پھر جادوگر غائب ھوگیا

F@rzana

محفلین
پھر، جادوگر غائب ہوگیا!​

وہ جادوگر تھاجو شاعری کی طلسماتی دنیا میں، اپنے ماحول، اپنے الفاظ کے ذریعے سب کو جکڑ لیتا ،اندر چھپے خوف کوتسخیر کر لیتا،اس کے الفاظ یوں منکشف ہوتے کہ جیسے اس کائنات کے پوشیدہ راز کھل جائیں،اس کی کشش یوں کھیل کھیلتی جیسے کوئی تجربہ کار جوہری اپنے پاس آنے والے گاہک کو شیشے کی الماریوں میں جگمگ کرتے زیورات کو چھونے کا موقعہ فراہم کرتا ہے ،چاہے وہ پنجابی ہو یا اردو بات وہ کرتا جو بڑی آسانی سے سب کو اندر ہی اندرہچکولے دے دیتی۔

’’کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘

رستہ دسَن والے تارے، سفر دی رات، چار چپ چیزاں، تین پنجابی کے مجموعے اس سے زیادہ سہل اور کیا ہوتے کہ اردو پڑھنے والے یوں پڑھتے۔۔۔

’’کچھ یوں بھی راہیں مشکل تھیں
کچھ گلے میں غم کا طوق بھی تھا
کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے
کچھ مرنے کا مجھے شوق بھی تھا‘‘

کبھی کوئی ہیرا لبھاتا تو کبھی کوئی نگینہ للچاتا ایسی چالیں کہ وہ کسی اور جوہری کے پاس جانے کے بجائے یہیں جواریوں کی طرح لٹ جائے،جنگلوں کی دھنک الفاظ کی مالا پرونے چلی آتی۔

’’اک ہفت رنگ ہار گرا تھا مرے قریب
اک اجنبی سے شہر میں آیا ہوا تھا میں‘‘

طلسماتی فضاؤں کے تصورات میں کھوئے ہوئے شاعرکو پڑھنے والے لوگ، سہمے ہوئے، گھبرائے ہوئے لیکن خواہشوں کی کھوج میں اس دھند کے پار والے جنگل میں داخل ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں جہاں انھیں رنگ برنگے لفظ، پراسرار مناظر کی تصویروں میں سموتے لفظ، اپنی مہک میں جذب کرنے والے لفظ، چیل کی طرح کھینچ کر لے جاتے ہیں اور پھر کبھی نہیں چھوڑتے۔

’’خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا‘‘

اس کے لفظوں اور نظموں کا اپنا موسم تھا، اس کی اپنی کہانیاں تھیں،بے انت کہانیاں، اس کا جادو سب کو ایسے شہر نامعلوم میں لے جاتا تھا جہاں سپنے باتیں کرتے ، پیڑ، پودے، درخت، پھل ،پھول اپنے قصے سناتے اور یوں لگتا کہ ان کا رنگ مہندی لگے ہاتھ سے اتر کر پورے بدن پر چڑھ گیا ہے، آپ چاہیں نہ چاہیں ان الفاظ کی ہیبت سجدہ ریز ہونے پر مجبور کردیتی ہے، کبھی کچھ مل جاتا ہے تو کچھ کھو بھی جاتا ہے، ،تنہائی دروازہ کھول کر بے دھڑک اندر چلی آتی ہے اور یاد، ماضی کے دانے چگنے لگتی ہے، ذہن و دل کا سنگم شاذ ونادر ہی ہوتا ہے، ہم جو اپنی آگہی حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے، ہم اپنے وجود کی اس ضرورت کو نظر انداز کردیتے ہیں، ہم کبھی اپنے آپ سے نہیں پوچھتے کہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کہاں جارہے ہیں؟ ہم جو اپنے شعور سے اپنے ہی تعلق کو نہیں جانتے، وہ تعلق جس کا ادراک منیر نیازی کو عام لوگوں سے ممیز کرتا تھا وہ جانتے تھے کہ ان کی تخلیق میں کیا ہے اور وہ کیا تخلیق کرسکتے ہیں انہوں نے اوہام کی دنیا میں جاکر ان کو شکار کرلیا تھا، انہوں نے غیر انسانی چیزوں کے ساتھ ہمکلام ہوکر انہیں انسانی شعور تک پہنچایا، خیال و شعور کو مربوط کرنے میں منیر نیازی اپنے فن کی انتہا کرتے رہے، انہوں نے تخلیقی دنیا کے ریاکار وں کو قائل کرنے کے بجائے اپنے در تک صرف ایک راستہ بنادیا کہ جس نے آنا ہے خود ہی چلا آئے،منیر نیازی کے دل نے جنہیں نہیں مانا وہ ان کے ہمسفر کیسے بن جاتے!

