکے ہو ضروری نہیں کہ وہ درست ہوں ۔۔۔۔ عمر کے ساتھ ساتھ انسان پر یہ مراحل آتے ہیں انسان اپنے ہی آج کے نظریات پر آنے والے کل میں ہنستا ہے۔ میں نے بڑے بڑے عبقری لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنے ایک سال پرانے کلام پر خط تنسیخ پھر دیا اور نوٹ چڑھا دیا کہ یہ میرا زمانہ جاہلیت کا کلام ہے ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق جیسے عالمی شہرت یافتہ انسان کے منظوم کلام کو انکی وفات کے بیس سال بعد پہلی مرتبہ مرتب کرکے کتابی صورت میں شائع کرنے کا شرف مجھے حاصل ہے ۔۔۔۔ انہوں نے اپنی شاعری کو شاعری ہی تسلیم نہیں کیا اور اسے اس قابل ہی نہیں جانا کہ اسے شائع کیا جائے حالانکہ ہزاروں ناشر ان کی کتابیں شائع کرنے کے لیے آج تک تیار ہیں ۔۔۔میں نے انکی زندگی کے بعد انکے کلام کو اپنے دیباچہ کے ساتھ شائع کیا اور ان کے کلام پر تبصرہ کیا ۔۔۔ علامہ عبدالعزیز خالد نے ڈاکٹر برق کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ۔۔۔ لیکن برق صاحب اپنی شاعری سے مطمئن نہیں تھے ۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
انتہائی دلچسپ سلسلہ ہے۔ بچپن میں ایک جگہ پڑھا تھا کہ ایک مشہور شاعر نے (وسطی یورپ کے کسی پہاڑی علاقے کا تھا) نے ایک بار کہا تھا کہ

شعر بچوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں۔ میں انہیں کپڑے پہنا کر اور نہا دھلا کر پیش کر دیتا ہوں

باقی شاعری میری فیلڈ نہیں کہ یہاں بہت بڑے بڑے نام موجود ہیں۔ اس لئے ناچیز کی گستاخی صرف نظر کی جائے :)

اشعار تو بچوں کی طرح ہوتے تبھی تو اعتبار ساجد بھی کہہ اٹھے تھے کہ

تیری اشعار تیری معنوی اولاد ہیں
اعتبار ساجد اپنے بچے مت بیچا کر
 
بسمل! مجھے پہلے تمہاری بات پر یقین نہ تھا کہ تم انیس سال کے بچے ہو ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ تمہاری
بالک ہٹ
سے کم از کم تمہاری یہ بات ت پایہ ثبوت کو پہنچ چکی
اب بچوں کی ضد سے کون لڑ سکتا ہے ۔۔۔ ۔۔ تمہارے لیے اتمام حجت ہم نے کر دیا ۔۔۔ ۔ اکڑ بکڑ کی مثال تو ہم نے ایک دی ہے ناں جو بقول تمہارے ہمارے پیدائش سے بھی پہلے کے ہیں ۔۔۔ اور تم نے فاتح والی بہتر تہتر کو کوٹ کر دیا ہمیں جھٹلانے کے لیے ۔۔۔
اگر آپ کو یوں لگا کے میں نے آپ کی بات کو جھٹلانے کی خاطر فاتح بھائی کا قول نقل کیا تو معذرت کے ساتھ کہوں ایسا نہیں تھا۔ مقصود یہ تھا کہ ہر کلام موزوں شاعری نہیں ہوتا۔

تم نے کہا تھا کوئی مثال دو ۔۔۔ ۔ جس میں قافیہ ردیف کے متعلق علم نہ رکھنے والا کوئی انسان ہو۔۔۔ ۔ اور اس پر قافیے والے اشعار نازل ہوئے ہوں ۔۔۔ ہم نے مثال دے دی ۔۔۔ ۔ اگر تم ان معصوم بچوں کے ہم آواز الفاظ پر مشتمل کلام کو شعر کے درجہ سے خارج کرتے ہوتو کرتے رہو ۔۔۔
جی بالکل۔ اگر آپ یہ کہیں میں
ایک دو تین
بڈھے بابا کی مشین
وغیرہ جیسی چیزوں کو شاعری مان لوں تو معذرت یہ میں نہیں کر سکتا۔ ہاں آپ کے بڑے ہونے کی وجہ سے اگر آپ کہیں کے خاموشی اختیار کرو تو ضرور۔ :)

اس لیے کہ تمہاری ذہنی سطح ابھی ان معصوم بچوں سے قدرے بلند ہو گئی ہے۔۔۔ ان بچوں کو ابھی قافیہ ردیف کا علم نہیں ۔۔۔
بعض علم لاعلمی کی حالت میں ہی کیوں نہ ہوں وہ علم ہی ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کے انہیں قافیہ اور ردیف کی اصطلاح کا علم ہو۔

