پنکھڑی پر خار

بزم خیال

محفلین
تحریر : محمودالحق

آج جب میں بیدار ہوا تو انتہائی خاموش فضا معلوم ہوئی سوگوار کا لفظ مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتا یہاں ، کیونکہ میرے اندر خاموشی اپنے ترنم سے محو رقص تھی۔ مگر ارد گرد کا ماحول درد تنہائی سے کراہ نہیں رہا تھا۔ ان کا کراہنا ہی مجھے سوگواری کا باعث ہوتا ہے۔ بستر کو چھوڑنا ایک انتہائی جان جوکھوں کا کام لگتا ہے۔ صرف یہی تو وہ پل ہیں جنہیں میں اپنا کہ سکتا ہوں۔ کیونکہ میری روح احساسات بدنِ فانی سے چند لمحوں کے لئے آزاد رہتی ہے۔ پھر تو اگلی آزادی تک جسم جسموں پر چنگھاڑتے ،برستے، آگ اگلتے روز ہی فنا ہوتے ہیں۔ مگر میرا روح احساس ہر نئی صبح پہلے سے بھی زیادہ محبت اخلاص سے قوی ہوتا ہے۔ انسانوں کی بھیڑ میں قدم اپنے اپنے بوجھ کو لئے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ جسے اپنی منزل تک رسائی کی جتنی جلدی ہوتی ہے۔ ان قدموں کا ساتھ دست و بازو بھی پوری تندہی سے دے رہے ہوتے ہیں۔ اور ایک وفادار غلام کی طرح ہوس و حرس کے آقا کی دلربائی کا اہتمام کرنے میں جتے رہتے ہیں۔ میرا نفس بھی مجھے ان کی تقلید کی پابندی کا مژدہ سناتا ہے۔ مجھے ان کا بھاگنا تو نظر آتا ہے ،مگر منزل ہمیشہ ہی پوشیدہ نظر آئی۔ شائد ان کی آنکھ اس منزل کو دیکھ پا رہی ہو۔ جو مجھے کبھی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ دوسروں کے آئینے میں اپنا عکس دیکھنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں۔ خوشبو سدا نہیں مہکتی، جوانی سدا نہیں رہتی ۔اس مٹی سے پیدا ہر چیز مٹی ہو جاتی ہے ۔میرا آئینہ مجھے یہی دکھاتا ہے ۔میرے چہرے کی وہ رنگت نہیں رہی۔ جوں جوں تفکر ایمان بڑھتا چلا جا تا ہے۔ وجود اس کے مقابل کمزور سے کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ تکلیفیں پریشانیاں دکھ انسان کو کمزور کرنے نہیں آتیں۔ بلکہ وجود میں صبر، برداشت، ایمان کی پختگی کا پیغام لاتی ہیں۔ بدن روح کی طاقت کا محتاج ہے۔ جو اسے ہم دیتے ہیں کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ آسائش سہولت شاندار طرز زندگی اسے اپنے اصل سے بہکاوہ کی ترغیب دلاتے ہیں ۔مجھے ہر اس انسان کو تلاش کرنا ہے ۔جو ہمیں ترغیبات فنا کا سبق چھوڑ کر گیا ہے۔ جو اس نے پایا، آج اس سے کیا پھل اگایا جا رہا ہے۔ ان کی داستان صرف کاغذ کی سیاہی بن کر رہ گئی ہے۔ زندہ وہ ہیں، جو آج اسی سیاہی سے پھر انسانی بھلائی کی تحریک کی شکل میں زندہ ہو جاتے ہیں۔ اور اس ہجوم میں سے وہ سب کے سب جو سچائی اور حقیقت کا ادراک پا لیتے ہیں۔ ان کے قدم دست و بازو کی مدد کے باوجود ضمیر کی قید میں پابند سلاسل ہو جاتے ہیں۔ اور پورے وجود کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔ پھر نہ ہی ان کی آنکھ اپنی من مانی منظر کشی کرتی ہے۔ کان چیخ و پکار سے تسکین نہیں پاتے۔ اور نہ ہی زبان قلب کی پنکھڑی پر خار ہوتی ہے۔
 
Top