پنجاب میں ایم کیو ایم از نذیر ناجی

مہوش علی

لائبریرین
headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے پنجاب کے 17 شہروں میں اپنی جماعت کے انتخابی جلسوں سے فون پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جتنا منفی پراپیگنڈہ پنجاب میں میرے خلاف کیا گیا کسی کے خلاف نہیں ہوا۔ یہ درست ہے کہ وجہ کوئی بھی ہو پنجاب میں ایم کیو ایم کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ یہاں الطاف حسین کی حمایت میں ایک لفظ کہنا بھی دشوار تھا۔ ان کے مخالفین بے شمار دلائل کے ساتھ جوابی حملہ کرتے اور الطاف حسین کے حق میں بات کرنے والوں کو دامن بچانا مشکل ہو جاتا۔ ان کے مخالفین بے پناہ واقعاتی دلائل پیش کر کے اپنا موٴقف ثابت کرنے کی کوشش کرتے جبکہ جواب میں بے خبری یا کسی اور وجہ سے موٴثر دلائل نہیں دیئے جاتے تھے۔ ایم کیو ایم نے ابتدا میں جو جارحانہ انداز کیا اُس پر پنجابیوں ہی نہیں سندھی، پختون اور بلوچ بھائیوں کو بھی فکر مند ہونا پڑا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ ایم کیو ایم نے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کی اور کچھ عوام نے اپنے تاثرات بدلے اور ایک نئی فضا پیدا ہونے لگی۔ عوام نے دیکھا کہ سندھ سے انتخابی نشستیں جیت کر آنے والی ایم کیو ایم نے اپنے زیر انتظام وفاقی وزارتوں میں دوسروں کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اُس کے بارے میں جس تاثر کا اظہار کیا جاتا تھا وہ زیادہ درست نہ نکلا۔لیکن سب سے بڑا بریک تھرو سندھ میں ملا۔ جب قوم پرست سندھی لیڈروں نے ایم کیو ایم کو اپنے صوبے کی ایک سیاسی طاقت کی حیثیت سے تسلیم کرنا شروع کر دیا اور آج حالت یہ ہے کہ چند ایک جذباتی لوگوں کو چھوڑ کر بیشتر سندھی قوم پرست ایم کیو ایم کے ساتھ مل جل کر صوبائی حقوق کی جدوجہد کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں اور ایم کیو ایم نے بھی سندھ کے صوبائی حقوق کے لئے جس جرأت مندی سے آواز اٹھائی وہ دوسروں کی نسبت بہرحال موٴثر تھی۔ کیونکہ کسی سندھی قوم پرست جماعت کو وفاقی سطح پر منتخب اداروں میں اتنی نمائندگی نہیں ملی جتنی ایم کیو ایم کے حصے میں آئی۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جس ایم کیو ایم کو ابتدا میں سندھیوں کا دشمن کہا گیا تھا وہ سندھیوں کے صوبائی حقوق کی موٴثر ترجمان بن کر سامنے آئی۔ گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم نے پختون، پنجابی، بلوچ اور سندھی بھائیوں کو اپنی سیاست کے دھارے میں زیادہ بڑے پیمانے پر شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور اُس کی یہ کوشش واضح طور سے سامنے آ گئی جب اُس نے اپنی تنظیم اور دیگرجماعتی اداروں میں دوسرے لسانی اور نسلی گروہوں کو باعزت مقام دینا شروع کر دیا۔سندھ میں ایم کیو ایم نے کھلے دروازوں کی جو پالیسی اختیار کی اُس کے اثرات پنجاب تک بھی پہنچے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب میں نے لاہور میں رہتے ہوئے ایم کیو ایم کے اندر رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے ان رجحانات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اُس وقت تک پنجاب میں مخالفانہ پروپیگنڈے کا اثر شدید تھا، جس کا ذکر الطاف حسین نے اپنی تقریر میں کیا۔اُس وقت میری اِس رائے کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ ایم کیو ایم کی سیاست میں نمودار ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا چاہئے اور معروضی انداز میں دیکھنا چاہئے کہ یہ جماعت جو کئی انتخابات میں اپنے خطے سے صوبے کی دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے منتخب ہو کر آ رہی ہے، اُسے محض ایک لسانی تنظیم کہہ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ وہ ایک سیاسی حقیقت ہے جو صوبائی اور قومی سطح پر اپنا وجود ثابت کر رہی ہے۔ اگر ہم اسے قبول کرنے سے انکار کریں گے تو یہ اُن تعصبات کی طرف واپس جا سکتی ہے جن سے اِس نے طویل سیاسی عمل، جدوجہد اور غور و فکر کے بعد نکلنے کی کوشش شروع کی ہے۔ اُس وقت یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی۔ مگر کچھ عرصہ پہلے جب میں نے ایم کیو ایم کے ارتقائی سفر کے جائزے پر مشتمل چند کالم لکھے تو انہیں میری توقع سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ میرے لئے حوصلہ افزائی کی بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم کے مخالفین اور خود ایم کیو ایم کی قیادت نے میرے اُن خیالات کو جو میں نے معروضی انداز میں پیش کئے تھے اپنے اپنے تحفظات کے باوجود پسند کیا۔ پنجاب میں ایم کیو ایم کے بارے میں لسانیت اور دہشت گردی کے جو انتہا پسندانہ تصورات پائے جاتے تھے اِن کالموں پر ہونے والے ردعمل میں اُن کی شدت موجود نہیں تھی۔ بہت سے لوگوں نے ان کالموں کے حوالے سے مجھ پر تنقیدکی۔ الزام تراشیاں ہوئیں۔ کہا گیا کہ یہ کالم ”لفافے“ کی کرامات ہیں۔ لیکن تنگ نظری پر مبنی اس ردعمل کے مقابلے میں میں نے ایم کیو ایم کے سیاسی سفر کی جو داستان لکھی اُسے وسیع حلقے میں قابل اعتنا سمجھا گیا۔ دوسری طرف میں نے ایم کیو ایم کے بارے میں بھی کچھ تلخ حقائق کی نشاندہی کر دی تھی۔ اندیشہ تھا کہ ایم کیو ایم کی قیادت جو اپنے بارے میں انتہائی حساس ہے، کسی منفی ردعمل کا اظہار نہ کرے؟ لیکن اُس طرف سے انتہائی دوستانہ ردعمل پر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ اس تجربے سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ پنجاب میں ایم کیو ایم کی بات سننے کی گنجائش پیدا ہو چکی ہے اور خود ایم کیو ایم پنجابیوں کی طرف سے تنقیدی خیالات سننے پر آمادہ ہو چکی ہے۔ جب یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو دونوں اطراف میں مکالمے کا راستہ نکل آتا ہے۔ اس کا ایم کیو ایم کو بھی احساس ہو چکا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے گزشتہ چار برس سے پنجاب میں اپنی تنظیم پھیلانے کا سلسلہ سرگرمی سے شروع کر رکھا ہے۔ اب اسے پنجاب میں کارکن بھی دستیاب ہیں اور دفاتر کھولنے کے لئے مشکلات کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ ہرچند کہ پنجاب کے روایتی حکمران طبقے آج بھی ایم کیو ایم کے لئے اچھے جذبات نہیں رکھتے۔ وہ اپنے تمام ”ذرائع“ استعمال کر کے ایم کیو ایم کے اثرات کو محدود رکھنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور گزشتہ سال کراچی میں 12 مئی کے واقعات کا فائدہ اٹھا کر ایم کیو ایم کی نوزائیدہ تنظیم کو بہت نقصان پہنچایا گیا۔ اُس کے ہمدرد اور کارکن دفاعی پوزیشن میں آ گئے اور اُن واقعات کے اثرات آج بھی عوام کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ لیکن جو لوگ ایم کیو ایم سے وابستہ ہو چکے تھے انہوں نے بہادری سے اس مخالفانہ صورتحال کا مقابلہ کیا اور آج پنجاب میں اُس کے سینکڑوں ٹکٹ ہولڈر قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں امیدوار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسی جماعت جس کا پنجاب میں نام سننا بھی گنوارا نہیں کیا جاتا تھا، اگر الیکشن میں حصہ لینے کے لئے اتنے امیدوار حاصل کر سکتی ہے تو پھر اُس کے لئے مایوسی کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ ایم کیو ایم نے زلزلے کے موقع پر جو امدادی کام کئے تھے اُن کا اثر پورے ملک کی طرح پنجاب میں بھی بہت مثبت ہوا۔ میرا خیال ہے الطاف حسین کو پنجاب میں اپنے خلاف ہونے والے اُس طویل منفی پراپیگنڈے کی شکایت چھوڑ دینا چاہئے جو اب دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔ ایم کیو ایم کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں معاشرے کے اُن طبقوں کو سیاسی طاقت دینے کے راستے پر گامزن ہے جنہیں ہمیشہ دربار داری کے لئے رکھا جاتا تھا۔ محنت کش، متوسط طبقے کے لوگ اور وہ پڑھے لکھے ملازمت پیشہ افراد جنہیں ایم کیو ایم حکمران طبقوں کے برابر لا کر بٹھا دیتی ہے۔ پنجاب کے حکمران طبقے انہیں برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ایم کیو ایم کا دوسرا گناہ یہ ہے کہ وہ انتہا پسند مذہبی تنظیموں اور مذہب کے نام پر استحصالی طبقوں کے مفادات کے پہرے داروں کے گھناؤنے کردار سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ یہاں اسے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں بڑی مشکلات سے گزرنا پڑے گا۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ پنجاب میں ایم کیو ایم کے نئے دفاتر پر حملے کرنے والے ایک مذہبی تنظیم کے کارندے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مزاحمت شدید ہے اور اس تخریبی عمل میں انہیں عوام کی تائید بھی حاصل نہیں ہو رہی تو انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ لیکن یہ پہلا مرحلہ ہے۔ ایم کیو ایم کی اصل لڑائی حقیقی حکمران طبقوں کے ساتھ ہو گی اور بدقسمتی یہ ہے کہ متوسط طبقے کے جن لوگوں کو ایم کیو ایم سیاسی طاقت دینے کے لئے سرگرم عمل ہے سب سے زیادہ مخالفت بھی اُسی کی طرف سے ہو گی۔ اس طبقے کی رومانوی اخلاقیات ہمیشہ اِس کی سیاسی کمزوری ثابت ہوتی ہے جس کا فائدہ حکمران طبقے اٹھاتے ہیں۔ طاقت کے کھیل میں رومانوی اخلاقیات کی گنجائش نہیں ہوتی اور جب تک پاکستان کے متحارب طبقاتی نظام میں متوسط طبقے اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، حکمران طبقوں کی طبقاتی ساخت میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ لوگوں کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟

