عدنان عمر

محفلین
پٹواری پھر جیت گئے
ادارتی صفحہ
محمد بلال غوری
FEBRUARY 12, 2020

قدرت اللہ شہاب نے ’ڈپٹی کمشنر کی ڈائری‘ میں عیدو نامی سائل کی داستانِ حسرت بیان کی ہے۔ انبالہ سے ہجرت کرکے ضلع جھنگ میں آباد ہونے والے اس مہاجر کو متروکہ اراضی الاٹ ہوئی تھی جس پر کاشتکاری کے ذریعے وہ اپنے خاندان کی کفالت کر رہا تھا مگر اس دوران کسی بےرحم پٹواری نے الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی دھمکی دی تو اس نے گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ، وزیر بحالیات، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام کو داد رسی کیلئے درخواست بھجوا دی۔

لاٹ صاحب، وزیراعلیٰ، وزیر بحالیات و دیگر حکام کے دفاتر کا طواف کرنے کے بعد یہ درخواستیں ’’برائے مناسب کارروائی‘‘ سرکاری افسروں کی میز پر آتی گئیں اور فرض شناس افسر رپورٹ طلب کرنے کیلئے اسے ماتحت حکام کی طرف بھجواتے چلے گئے یہاں تک کہ یہ تمام درخواستیں افسر مجاز یعنی اسی پٹواری کے پاس جا پہنچیں جو اس غریب سائل کی اراضی ہڑپ کرنے کے درپے تھا۔ گویا اسی ’’عطار کے لونڈے‘‘ کو مسیحائی کرنے کا کہہ دیا گیا جس کے سبب بیمار ہوئے تھے۔

اس نے ازراہ تلطف، سائل عیدو کو پٹوار خانے طلب کیا اور ان درخواستوں کا پلندہ اس کے منہ پر دے مارا۔ قدرت اللہ شہاب کے بقول اس پٹواری نے لگی لپٹی رکھے بغیر تنک کر کہا ’’اب تم یہ درخواستیں جھنگ، ملتان یا لاہور لے جاؤ اور ان کو اپنے سالے باپوں کو دے آؤ‘‘۔ عیدو اس تذلیل و تحقیر کے بعد بھی کوئے داد رسی کے طواف سے باز نہ آیا اور سرکاری دفاتر کی خاک چھانتا رہا۔

اس دوران پٹواری نے اس کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی اور ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے بعد رپورٹ تحریر فرمائی:
’’جناب عالی! سائل مسمی عیدو فضول درخواست ہائے دینے کا عادی ہے۔ اسے متعدد بار سمجھایا گیا کہ اس طرح حکامِ اعلیٰ کا وقت ضائع کرنا درست نہیں، لیکن سائل اپنی عادت سے مجبور ہے۔ سائل کا چال چلن بھی مشتبہ ہے اور اس کا اصل ذریعہ معاش فرضی گواہیاں دینا ہے۔ مشرقی پنجاب میں اس کے پاس کوئی زمین نہیں تھی۔ بمراد حکمِ مناسب رپورٹ ہذا پیش بحضورِ انور ہے‘‘
گرداور اور قانون گو نے یہ لکھ کر درخواستیں تحصیلدار کے دفتر بھجوا دیں کہ ’’رپورٹ پٹواری مفصل ہے‘‘۔

درخواستیں اسی گول دائرے میں گھومتی ہوئی ان اعلیٰ حکام کے پاس واپس آگئیں جنہوں نے ’’برائے مناسب کارروائی‘‘ مارک کیا تھا۔ اس دوران ہر سرکاری افسر نے ایک ہی جملے کا اضافہ کیا ’’رپورٹ پٹواری مفصل ہے‘‘۔

پٹواری ہمارے کرپٹ سسٹم کابنیادی کل پرزہ ہے۔ جب بھی کوئی بڑا افسر علاقے کا دورہ کرنے جاتا ہے تمام پٹواری ملکر اس افسر کے قیام و طعام کا بندوبست کرتے ہیں۔

بذعم خود فیلڈ مارشل ایوب خان کو شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا، مارشل لا نافذ کرنے کے بعد صدر بن بیٹھے تو بھی سیر و تفریح کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ وہ جس علاقے میں شکار کھیلنے جاتے، ان کے وفد کا شایان شان استقبال ہوتا، پُرتعیش خیمے لگائے جاتے، پُرتکلف کھانے تیار ہوتے۔

