پوچھنا منع ہے

یوسف-2

محفلین
poochna+mana+hai-1.jpg

poochna+mana+hai-2.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
اب میں بھلا کیا پوچھوں، خود ہی اوپر لکھ دیا ہے "پوچھنا منع ہے"

بہت خوب اور بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔
 

شمشاد

لائبریرین
پوچھنا منع ہے
دو سہیلیاں آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ ایک کہنے لگی : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میں ۲۵ برس کی نہیں ہو جاتی شادی نہیں کروں گی۔ دوسری بولی میں نے بھی ایک فیصلہ کیا ہے۔ پہلی سہیلی کے پوچھنے پر بولی : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میری شادی نہیں ہو جاتی میں ۲۵ کی نہیں ہوں گی۔ یہ پھلجڑی جس حد تک لطیفہ ہے اس سے زیادہ حقیقت بھی ہے۔ یہ تو سب ہی کہتے یں کہ لڑکیاں بڑی تیزی سے بڑھتی یں مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ لڑکیاں جلد ہی (عمر میں) بڑھنا "بند" بھی تو کر دیتی ہیں اور عمر کے ایک "پسندیدہ" مقام پر پہنچ کر تو اس طرح "رک " جاتی ہیں جیسے ۔۔۔ ایک فلمی ہیروئن جو گزشتہ تیس برسوں سے ہیروئن چلی آ رہی تھی، فلم کے ایک سین میں اپنے حقیقی بیٹے سے بھی چھوٹی عمر کے ہیرو سے کہنے لگی۔ اچھا یہ تو بتائیں کہ آپ کے نزدیک میری عمر کیا ہو گی۔ ہیرو کہنے لگا بھئی تمہاری باتوں سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تم بائیس برس کی ہو مگر تمہاری فیگر بتلاتی ہے کہ تم بیس برس سے زائد کی نہیں ہو سکتیں اور اگر چہرے کی معصومیت دیکھو تو یوں لگتا ہے جیسے تم صرف اٹھارہ برس کی ہو۔ ہیروئن اٹھلاتی ہوئی بولی اللہ آپ کتنے ذہین ہیں آپ نہ صرف اسمارٹ بلکہ بلا کے "خانم شناس" بھی ہیں۔ ہیرو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ اور ان تمام عمروں کو جمع کر کے کوئی بھی تمہاری اصل عمر کا تخمینہ لگا سکتا ہے۔ "کٹ" ڈائریکٹر کی آواز گونجی اور فلم میں سے ہیرو کا یہ آخری جملہ کاٹ دیا گیا۔​
ہمارے ہاں بہت سی باتوں کو پوچھنا ایٹی کیٹس کے خلاف سمجھا جاتا ہے جیسے آپ "عمر نازنین" ہی کو لے لیں۔ اگر آپ کسی خوبصورت سی محفل میں کسی خوبصورت نازنین کی عمر دریافت کر لیں تو نہ صرف خوبصورت نازنین کی خوبصورتی ہوا ہو جاتی ہے بلکہ خوبصورت محفل کی خوبصورتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ اسی کے ساتھ ہی آپ کو بھی محفل سے جبراً رخصت کر دیا جائے۔ اب بھلا ایسی باتوں کو پوچھنے کا کیا فائدہ کہ لوگوں کو آپ کی خیریت پوچھنی پڑ جائے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
جس طرح خواتین سے (اس کی ذاتی) عمر پوچھنا منع ہے اسی طرح مرد حضرات سے ان کی تنخواہ پوچھنا بھی بقول شخصے ۔"بے فضول" ہے۔ خواتین اپنی عمر نفی اور تقسیم کے عمل سے کشید کر کے بتلاتی ہیں تو حضرات اپنی تنخواہ کو جمع ۔ جمع الجمع اور ضرب جیسے الاؤنس سے گزار کر بتلاتے یہں مگر یہاں یہ واضح ہو کہ مرد حضرات اس قسم کی حرکت گھر سے باہر ہی کیا کرتے ہیں۔ گھر میں تو۔۔۔ شوہر نے نئی نویلی بیوی کے ہاتھ میں پہلی تنخواہ لا کر رکھی۔ وہ روپے گنتے ہوئے بولی : باقی پیسے؟ کون سے باقی پیسے؟ تنخواہ تو یہی ملی ہے۔ بیوی شوہر کی طرف شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔ مگر تمہاری امی نے تو میری امی سے کہا تھا کہ ۔۔۔ ہاں! ہاں! انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔ اور تمہارے بہن تو کہہ رہی تھی کہ میرے بھیا کو۔۔۔ بھئی وہ بھی ٹھیک کہہ رہی تھی۔ بیوی نے تنخواہ کی رقم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تو پھر یہ کیا ہے؟ ۔۔۔ بھئی یہ بھی ٹھیک ہے۔ شوہر سمجھانے کے انداز میں بولا۔ بھئی دیکھو! تنخواہ کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتی ہے بنیادی تنخواہ، جو تمہارے ہاتھ میں ہے، یہ سب سے کم ہوتی ہے اور یہی اصل تنخواہ ہوتی ہے۔ جب اس تنخواہ میں مختلف الاؤنس کو جمع کر لیا جائے جو کٹوتی کی مد میں کٹ جاتی ہے تو تنخواہ کی رقم اتنی بڑھ جاتی ہے جتنی میری امی نے تمہاری امی کو تمہارا رشتہ مانگتے وقت بتلایا تھا۔ اور اگر سال بھر تک آجر کی طرف سے ملنے والی سہولتوں کو جمع کر کے اسے رقم میں تبدیل کر لیں اور حاصل ہونے والی فرضی رقم کو بارہ سے تقسیم کر کے تنخواہ اور الاؤنس میں جمع کر لیا جائے تو بننے والی تنخواہ وہ ہوتی ہے جو میری بہن نے تمہیں منگنی والے روز بتلائی تھی۔ یہ سب سے زیادہ تنخواہ ہوتی ہے۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی! میں پوچھتی ہوں آخر تمہارے گھر والوں نے میرے گھر والوں کو تمہاری صحیح تنخواہ کیوں نہیں بتلائی تھی۔ بھئی دیکھو! اول تو یہاں کچھ پوچھنا منع ہے۔ دوم یہ کہ تمہارے گھر والوں نے کب میرے گھر والوں کو تمہارے اصل عمر بتلائی تھی۔​
سو پیارے قارئین! آپ میں سے اول الذکر کبھی موخر الذکر سے اس کی عمر اور موخر الذکر اول الذکر سے اس کی تنخواہ نہ پوچھے کہ اس سے امن و امان خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ اور جب امن و امان کو خطرہ لاحق ہو تو مارشل لاء آتا ہے اور جب مارشل لاء آتا ہے تو بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں اور جب بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں تو انقلاب آتا ہے اور جب انقلاب آتا ہے تو جمہوریت بحال ہوتی ہے اور جب جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امن و امان پھر سے خطرے میں پڑ جاتا ہے اور جب امن و امان خطرے میں ہو تو ۔۔۔ آگے پوچھنا منع ہے۔ ویسے نہ پوچھنے کو اور بھی بہت سی باتیں ہیں جنہیں نہ پوچھ کر ہی امن و امان برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی سیاسی پارٹی سے تو یہ پوچھنا یکسر منع ہے کہ اس کے پاس جلسے جلوس کے لئے اتنا سرمایہ کہاں سے آتا ہے۔ قرضدار سے قرضہ کی رقم کی واپسی کا پوچھنا تو صحت کے لئے بھی مضرو ہے۔ اسی طرح اپنی نصف بہتر کے سامنے کسی خاتون کا حال پوچھنا، کلاس روم میں استاد سے سوال پوچھنا، ڈرائیور سے ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھنا، گرفتار شدگان کا اپنا جرم پوچھنا اور اخبار و جرائد سے اس کی تعداد اشاعت پوچھنا۔۔۔ مگر ٹھہریئے آخر میں ہم شاید کچھ زیادہ ہی غلط بات پوچھ بیٹھے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدیر محترم ہم سے ہمارے گھر کا پتہ پوچھ بیٹھیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچے کہ لوگ ہمیں اٹھائے ہمارے گھر کا رستہ پوچھتے نظر آئیں۔ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ ۔۔۔ پوچھنا منع ہے۔ ہے نا؟​
 