میرا خیالات یہ ہیں کہ:

1۔ غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہیں۔

2۔ اور ایم کیو ایم کی غلطیاں بہت حد تک اُن غلطیوں کا رد عمل ہے جو کہ اُس وقت کی حکومتی سطح پر اُن کے ساتھ کیا گیا۔ (اُس وقت کی حکومتوں میں بے نظیر اور نواز شریف شامل ہیں)۔ حکومتی سطح کے علاوہ بقیہ پاکستان کی قومیت پرست قوتیں بھی انکے خلاف غلطی کی حد تک مخالف رہی ہیں۔

3۔ بہرحال سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنا رویہ تبدیل کیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کم از کم اندرون سندھ کے حلقے بہت حد تک ایم کیو ایم کو قبول کرنے لگے ہیں جبکہ پنجاب اور دیگر علاقوں والوں نے ابھی تک ایم کیو ایم کو قبول نہیں کیا ہے۔

4۔ نذیر ناجی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی دوسری قومیتیں ایم کیو ایم کو کبھی قبول کر لیں، مگر مذھبی جماعتوں کے لیے اس کو قبول کرنا سب سے زیادہ مشکل ثابت ہو گا۔
 

دوست

محفلین
ایک وقت تھا کہ میں الطاف حسین سے متاثر ہوگیا تھا۔۔ لیکن پھر 12 مئی جیسے واقعات نے میرے اندر ان کے خلاف زہر بھر دیا۔ ایم کیو ایم کو اگر ہمدردیاں حاصل کرنی ہیں تو اسے کچھ کرکے دکھانا بھی ہوگا۔ پچھلے پانچ سال میں ہم دیکھ ہی چکے ہیں اس کے وزراء نے جو کچھ کیا۔ آئندہ بھی یہی کارکردگی رہی تو ہم تو یہی سمجھیں گے کہ یہ لوگ پنجاب میں بھی کراچی والی غنڈہ گردی اور بوری بند لاشوں کی سیاست شروع کرنا چاہتے ہیں۔
 

اعجاز

محفلین
1۔ 12 مئی آسانی سے نہیں بھلایا جا سکتا اور یہ کوئی غلطی نہیں‌تھی بلکہ پرانی غلطیوں‌ کے دور میں سیکھی گئی عادت تھی جو اس دن پھر زندہ ہوئی۔
2۔ ایم کیوایم نے اب تو 5 سال مستقل حکومت کی لیکن کوٹہ سسٹم پر کوئی قانون کوئی بل نا لاسکے ۔ اگر صرف سڑکیں ٹھیک کرانی ہیں تو بلدیہ کے الیکشن میں‌حصہ لے لیا کریں۔
3۔ پچھلے حکومتی دور میں‌ ایم کیو ایم نے نا صرف محصور پاکستانیوں‌کا مسئلہ بھلائے رکھا بلکہ بالا آخر اس کو اپنے منشور سے بھی نکال دیا ہے۔ نا رہے بانس نا بجے بانسری۔ واضح رہے کے ایم کیو ایم اس بات پر بہت سارے ووٹ لیتی رہی ہے اور یہ اس کے وجود میں‌ آنے کے دلائل میں‌سے ایک ہے 'مہاجروں کے حقوق'

-- یہ میری رائے ہے کسی کا بھی متفق ہونا نا ہونا ضروری نہیں‌ ہے ۔ زیادہ امکان یہی ہے کے میں‌ کسی بحث برائے بحث میں‌ حصہ بھی نا لوں‌ لہٰذا اگر آپ کے خیال میں‌ ایم کیوایم کو ابھی اور وقت چاہئے یہ مسائل حل کرنے کے لیے تو پھر انتظار کریں اور جواب لکھنے سے پرہیز کریں۔۔
 

اعجاز

محفلین
اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ الطاف حسین صاحب کو بات کرنے کا طریقہ بھی سیکھنا چاہئے۔ انٹرویو میں‌ تقریر کرنے والا بندہ بیوقوف ہی لگتا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
جس تنظیم کی ابتدا ہی تعصب کے نظریات سے ہو وہ تنظیم کبھی بھی پھل پھول نہیں سکتی - پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھی پھر انہیں خیال آیا کہ اگر پاکستان پر حکومت کرنا ہے تو اسکا نام اور اپنے نظریات میں تبدیلی کرنا ہوگی- لہٰذا اسکا نام متحدہ قومی موومنٹ کر دیا گیا - جو لوگ طاقت کے زور پر اپنی بات منوانے کے عادی ہو چکے ہوں - وہ کبھی بھی ہمدردی کے متقاضی نہیں ہو سکتے - کراچی میں انکی اتنی دہشت ہے کہ لوگ دل میں اسے برا سمجھتے ہیں لیکن ووٹ انہیں‌ہی دیتے ہیں کیونکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ ووٹ نہیں دیا تو شائد کسی کے خون سے ہاتھ رنگنے میں دریغ نہ کریں -
خدا اس قوم پر رحم کرے -
 

مہوش علی

لائبریرین
جس تنظیم کی ابتدا ہی تعصب کے نظریات سے ہو وہ تنظیم کبھی بھی پھل پھول نہیں سکتی - پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھی پھر انہیں خیال آیا کہ اگر پاکستان پر حکومت کرنا ہے تو اسکا نام اور اپنے نظریات میں تبدیلی کرنا ہوگی- لہٰذا اسکا نام متحدہ قومی موومنٹ کر دیا گیا - جو لوگ طاقت کے زور پر اپنی بات منوانے کے عادی ہو چکے ہوں - وہ کبھی بھی ہمدردی کے متقاضی نہیں ہو سکتے - کراچی میں انکی اتنی دہشت ہے کہ لوگ دل میں اسے برا سمجھتے ہیں لیکن ووٹ انہیں‌ہی دیتے ہیں کیونکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ ووٹ نہیں دیا تو شائد کسی کے خون سے ہاتھ رنگنے میں دریغ نہ کریں -
خدا اس قوم پر رحم کرے -

سخنور برادر،

مسئلہ یہ ہے کہ ایک تنظیم غلط وجوہات کی بنا پر وجود پر آئی، مگر اب اگر وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرنے جا رہی ہے تو ہمیں اسکا خیر مقدم کرنا چاہیے یا حوصلہ شکنی؟

اور یہ بھی سمجھیے کہ پاکستان میں ہمیں بہت پیار و محبت کی ضرورت ہے۔

دیکھیئے، میں اس منطق کو کبھی قبول نہیں کرتی جب لوگوں کو صرف ایم کیو ایم کی غلطی نظر آ رہی ہوتی ہے اور اُس وقت وہ بالکل اندھے ہو جاتے ہیں جب انہیں وہ حقائق دکھائے جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ تنظیم وجود میں آئی اور اس نے مہاجر عوام میں اتنا زور پکڑا۔ کیا آپکو نہیں پتا کہ کراچی کی عوام کا کس طرح استحصال ہوا ہے اور ہمارے ارباب اختیار نے کس طرح کا طرز عمل رکھا ہے؟

خطرناک بات یہ ہوئی ہے کہ ان ارباب اختیار کا تعلق پنجاب سے رہا ہے یا پھر سندھ سے۔ اس وجہ سے کراچی میں جتنی اہم گورنمنٹ پوسٹیں تھیں، اُن پر لوگ پنجاب سے آئے یا پھر انتہائی کم پڑھا لکھا ہونے کی باوجود بھی مہاجر نے دیکھا کہ ایک سندھی بغیر قابلیت کے اُس سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا کہ جہاں پر اُسکا حق تھا اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا رہا کیونکہ مرکزی اور صوبائی حکومت سندھی تھی اور کراچی میں موجود ہر سرکاری ادارے میں بھرتیاں قابلیت کی بنا پر نہیں بلکہ "صوبائی عصبیت" کی بنا پر ہو رہی ہے۔