’’اس خلائے شہر میں صورت نما ہوتا کوئی
اس نگر کے کاخ و کو میں بت کدہ ہوتا کوئی
یوں نہ مرکز کے لئے بے چین پھرتا میں کبھی
پیکرِ سنگیں سہی اپنا خدا ہوتا کوئی
میں منیر آزردگی میں اپنی یکتائی سے ہوں
ایسے تنہا وقت میں ہمدم مرا ہوتا کوئی‘‘

اس شاعری کو پڑھتے ہوئے منیر نیازی کی آنکھوں سے دیکھنا پڑتا ہے، میں بہت چھوٹی تھی جب ایک کتاب کے موڑ کو مڑتے ہوئے بھولے سے ان کی شاعری میں داخل ہوگئی، وہاں۔۔۔

’’دو خوبصورت عورتیں غرا رہی ہیں
بجلیوں کی چمک میں
وقفے وقفے سے بوچھاڑ کی طرح آتی ہوا میں
دو خوبصورت عورتیں
دل کی وحشت میں غرارہی ہیں
یہ اشانت عورتیں مجھے اشانت کرتی ہیں
یہ نہیں کہ موسم کا مجھ پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا
پر مرے دل میں فکر اتنا ہے
کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میرے آس پاس کیا ہورہا ہے
کتنا وقت گزر گیا۔۔۔اور کیسے گزر گیا
بس کبھی کبھی موسم کی وجہ سے
کبھی کبھی عورتوں کی وجہ سے اشانت سا ہوجاتا ہوں‘‘

منیر نیازی کا ایک ہی عکس ایسا تھا کہ مجھے اس میں اپنے بہت سے عکس مل گئے گویا پہلی بات ہی آخری تھی، سیاہ شب کا سمندر، بیوفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، سفید دن کی ہوا، جنگل میں دھنک، چھ رنگین دروازے، دشمنوں کے درمیان شام، ماہِ منیر آغاز زمستاں، ساعتِ سیار، کلیات منیر، میں گھنٹوں بیٹھی اس شاعری کے آگے کھل جا سم سم پڑھاکرتی، میری آنکھوں میں حیرانی اتر آتی، ایک خوبصورت انسان خوبصورت عورتوں کی جانب اپنے الفاظ میں یوں لپکتا ہے کہ جیسے کسی پچھل پیری کے حصار کو توڑنا ہو،رفتہ رفتہ مجھے سمجھ آنے لگی کہ منیر نیازی کی یہ خوبصورت جادوگرنیاں ہمارے ارد گرد پھیلی اچھائیاں برائیاں ہیں جن کی پرچھائیں تک وہ پہچان لیتے ہیں، کسی نے یہ قصہ سنایا تھا کہ ’’ جب امرتسر ٹیلیویژن کی نشریات شروع ہوئیں تو لوگ بڑے بڑے انٹینا لگا کر وہ دیکھا کرتے تھے منیر نیازی فیروزپور روڈ والے گھر میں رہتے تھے، ایک شام دوستوں کو بلایا ان کی خاطر تواضع کے لئے کرسیاں صحن میں لاکر رکھیں ایک میز پر ٹیلیویژن بھی لا کر رکھ دیا اور چائے پانی سے مدارت کرنے لگے دوستوں نے سبب پوچھا تو بولے کہ ’’ آض امرتسر ٹی وی سے امرتا پریتم ایک پروگرام پیش کرے گی، کتنی خوبصورت عورت ہے‘‘

