پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ کے وائس چانسلر کا پنجاب یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر کے نام خط

جاسمن

لائبریرین
پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ کےوائس چانسلر راج کمار کا پنجاب یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر نیاز احمد کے نام خط
24/04/2019
پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ کے وائس چانسلر پروفیسر راج کمار کا پنجاب یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر کے نام خط

بائیس اپریل-2019ء
391-راجیشوری گارڈنز
مہاتما سکوائر
چندی گڑھ160017
ریپبلک آف انڈیا

نیاز جی نمستے،

اگر علم مومن کی گمشدہ میراث ہوتا تو 1882ء میں قائم ہونیوالی آپ کی یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں پانچ لاکھ اور 1947ء میں قائم ہونیوالی میری یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں چونسٹھ لاکھ کتابوں کی موجودگی حقیقت کی جگہ فسانہ ہوتا اور چہار دانگ عالم آپ کے ادارے کا ڈنکا بجتا مگر چونکہ ایسا نہیں ہے لہذا راقم کف افسوس ہی مل سکتا ہے۔

میری یونیورسٹی میں دائیں اور بائیں بازو کی طلباء تنظیمیں شعور اور منشور کے بل پر جمہوری اقدار کی نمو کرتی ہیں مگر آپ کی جانب سٹوڈنٹ پالیٹکس پہ ضیائی پابندی اور اسلامی جمعیت طلباء کی غنڈہ گردی نے وہ علم پرور ماحول پروان چڑھایا ہے جہاں لڑکے داڑھیوں میں برکت اور لڑکیاں عبایوں میں حرکت تلاش کرتی ہیں اور اس برکت کی حرکیات کے پس پردہ لاشعوری عوامل کی شعوری تشکیل آپ کی جامعہ جامعہ اشرفیہ کے تعاون کیساتھ کرتی ہے اور یونہی دیے سے دیا جلتا ہے۔

میری یونیورسٹی میں فائن آرٹس میوزیم سمیت کل چار میوزیمز ہیں اور آپ کی پوری یونیورسٹی ہی ایک میوزیم ہے جس میں مٹی اور پسلی سے انسان کی تخلیق پہ ایمان رکھنے والے پی ایچ ڈی پروفیسرز لائف سانسز کی تعلیم دے رہے ہوتے ہیں اور کسی بھی ڈگری کورس میں فلاسفی مائنر کا تصور اس لئے بھی محال ہے کیونکہ آپ طلباء کو انسان کی جگہ وہ مسلمان بنانا چاہتے ہیں جو نیوزی لینڈ حملوں کی تو مذمت کریں اور سری لنکا میں ایسٹر کے دن ہونیوالے حملوں میں ملوث التوحید جماعت کے بارے میں کہیں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔لیاقت بلوچ اور حافظ ادریس جیسے جماعتیوں نے قیصر شریف کے تعاون سے آج تک آپ کی یونیورسٹی میں میوزک کلاسز شروع نہیں ہونے دیں اور آپ وہ کلاسز مال روڈ کے الحمرا کلچرل کمپلیکس میں منعقد کرنے پہ مجبور ہیں اور اسی مذہبی شدت پسندی کے آگے سر اور پشت جھکانے کا منطقی نتیجہ ہے کہ آج آپ کی یونیورسٹی کی رینکنگ مراکز لواطت مدارس کی صف میں ہوتی ہے۔میری یونیورسٹی نے کلپنا چاولہ جیسی ناسا ایسٹروناٹ ،رومیلا تھاپر جیسی موُرخ اور ترن تیجپال جیسے تہلکہ کے بانی صحافی پیدا کئے ہیں اور آپ کی یونیورسٹی مشعال خان کی موت پر جشن منانے والے انسان نما حیوان پیدا کرتی ہے۔آپ کی حکومت شیخ چلی نیشنل ایکشن پلان کا دھیمی آنچ پہ خیالی پلاوُ پکا رہی ہے اور آپ کے یونیورسٹی ہاسٹلز میں جمعیت کے عقوبت خانوں میں اسلحہ،ڈنڈے،استریاں اور مودودی کے پمفلٹس اس پلاوُ کو سر راہ اڑتے امن کے کبوتروں کو چاول سمجھ کر ڈال رہے ہیں جنھیں کھانے کے بعد امن کے کبوتروں کی بڑی تعداد داعیُ اجل کو لبیک کہہ چکی ہے۔