جی ہاں یہی وہ "صوبائی عصبیت" ہے کہ جس کا الزام براہ راست ایم کیو ایم پر لگایا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے کے حقائق سے سب نے اندھے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔

کیا آپ کو پتا ہے کہ کراچی کی پولیس 85 فی صد پنجاب اور دیگر علاقوں کے لوگوں پر مشتمل ہے/تھی؟ اور اس پولیس نے ایم کیو ایم کے کتنے کارکنوں کو تحویل میں لے کر چیرے دیے ہیں؟

کیا آپکو پتا ہے کہ سہراب گوٹھ میں کیا ہوتا ہے؟
//////////////////////////

مجھے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا کچھ علم نہیں تھا اور پاکستان میں بھی آنا جانا صرف لاہور کی حد تک ہے۔ مگر پاکستان کی بات ہے تو انصاف ہر گروہ سے کرنا ہی پڑے گا۔

کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو بلوچوں کی مسلح جدوجہد تو قابل قبول ہے اور اس میں حکومتِ وقت ہی قصوروار ہے، اور ان بلوچ برادران کے حقوق پر میڈیا میں کھل کر لکھا جا رہا ہے۔
مگر جب ایم کیو ایم کی بات آتی ہے تو انکے پاس اسلحہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ انہیں دھشت گرد قرار دے دیا جائے [جبکہ کراچی کی پشتون اور سندھی آبادی کے پاس جو اسلحہ ہے اُس سے اندھے پن کا مظاہرہ کیا جائے حالانکہ شروع میں یہ کام پشتون آبادی نے ہی کیا تھا کہ اسلحہ کے زور پر مہاجروں کی پٹائی کی تھی] اسکے بعد جمیعت نے کالجوں میں اسلحہ دکھایا، سندھی عوام نے اندرون سندھ اسلحہ کے زور پر مہاجروں سے جو سلوک کیا اُس پر ایک آہ بھی پنجاب سے نہیں سنی گئی۔

تو برادران،

زیادتی ہوئی ہے، اور ہر فریق سے ہوئی ہے، مگر اسکا حل ہر فریق کے ساتھ محبت سے پیش آنا ہے، نہ کہ اگر کوئی سدھرنے کی کوشش کرے تو اُس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اور سب سے اہم بات، جب کسی زیادتی کی بات ہو تو دونوں طرف کی زیادتیوں کی بات ہو۔ اور آپ پاکستانی میڈیا کی طرح نہ ہو جائیں کہ جس نے 12 مئی کے حوالے سے صرف اُس وقت کی ویڈیوز نشر کیں جب ایم کیو ایم کے اراکین جوابی فائرنگ کر رہے تھے [اس سے قبل ایم کیو ایم کے جلوس جو کہ خواتین اور بچوں پر مشتمل تھے ان پر فائرنگ ہو چکی تھی] تو اس ایم کیو ایم کے جلوس پر جنہوں نے پہلے فائرنگ کی اس کو ہمارا آزاد اور غیر جانبدار میڈیا ڈکار مارے بغیر پی گیا۔

پھر میڈیا کو صرف ایم کیو ایم کے اراکین ہی اسلحہ کے ساتھ نظر آئے اور انہوں نے اُنہی کو اسلحہ کے ساتھ کوریج دی، جبکہ جواب میں ایم کیو ایم نے سہراب گوٹھ اور دیگر علاقوں کی ویڈیوز جاری کیں جن میں ہر تنظیم کی افراد اپنے جھنڈوں کے ساتھ مسلح تھے۔ اور اسی مسلح قوم نے بینظیر کی موت پر کراچی میں تباہی پھیلائی۔ مگر اس پر ہمارے آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کو اب بھی صرف ایم کیو ایم کے ہاتھوں میں ہی اسلحہ نظر آتا ہے اور اگر وہ اندھے ہوئے تو ایسے اندھے ہوئے کہ آج تک انہیں سہراب گوٹھ میں ایک بھی ہتھیار نظر نہیں آیا، نہ اس کی کوریج ہوئی، نہ اس کے خلاف زہریلے مضامیں لکھے گئے اور اسی پروپیگنڈا کا اثر ہے کہ آج پنجاب کا ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ کراچی میں صرف ایک ایم کیو ایم ہی ہے جس کے پاس اسلحہ ہے، ایک ایک کیو ایم ہی ہے جو تمام فساد کراتی ہے، ایک ایم کیو ایم ہی ہے جو دیگر جماعتوں اور قومیتوں کے لوگوں پر ظلم کرتی ہے، مگر آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کو نہ پہلے کی حکومتوں کی کرتوت واضح کرنے کی توفیق اور نہ ہی کسی اور قسم کے انصاف کرنے کی توفیق۔

///////////////////////

اور سیاست میں کیا ضروری ہے کہ ذاتیات پر اُترا جائے؟

عمران خان صاحب کو الطاف حسین کی تقریروں پر بہت اعتراض ہے کہ انہیں لگتا ہے جیسے کوئی پاگل بول رہا ہے۔ وہ اسی بنیاد پر مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ مگر جب لوگ سیتا وائٹ کے حوالے سے انکی ذاتیات کا ذکر کرتے ہیں تو اُس وقت انہیں غصہ چڑھ جاتا ہے۔

میں ذاتیات پر اترنے کی قائل نہیں اور صرف دلائل کی اور حقائق کی قائل ہوں۔ جو لوگ سیتا وائٹ کا ذکر کرتے ہیں وہ میرے نزدیک صرف فتنہ پیدا کر رہے ہیں، اور جن لوگوں کو الطاف حسین کے دلائل کی بجائے اُسکے انداز گفتگو پر اعتراض ہے، تو یہ ایک عبث اعتراض ہے۔

//////////////////

بھائی جی،

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کب ایم کیو ایم نے محصور پاکستانیوں کا مسئلہ اپنے ایجنڈے سے نکالا ہے؟

اور صرف ایم کیو ایم پر ہی الزام کیوں، اور کیوں نہیں آپکے لب ہلے کہ ان محصور پاکستانیوں کی واپسی نہ ہونے کے بڑے گنہگار سندھی، پشتون، بلوچ اور پنجابی ہیں اور صرف ایم کیو ایم پر ہی عصبیت پرستی کا الزام کیوں اور کیوں نہ آپ نے اس وجہ سے ان دیگر قومیتوں پر عصبیت پرست کا الزام لگایا؟ تو یہی ڈبل سٹینڈرڈز ہیں جو ہماری قوم کو کھا جائیں گے۔ ہمیں اس صوبائیت و قومیت کی سطح سے اٹھ کر مسائل کو دیکھنا چاہیے۔

اسی لیے میں نے اپنی اوپر والی پوسٹ میں لکھا تھا:

1۔ غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہیں۔

2۔ اور ایم کیو ایم کی غلطیاں بہت حد تک اُن غلطیوں کا رد عمل ہے جو کہ اُس وقت کی حکومتی سطح پر اُن کے ساتھ کیا گیا۔ (اُس وقت کی حکومتوں میں بے نظیر اور نواز شریف شامل ہیں)۔ حکومتی سطح کے علاوہ بقیہ پاکستان کی قومیت پرست قوتیں بھی انکے خلاف غلطی کی حد تک مخالف رہی ہیں۔

3۔ بہرحال سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنا رویہ تبدیل کیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کم از کم اندرون سندھ کے حلقے بہت حد تک ایم کیو ایم کو قبول کرنے لگے ہیں جبکہ پنجاب اور دیگر علاقوں والوں نے ابھی تک ایم کیو ایم کو قبول نہیں کیا ہے۔
 

اعجاز

محفلین
مہوش۔
مجھے آپ کے دلائل میں‌ کہیں‌ بھی اس بات کے علاوہ ایم کیو ایم کے لیے اور بات نظر نہیں‌ آئی کے ایم کیو ایم کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے چنانچہ وہ بھی ظلم کرتی رہی۔ اب اس نے غلط کام چھوڑ دیے ہیں‌ یا پھر شاید انکے ساتھ ظلم ختم ہوگیا ہےتو لہذا اب سب ان کی تائید کریں۔
یہاں‌ پر آپ کو ایم کیو ایم کا پرانا منشور نظر آئے گا جبکہ یہاں‌ سے آپ نئے کا جائزہ لے سکتی ہیں۔ باقی یہ آپ پر ہے کہ آپ یہ سمجھتی رہیں‌ کہ پنجابی؛ سندھی اور بلوچی چونکہ ان کے لیے کچھ نہیں‌ کر رہے تو ایم کیو ایم بھی چپ سادھ سکتی ہے اگرچہ ووٹ ابھی بھی انہی مہاجروں‌ کے لیے کراچی میں‌ مانگا جا رہا ہے اور تنظیم کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۔
میں‌ نے تو کسی نفرت اور محبت کی بات نہیں‌ کی ہے۔ صرف پرفارمنس پر سوال کیا ہے ۔ میرے خیال میں‌ اگر ایم کیو ایم کوٹہ سسٹم اور محصورین کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتی تو اس کا قعمی اسمبلی میں‌ آنے کا کوئی حق نہیں‌ ہے۔
میں‌پنجابی نہیں‌ہوں پر جانتا ہوں‌ کہ ابھی تک آخری شخص جس نے ان لوگوں کو بلایا اور رکھا ایک پنجابی غلام حیدر وائیں تھا جس کو شاید اس بات کی سزا بھی دی گئی۔
 