پروگرام کا موضوع تھا ’پاکستان کے پنجابی شاعر‘ آغاز ہوتے ہی منیر پوری طرح اس جانب متوجہ ہوگئے، امرتا نے ایک غیر معروف شاعر کے کلام سے ابتدا کی تو بولے کہ یہاں بھی مشاعرے والے آداب چل رہے ہیں میرا تذکرہ غالباََ آخر میں آئے گا لیکن آخر میں امرتا ان کا ذکر کئے بغیر رب راکھا کہہ گئیں۔ منیر صاحب کی نظریں جو ایک پل کو سکرین سے نہیں ہٹیں تھیں حیرانی و بے یقینی سے پھیلی ہوئی تھیں ، وہ بولے ’’کتنی بد صورت عورت ہے یہ‘‘ ہمارے یہاں فن کی دنیا نے اپنے امتیازات و طبقات قائم کیئے ہوئے ہیں حالانکہ اس سطح کو چھونے والے ادیب دنیا بھر کے ادب کی تشکیل کرتے ہیں ،منیر نیازی کی باتیں کبوتروں کی طرح ذہن کے گنبد میں گونجتی رہیں گی ۔

’’بھروسہ ہی نہیں مجھ کو کسی پر
کسی کو رازداں کیسے کروں میں
بدلنا چاہتا ہوں اس زمیں کو
یہ کارِ آسماں کیسے کروں میں‘‘

ان کے زریں جملے رنگ برنگی پنییوں پر پڑنے والی کرنوں کو منعکس کرتے رہیں گے، کتابیں جو مقدس ہوتی ہیں، کتابیں جنھیں چوم کر آنکھوں اور سینے سے لگایا جاتا ہے، انہیں کتابوں کو لکھنے والے جو محنت اور دیانت کے ساتھ ان سچائیوں کو اجاگر کرتے ہیں ان کو نظر انداز کرنے میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے، افسوس کہ ہم نے اپنے ادیبوں کے لئے بھی قانون وضع کردیئے ہیں چاہے وہ اپنی علمی تخلیقات کے خزانے کا ڈھیر لگا دیں لیکن ہم فقط سانپ کی طرح کنڈلی مارے اپنے بخل کی انتہا کرنے میں مصروف رہتے ہیں، اس بات سے بے خبر کہ دیر کا انجام کیا ہوتا ہے!

’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جاکے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘‘

حقیقت بہت سخت تھی اس میں طلب تھی، اس میں پیاس تھی، اس میں چاند تھا جو روٹی بن جاتا تھا، دل تھا جو عشق و اداسی کے موسم سے نکل کر زندگی کا اشتہار بن جاتا، بقول منیر نیازی کہ ’’مجھے ایک شاعرہ کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لئے وکیل بھی کرنا پڑا کیونکہ اس نے بلا اجازت میرا کلام اپنی کتاب میں شائع کروا دیا‘‘ ان کو ناشران سے رائلٹی کا بھی شکوہ رہتا تھا، منیر صاحب کے ہم عصر انہیں سرپھرا ،خود پسند سمجھتے رہے حالانکہ وہ جان چکے تھے کہ وہ ان سے ڈرے ہوئے ہیں لہذا اس لطف کو اٹھانے میں منیر نیازی کو کوئی عار نہیں تھی لیکن انہیں محفلوں کی صدارت کرنا، تصاویرکھنچوانے کے لئے دھکے کھانا اور میٹنگیں بلوا کر گروپ بازیاں کرنے سے سخت نفرت تھی، ان کا کہنا تھا کہ ’’ محض میڈل دے کر اور فنکار کو قوم کا سرمایہ قرار دے کر حکومت اس سرمائے کو خرد برد کردیتی ہے ‘‘ اسی لئے ان کی قوت جھنجھلاہٹ میں بدل جایا کرتی تھی۔
’’میری ہستی میں بھی آئے ایک دن آرام کا
ایک دھندلی صبح کا اور ایک دھندلی شام کا‘‘

تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے پہلے ہی منیر اپنی شناخت آپ کروا چکے تھے جبکہ منیر نیازی کے روبرو دوسرے لکھنے والے اپنی شناخت کروانے والی ایک لاینحل کیفیت میں مبتلا رہتے، مجھے ہمیشہ ایک تجسس رہا کہ گزرتی پرچھائیوں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے انہیں خوفزدہ کرنا کیسے سیکھا کیونکہ وہ قبول چکے تھے کہ ’’منیر پہلے بلی تھا مگر جنگل کے خوف نے اُسے شیر بنادیا‘‘ شاید میں بھی اس بھیڑ بھاڑ والے جنگل میں شیر بننا چاہتی تھی ، غالباََاسی لئے منیر کی کتابی دنیا میں کسی طاقت نے مجھے کھینچا تھا، وہاں تتلیاں پر پھیلائے باتیں بھی کرتی ہیں، ہوائیں درد کی سیٹیاں بجاتی ہیں، سویرا ایسے اترتا ہے کہ دل لہو رنگ ہوجائے، جہانِ ادب میں منیر نیازی کی کوئی مثال نہیں مل سکتی، ان کے نظریات آگہی کی منزلوں تک لے جاتے ہیں۔

’’صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا‘‘

وہ خوبصورتی اور بدصورتی کو ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھتے تھے، ان کے پاس من کے اندر چھپی دلکش مورت اور من کے پیچھے چھپے عفریت کو پل میں تلاش کرلینے کا ہنر تھا۔

’’جن وقتوں میں بیلیں درختوں پر چڑھتی ہیں
جن وقتوں میں روحیں نئے علم پڑھتی ہیں
سارے جہاں کے اوپر اک رنگ چمکتا ہے
جس کے اثر سے ظاہر ہوتا ہے روپ آنکھ کا‘‘

منیر نیازی نے تیس کتابوں میں اردو کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے کئی گیت، تنقیدی کالم، پسماندگان میں چھوڑے ہیں ،منیر نیازی نے جو کچھ لکھا وہ ایسا کہ جسے آئندہ نسلیں کھوجنے میں نجانے کن کن گپھاؤں میں ہر بار جا نکلیں، سینے میں خلا پیدا کرنے والی بلائیں نکل آئیں، نت نئے شہر، عجیب عجیب طلسم ہیں ان کتابوں میں، منیر نیازی کی ان ماورائی کتابوں میں شاید وہ ماورائی ماحول ہے جہاں سے وہ آئے تھے اس ماحول کا مزاج غالبا جادو ٹونے کی رسوم میں ڈھلا تھا، قبروں کو پوجنا، جنتر منتر کرنا، تعویذ گنڈوں سے کسی کو رام کرنا یا دشمنوں کوموت کے گھاٹ اتار دینا ہماری قدیم ثقافت کا حصہ ہے، شاہ عبد الطیف بھٹائی ہوں یا سچل سرمست، بابا بلھے شاہ ہوں یا خوشحال خان خٹک، سرحد کے علاوہ سندھ و پنجاب کی تہذیب بھی انہی رسوم کی پیروی کرتی نظر آتی ہے، ہماری لوک داستانوں کے عمر ماروی، ہیر رانجھے، سوہنی مہیوال شکاریوں کے ہاتھوں میں رہے، اسی لئے کالی رات کی خاموشی میں پگڈنڈیوں پر پیڑوں کے سائے چڑیلوں جیسی سازشیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن دن چڑھتے ہی یہ عناصر بانسری یا الغوزے بجاتے ہوئے باریش آدمی، کپاس چنتی ہوئی دوشیزائیں، بچے کو جھولا جھلاتی لوریاں سناتی خوبصورت مینڈھیوں والی مائیں بن جاتے ہیں، ہوا چاہے کتنی ہی خاک اڑائے، سوچوں کی پت جھڑ بہاروں کی اطلاع لے کر آتی رہے گی۔