مہ جبین

محفلین
بے شک یوسف ثانی بھائی نے بہت خوب تحریر لکھی ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے تمام فکاہیہ ادب تخلیق کرنے والوں پر ایک اعتراض ہے ۔۔۔۔
وہ یہ کہ طنز و مزاح میں جہاں بھی خواتین کی بات آتی ہے وہاں مبالغہ آمیزی کی بھی حد کر دیتے ہیں
اب اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا بیان کیا جاتا ہے
اور مردوں کی اکثریت کی تنخواہ کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا جیسا اس تحریر میں نظر آرہا ہے
چلیں آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ مرد بیچارے مظلوم اور عورتیں ظالم۔۔۔۔۔۔
ویسے اس کو الٹ سمجھنا چاہئے
عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے
 

یوسف-2

محفلین
بے شک یوسف ثانی بھائی نے بہت خوب تحریر لکھی ہے لیکن۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔

مجھے تمام فکاہیہ ادب تخلیق کرنے والوں پر ایک اعتراض ہے ۔۔۔ ۔
(×) فکاہیہ ادب کے قاری کی حیثیت سے آپ کا یہ بنیادی حق ہے۔ آخر کو ہم قارئین ہی کے لئے تو لکھتے ہیں۔ قارئین کے فیڈ بیک لکھنے والوں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں۔

وہ یہ کہ طنز و مزاح میں جہاں بھی خواتین کی بات آتی ہے وہاں مبالغہ آمیزی کی بھی حد کر دیتے ہیں۔ اب اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا بیان کیا جاتا ہے
(×) گو بات تو سچ ہے، مگر بات ”رسوائی“ کی ہرگز نہیں ہے۔ ”طنز و مزاح“ کا ”لطف“ ہی اسی میں ہے کہ ”رائی کا خوش نما پہاڑ“ بنا کرقارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ اگر رائی کو رائی ہی کی طرح پیش کیا جائے تو اسے فکاہیہ ادب نہیں بلکہ صحافت کہتے ہیں۔ بعینہٖ رپورٹنگ تو صحافت میں کی جاتی ہے۔ افسانہ، انشائیہ وغیرہ میً معمولی معمولی باتوں کو غیر معمولی اور قابل ذکر بنا کر ادبی یا افسانوی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور آپ نے بالکل درست تجزیہ کیا ہے کہ تمام فکاہیہ ادب تخلیق کرنے والے ایسا کرتے ہیں۔ اردو ادب میں افسانہ کا ایک مثبت اور اونچا مقام ہے۔ جبکہ عام زندگی میں ”حقیقت کو فسانہ بنانا“ ایک منفی عمل ہے۔ یہی حال ”طنز“ یا ”مزاح“ کا بھی ہے۔ عام زندگی میں ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسانا کوئی مثبت عمل نہین۔ لیکن جب یہی ”فریضہ“ ”طنز و مزاح“ کے نام پر ادب کی چھتری تلے انجام دیا جاتا ہے، تو یہ دنیائے ادب میں ”امر“ ہوجاتا ہے۔ ادبی طنز و مزاح کا عام معاشرتی زندگی پر بھی بھی گہرا اور ”مثبت اثر“ پڑتا ہے۔ مگر اس کے بیان کے لئے ایک الگ مضمون درکار ہے :D

اور مردوں کی اکثریت کی تنخواہ کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا جیسا اس تحریر میں نظر آرہا ہے
(×) بالکل درست کہا۔ بس کہیں کہیں ایسا ہوتا ہے، جسے فکاہیہ نگار لے اُڑتے ہیں :laughing:

چلیں آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ مرد بیچارے مظلوم اور عورتیں ظالم۔۔۔ ۔۔۔
(×) مرد کو آپ نے خود ہی ” بے چارہ“ لکھ دیا ہے، تو اب ہم کیا کہیں :eek:

ویسے اس کو الٹ سمجھنا چاہئے ۔ عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے
(×) پہلے تو آپ یہ تسلیم کریں کہ مرد عقلمند ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ہی کسی اشارہ کو سمجھنے کے بارے میں غور ہوسکتا ہے:D
 

مہ جبین

محفلین
ایک کوتاہ علم کا ایک بڑے ادیب ، دانشور ، محقق اور منجھے ہوئے فکاہیہ کالم نگار سے کیا مقابلہ ؟؟؟

جو آپ نے فرمایا وہ بعینہہ درست ہے
میرے پاس تو ایسے اچھے الفاظ بھی نہیں ہیں کہ میں آپ کی علمی بات کا جواب اُسی علمی انداز میں دے سکوں
اس لئے آپ کی بات مان لینے میں ہی بھلائی ہے :idontknow:

اتنی تفصیل سے میری فضول باتوں کا جواب دینے کا بہت شکریہ یوسف ثانی بھائی
 

شمشاد

لائبریرین
اصل میں بات یہ ہے کہ جب کوئی مرد اس قسم کی تحریر لکھتا ہے تو وہ مرد کو ہی مظلوم ظاہر کرتا ہے اور عورت کو ظالم

