پھر ہوئی "شین الف میم" خدا خیر کرے

نایاب

لائبریرین
سب کچھ الہامی نہیں ہوتا اور ہو بھی سکتا ہے ۔۔۔ ۔ میں ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہوں کہ ۔۔۔ ۔ دونوں طرح کی شاعری موجود ہے
کچھ لوگ شعر کہہ دیتے ہیں ۔۔۔ ۔ اور علم عروض انکے قدم چھوکر کہتا ہے ۔۔۔ حضور جو آپ نے ارشاد فرمایا بجا فرمایا
اور
کچھ لوگ علم عروض کے پاؤن پکڑ کر کہتے ہیں میں کلام گھڑنے لگا ہوں اس پر کرم فرمائیے گا کہ یہ موزوں ہو جائے

یہ عروض کی بے ساکھی پر چلنے والے تک بندیے ہوتے ہیں جن کے کلام میں بے ساختگی ، برجستگی تو نہیں ہوتی لیکن عروض کے قوانین پر فٹ بیٹھتا ہے

بس فرق یہی ہے
محترم شاکر القادری بھائی
اس دھاگے پر اساتذہ سے کج بحثی کرتے اس منزل تک پہنچنے کے قریب ہوں کہ
شاعری صر ف " گھڑت " یعنی "حرف جوڑ لفظ بنانے قافیے میں سجانے ردیف پہنانے اور بحر میں تیرانے " کا نام ہے ۔
آسان الفاظ میں وقت ضائع کرنے کا نام ہے ۔ اور ان وقت ضائع کرنے والوں میں " میر و غالب و ساغر و جون ایلیا
و حبیب جالب و استاد دامن جیسی ہستیاں اک مثال ہیں ۔ جو کہ شاعری کہتے نہیں تھے بلکہ لکھتے تھے ۔
"قرض کی پیتے ہیں مئے " کا برسرعام اقرار کرتے تھے ۔
پھر آپ جیسی اساتذہ میں شامل دو چار ہستیاں میری منزل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں
جو کہ " آمد اور آورد " کو نہ صرف تسلیم کرتی ہیں ۔
بلکہ ان میں موجود فرق کو بھی واضع کرتی ہیں ۔
پھر وہیں راہ میں بھٹکنے لگتا ہوں ۔ اور گنگنانے لگتا ہوں ۔
شاعری سچ بولتی ہے ۔ بھید دلوں کے کھولتی ہے ۔
شاعر بے چارے مجبور کہ شاعری کہنی پڑتی ہے ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عده اي رودکي را نخستين سراينده رباعي مي دانند و براي آن هم ماجراي معروف «غلتان غلتان همي رود تابن گو» را مي گويند؛

ایک بڑی تعداد میں لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ رباعی کا والین شاعر "رودکی" ہےاور وہ اس سلسلہ میں یہ مشہور واقعہ بھی نقل کرتے ہیں:

در کتاب المعجم فی معاییر اشعار عجم خود رودکی را آفرینندهٔ رباعی دانسته و آغاز شاعری رودکی را از آنجا می‌داند که وی صدای شادی کودکی که درحال گردو بازی کردن بود را می‌شنود که از فرط شادی بابت هنر بازی خود زبان شاعری وی گشوده شده و با کلامی آهنگین می‌گوید: «غلتان غلتان همی رود تا بن گو».[۷].دولتشاه سمرقندی (قرن نهم) در تذکرهٔ معروف خود آن کودک را پسر یعقوب لیث سر سلسلهٔ صفاریان می‌داند. و شاعر با شنیدن آهنگ این کلام تحت تاثیر قرار گرفته و به خانه می‌رود و بر همان وزن به شاعری می‌پردازد. و از آنجا که اشعارش در دوبیت بودند به رباعی معروف می‌شوند. به هر حال او را مبتکر قالب رباعی دانسته‌اند.[۸]
خلاصہ:
رودکی کو رباعی کا موجد سمجھا جاتا ہے اور اس کا اغاز کچھ یوں ہوا کہ کچھ بچے اخروٹ کھیل رہے تھے جن میں سے ایک بچہ خوشی سے یہ الفاظ ایک خاص آہنگ میں ادا کر رہا تھا «غلتان غلتان ہمی رود تا بن گو» رودکی نے اس آہنگ کو سنا تو اس پر اس کا بہت زیادہ اثر ہوا اور گھر جاگر اسی آہنگ میں کلام کہا۔۔ چونکہ اس کا یہ کلام دو دو اشعار پر مشتمل تھا اس لیے وہ رباعی کے نام سے مشہور ہو گیا ۔۔۔
۔==============
مجھے صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ ===
اخروٹ کھیلنے والے ایک بچے کا کلام ۔۔۔۔۔۔ جس کو علم عروض کا نام بھی نہیں معلوم
رودکی کو وجد میں لے آتا ہے
اور وہ اس بچے کے آہنگ سے اتنا متاثر ہوتا ہے کہ رباعی جیسی صنف وجود میں آجاتی ہے
===============
ہم بھی بسمل! جیسے نو عمر بچے کی موزونی طبع کی داد دیتے رہے لیکن ۔۔۔ یہ تو عروض کے الجبرے میں پڑ ، بے ساختگی سے نکل ساختگی کے چنگل میں پھنستا چلا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔ عروض اپنے کلام کی جانچ پڑتال کے لیے جاننا تو ضروری ہو سکتا ہے لیکن عروض کا سہارا لیکر کلام گھڑنا کچھ اچھا عمل نہیں
اپنی طبع خداداد پر اعتماد کیجئے ۔۔۔۔۔ اور علم عروض کو صرف جوہر فطری کی مزید تراش خراس کے لیے استعمال کیجئے
 