اور تم تو نجم الغنی پر بھی کمند ڈال چکے ہو اسے بھی اپنا نخچیر کر چکے ہو ۔۔۔ ۔
اب کسی چیز کا علم ہو تو کہ وہ غلط ہے تو اس کی تصحیح کو نخچیر کرنا سے کیا مراد؟ بے وجہ تو غلط نہیں کہا۔ اور اگر بے وجہ غلط کہا ہے تو میں تو کہتا ہوں کے کوئی عروضی آکر مجھے سمجھا دے میں کہاں غلط ہوں۔ دوسری بات یہ کے میں نے اپنی استادی جھاڑنے کے لئے نہیں بلکہ اپنا تردد دور کرنے کے لئے سوال کیا تھا۔ میں کوئی عروضی نہیں ہوں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوے جب مجھے عروض کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا۔

لیکن اس دور کا کوئی بھی سینئر شاعر شاید تمہاری قافیہ پیمائی کو شاعری تسلیم نہ کرے۔ ۔ ۔ غالب و اقبال تو دور کی بات ہے۔۔۔ اپنے اپنے معیارات ہوتے ہیں ۔۔۔ تم ان بچوں کی صلاحیت سے انکاری ہو ۔۔۔ ۔ کوئی تمہاری صلاحیتوں سے انکاری ہوگا ۔۔۔ میاں مشاعروں میں داد وصول کرنا اور بات ہے اور کسی ناقد کی تنقید سننا اور بات ہے
ہم نے تو ہمیشہ تمہاری صلاحیتوں کی داد دی نہ کے تمہارے گھڑے ہوئے اشعار کی
چلیں ٹھیک جیسا آپ کہیں :) لیکن لفظ ’’گڑھنا‘‘ کا مفہوم آپ کچھ اور سمجھ بیٹھے ہیں۔ جو میں کہہ رہا تھا اسے آپ نے سمجھنا گوارا نہ کیا۔ خیر۔ ایسا ہی ٹھیک۔

ہم تو یہی کہتے ہیں کہ اللہ نے تمہیں طبع موزوں سے نوازا ہے ۔۔۔ اس پر بھروسہ کرو اور شعر کی دیگر خوبیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔۔۔ ایک غزل میں چھ چھ مطلعے کہنے کی بجائے ڈھنگ کا ایک ہی مطلع کہہ دیا کرو تو بات بنے ۔۔۔ مشکل پسندی کا ڈنڈا لے کر استادی جھاڑنے کی کوشش نہ کرو ۔۔۔ ۔
اللہ اکبر۔ استادی ؟ جناب میں نے ہمیشہ آپ کو۔ وارث بھائی کو۔ اعجاز صاحب استاد کہہ کر پکارا ہے۔ اپنے آپ کو استاد کیونکر سمجھ سکتا ہوں۔ مجھے کوئی افسوس نہیں آپ میری ساری شاعری یا جو بھی نام دیں اسے ۔ کچرے کے ڈبے میں اٹھا پھینکیں۔ میں نے کبھی خود کے شاعر ہونے کا دعوی نہیں کیا حضرت۔:)

ایک اور آخری بات۔ حکیم نجم الغنی سے اختلاف کا مطلب اپنی استادی جھاڑنا نہیں۔ بلکہ غلطی کی نشاندہی کرنا ہے۔
حقیقت یہ کہ میں کوئی عروضی نہیں۔ نہ مجھے عروض آتا ہے۔ :)
بحث کا اختتام ہوا میری طرف سے۔ معذرت کے ساتھ کے استاد شاکر القادری صاحب کے مزاج میں میری وجہ سے گرمی آگئی۔ بہت معذرت میری جانب سے۔ کیونکہ لڑائی جھگڑا مقصود نہیں تھا۔ امن کی حدود میں رہ کر ایک بحث مقصود تھی لیکن صورت بدل گئی۔ :)
والسلام۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عزیزی القدر!
ہرگز ایسی بات نہیں ۔۔۔۔ نہ تو میرے مزاج میں گرمی آئی ہے اور نہ میں غصے میں ہوں اور نہ ہی بات لڑائی کی حدود میں داخل ہوگئی ہے۔ بات سمجھنے سمجھانے کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ایک بالک کو اپنے دلائل کے زور پر اپنے موقف سے ایک انچ بھی نہیں سرکا سکے ۔۔۔۔۔۔ تو اسے بالک ہٹ سے تعبیر کر دیا۔۔۔۔۔کیونکہ جب پہلے سے طے ہو جائے کہ کہ میرا یہ موقف ہوگا اور میں نے اسی پر قائم رہنا ہے ۔۔۔ اس قسم کے مباحثے کالجوں میں کروائے جاتے ہیں ۔۔۔۔ اور ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں ۔۔۔۔ بعض اوقات ٹیم میں شامل افراد کو اپنی ذاتی نظریات کے خلاف دلائل دینا پڑتے ہیں کیونکہ یہ تو ٹیم تشکیل دیتے وقت طے ہو جاتا ہے کہ مخالفت کرنا ہے یا حمایت ۔۔۔۔
سو یہاں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے میرے مزاج میں گرمی تو نہیں البتہ بد دلی اور مایوسی ضرور پیدا ہو گئی ہے:-(