اور اسی قسم کی کوئی تحریر جب کوئی خاتون لکھتی ہیں تو معاملہ برعکس ہو جاتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
- ایک کوتاہ علم کا۔۔۔
(×) اگر کوئی ”کوتاہ علم“ باتیں مہ جبین کی جیسی باتیں کرنے لگے تو اللہ ہم سب کو بھی ایسا ہی ”کوتاہ علم بنا دے۔ آمین
  1. ایک بڑے ادیب ،
  2. دانشور ،
  3. محقق اور
  4. منجھے ہوئے فکاہیہ کالم نگار سے کیا مقابلہ ؟؟؟
(×) یہ چاروں کون لوگ ہیں اور کہاں پائے جاتے ہیں؟ فکاہیہ کالم نگار تو جانا پہچانا سا لگتا ہے، لیکن اسے ابھی مزید ”مانجھنے“ کی ضرورت ہے، ”منجھا ہوا“ تو کہیں سے بھی نہیں لگتا :D

- جو آپ نے فرمایا وہ بعینہہ درست ہے
(×) ہو سکتا ہے، ایسا ہی ہو۔ یہ میرے خیالات ہیں، جس پر میں ہنوز قائم ہوں۔ لیکن یہ بعینہہ درست بھی ہیں، اس کا ”دعویٰ “ نہیں کرتا۔ :D

- میرے پاس تو ایسے اچھے الفاظ بھی نہیں ہیں کہ میں آپ کی علمی بات کا جواب اُسی علمی انداز میں دے سکوں
(×) غیر متفق بلکہ مکرر غیر متفق :D

- اس لئے آپ کی بات مان لینے میں ہی بھلائی ہے :idontknow:
(×) اصل میں یہاں آپ نے ”بھلائی“ اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے میں ہی دیکھی کہ ”جو چپ رہا، وہ نجات پاگیا“ :D

-اتنی تفصیل سے میری فضول باتوں کا جواب دینے کا بہت شکریہ
(×) آپ کے شکریہ کا بے حد شکریہ کہ آج کل شکریہ ادا کرنے والے بھی ۔۔۔ ہر چند کہ کہیں ہیں، نہیں ہیں ع کی طرح دکھتے ہیں :laughing::laughing::laughing: سدا خوش رہیں اور شاد و آباد رہیں۔

(پس نوشت: یہاں ہم سب ”لفظوں کی بازی گری“ کے لئے ہی تو جمع ہیں، سو میں کیوں نہ کروں :D )
 

مہ جبین

محفلین
(پس نوشت: یہاں ہم سب ”لفظوں کی بازی گری“ کے لئے ہی تو جمع ہیں، سو میں کیوں نہ کروں :D )


@یوسف ثانی بھائی !
"لفظوں کی بازی گری " کے کھیل میں حصہ لینے کے لئے تو الفاظ کے ذخیرے کی ضرورت ہوتی ہے
میرے پاس تو وہ ہے ہی نہیں تو میں اس کھیل میں حصہ لینے کی اہل ہی نہیں ،اسی لئے تو اب آپ بلا مقابلہ ہی منتخب ہوگئے ہیں

مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔۔!

ایک دفعہ پھر میری فضول باتوں پر توجہ فرمانے کا شکریہ
آپکی انکساری کا اور مجھ حقیر سے خوش گمانی کا شکریہ
جزاک اللہ
 

یوسف-2

محفلین
بلا مقابلہ انتخاب:
الف: تم تو بالکل ہی گدھے ہو
ب:میں کہتا ہوں، تم گدھے ہو

الف: اچھا ایسا کرتے ہیں ، ووٹنگ کرالیتے ہیں، جسے زیادہ ووٹ ملے، وہی گدھا ہوگا
ب: کرالو ووٹنگ بھی۔ تمہیں ہی زیادہ ووت ملیں گے

الف: گویا میں اور تم گدھا ہونے کے امیدوار ہیں اور ہمارے دوست احباب ووٹرز۔ تو آپ تیار ہیں، پولنگ کروالیں
ب: ہاں ہاں کروالو ووٹنگ! یہ شوق بھی پورا کرلو، لگ پتہ جائے گا کہ کون گدھا ہے

الف: پھر ٹھیک ہے۔ اب میں تمہارے حق میں بیٹھ جاتا ہوں۔ آج سے تم بلا مقابلہ منتخب گدھے ہو
ب: وہ ممممم وہ تمممممم مممممم تمممممم :eek:
 
Top