نایاب

لائبریرین
یہ کون نامعلوم شاعر ہے جس نے محترم اساتذہ کے درمیان صورتحال کو کشیدہ کردیا۔۔۔ ۔:)
یہ جاہل ان پڑھ میں ہوں میرے بھائی
جس پر کبھی شاعری اتری ہی نہیں ۔
نہ کبھی کسی قافیے میں بندھا ۔ نہ کبھی کسی ردیف نے اسیر کیا ۔
اور بحث چھیڑ دی کہ شاعری کیا ہوتی ہے ۔ ؟
اور کج بحثی کرتے اس دھاگے پر ریکارڈ " غیر متفق " تمغے حاصل کیے ۔
 
یہ جاہل ان پڑھ میں ہوں میرے بھائی
جس پر کبھی شاعری اتری ہی نہیں ۔
نہ کبھی کسی قافیے میں بندھا ۔ نہ کبھی کسی ردیف نے اسیر کیا ۔
اور بحث چھیڑ دی کہ شاعری کیا ہوتی ہے ۔ ؟
اور کج بحثی کرتے اس دھاگے پر ریکارڈ " غیر متفق " تمغے حاصل کیے ۔
دیکھتا چلا گیا میں زندگی کی راہ میں
ہر کوئی قدم قدم پہ مست ہے گناہ میں
تو بھی ایک گناہ کر
اے دل کی چاہ کر
کوئی سنے گا کیا، کوئ کہے گا کیا۔۔۔
کسی کے بھی کہے سنے سے تیرا واسطہ ہے کیا۔
یہ گانا تو سنا ہی ہوگا آپ نے۔۔۔۔:)
جاہل ہونے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آپ نایاب بھائی نہ ہوں۔۔۔
کوئی بات نہیں ہم متفق کردیتے ہیں۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہوگا۔۔۔:)
 
یہ جاہل ان پڑھ میں ہوں میرے بھائی
جس پر کبھی شاعری اتری ہی نہیں ۔
نہ کبھی کسی قافیے میں بندھا ۔ نہ کبھی کسی ردیف نے اسیر کیا ۔
اور بحث چھیڑ دی کہ شاعری کیا ہوتی ہے ۔ ؟
اور کج بحثی کرتے اس دھاگے پر ریکارڈ " غیر متفق " تمغے حاصل کیے ۔
بالآخر آپ کی وجہ سے شستہ رفتہ بحثین منظر عام پر آگئیں اور یہی علمی ترقی کا زینہ ہے۔
اگر انداز دوستانہ ہو تو نہلے پر دہلا ہو جائے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
بالآخر آپ کی وجہ سے شستہ رفتہ بحثین منظر عام پر آگئیں اور یہی علمی ترقی کا زینہ ہے۔
اگر انداز دوستانہ ہو تو نہلے پر دہلا ہو جائے گا۔
محترم بھائی یہ دوستانہ نہیں بلکہ کسی حد تک " شاگردانہ" تھی ۔
بلا شبہ محترم وارث بھائی اور محترم فاتح بھائی میرے اساتذہ میں شامل ہیں ۔
اور کج بحثی بھی انہی سے کی ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بالآخر آپ کی وجہ سے شستہ رفتہ بحثین منظر عام پر آگئیں اور یہی علمی ترقی کا زینہ ہے۔
اگر انداز دوستانہ ہو تو نہلے پر دہلا ہو جائے گا۔