اعجاز

محفلین
جب الطاف صاحب انٹریور کے سامنے تقریر کرتے ہیں‌ اور گندم کے جواب میں چنے آتے ہیں‌ تو انٹرویور بیچارہ اپنا سوال چھوڑ دیتا ہے اور سامع بھی جواب سننے کا انتظار ہی کرتا رہتا ہے۔ میرا نہیں‌ خیال کہ اس میں‌ عمران خان کے ماضی سے مقابلہ کی کوئی چیز ہے۔ پر آپ کی مرضی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش۔
مجھے آپ کے دلائل میں‌ کہیں‌ بھی اس بات کے علاوہ ایم کیو ایم کے لیے اور بات نظر نہیں‌ آئی کے ایم کیو ایم کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے چنانچہ وہ بھی ظلم کرتی رہی۔ اب اس نے غلط کام چھوڑ دیے ہیں‌ یا پھر شاید انکے ساتھ ظلم ختم ہوگیا ہےتو لہذا اب سب ان کی تائید کریں۔


بھائی جی، یہی تو مسئلہ ہے کہ مجھے آپ لوگوں کی تحریروں میں صرف ایم کیو ایم کے ظلم کا رونا نظر آتا ہے جبکہ اجتماعی صورتحال پر اور فریق مخالف [بلکہ ایم کیو ایم کے معاملے میں فریقینِ مخالف] کے کردار سے بھرپور طریقے سے اندھے پنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
میں نے تو پہلے دونوں طرف کے فریقوں کو قصوروار ٹہرایا ہے، اور پھر ان حالات سے نکلنے کے لیے اگر کوئی فریق مثبت کوشش کر رہا ہے تو میں نے اسکی حوصلہ افزائی کی ہے۔

مگر اگر آپ لوگ ایک ہی فریق کے پیچھے پڑے رہیں گے، اسی کی غلطیوں کا صرف پروپیگنڈا ہو گا اور فریقین مخالف کی غلطیوں پر پردہ ڈالا جاتا رہے گا، اور اگر کوئی مثبت قدم بھی اٹھایا جائے تو اسکی حوصلہ شکنی کی جائے۔۔۔۔۔ تو ایسی قوم جلد تباہی کے دھانے پر پہنچ جائے گی۔ اگر کراچی کے مہاجر جناح پور نہیں بھی بنا رہے ہوں گے تو اس ناانصافانہ رویے کے بعد بنانے کی ضد کرنے لگیں گے۔

اسی لیے میں کہتی ہوں کہ ہمیں محبت کی ضرورت ہے نفرتوں کی نہیں۔ ایک دوسرے کے ماضی [جس میں صرف ایم کیو ایم نہیں بلکہ تمام فریقین کا بھیانک ماضی شامل ہے] نظر انداز کرنا ہو گا اور مثبت فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔

یہاں‌ پر آپ کو ایم کیو ایم کا پرانا منشور نظر آئے گا جبکہ یہاں‌ سے آپ نئے کا جائزہ لے سکتی ہیں۔ باقی یہ آپ پر ہے کہ آپ یہ سمجھتی رہیں‌ کہ پنجابی؛ سندھی اور بلوچی چونکہ ان کے لیے کچھ نہیں‌ کر رہے تو ایم کیو ایم بھی چپ سادھ سکتی ہے اگرچہ ووٹ ابھی بھی انہی مہاجروں‌ کے لیے کراچی میں‌ مانگا جا رہا ہے اور تنظیم کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۔

بھائی جی، جسے آپ پرانا منشور کہہ رہے ہیں وہ 1998 کا ہے اور اس منشور کا صفحہ تو کھل گیا ہے اور اس پر محصورینِ پاکستان کا مسئلہ بالکل صاف ہے۔ مگر جس چیز کو آپ نیا منشور کہہ رہے ہیں وہ انکے ویب سائیٹ کا مرکزی صفحہ ہے اور اس پر کہیں بھی محصورین پاکستان کے متعلق کوئی خبر موجود نہیں ہے کہ ایم کیو ایم اب ان محصورین کی واپسی کے خلاف ہے۔
تو کیا آپ نے ان کا ذکر مرکزی صفحہ پر نہ ہونے کا مطلب یہ لیا ہے کہ ایم کیو ایم محصورین پاکستان کی واپسی کے خلاف ہو گئی ہے، یا اس چیز کو انہوں نے اپنے منشور سے نکال دیا ہے؟
تو میں تو آپ سے اس بات پر متفق نہیں اور اگر ایم کیو ایم کو طاقت ہو تو وہ یقینا محصورین پاکستان کو ایک دن کا وقفہ کیے بغیر واپس لے آئیں گے۔


میں‌ نے تو کسی نفرت اور محبت کی بات نہیں‌ کی ہے۔ صرف پرفارمنس پر سوال کیا ہے ۔ میرے خیال میں‌ اگر ایم کیو ایم کوٹہ سسٹم اور محصورین کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتی تو اس کا قعمی اسمبلی میں‌ آنے کا کوئی حق نہیں‌ ہے۔

صرف اُن کو اسمبلی میں آنے کا کوئی حق نہیں جو کہ محصورین پاکستان کو آج تک پاکستان واپس لانے کے خلاف کام کرتے رہے ہیں، مگر اب بھی دندناتے ہوئے اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ ہم میں سے بہت سوں کے پاس ایم کیو ایم کی زیادتیوں کا رونا رونا کے لیے تو وقت ہے مگر ان اسمبلی اراکین کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت اور توفیق نہیں جو آج تک اپنی صوبائی عصبیت کی وجہ سے ان محصورین پاکستان کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور اسقدر طاقتور ہیں کہ ہر اخلاقی اور قانونی قید کو توڑ دیتے ہیں اور پھر بھی صوبائی عصبیت کے الزام سے بچ جاتے ہیں۔

میں‌پنجابی نہیں‌ہوں پر جانتا ہوں‌ کہ ابھی تک آخری شخص جس نے ان لوگوں کو بلایا اور رکھا ایک پنجابی غلام حیدر وائیں تھا جس کو شاید اس بات کی سزا بھی دی گئی۔

بھائی جی، کیا استثنائی واقعات کو آپ عموم پر غالب کر دیں گے؟ ایک غلام حیدر وائیں ہی نہیں، پنجاب بلکہ پاکستان کے بہت سے لوگ ان محصورین پاکستان سے کیے جانے والے سلوک پر اشک بار ہیں اور یہ لوگ دل سے پاکستانی ہیں۔
مگر کبھی آپ نے سوچا کہ ان نیک دل عصبیتوں سے پاک پاکستانیوں کی نیک نیتی کے باوجود کیا وجہ ہے کہ یہ محصورین اب تلک پاکستان نہیں پہنچ سکے؟ جی ہاں، اسکی وجہ وہ صوبائی عصبیتیں ہی ہیں جو کہ ہماری قوم کی اکثریت بنا رہی ہیں اور اسی اکثریت کی بنیاد پر وہ لوگ قومی اسمبلی میں جا کر طاقت حاصل کر رہے ہیں کہ جنکی طاقت کے سامنے ان محصورین کا طاقتور کیس بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور ان صوبائی عصبیت رکھنے والوں کی اسمبلی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ ایم کیو ایم اپنے دس پندرہ اراکین کے ساتھ انکا تنکہ بھی نہیں اکھاڑ سکتی۔
یہ صوبائی عصبیت رکھنے والے شاید ایک دوسرے کے بھی دشمن ہوں، مگر جب محصورینِ پاکستان کی بات آتی ہے تو یہ سب متحد ہوتے ہیں۔
اور یہ ابھی تک طاقتور یوں ہیں کہ ہماری قوم کا رویہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی ان صوبائی عصبیت والوں پر کھل کر الزام ہی نہیں لگایا، بلکہ اسکی طرف سے مکمل اندھے پن کا مظاہرہ ہے، اور پروپیگنڈہ ہے تو یہ ہے کہ محصورینِ پاکستان صرف اس لیے واپس نہیں آ سکے کیونکہ ایم کیو ایم انہیں واپس نہیں لانا چاہتی، یا پھر لانا بھی چاہتی ہے تو نالائق جماعت ہے اور اس لیے محصورین پاکستان کا یہ حق نہیں منوا سکی۔
تو بھائی جی، یہ پرفارمنس ایم کیو ایم کی پرفارمنس نہیں، بلکہ ہماری بطور قوم بُری پرفارمنس ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا یہ جماعت یعنی ایم کیو ایم اپنے اندر جمہوری رویہ رکھتی ہے یا پھر اس پر بھی فرد واحد کی حکمرانی ہے؟

اگر اس پر فرد واحد کی حکمرانی ہے تو کیا اس کی حمایت کرنا جائز ہے؟ اگر ہاں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل کو وہ فرد واحد بے نظیر کی طرح پارٹی کو اپنی کسی اولاد میں نہیں چھوڑ جائے گا؟