آپ کی یونیورسٹی کے پینتالیس ہزار طلباء میں سے 44950 طلباء کو ہرگوبند کھورانہ کا نام تک نہیں پتہ جس نے آپ کی یونیورسٹی سے 1943ء میں گریجوایشن کر کے 1968ء میں پروٹین میں پائے جانیوالے نیوکلیک ایسڈز میں نیوکلیوٹائیڈز کی ترتیب وضع کر کے میڈیسن کا نوبیل انعام جیتا مگر ان تمام پینتالیس ہزار طلباء کو یہ ضرور پتہ ہے کہ 1979ء میں گرینڈ یونیفیکیشن تھیوری پہ کام کر کے فزکس کا نوبیل انعام جیتنے والے ڈاکٹر عبدالسلام ایک قادیانی لہذا غیر مسلم تھے حالانکہ مسلمان خود عیسائیوں کے قادیانی ہیں۔لاہور اور پاکستان کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہو کر بھی آپ نے 1910ء میں لاہور میں پیدا ہونیوالے سبھرامنین چندرشیکھر کے اعزاز میں کوئی چئیر قائم نہیں کی جنھوں نے 1983ء میں ستاروں کے ارتقاء اور ساخت پر کام کر کے فزکس کا نوبیل انعام جیتا تھا مگر آپ کا شعبہُ دائرہ معارف الاسلامیہ دن رات اس ٹوہ میں لگا رہتا ہے کہ ۔جس یونیورسٹی میں طلباء کو بس یہ فکر ہو کہ پچھتر فیصد حاضری کے بغیر امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملے گی ،جنس مخالف سے بات کرنے کی صورت میں جماعتیے ہڈیوں کو روایتیں سمجھ کر توڑ دینگے،جہاں غیر مسلم اور ملحد طلباء کو بھی جبراً اسلامیات لازمی سے انٹرکورس کروایا جائے،

جہاں 130 فٹ کی حوروں کے جسمانی نشیب و فراز کے دلال طارق جمیل یونیورسٹی طلباء سے خطاب کریں اور جہاں کنسرٹس کی جگہ محافل میلاد منعقد ہوں وہاں ایک سیکولر اور پروگریسو تعلیمی ماحول پنپ ہی نہیں سکتا اور یہی وجہ ہے کہ نیو کیمپس سے گزرنے والی نہر میں پانی بھی تحقیقی رجحان کی طرح کم ہو رہا ہے اور اب بس نہر کنارے لگا امجد اسلام امجد کا یہ شعر بیتے دنوں کی یاد دلاتا ہے کہ محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا۔امید ہے آپ اس خط کو دخل در نامعقولات تصور نہیں کرینگے اور چندی گڑھ آ کر یہاں کی پنجاب یونیورسٹی سے یہ سیکھنے میں تاُمل کا مظاہرہ بھی نہیں کرینگے کہ یونیورسٹی اور مدرسہ چلانے میں فرق کیا ہوتا ہے۔

خیر اندیش
پروفیسر راج کمار۔

بشکریہ Mehfooz Jan
https://www.aaanews.info/2019/04/24/پنجاب-یونیورسٹی-چندی-گڑھ-کے-وائس-چانسل/
 

جاسمن

لائبریرین
گو کہ یہ لڑی تعلیم و تدریس کے زمرہ میں بھیجی جانی چاہیے تھی لیکن اس کے مندرجات کی نوعیت حساس ہونے کے باعث اسے ہمارا معاشرہ کے زمرہ میں بھیجا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
گو کہ یہ لڑی تعلیم و تدریس کے زمرہ میں بھیجی جانی چاہیے تھی لیکن اس کے مندرجات کی نوعیت حساس ہونے کے باعث اسے ہمارا معاشرہ کے زمرہ میں بھیجا ہے۔
تعلیم و تدریس میں ہی پوسٹ کرنا چاہئے تھا۔ یہاں ماڈریشن ہےاس لئے اس حوالہ سے زیادہ بات چیت نہ ہو سکے گی۔ موضوع بہرحال دلچسپ ہے۔
 
خط کا تحریر کنندہ کوئی شاعر معلوم ہوتا ہے۔ اور اس خط کا ایک ہی جواب سمجھ آتا ہے:
ایمان لایا میں چندی گڑھ یونیورسٹی پر اور کفر کیا میں نے پنجاب یونیورسٹی سے۔
 