جناب اگر یہ لفظ ٹائپو کا شکار ہے تو آپ بھی ایک غلطی کا شکار ہو گئے ہیں اور اس سے پہلے آپ اس غلطی کی وجہ سے کسی اور کے شکار ہو جائیں یا تو اسے درست کر دیجیے اور یہ لفظ ایسے ہی ہے تو پھر میرے علم میں اضافہ فرمائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ پھر کسی بحث کا شکار ہو جائیں۔
 
جناب اگر یہ لفظ ٹائپو کا شکار ہے تو آپ بھی ایک غلطی کا شکار ہو گئے ہیں اور اس سے پہلے آپ اس غلطی کی وجہ سے کسی اور کے شکار ہو جائیں یا تو اسے درست کر دیجیے اور یہ لفظ ایسے ہی ہے تو پھر میرے علم میں اضافہ فرمائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ آپ پھر کسی بحث کا شکار ہو جائیں۔
کیا اس کے آخری حرف کا نقطہ ہٹانے سے الجھن دور ہو سکتی ہے ۔ تو آپ اسے "ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا" والے میں نقل کرسکتے ہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کیا اس کے آخری حرف کا نقطہ ہٹانے سے الجھن دور ہو سکتی ہے ۔ تو آپ اسے "ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا" والے میں نقل کرسکتے ہیں

جناب آپ قیوں گصہ قر رہے حیں، اگر آپ گصہ قر غئے طو مجھے فارصی کون صنائے غا۔
چلیے چھوڑیے بحثین کو۔
 
سب کچھ الہامی نہیں ہوتا اور ہو بھی سکتا ہے ۔۔۔ ۔ میں ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہوں کہ ۔۔۔ ۔ دونوں طرح کی شاعری موجود ہے
کچھ لوگ شعر کہہ دیتے ہیں ۔۔۔ ۔ اور علم عروض انکے قدم چھوکر کہتا ہے ۔۔۔ حضور جو آپ نے ارشاد فرمایا بجا فرمایا
اور
کچھ لوگ علم عروض کے پاؤن پکڑ کر کہتے ہیں میں کلام گھڑنے لگا ہوں اس پر کرم فرمائیے گا کہ یہ موزوں ہو جائے

یہ عروض کی بے ساکھی پر چلنے والے تک بندیے ہوتے ہیں جن کے کلام میں بے ساختگی ، برجستگی تو نہیں ہوتی لیکن عروض کے قوانین پر فٹ بیٹھتا ہے

بس فرق یہی ہے

ہو بھی سکتا ہے اس ہو سکنے کی کیا شرائط ہیں؟
دوسری بات۔ علم عروض ایک علم ہے۔ جس کی بحث اس وقت ہمارا موضوع نہیں بلکہ قافیہ اور ردیف موضوع ہے۔
علمِ عروض کو قوانین کی مناسبت سے لایا جائے تو کوئی حرج نہیں یہ بھی بحث کا حصہ بن سکتا ہے۔ میں بالکل تسلیم کرتا ہوں کے عروض کے بنا موزوں طبعی ایک نعمت ہے۔ اور کہے ہوئے اشعار عروض کے قوانین پر پورے اترتے بھی ہیں۔ :)
اب آئیں قافیہ اور ردیف پر تو آپ مجھے یہ بتائیں کے بنا قافیہ اور ردیف کو سمجھے کیا شاعری ہوگی؟
لیجئے اپنی لا علمی میں کہی ہوئی ایک غزل سے چند اشعار پیش کئے دیتا ہوں۔ لفظی اور معنوی خوبیاں یا خامیاں ہٹا کر صرف قافیہ دیکھیں اور بتائیں کہ کونسا استاد ہوگا جو اسے اس حالت میں ٹھیک مان لے گا؟

ہے تمھیں شکوہ کے میرا چاہنا اچھا نہیں
مت کہو میرے لئے یہ ماننا اچھا نہیں

خود ہی کرتا ہے وضاحت اپنی فطرت کی ہر اک
وقت سے پہلے کسی کو جاننا اچھا نہیں

دن ہی کافی ہے یہاں کے تنگ دل لوگوں کے بیچ
رات بھر اس رنج و غم میں جاگنا اچھا نہیں