’’سبز دھرتی کی ہے یا ہے نیلے انبر کی ہوا
اس گھڑی آئی کہاں سے جلتے عنبر کی ہوا
گھر کے در کو بند رکھو دور تک میدان میں
خاک اڑاتی پھر رہی ہے پھر ستمبر کی ہوا‘‘
[پنجابی نظم کا ترجمہ]

ذی شعور اور منصف مزاجوں کے وجود کو ہم کتابوں میں ڈھونڈیں گے، وہ ملیں گے نہ ان کی کتابوں میں اڑتے پرندے ہمارے ہاتھ آئیں گے لیکن اس جدائی کی مہک بارش سے بھیگنے والی سوندھی مٹی کی طرح آنسو پلائے گی، مگر کیا پتہ کسی حادثے کا محرک ایسا بھی ہو جب یہ ڈھلتی شامیں سنبھل جائیں، افہام و تفہیم ہمہ گیر محبت بن جائے، فکر و احسا س کے جذبے جو مرجھا کر مرنے والے ہیں وہ پھر تروتازہ ہوجائیں، اس کے لئے ہمیں وہ جنگ کرنی پڑے گی جو منیر نیازی کرتے رہے، لال پیلی آنکھوں والی بدصورتیوں سے ڈرنے کے بجائے چیخ کر انہیں ڈرانا پڑے گا، کچھ دیر ٹہر کر بارش میں بھیگنا بھی پڑے گا تاکہ ہم سرسبز و شاداب ہوسکیں جہاں ایک دوسرے کے مقام پر قبضہ جمانے کی سوچ سے نکل کر ہم اجتماعی تسخیر کے خیال میں ڈھل جائیں گے۔۔۔

’’کہ جیسے بھٹکے ہوئے مسافر
درخت بن کر کھڑے ہوئے ہیں
اک اور منظر میں جا بسیں گے
کچھ اس طرح سے رکے ہوئے ہیں
ذرا سی مہلت جو مل گئی ہے
خرابیاں ان میں آ گئی ہیں
جو فاصلے ان کے بیچ میں ہیں
اداسیاں ان میں اُگ رہی ہیں
کوئی فسانہ سا ہے یہ منظر
خراب و خوبِ جہانِ ثابت
فنا بقا سارے ساتھ مل کر
جسے بکھرنے سے روکتے ہیں
درخت بارش میں بھیگتے ہیں‘‘

منیر نیازی کی جدوجہد کی راہیں بڑی مختلف تھیں، ان کی فکری سطح اس قدر قوی تھی کہ منیر کے سپنوں میں تیرتے ہوئے کمزور لوگ شل ہوکر ڈوب جاتے تھے، ان کی فکر کو مارے خوف کے بھوتوں کی شاعری کہہ دیتے لیکن ان کے جانے کے بعد پچھل پیریاں اپنی سرخ زبانوں سے جو وہم ٹپکایا کرتی تھیں وہ حقیقت بن گیا ہے، منیر ان کی تنقید پر کان دھرے بنا چل دئے،ڈر لگتا ہے اس دستک غم خوار سے،اس خاموش راحت سے جہاں مور تک نہیں گاتا، جہاں گئے وقت کی گڑگڑاہٹ میں ان کی یاد چنگاریاں اڑارہی ہے، طرحدار راوایات،رنگیلے الفاظ،شرمیلے جذبے آنکھیں موند کر ان مناظر میں کھوجانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

’’موسم ہے رنگیلا، گیلا اور ہوادار
گلشن ہے بھڑکیلا، نیلا اور خوشبودار
عورت ہے شرمیلی، پیلی اور طرحدار
اس کی آنکھیں ہیں چمکیلی، گیلی اور مزیدار‘‘