جیسا کہ مہوش بہن نے لکھا کہ

مسئلہ یہ ہے کہ ایک تنظیم غلط وجوہات کی بنا پر وجود پر آئی، مگر اب اگر وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرنے جا رہی ہے تو ہمیں اسکا خیر مقدم کرنا چاہیے یا حوصلہ شکنی؟

جب قیام کی وجوہات ہی غلط ہیں تو انہیں درست کرنا چاہیئے، یعنی جس جماعت کا قیام ہی غلط ہے، کیا اس کی حمایت کرنا درست ہے؟ یعنی جب جماعت کا قیام غلط ہے تو وہ اپنی کس غلطی کی اصلاح کرنے جا رہی ہے؟ کیونکہ وہ خود غلطی کی پیداوار ہے؟
 

خرم

محفلین
ناجی صاحب کی کیا بات ہے۔ علم ہے لیکن بکاؤ ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے حضرت "جناح پور"‌کی سازش پر سب سے پہلے لکھنے کی داد چاہتے تھے اور آج الطاف کے گُن گا رہے ہیں۔ باقی مہوش بہنا اگر ایم کیو ایم نے کراچی میں‌دہشت گردی بند کردی ہے، بھتہ لینا بند کر دیا ہے اور اسے شخصی کی بجائے جمہوری پارٹی بنا دیا ہے۔ اگر اس نے حکیم سعید اور تکبیر کے ایڈیٹر سمیت دوسرے لوگوں کے قتل میں ملوث‌افراد کو حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ اگر اس نے بارہ مئی ایسے لاتعداد واقعات میں ملوث افراد کو قانون کے حوالے کردیا ہے تو شاید اس کی کایا پلٹ‌کے بارے میں کوئی بات سُنی جا سکے۔ وگرنہ تو الطاف بھی ایک جاگیردار ہے جس کی جاگیر کراچی ہے۔ اللہ معاف کرے جب ٹی وی پر اس کے خطاب کی ویڈیو دکھائی جاتی ہے تو اپنی قوم کے ذہنی دیوالیہ پن پر افسوس ہوتا ہے۔ ایک سپیکر کے سامنے ڈھیر سارے مائیک پڑے ہوتے ہیں اور سب حلقہ بگوش ہوتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے الطاف صاحب رو رو کر بے نظیر کو یاد کر رہے تھے اور آج ان کی پارٹی نے پی پی پی سے مسلح تصادم میں ان کا ایک آدمی مار دیا ہے۔ ایم کیو ایم دوسرے علاقوں میں جانا چاہتی ہے لیکن اپنی جاگیر میں آنے والے کو ماردینا چاہتی ہے۔ باقی پراپیگنڈہ کا کیا ہے، شیطان کے حق میں بھی ہوتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اردو سیک کی سائٹ سے یہ ایک اقتباس پیش ہے