ہاتھ میں کاغذ قلم ہے کیا لکھوں؟ کس کے لئے؟
یہ لکھوں کے ایک وہ بھی آشنا اچھا نہیں؟

اگر یہ اشعار بھی ٹھیک ہیں تو جناب میں غلط ہوں اور بحث سے ہار مانتا ہوں بہت ساری معذرت کے ساتھ :)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جس کی بحث اس وقت ہمارا موضوع نہیں بلکہ قافیہ اور ردیف موضوع ہے۔
حضور والا! میں تو اس پورے سلسلہ گفتگو میں ایک مرتبہ بھی قافیہ و ردیف کو موضوع بناتے ہوئے کسی سے بحث نہیں کی ۔۔۔۔۔ میرے مراسلوں میں
صرف ۔۔۔۔
آمد (بقول شخصے بکواس) آورد (بقول شخصے گھڑنا) ۔۔۔ توارد ۔۔۔ اور موزونی طبع ۔۔۔ کی بات کی گئی ہے میں نے ایک مرتبہ بھی یہ جملہ نہیں کہا کہ قافیہ ردیف کے بغیر کلام موزوں کو شعر کہا جائے گا یا نہیں ۔۔۔۔۔

باقی رہا تمہاری لا علمی میں کہی ہوئی غزل کے قافیوں اور ردیف کی بات ۔۔۔ تو میاں

آجکل کے دور جدید میں جب ۔۔۔ آزادہ روی کا دور دورہ ہے
اور بے ہنر لوگ فرار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں
نظم سے آزاد نظم اور آزاد نظم سے نثری نظم تک کا سفر طے ہو چکا ہے
اسی طرح
غزل کے معاملہ میں ۔۔۔
یار لوگوں نے آزاد غزل تک ایجاد کر لی جس کا نمونہ تم نے اسی سلسلہ گفتگو کے آغاز میں کہیں دیکھا بھی ہوگا

تو ایسے میں تمہارے قافیے تو غنیمت ہیں بھائی ۔۔۔ :)
 
حضور والا! میں تو اس پورے سلسلہ گفتگو میں ایک مرتبہ بھی قافیہ و ردیف کو موضوع بناتے ہوئے کسی سے بحث نہیں کی ۔۔۔ ۔۔ میرے مراسلوں میں
صرف ۔۔۔ ۔
آمد (بقول شخصے بکواس) آورد (بقول شخصے گھڑنا) ۔۔۔ توارد ۔۔۔ اور موزونی طبع ۔۔۔ کی بات کی گئی ہے میں نے ایک مرتبہ بھی یہ جملہ نہیں کہا کہ قافیہ ردیف کے بغیر کلام موزوں کو شعر کہا جائے گا یا نہیں ۔۔۔ ۔۔

باقی رہا تمہاری لا علمی میں کہی ہوئی غزل کے قافیوں اور ردیف کی بات ۔۔۔ تو میاں

آجکل کے دور جدید میں جب ۔۔۔ آزادہ روی کا دور دورہ ہے
اور بے ہنر لوگ فرار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں
نظم سے آزاد نظم اور آزاد نظم سے نثری نظم تک کا سفر طے ہو چکا ہے
اسی طرح
غزل کے معاملہ میں ۔۔۔
یار لوگوں نے آزاد غزل تک ایجاد کر لی جس کا نمونہ تم نے اسی سلسلہ گفتگو کے آغاز میں کہیں دیکھا بھی ہوگا

تو ایسے میں تمہارے قافیے تو غنیمت ہیں بھائی ۔۔۔ :)

بات پھر وہیں پہنچتی ہے جو پہلے بھی کرچکا۔ کے آمد میں آمد کیسے ہوتی ہے؟ کیا خود بخود ایک لا علم شخص آمد کے سہارے سے مقفی اور مردف شاعری کرسکتا ہے؟ نہیں کرسکتا۔ آمد مضمون کی تو ہوسکتی ہے لیکن ردیف و قافیہ کے ہمراہ غزلیات کس پر اترتی ہیں حضرت؟