فاخر رضا

محفلین
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹی میں تعلیمی اور تحقیقی معیار بڑھانے کی ضرورت ہے
اب اگر یہ خط جھوٹ ہی ہو مگر اس سے اپنے لئے عملی نکات لیکر ان پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں
مگر یہ بات کہ میوزک کی تعلیم کو پروگریسو ہونے کا معیار قرار دینا، ذرا مشکل سے ہضم ہوگی
 

محمد وارث

لائبریرین
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹی میں تعلیمی اور تحقیقی معیار بڑھانے کی ضرورت ہے
اب اگر یہ خط جھوٹ ہی ہو مگر اس سے اپنے لئے عملی نکات لیکر ان پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں
مگر یہ بات کہ میوزک کی تعلیم کو پروگریسو ہونے کا معیار قرار دینا، ذرا مشکل سے ہضم ہوگی
ہضم کیا ہوگی ڈاکٹر صاحب، یہ تو معیار ہے ان کا۔ دنیا کی توجہ تعلیم کے معیار کی طرف دلانا چاہتا ہے اور خود اپنے خط میں گالیاں بھری ہوئی ہیں، تف۔
 

احمد محمد

محفلین
جب آپ کامیاب ہوتے ہیں تو کوئی آپ کی خامیاں بیان نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کو آئینہ دیکھانے کی جسارت کرتا ہے مگر جب آپ ناکام ہوتے ہیں تو سب آپ کو بھاشن دیتے ہیں اور نصیحتیں کرتے ہیں۔

خط حقیقی ہے یا نہیں، کسی مقامی نے یا کسی شاعر نے تراشا ہے اس بات سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تو خط کی آڑ میں مخفی اسلام دشمنی پر مبنی تقریر اور مبالغہ آرائی سے۔ فرق پڑتا ہے تو ہمارے اداروں اور شخصیات کی اہانت سے۔

مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس تنقید کے ذمہ دار بھی کافی حد تک ہم خود ہیں۔ ہماری نالائقی ہے اور ہماری کم یا لا علمی ہے۔

ہم بحثیت قوم جدید علوم میں قابلِ ستائش مہارت حاصل کرکے ترقی کی منازل طے کررہےہوتے تو ایسے خط موصول نہ ہوتے اور نہ ہی کوئی اسلام مخالف نقطہ چینی کررہا ہوتا بلکہ یہی لوگ نامور مسلم سپوتوں کے کارہائے نمایاں کچھ یوں بیان کررہے ہوتے کہ وہ صرف پاکستانی یا مسلم نہیں تھے بلکہ ایک ایشیائی بھی تھے، ایک ہندوستانی نژاد بھی (ساتھ یہ بھی بتلاتے کہ ان کے آباؤاجداد نے فلاں سنۂ عیسوی میں ہندوستان سے ہجرت کی) اور سب سے بڑھ کر یہ کہتے چونکہ انہوں نے انسانیت کی خدمت کی اس لیے سب سے بڑھ کر وہ ایک عظیم انسان تھے۔

لمحۂ فکریہ تو ہے۔۔۔

اب چاہے حقیقت سے روگردانی کرکے بحث برائے بحث کریں۔۔۔

یا

آج خاموش رہ کر برداشت کریں۔۔

اور

علم و ہنر سے کامیابیاں حاصل کر کے آنے والے کل کو ان مخالفوں کو منہ توڑ جواب دیں۔۔۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
خط کا تحریر کنندہ کوئی شاعر معلوم ہوتا ہے۔ اور اس خط کا ایک ہی جواب سمجھ آتا ہے:
ایمان لایا میں چندی گڑھ یونیورسٹی پر اور کفر کیا میں نے پنجاب یونیورسٹی سے۔
ویسے دونوں پنجاب یونیورسٹی ہیں۔

چندی گڑھ والی کا علم نہیں لیکن پاکستانی پنجاب یونیورسٹی میں تو بنیادی طور پر جمیعت کی غنڈہ گردی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا
 

جاسمن

لائبریرین
ویسے دونوں پنجاب یونیورسٹی ہیں۔

چندی گڑھ والی کا علم نہیں لیکن پاکستانی پنجاب یونیورسٹی میں تو بنیادی طور پر جمیعت کی غنڈہ گردی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا

خیر ایسی بھی بات نہیں ہے۔ خامیوں اور کمزوریوں سے انکار نہیں لیکن ہم نے وہاں بہت اچھا ماحول بھی دیکھا ہے۔ نصابی اور ہم نصابی دونوں طرح کی سرگرمیوں کے حوالہ سے۔
 
Top