ملیر کی گلیاں

ملیر کی یادوں کے ساتھ ہرے بھرے پیڑ وابستہ ہیں: امرود، آم، انار، نیم، گلاب، چمبیلی، موتیا۔
ہم بچے نانی کے گھر ہر ہفتے جایا کرتے۔ نانا اور ماموں کے کوارٹر ملے ہوئے تھے۔ ہر کوارٹر میں ایک کمرہ اور ایک بڑا سا آنگن تھا۔ نانا، نانی کے ساتھ خالہ رہتی تھیں اور ماموں، ممانی اور ان کے تین بیٹے ایک ساتھ۔ دونوں کوارٹروں کی درمیانی دیوار نہ تھی لہذا یہ ایک بڑا سا گھر نظر آتا۔ نانی کے آنگن میں امرود کے تین چار پیڑ قطار سے لگے ہوئے تھے اور ایک انار کا درخت تھا۔ ماموں کی طرف ایک بڑا سا نیم کا پیڑ اور موتیا، چمبیلی، اور گلاب کی جھاڑیاں تھیں۔
چھٹیوں کی دوپہر ہم بچے درختوں پر چڑھتے، امرود توڑ توڑ کر کھاتے، آنکھ مچولی کھیلتے۔ شام کو سڑک کے اس پار ملیر ریلوے اسٹیشن کی سیر کو جاتے۔ اور اسٹیشن کے باہر ریل کی پٹریوں کے نیچے بنی پلیاؤں کے اندر بیٹھ کر اوپر سے جاتی ہوئی ٹرین کی آواز سنتے۔ رات کو نانی چار پائیوں پر صاف ستھرے بستر لگاتیں اور ہمیں کہانیاں سناتیں۔ اور ہم تاروں بھرے آسمان کو تکتے تکتے سوجاتے۔ یہ ۱۹۶۰ کی دہائی کی بات ہے۔
تب ملیر کے ہر کوارٹر میں آنگن اور پیڑ ہوتے تھے اور گلیاں صاف ستھری۔ ہواؤں میں امرود کی مہک اور چمبیلی کی خوشبو بسی ہوتی۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے پیڑوں کو کاٹ کر اضافی کمرے بنانے شروع کیے۔ کچے آنگن پکے ہوتے گئے۔ پیڑوں کی تعداد گھٹتی گئی۔ گلاب اور چمبیلی کی جھاڑیاں بھی بتدریج کم ہوتی گئیں۔ کمروں کے باہر ٹین کے شیڈ ڈال کر برآمدے بنائے گئے۔ یہ ۱۹۷۰ کے عشرے کا ذکر ہے۔
آبادی بڑھتی رہی۔ ۸۰ مربع گز پر بنے ہوا دار اور روشن گھر گھٹے ہوئے چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں والے تاریک، ایک منزلہ، دو منزلہ بدصورت مکانوں میں تبدیل ہو گئے۔ گلیوں کی چوڑائی کم ہو گئی کیونکہ لوگوں نے گھروں کے باہر ناجائز احاطے تعمیر کر لیے اور سیاہ آہنی گیٹ لگا لیے تھے۔ پیڑوں کی شاخوں کی جگہ اب ٹی وی اینٹینے، سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگے جھنڈوں اور ٹیلی فون کے بے ہنگم تاروں نے لے لی تھی۔ یہ ملیر کالونی تھی ۱۹۸۰ کی دہائی میں۔
اور آج، اپریل ۱۹۹۵ کی ایک صبح، میں ملیر کی ایک پکی سڑک پر چلتے ہوئے اس حصے پر قدم رکھتی ہوں جو کلاشنکوف کی گولیوں کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے چھلنی اور ایک انسان کے خون سے سیاہ ہے۔۔۔ وہ انسان جسے آج سے پندرہ دن قبل سڑک کے اسی حصے پر سفاکی سے قتل کیا گیا۔ میں ان تبدیلیوں کو گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہوں جو گزشتہ تین دہائیوں میں اس زمین، اور اس زمین کے باسیوں کی روح میں در آئی ہیں۔ کتنی گمھبیر تبدیلیاں ہیں یہ۔ اور کتنا مسخ کردیا ہے انھو ں نے ، ملیر کو، جو کبھی ایک سرسبز اور پر امن وادی تھی، اور اس کے مکینوں کی روح کو، وہ سادہ لوح ، مہمان نواز مکیں جو پیڑوں، پھلوں، پھولوں، سبک ہواؤں اور ز ندگی سے محبت کرتے تھے۔
اس منظر کا تصور میرے ذہن کے دریچے میں ثبت ہو کر رہ گیا ہے: دوپہر کا وقت ہے۔ زندگی کا کاروبار جاری ہے۔ سڑک کے کنارے بنی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں گاہک کھڑے اشیاء صرف کی خریداری میں مصروف ہیں۔ بچے گلیوں میں کھیل رہے ہیں اور عورتیں گھروں کی دہلیز پر کھڑی ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک کار سڑک پر رکتی ہے۔ سامنے حلوائی اور ڈرائی کلینر کی دکانیں ہیں۔ گاڑی میں سے تین مسلح آدمی اترتے ہیں، ڈکی کھولتے ہیں۔ ایک ادھ موئے، نیم جان، کمر تک ننگے آدمی کو نکالتے ہیں جس کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں، اور اسے تپتی ہوئی تارکول کی سڑک پر پھینکتے ہیں، اس پر کلاشنکوف سے گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں، پھر اس کے چہرے پر ٹھوکر مار کر یقین کرتے ہیں کہ وہ مرچکا ہے یا نہیں۔ اور جب اس کا خون آلود ساکت چہرہ ایک طرف ڈھلک جاتا ہے تو گاڑی کا دروازہ کھول کر اطمینان سے بیٹھتے ہیں اور گاڑی آہستہ خرامی سے سڑک پر چلتی ہوئی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
لاش تین گھنٹے خون کے تالاب میں ڈوبی پڑی رہی۔ وہ ایک تنومند، گھبرو جوان تھا۔ کوئی لاش کے قریب نہ پھٹکا۔ سڑک پر زندگی کا کاروبار جاری رہا۔ البتہ ایک وحشت ناک خاموشی پھیل چکی تھی۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ اپنے کام جلدی جلدی نمٹا رہے تھے اور لاش کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ آخرکار تین گھنٹے بعد ایدھی کی ایمبولیس پہنچی اور لاش اٹھا کر لے کر گئی۔ "ہفتہ بھر وہ لاش مردہ خانے میں پڑی رہی۔ پھر کہیں جا کے اس کی شناخت ہوئی۔ پتہ چلا وہ فوجی تھا،" سفید بالوں اور جھریوں بھرے چہرے والی بزرگ خاتون موضوع سخن سے ہٹ چلی ھیں۔ میں ملیر کے اس گھر میں بیٹھی ان کے نوجوان بھتیجے کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی ہوں جو چند ماہ پہلے اس گھر کے اندر قتل ہوا۔
"خدا رحم کرے ہم سب پر۔ ہمیں کیا ہوگیا؟ کیا ہمارے اندر شیطان حلول کر گیا ہے؟" مقتول نوجوان کی پھوپھی، تسبیح ہلاتی ہوئی، تیز تیز بولے جا رہی ھیں۔ مقتول کی ماں کسی سوئم میں گئی ہوئی ہیں اور میں گھر کی عورتوں سے بات کر رہی ہوں۔
"لوگوں اتنے بےدرد، اتنے بےرحم ہو گئے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں کہ بھیڑ بکریوں کو بھی ایسے ذبح نہیں کیا جاتا۔۔۔" مقتول کی چچی تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہہ رہی ہیں۔ "ساتواں روزہ تھا۔ میں ظہر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھ رہی تھی۔ ریحان دوسرے کمرے میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ریحان کی ماں بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ دودھ والا دودھ دے کر پلٹا تھا اور میں دودھ کی تھیلی ہاتھ میں لیے باورچی خانے کی طرف مڑی ہی تھی کہ اتنے میں ایک سفید کار گھر کے گیٹ پر رکی، تین آدمی بڑی بڑی بندوقیں لیے دراتے ہوئے اندر آگئے اور چلا کر پوچھا ُریحان ہے؟ُ انھوں نے جواب کا انتظار بھی نہ کیا اور سیدھے اندر چلے گئے۔ ہمارے گھر کے ساتھ والا مکان ریحان کا ہے اور اندر سے ایک چھوٹا سا راستہ جو دونوں گھروں کو ملاتا ہے۔ بس وہ سیدھے اس راستے سے ہوتے ہوئے اندر چلے گئے۔ ریحان ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا"، چچی ایک دم سے خاموشی ہو گئیں۔ پھوپھی، ماں اور چچی کی چیخوں اور بچوں کی خوف زدہ ہو کر رونے کی آوازوں کے درمیان قاتلوں نے کمرے میں داخل ہو کر گولیوں کی باڑھ ماری۔ "ریحان کے ہاتھ نماز کے لیے بندھے ہوئے تھے۔ سینے پہ بندھے ہاتھوں کے ساتھ کوئی آواز نکالے بغیر گر گیا۔ بائیس گولیاں نکلی تھیں جسم سے"، وہ مجھے بتا رہی ہیں۔
"یہ سب کچھ منٹوں میں ہو گیا اور قاتل جس راستے سے آئے اسی راستے واپس ہو گئے۔ دو کے منہ پر ڈھاٹے بندھے ہوئے تھے اور ایک جو درمیانی راستہ پر جم کر کھڑا ہوا نقاب نہیں پہنے تھا"، چچی نے بتایا۔ شاید آپ اسے پہچان سکیں؟ میں سوالیہ
"میں؟ نہیں۔ نہیں۔" وہ گبھرا سی گئیں "مجھے اس کی شکل بالکل یاد نہیں۔ ہوش وحواس میں کہاں تھی تب۔"
"اگر پہچان بھی لے تو کیا ریحان ہمیں واپس مل جائے گا؟ جانے والا تو گیا،" پھوپھی جلدی سے بولیں۔
پھوپھی مجھے وہ کمرہ دکھانے لے جاتی ہیں جہاں وہ قتل ہوا۔ یہ ایک بہت تنگ سا کمرہ ہے۔ جس میں صرف ایک صوفہ سیٹ ہے جو تین دیواروں کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ صوفے کی وسطی میز کو چوتھی دیوار کے ساتھ لگا کر رکھا گیا ہے اور کمرے کے وسط میں دری بچھی ہوئی ہے جس پر جائے نماز بچھائی جا سکتی ہے۔ چاروں دیواریں، اور صوفہ سیٹ گولیوں سے چھلنی ہیں۔ میں صوفے پر بیٹھی ہوں۔ ریحان کی چچی ہمارے لیے چائے لے کر آتی ہیں۔
ستائیس سالہ ریحان سات بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑا تھا۔ ریحان کے باپ تیرہ سال پہلے طویل بیماری کے بعد فوت ہوئے۔ ریحان اس وقت آٹھویں میں تھا۔ اس نے پڑھائی جاری رکھی اور لیاقت مارکیٹ میں اپنے ماموں کی دکان میں بطور سیلز مین کام شروع کیا۔ بی۔کام کرنے کے بعد اس نے ڈوپٹوں کی دکان لگائی۔ دو چھوٹے بھائی اس کی مدد سے جمعہ بازار میں اسٹال لگاتے۔ پورے گھر کی ذمہ دار اس پر تھی۔
"ریحان کے قتل کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ بھائیوں نے تین ماہ سے جمعہ بازار میں اسٹال نہیں لگایا ہے۔ ایک چھوٹے بھائی کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ پنڈی بھیج دیا تھا رشتے کے چچا کے پاس۔ لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔ گھنٹوں چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ خلا میں تکتا رہتا ہے۔ ہاتھ کھڑے کھڑے سینے پر باندھ لیتا ہے جیسے نماز پڑھ رہا ہو اور بڑبڑانے لگتا ہے: ُمیرا بھائی ستائیس سال کا تھا۔ اس کی شادی ہونے والی تھیُ۔ اور پتہ نہیں کیا کیا،" پھوپھی کہہ رہی ہیں۔
کیا ریحان کسی سیاسی پارٹی سے وابسطہ تھا؟
پھوپھی اور چچی خاموش ہو جاتی ہیں۔
"ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ آپ اس کی ماں سے بات کریں آ کر۔ وہ بتائیں گی سب"۔
ریحان کا تعلق Mqm سے تھا۔ محلے کے لوگوں سے معلوم ہوا۔ تین سال پہلے ریحان کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اٹھارہ دن بعد واپس آیا۔ "ان دنوں اس نے ایک جگہ نوکری شروع کی تھی اغوا کے بعد اس نے ہمیں کبھی کچھ نہ بتایا۔ لیکن اس کے بعد سے مہینوں وہ دہشت زدہ رہا۔ ہفتوں کھانا نہ کھا سکا۔ نوالہ ہی نہیں نگلا جاتا تھا۔ ایسا خوف، ایسی دہشت تھی کہ ہم نے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کی۔ ماں اور پھوپھی کے بیچ میں لیٹ کر سوتا۔ راتوں کو گھبرا کر اٹھ بیٹھتا۔ بس کچھ نہ پوچھو کیسا کڑا وقت تھا۔ لیکن ایک تسلی تھی، کہ زندہ سلامت تو ہے۔ اب تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ یاد ہی رہ گئی ہے۔