یہ بہت سخت مقام ہے، چارسو خزاں رسیدہ ہوائیں شور کر رہی ہیں،بقول انہیں کے کہ اس طرح کی جنت میں سانپ تک نہیں آتا، ان کے الفاظ کی بے انت کہانی کا انت ہوگیا ہے، سرخ گلاب سیاہ رات کی طرح کالے ہوچکے ہیں، میں وہی موڑ ڈھونڈرہی ہوں جہاں سے میں اس شہر کے اندر داخل ہوگئی تھی، لیکن جادوگر کتاب کے آخری ورق پر حرفِ آخر لکھ گیا ، واپسی کا دروازہ نظر سے اوجھل ہے،کہانی آخر کہانی تھی حقیقت نہیں!

’’بس اک نظر میں ہزار باتیں
پھر اس سے آگے حجاب اتنے
مہک اٹھے رنگ سرخ جیسے
کھلے چمن میں گلاب اتنے
منیر آئے کہاں سے دل میں
نئے نئے اضطراب اتنے‘‘

شاید وہاں کچھ اور سپنے ان کے منتظر تھے جنھیں وہ حقیقت کا روپ دینے کے لئے راستہ بتانے والے تاروں کے پیچھے گئے ہیں، وہاں شاید خوشبو کے جزیرے ہوں، سات سمندروں سے بھی بڑا کوئی اور سمندر ہو جس میں وہ شامل ہونا چاہتے ہوں،اقبال، راشد،فیض اور میرا جی کے بعد اردو شاعری کا پانچواں دریا کہلا نے والی شخصیت نے کہا کہ۔۔۔

’’ بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں‘‘

شاید وہاں کی آب و ہوا ایسی ہو کہ جس سے ساری سڑکیں پھولوں سے بھر جاتی ہوں یا خان پور کے اس چھوٹے سے گاؤں کے گھروں جیسی ہو جہاں دیئے کم تھے اور روشنی کی ضرورت سپنوں کی حد سے آگے جانے پر مجبور کررہی تھی !

’’چھوٹا سا اک گاؤں تھا جس میں
دیئے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دوری نے گھیرا
اتنی بڑی تنہائی تھی جس میں
جاگتا رہتا تھا دل میرا
بہت قدیم فراق تھا جس میں
ایک مقرر حد سے آگے
سوچ نہ سکتا تھا دل میرا
ایسی صورت میں پھر دل کو
دھیان آتا کس خواب میں تیرا
راز جو حد سے باہر میں تھا
اپنا آپ دکھاتا کیسے
سپنے کی بھی حد تھی آخر
سپن آگے جاتا کیسے‘‘

فن کا احاطہ کرنا میرے بس کی بات نہیں، یہ تو وہ زرخیز زمیں ہے کہ بنجر ہونے کے باوجود منیر نیازی جیسی شخصیات کو پروان چڑھا کر مٹی کے ٹیلے پر فتح کا جھنڈا گاڑ سکتی ہے، میری زندگی میں تو صرف کتابیں ہی کتابیں ہیں جن میں تاکا جھانکی میرا دلپسند مشغلہ ہے،جن کی کہانیاں گھول کر پیتے پیتے شاید کبھی کوئی تریاقی لفظ میری روح میں بھی گھل جائے آسمان پر سرخی پھیلی ہوئی ہے، چاند کے لحد میں اترجانے کے باوجود میں اس کی کتابوں کو سینے سے لگائے کہانیوں کے طلسم میں کھوئی رہوں گی مجھے تو بس اتنا کہنا ہے کہ ''پھر، جادوگر غائب ہوگیا‘‘۔۔۔!!!

’’یہاں سے جا چکا ہے جو اُسے کم یاد کرنا ہے
کہ بے آباد گھر کو پھر مجھے آباد کرنا ہے‘‘

فرزانہ خان نیناں
 

الف عین

لائبریرین
’سمت‘ کا ذکر نہیں کیا کہ اس میں بھی شامل ہے یہ مضمون۔ اور یہ خود فرزانہ کا ہے۔ کسی اور کا نہیں
 
Top