آخری بات! میں جس طرح کی داد ہم نے تمہاری صلاحیتوں کے اعتراف میں دی ہے شاید اردو محفل پر کسی اور نے دی ہوگی۔ ناحق کیوں خفا ہوتے ہو میاں اور تم نے ہم سے عبث اس بات کی توقع کی ہے کہ ہم کسی کے کلام کو اٹھا کر کچرے کے ڈبے میں پھینک دیں گے ۔۔۔۔۔ بخدا ہم نے پہلے دن تمہیں کہہ دیا تھا کہ ہم شعرو سخن والے دھاگوں میں کلام ہی نہیں کرتے۔۔۔۔ اگر کوئی ہمیں متوجہ کرے تو بھی واجبی سی بات کر کے آجاتے ہیں لیکن تمہاری صلاحیتوں کے اعتراف میں ہم نے اپنے اس اصول کو مد نظر نہیں رکھا تاکہ اگر ہماری داد سے تمہاری خداد صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے تو ہم بخل نہیں برتیں گے ۔۔۔ تو پوری محفل کو چھان مارو ۔۔۔۔ تمہیں شعرو سخن کے تمام دھاگوں میں ملا جلاکر بھی اتنی گفتگو اور ہماری جانب سے کسی کو دی گئی اتنی داد نہیں ملے گی جتنی ہم نے تمہارے لیےمختلف دھاگوں میں کی۔۔۔۔ سو میاں اگر آپ کو پسند نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہمارے لیے تو کرنے کو اتنے کام ہیں کہ یہ سلسلہ ہائے گفتگو ہمارے لیے کچھ سہولت کا سامان نہیں پیدا کرتے۔
مجھے کوئی افسوس نہیں آپ میری ساری شاعری یا جو بھی نام دیں اسے ۔ کچرے کے ڈبے میں اٹھا پھینکیں۔ میں نے کبھی خود کے شاعر ہونے کا دعوی نہیں کیا حضرت۔:)
 
آخری بات!
میں جس طرح کی داد ہم نے تمہاری صلاحیتوں کے اعتراف میں دی ہے شاید اردو محفل پر کسی اور نے دی ہوگی۔ ناحق کیوں خفا ہوتے ہو میاں اور تم نے ہم سے عبث اس بات کی توقع کی ہے کہ ہم کسی کے کلام کو اٹھا کر کچرے کے ڈبے میں پھینک دیں گے ۔۔۔ ۔۔ بخدا ہم نے پہلے دن تمہیں کہہ دیا تھا کہ ہم شعرو سخن والے دھاگوں میں کلام ہی نہیں کرتے۔۔۔ ۔ اگر کوئی ہمیں متوجہ کرے تو بھی واجبی سی بات کر کے آجاتے ہیں لیکن تمہاری صلاحیتوں کے اعتراف میں ہم نے اپنے اس اصول کو مد نظر نہیں رکھا تاکہ اگر ہماری داد سے تمہاری خداد صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے تو ہم بخل نہیں برتیں گے ۔۔۔ تو پوری محفل کو چھان مارو ۔۔۔ ۔ تمہیں شعرو سخن کے تمام دھاگوں میں ملا جلاکر بھی اتنی گفتگو اور ہماری جانب سے کسی کو دی گئی اتنی داد نہیں ملے گی جتنی ہم نے تمہارے لیےمختلف دھاگوں میں کی۔۔۔ ۔ سو میاں اگر آپ کو پسند نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہمارے لیے تو کرنے کو اتنے کام ہیں کہ یہ سلسلہ ہائے گفتگو ہمارے لیے کچھ سہولت کا سامان نہیں پیدا کرتے۔

شکر گذار ہوں آپ کی توجہ کا۔ اور آگے بھی امید کرتا ہوں کے آپ کی توجہ حاصل رہے گی۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لہذا اب اس گفتگو کا اختتام ہوا
اب اہل محفل کیا کریں گے خدا خیر کرے

اب اس طرح کی اگلی کسی گفتگو کا انتظار کریں گے۔
ہائے ہائے
اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
 
Top