ملیر : اے۔ون ایریا
دیواریں میں لکھے نعروں سے اندازہ ہوتا ہے یہاں Mqm حقیقی کا راج ہے۔ ۱۹۷۰ کے عشرے تک یہ علاقہ ایک کھلے وسیع میدان پر مشتمل تھا جس کے کنارے بیرکوں کی صرف ایک قطار تھی۔ یہ بیرکیں شیڈ کے نام سے مشہور تھیں۔ شیڈ کے آس پاس کچھ جھگیاں تھیں اور بھینسوں کے باڑے۔ یہاں پنجابی، سندھی اور مہاجروں کی ملی جلی آبادی تھی۔ ۱۹۸۰ کی دہائی کے اوائل میں یہ علاقہ دلالوں کے ہاتھ میں آیا جو علاقے میں جلد ہونے والی قانونی پلاٹنگ کے منتظر تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کچے گھروں کی قطاریں کھڑی ہو گئیں۔ ۸۰ کے وسط میں ساٹھ مربع گز کے پلاٹوں کی حد بندی شروع ہوئی۔ شیڈوں کو منہدم کیا گیا اور پرانے مکینوں کو نئے پلاٹ الاٹ ہوئے۔ لیکن ان گنت پلاٹ دلالوں کے ذریعے کراچی کے دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کیے گئے اور یوں اے ون ایریا ۱۹۸۰ کی دہائی کے تین خطرناک عناصر ہتھیار، ہیروئن اور Mqm کی پناہگاہ بن گیا۔ ۱۹۹۲ کے وسط میں ہونے والے واقعات۔۔۔آپریشن کلین اپ اور حقیقی کی پیدائش۔۔۔۔ نے بارود کا کام کیا۔
"ہم ملیر میں ۳۵ سال سے ہیں لیکن ایسے حالات نہیں دیکھے۔ یہ Mqm کی دھڑےبندی تھی جو ہم سب کی بربادی کا باعث بنی۔ لالوکھیت، کورنگی اور دوسرے علاقوں سے Mqm کے لڑکے چھپنے کے لیے یہاں اٹھ آئے۔ چھپنے چھپانے والوں نے ہمارے علاقے کا ستیاناس کیا۔ اب یہ لڑکے بندوقیں لٹکائیں گلیوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ڈاکے ڈالتے ہیں، بھتہ لیتے ہیں۔"
"سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہاں انسانوں کی کوئی عزت نہیں رہی۔ ہماری گلی میں ایک بوڑھا، سفید کچھڑی بال، سبزی کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ اسے ان لڑکوں سے التجا کرنی پڑتی ہے۔ ہاتھ باندھ کے وہ ان اٹھارہ اٹھارہ برس کے لڑکوں سے کہتا ہے، ُسر جی، پھیری لگا لوںُ۔ ایک ہفتہ ہوا، ان لڑکوں نے پنساری کی دکان لوٹ لی۔ گلی کے بچوں میں لوٹی ہوئی ٹوفیاں اور دو دو روپے تقسیم کیے اور کہا، ُبولو، حقیقی زندہ بادُ۔ ہمارے دودھ والے نے میرے میاں کو بتایا کہ لڑکے اس سے دس ہزار مانگ رہے ہیں کہ اسلحہ خریدنا ہے۔ غریب دودھ والا دس ہزار کہاں سے لاتا۔ بیچارہ، یہ علاقہ چھوڑ گیا۔ خدا جانے اب کہاں دودھ بیچاتا ہوگا۔
"تو یہ حال ہے ہمارے علاقے کا۔ یہ غنڈے بدمعاش جن کے منہ سے ابھی دودھ کی بو آتی ہے، نہ صرف یہ کہ بھتہ مانگتے ہیں بلکہ تمہارے منہ پر کہتے ہیں کہ اسلحہ ختم ہو گیا ہے، بندوقیں لانی ہے، گولیاں خریدنی ہیں،" سکینہ، عمر پچپن کے لگ بھگ، مادری زبان پنجابی، سانس لیے بغیر بول رہی ہیں۔ تین سال کے عرصے میں سکینہ نے اس علاقہ کا جو اخلاقی اور معاشرتی زوال دیکھا ہے، اس نے ان کا سر چکرا دیا ہے۔
میں ان کے گھر میں اپنی خالہ کے ساتھ ان کے بیٹے کا حال پوچھنے آئی ہوں جو گلی میں چلنی والی گولیوں سے شدید زخمی ہوا تھا۔ میری خالہ گورنمنٹ کے ایک ادارے سے وابستہ ہیں اور اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اس علاقے میں رہتی ہیں۔
"اس دن بہت فائرنگ ہو رہی تھی۔ احمد نے ہم سب کو اندرونی کمرے میں جانے کو کہا اور برآمدے میں آیا کہ گیٹ بند کر لے۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے گیٹ ذرا سا کھول کر باہر جھانک لیا۔ ایک گولی اس کی دائیں آنکھ کے اوپر لگی اور وہ وہیں گر پڑا۔ باہر لڑکوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں، ُاحمد بھائی کے گولی لگ گئی، فائرنگ بند کرو، فائرنگ بند کروُ۔ فائرنگ بند ہوگئی۔ چند لڑکے ہماری مدد کو آئے اور احمد کو جناح اسپتال پہنچایا گیا۔ دوسرے دن دو تین لڑکے میرے پاس آئے اور کہنے لگے، ُخالہ معاف کرنا۔ لیکن یہ ہماری گولی نہیں تھی جو احمد بھائی کو لگیُ۔ ذرا دیکھو، ان کی ہمت۔ اور ہماری بےبسی! کیا کرسکتے تھے ہم۔ اگر وہ لڑکا بھی، جس کی بندوق سے چلی ہوئی گولی احمد کو لگی، ہمارے پاس آجاتا تو ہم کیا بگاڑ سکتے تھے اس کا؟ کیسا زمانہ آگیا ہے۔ کوئی ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ اور اٹھائے بھی کیسے؟ کوئی دو لفظ بول دے تو جان سلامت نہیں،" سکینہ کہ رہی ہیں، ؛ہر حال میں جیئے جانے کی ہوس نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا۔۔۔" وہ چپ ہوجاتی ہیں۔
"جس دن میرے بھائی کو گولی لگی جی چاہتا تھا پورے اے ون ایریا کو جلا کر خاکستر کر دوں،" احمد کی چھوٹی بہن کی آواز غصے سے کپکپاتی ہے۔ وہ بی۔اے پاس ہے اور ایک دواؤں کی کمپنی میں کام کرتی ہے۔ اس کی دو چھوٹی بہنیں سامنے دری پر بیٹھی مٹر کی پھلیاں چھیل رہی ہیں۔
یہ چھ بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ احمد سب سے بڑا ہے۔ دو بہنیں نوکری کرتی ہیں۔ باپ کبھی فوج میں سپاہی تھے اب معمولی پینشن ملتی ہے۔ احمد ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ پھر اسے فیکٹری سے نکال دیا گیا۔ فیکٹری نقصان میں جا رہی تھی لہذا تیس آدمیوں کی چھٹی ہوئی۔ "ایک دفعہ احمد نے باہر جانے کی کوشش کی۔ آٹھ ہزار مانگ تانگ کر کسی ایجنٹ کو دیئے۔ لیکن یونان والوں نے پکڑ کر واپس بھیج دیا۔" احمد دو سال سے بےروزگار ہے۔
میں خالہ کے ساتھ ملیر کی گلیوں سے گزر رہی ہوں۔ "اس علاقے میں بہت اسلحہ ہے۔ چند ایک خالی گھر ہیں جہاں لڑکوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ گھر اسلحہ ڈپو بنے ہوئے ہیں۔ کبھی ان گھروں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور قطار سے لگی ہوئی بندوقیں، کلاشنکوفیں اور گولیوں کی پیٹیاں ہر آنے جانے والے کو صاف نظر آتی ہیں۔ بندوقیں لٹکائیں یہ لڑکے گولیوں کی پیٹیاں ادھر سے ادھر پہنچاتے رہتے ہیں۔ آج کل البتہ یہ لڑکے روپوش ہیں۔ جب سے دو امریکی مارے گئے ہیں، تب سے ذرا سکون ہے۔
"یہاں دو بدنام ترین لڑکے ہیں حقیقی کے۔ ایک کو تو پولیس گرفتار کر کے لے گئی تھی۔ محلے والوں نے سکون کا سانس لیا کہ چلو ایک تو کم ہوا۔ لیکن ایک ہفتے بعد وہ لڑکا واپس گلیوں میں گھوم رہا تھا اور فخریہ انداز میں لوگوں کو بتا رہا تھا، "دو لاکھ روپے دیئے ہیں"۔ ان لڑکوں نے کمسن بچوں کو تنخواہ پر رکھا ہوا ہے جو پولیس یا دوسرے گروپ کے لڑکوں کے آنے کی اطلاع انھیں وقت پر پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ بچے بڑے ہوکر کیا کرسکیں گے؟ ہمارے محلے میں الطاف گروپ سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ لیکن حقیقی والے ان سے بھی بدتر ثابت ہوئے ہیں"۔
ہم ایک گھر میں داخل ہوتے ہیں جس کا سربراہ، ایک ادھیڑ عمر کا آدمی، پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کا باپ، دو ماہ پہلے فائرنگ میں ہلاک ہوا ہے۔ بیوہ کسی کام سے باہر گئی ہوئی ھیں۔ میں لڑکیوں سے بات چیت کر رہی ہوں۔ سب سے بڑی لڑکی ۲۰ سال کی ہے۔ "اس دن ابا سہ پہر میں گلی کی نکڑ پر مکینک کی دکان سے اپنی اسکوٹر ٹھیک کروا رہے تھے کہ کچھ مسلحہ افراد گاڑی میں آئے اور گولیاں برسا کر چلے گئے۔ مکنیک تو اسی وقت ختم ہو گیا۔ ابا زخمی حالت میں سڑک پر پڑے رہے۔ کوئی اٹھانے نہیں آیا۔ اتفاق سے میرے بھائی نے اس دن فیکٹری سے چھٹی کی تھی۔ جب گولیاں چلنی بند ہوئی تو وہ باہر نکلا۔ دیکھا ابا سڑک پر پڑے ہوئے تھے۔ بہت خون بہہ گیا تھا۔ اسپتال جاتے وقت راستے میں ختم ہو گئے۔
"میرے ابا اور بھائیوں کا کسی بھی پارٹی سے تعلق نہیں رہا لیکن ابا کی موت کے بعد Mqm اور حقیقی دونوں تنظیموں نے دعوہ کیا کہ ابا ان کے پارٹی کے ہمدرد تھے۔ یہ جھوٹ تھا۔ بعد میں جب اخبار سے لوگ آئے تو بھائی نے کسی سے بات نہ کی۔ کیا فائدہ ان سب باتوں کا۔ الٹا نقصان ہی پہنچ سکتا ہے۔ ایک آدمی نے کہا میں دستاویزی فلم بنا رہا ہوں۔ دنیا بھر میں دکھانے کے لیے کہ کتنا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ لیکن میرے بھائیوں نے منع کر دیا"۔
ہم چار پائی پر بیٹھے ہیں اور بچے ہمارے گرد گھیرا ڈالے کھڑے خاموشی سے ہماری باتیں سن رہے ہیں۔
"ابا موٹر سائیکل میں دکانوں کو مال سپلائی کیا کرتے تھے،" وہ مجھے ب تا رہی ہے۔ اب گیارہ افراد پر مشتمل اس خاندان میں دو کمانے والے ہیں۔
"جب بھی فائرنگ ہوتی تھی ابا کہتے دروازہ بند کر لو، باہر نہ نکلو۔ بہت ڈرتے تھے۔ ہنگاموں سے دور رہتے تھے۔ دو دن پہلے ہی کہا تھا کہ کھڑکیوں، دروازوں میں لوہے کی جالی لگوا لیں گے۔ بہت وارداتیں ہو رہی ہیں۔ کسی کو کیا معلوم تھا خود ہی واردات کا شکار ہو جائیں گے"۔
کیا حکومت کی طرف سے کوئی معاوضہ وغیرہ ملا؟
"ہمیں صرف Fir کی کاپی ملی جو پولیس نے خود درج کی تھی۔ اور ابا کی موت کا سرٹیفکٹ، جو اسپتال والوں نے دیا۔"
"لیاقت آباد میں بہت برا حال ہے۔ جہاں میں رہتی ہوں۔ لیکن یہاں کے حالات تو بہت ہی خراب ہیں،" ایک بوڑھی خاتون جو گھر میں مہمان آئی ھیں بتانے لگیں۔ "دو مہینے پہلے میں یہاں آئی تھی۔ بس سے اتر کر گلی میں داخل ہوئی۔ میری نظریں اتنی کمزور ہیں کہ میں صرف زمین کی جانب نظریں جمائے رکھتی ہوں کہ کسی پتھر سے ٹھوکر نہ کھاؤں۔ ادھر ادھر تو دیکھتی نہیں ۔۔" انھوں نے موٹے موٹے شیشوں والا چشمہ درست کیا، اور بولیں، "میں جب گلی میں داخل ہوئی اور نظر اٹھائی تو دیکھا تین لڑکے یہ لمبی لمبی بندوقیں کندھوں پر لٹکائے کھڑے ہیں۔ میں وہیں بت بن گئی۔ مجھ سے اگلا قدم اٹھائے نہ اٹھے۔ خوف تھا کہ ہلی اور ان لڑکوں نے گولی چلائی۔ ایک لڑکے نے میرے سفید گال اور جھکی ہوئی کمر کو دیکھتے ہوئے کہا ُاماں ڈر گئیں؟ُ میں بولی ُبیٹا، ڈروں کیسے نہیں؟ بندوق جو اٹھائے ہوئے ہوُ۔ بولا ُاماں، تم تو خود مری ہوئی ہو۔ تمہیں کیا ماریں!ُ
ہم تنگ گلیوں سے گزر کر خالہ کے گھر واپس لوٹتے ہیں۔ "یہاں منشیات کا مسئلہ بھی ہے،" خالہ کہتی ہیں۔ ایک مکان کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر ایک آدمی بیٹھا ہے۔ سرخ آنکھیں، گالوں کی ہڈیاں نکلی ہوئی، خالی الزہن، خلا میں گھورتا ہوا۔
"کچھ لوگ کھلم کھلا بیچتے ہیں ہیروئن۔ ایک پکڑا بھی گیا تھا۔ لیکن چھوٹ کے آگیا۔ اس کا بھائی وکیل ہے۔"
میری خالہ کو حالات سے باخبر رہنا پڑتا ہے۔ ان کے بچے چھوٹے ہیں اور اسکول کالجوں میں پڑھ رہے ہیں۔ بڑی بیٹی کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ دو لڑکوں نے تکنیکی ڈپلومے لیے ہیں اور اب ٹیکسٹائل ڈیزائن کا کام شروع کیا ہے۔ خالہ کی زندگی جدوجہد کی داستان ہے۔ خالو کی مسلسل بیماری کی وجہ سے گھر بار کا پورا بوجھ ہمیشہ خالہ پر ہی رہا۔
"اور اب میں سوچنے لگی تھی کہ چلو بچوں کی تعلیم ختم ہونے کو آ رہی ہے اور وہ برسر روز گار ہونے لگے ہیں۔ سکون سے بقیہ دن گزر سکیں گے۔ لیکن اب یہ گھر ہے، اور ہم،" خالہ ہرے بھرے گملوں پر نظر ڈالتی ہیں۔ برآمدے میں سیمنٹ کی چادر ڈلوا کر لوہے کی جالی لگوائی ہے۔ سفید پینٹ تازہ ہے۔ "اور یہ محلہ۔۔۔ جو تیزی سے تباہی کے گڑھے میں گر رہا ہے۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میں دلدل پہ چل رہی ہوں۔ بس ایک تسلی ہے، اگر اسی تسلی کہہ لو،کہ میں تنہا نہیں ہوں۔ ہم سب ہی اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ لیکن شاید آگے دلدل ختم ہو جائے اور زمین مضبوط، کون جانے۔۔۔"، خالہ کے چہرے پہ ایک موہوم سی مسکراہٹ ہے۔
**