چکوال کے قصبہ خان پور کی شکار گاہ سے ایوب خان کو خاص شغف تھا جہاں وہ کم وبیش 14مرتبہ تشریف لے گئے۔ ایک بار انسدادِ بدعنوانی کے تحت کام کرنے والی خصوصی ٹیم بریگیڈئر مظفر کی قیادت میں وہاں پہنچی تو لوگوں نے شکایات کے انبار لگا دیئے۔

پٹواریوں کے خلاف بھی شکایات آئیں تو ٹیم کے ارکان نے پٹواریوں کو جی بھر کر مطعون کیا اور پھر جواب دہی کی غرض سے متعلقہ پٹواری شاہ نواز کو کھڑا کیا گیا۔ سر پھرے پٹواری نے شکایت کا جواب دینے کے بعد کہا کہ سب سے زیادہ کرپٹ تو صدر ایوب ہے۔

اگر ہمت ہے تو اس کے خلاف میری شکایت نوٹ کریں۔ بریگیڈیئر صاحب نے حیرت اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا، کیا کہہ رہے ہو صدر ایوب کرپٹ ہے؟ تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے؟ پٹواری نے کہا، ہاں ہے۔

صدر ایوب اب تک 14مرتبہ یہاں شکار کھیلنے آئے، ایک بار کھانے کا بندوبست کرنے کے لئے سردار خضر حیات نے 8ہزار روپے دیئے،باقی 13مواقع پر طعام و قیام کا بندوبست کرنے کے لئے پیسے کہاں سے آئے؟

کیا کسی سرکاری ادارے نے ادائیگی کی؟ یہ رقم انہی کرپٹ پٹواریوں نے جمع کی جنہیں آپ ابھی مطعون کر رہے تھے۔ یہ ٹیم اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر کھانا کھائے بغیر چلی گئی۔

مولانا مودودی نے اس پٹواری کی حوصلہ افزائی کے لئے خط لکھا۔ اس شکایت کے بعد پٹواری کیساتھ کیا ہوا، یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اس نے ہمارے سسٹم کو سب کے سامنے ننگا کردیا۔

حکومتِ پنجاب نے چند برس قبل ورلڈ بینک کے تعاون سے زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کر نے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور 2018میں 90فیصد ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا تھا۔

پہلے یہ ہوتا تھا کہ کسی بھی پلاٹ یا اراضی کی فردِ ملکیت حاصل کرنے کے لئے پٹواری سے نشاندہی کروانا پڑتی تھی۔ اس کے بعد ریکارڈ سیکشن سے نقل نکلوانے اور پھر پٹواری سے تحصیلدار تک سب کے دستخط کروانے کے لئے سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پڑتے تھے۔

ہر مرحلے پر ہر شخص کی مُٹھی گرم کرنا پڑتی تھی لیکن زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہونے کے بعد کوئی بھی شخص متعلقہ دفتر جاکر اپنی زمین کی فرد ملکیت نکلوا سکتا ہے۔ اگرچہ اس نئے نظام میں بھی کہیں نہ کہیں معمولی نذرانہ دینا پڑتا ہے لیکن اس نذرانے کا اس رشوت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا جو پٹواری کے موثر ہوتے ہوئے رائج تھا۔

اس کے علاوہ پٹواریوں کی جانب سے ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ اس نئے نظام کی شدید مخالفت ہی نہیں بلکہ باقاعدہ مزاحمت کی جا رہی تھی اور یہ مزاحمت محض پٹواریوں تک محدود نہ تھی بلکہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر تک تمام اعلیٰ افسران ایکا کرچکے تھے کیونکہ پٹواری کے غیر موثر ہو جانے سے افسر شاہی کے ٹھاٹھ باٹھ ختم ہو گئے۔

کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد پٹواری جیت گئے ہیں اور حکومتِ پنجاب نے اصلاحات کی آڑمیں ایک بار پھر پٹواری سسٹم لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پنجاب بورڈ آف ریونیو نے ڈویژنل کمشنر ز کو ہدایت کی ہے کہ تجرباتی طور پر فی الحال ہر ضلع کے دو ریونیو سرکلز جو ’’قانون گوئی‘‘ کہلاتے ہیں، انہیں ماڈل کے طور پر تحصیلدار اور پٹواریوں کے حوالے کیا جائے اور پھر یہ نظام پورے پنجاب میں بحال کردیا جائے۔
 

یاقوت

محفلین
جی میں پہلے ہی یہ خبر سن چکا ہوں لینڈ ریکارڈ سسٹم میں واقعی کافی حد تک رشوت کی سرکوبی ہوئی تھی لیکن پٹواری ازم کے دوباہ جاگ اٹھنے کے بعد الامان الحفیظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top