اسی وجہ سے میں اصل بات کی طرف آنا چاہتا تھا۔
اور میں بھی صحیح تصور کیا کرتا تھا ان اشعار کو اور بہت داد بھی سمیٹ چکا ہوں ان اشعار سے۔ لیکن غلط کو غنیمت جان کر صحیح تصور کرلینا کوئی عقلمندی نہیں۔ اور نثری نظم کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا میں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
آمد مضمون کی تو ہوسکتی ہے لیکن ردیف و قافیہ کے ہمراہ غزلیات کس پر اترتی ہیں حضرت؟
حضرت! آپ کے اسی سوال کا جواب تو میں بہت پہلے سے دے چکا ہوں ۔۔۔۔ لیکن آپ سمیت کسی نے بھی اسے درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا گویا اقبال بھی شاکرالقادری کی طرح لا یعنی باتیں کرتا ہے ۔۔۔دوبارہ اقتباس دے رہا ہوں​
اقبال کہتے ہیں جب مجھ پر شعر کہنے کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر ڈھلےڈھلائے شعر اترنے لگتے ہیں اورمیں انہیں بعینہ نقل کرلیتاہوں بارہاایساہواکہ میں نے ان اشعارمیں کوئی ترمیم کرناچاہی لیکن میری ترمیم اصل اورابتدائی نازل شدہ شعرکے مقابلے میں بالکل ہیچ نظر آئی اورمین نے شعر کوجوں کا توں رکھا
(بحوالہ اردوڈائجسٹ1992اپریل صفحہ 92)

اس اقتباس میں ۔۔۔۔ "ڈھلے ڈھلائے" ۔۔۔ "اترنے لگتے ہیں" ۔۔۔۔ "بعینہ" ۔۔۔۔ "نازل شدہ" ۔۔۔۔ کے الفاظ پر غور فرمایئے گا ۔۔۔ امید ہے افاقہ ہوگا
 
حضرت! آپ کے اسی سوال کا جواب تو میں بہت پہلے سے دے چکا ہوں ۔۔۔ ۔ لیکن آپ سمیت کسی نے بھی اسے درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا گویا اقبال بھی شاکرالقادری کی طرح لا یعنی باتیں کرتا ہے ۔۔۔ دوبارہ اقتباس دے رہا ہوں​

(بحوالہ اردوڈائجسٹ1992اپریل صفحہ 92)



بات پھر وہیں پہنچتی ہے جو پہلے بھی کرچکا۔ کے آمد میں آمد کیسے ہوتی ہے؟ کیا خود بخود ایک لا علم شخص آمد کے سہارے سے مقفی اور مردف شاعری کرسکتا ہے؟ نہیں کرسکتا۔ آمد مضمون کی تو ہوسکتی ہے لیکن ردیف و قافیہ کے ہمراہ غزلیات کس پر اترتی ہیں حضرت؟


جی۔ میں نے لا علم کی بات کی۔ نا کہ با علم کی۔ کیا آپ یہ کہیں گے اقبال کو نے قافیہ و ردیف اور اوزان کی لا علمی کی حالت میں یہ اشعار کہے تھے جو سخن کے معائب سے پاکیزہ ہوکر ان پر اترے؟ کیا انہیں نہیں پتا تھا کہ شاعری میں ایک عدد قافیہ اور ردیف کا استعمال بھی کیا جاتا ہے؟ اگر نہیں پتا تھا اور پھر بھی ان پر مقفی اشعار اترے تو کمال ہوا یہ تو۔
اور اگر علم کے ہوتے ہوے اترے تو کیا کمال کیا؟ ایسے تو قریب ہر شاعر ہی کرتا ہے۔ آپ اور مجھ سمیت۔ :)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
چلیں اچھی بات ہے کہ بات ۔۔۔۔۔۔ وحی ۔۔۔۔ جبریل ۔۔۔۔ اور معلوم نہیں کن کن مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر با علم اور لا علم پر آگئی۔۔۔۔۔
======
عزیزی القدر ۔۔۔!
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء كُلَّهَا

میرا ماننا یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو جملہ علوم سکھا دیے۔۔ اور وہ آدم کے ذہن میں ایک ذپ فولڈر کی صورت میں موجود ہیں ۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں یہ فلڈر ان زپ ہوتے چلےجاتے ہیں علوم اور فنون سامنے آتے جاتے ہیں ۔۔۔ اس لیے چونکہ علوم اور فنون آدم کی فطرت میں ودیعت شدہ ہیں اس لیے انسانی فطرت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ لاشعور سے کوئی چیز شعور میں ان زپ کر دے ۔۔۔۔
 
Top