زینت حسام
 

باسم

محفلین
آج کل کی بات ہے سائن بورڈ پر کمپنی کا اشتہار لگا ہے راتوں رات ایم کیو ایم کی اشتہاری مہم کا حصہ بن گیا اب تعلقات اور سفارشیں ڈھونڈی جارہی ہیں حلقہ کی امیدوار سے بات کرنے کیلیے جو صرف الیکشن میں حصہ لینے پاکستان آئی ہیں ورنہ انکی فیملی ملک سے باہر سیٹل ہے۔
پتا ہے سفارش کس بات کی ایم کیو ایم سے اشتہار ہٹانے کی نہیں نیچے لگا کمپنی کا اپنا اشتہار ہٹوانے کی
تو پھر تبدیلی کہاں آئی؟
 

محسن حجازی

محفلین
ناجی صاحب برائے فروخت کی تختی گلے میں ڈالے گھومتے ہیں۔ خود اپنے ہی کالم میں ایک بار انہوں نے اعتراف کیا کہ میں 'قلمی مزدوری' کرتا ہوں اور اس کے عوض اگر کچھ لے لیتا ہوں تو کیا برا ہے؟ لہذا یہ بھی Paid Column ہے۔ اقتباس کے طور پر جملے بھی پیش کر سکتا ہوں۔
 
اردو سیک کی سائٹ سے یہ ایک اقتباس پیش ہے

ملیر کی گلیاں

ملیر کی یادوں کے ساتھ ہرے بھرے پیڑ وابستہ ہیں: امرود، آم، انار، نیم، گلاب، چمبیلی، موتیا۔ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"، خالہ کے چہرے پہ ایک موہوم سی مسکراہٹ ہے۔
**

زینت حسام
ویسے یہ حقیقی کے بارے میں‌ ہے مگر الطافی دھشت گردوں کی حرکات بھی کم نہیں۔ اور پھر پہلے تو یہ ایک ہی تھے۔
ایم کیو ایم کے شدید مخالف ہونے کے باوجود میں‌مہوش کی کافی باتوں سے متفق ہوں۔ پنجابی، پٹھان اور دیگر قومیتوں کے کچھ افراد نے کراچی میں‌ایم کیو ایم سے کم دھشت گردی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ ان سب تنظیموں‌اور ان کے پس پردہ افراد میں‌ ایک بات مشترک تھی۔ یہ سب فوج کے ایجنٹوں کے طور پر کام کررہے تھے/ہیں۔
 
خدا جانے، ایم۔کیو۔ایم کون سی اصلاح کررہی ہے؟ ہاں! پہلے صرف یہ تھا کہ کراچی تک محدود رکھا تھا اب کراچی سے باہر جانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کراچی سے باہر والے اتنا نہیں سمجھ سکتے جتنا کراچی میں رہنے والوں نے ان کا عذاب بھگتا ہے۔
محصورین کو واپس لانے کی بات واقعی اب منشور میں نظر نہیں آرہی۔ ناظم آباد کے پل کے پاس گورنمنٹ کالج فار مین کے سامنے ایک بورڈ پر ان کا منشور لگا ہے۔ اس میں محصورین کا تذکرہ تو نہیں۔۔۔

البتہ ایک عجیب سا جملہ لکھا ہے: "خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک"۔۔۔۔! ;) دنیا بھر میں تو برابری کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔۔۔۔ :lll:
 

خاور بلال

محفلین
"بوچر آف نیشن" کو برا مت کہیں، وہ تو ہمدردی کے مستحق ہیں۔ اگر کوئ ذہنی معذور ہو جائے یا کسی نفسیاتی عارضے میں‌مبتلا ہوجائے تو اسے کیا کوسنے دینے چاہئیں؟ نہیں بلکہ اسے ہاسپٹل لے جانا چاہیے۔ حال ہی میں عامر خان کی نئ فلم "تارے زمین پر" ریلیز ہوئ ہے، کیا آپ نے اس فلم سے کوئ سبق نہیں سیکھا۔
 

ساجداقبال

محفلین
ایم کیو ایم اچھی بری جو بھی ہے۔۔۔۔اگر پنجاب آ گئی ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔ابھی ہم محفوظ ہیں۔۔۔اللہ خیر کرے ایک سرحدی گاؤں میں‌ انکا امیدوار کھڑا ہوا ہے۔ پھر کہوں گا کہ اگر ایم کیو ایم فرشتوں کی جماعت ہے تو بھی ہم لنڈورے ہی سہی۔۔۔
 
Top