پنجاب حکومت نے دسویں جماعت کے کورس سے اسلام کے اسباق نکال دئیے

متلاشی

محفلین
اجی عاطف بٹ بھائی ۔۔۔!
ہمیں کیوں ٹیگ کر دیا۔۔۔!
ہم عرض کریں گے تو (بہت سوں کو ) شکایت ہو گی ۔۔۔!
سو اسی واسطے خاموش ہیں۔۔۔۔!
پورے دھاگے پر نظر البتہ رکھے ہوئے ہیں۔۔۔! ;)
 
جب کوئی فوجی بنے تو جا کر پڑھ لے ساری جنگیں اسٹریٹیجی مشہور جنگیں جنگی چالیں اور بے شک سارے غزوے سریے بھی پر ایک بچے کو ایک آپ کیسے یہ سب پڑھا سکتے ہیں ؟ میں نے کب کہا نا پڑھائیں پر عمر کے حساب سے
دسویں جماعت کا طالب علم اتنا بھی بچہ نہیں ہوتا۔۔۔۔آپ اسکی شادی تو کروا کر دیکھیں;):p
 

یوسف-2

محفلین
اس سلسلے میں بنیادی سی بات یہ ہے کہ جب تک آپ روایتی تعلیمی ادارے قائم نہیں کرتے تب تک تو نصاب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی آپ کوئی درسگاہ قائم کرتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو کوئی نصاب بھی طے کرنا پڑتا ہے اور دنیا بھر میں دستور یہی ہے کہ طے کیا جانے والا نصاب اس علاقے، خطے یا ملک کے رہنے والوں کی غالب اکثریت کے نظریات اور حکومتی بزرجمہروں کے ظاہری فکری رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔ اسی نکتے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں ایسا نصاب بنانے کی کوشش کی گئی جو عوام کی غالب اکثریت کے مذہبی نظریات اور فکری رجحانات سے ہم آہنگ ہو (یہ الگ بحث ہے کہ کتنے فیصد لوگ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر اس نصاب سے کوئی مثبت راہنمائی لینے کے قابل ہوپائے)۔ دنیا کے ہر ملک میں نصاب وہاں کے باسیوں کے مذہبی و معاشرتی رویوں کے رنگوں میں گندھا ہوا ہوتا ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں جہاں نوے فیصد سے زائد لوگ اسلام سے وابستگی کے دعویدار ہیں وہاں اس بات کو بحث کا موضوع بنادینا محض اس ملک کو غیرمستحکم کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
اسلام کی ترویج و اشاعت کیسے ہوئی اور اس میں کن عوامل و عناصر نے کتنا کردار ادا کیا، یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے۔ وہ عوامل جو اسلام کو انسان کے لئے لازم قرار دیتے ہیں انسان کے اپنے ہی فطری اور جبلی تقاضے ہیں۔ انہی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں نسلِ نو کے لئے ایسا نصاب تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جو اسے اس کے ماضی کے بارے میں آگاہی مہیا کرسکے۔ ایک سوچ یہ تھی کہ مستقبل کی بہتری کے لئے اس نئی نسل کو حال میں جو رویے اپنانے ہیں وہ بھی ماضی کی اسی آگاہی کے رہینِ منت ہوں گے۔ مسلم رویے اسی نصاب کے تابع جیسے تشکیل پائے تھے اس کے دسیوں یا بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں مثبت نمونے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں مگر افسوس کہ ہمارے اپنے ہی لوگوں نے ہماری اجتماعی دانش اورمجموعی فکر کو اغیار کے سامنے یوں مزاح بنا کر رکھ دیا کہ آج محض منفی مثالیں پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارے نصاب نے یہ غلط رویہ تشکیل دیا ہے یا ہماری تعلیم فکری کجی کے ایسے رجحان کو پروان چڑھا رہی ہے۔
یہ موضوع بہت بحث طلب ہے اور دامنِ وقت میں گنجائش پاتا تو اس پر مزید بھی کافی کچھ کہتا!
صد فیصد متفق۔ بجا ارشاد فرمایا۔ لیکن جنہوں نے ”میں نہ مانوں“ سے آگے نہ بڑھنے کا تہیہ کر رکھا ہو، اُن سے آپ کوئی مثبت امید نہ ہی رکھیں۔ ہاں صدائے حق بلند کرتے رہئے کہ یہ ہمارا فرض بھی ہے اور اسی پر ہمیں اجر کی توقع بھی۔:) آپ تو ایک استاد بھی ہیں۔ لہٰذا ہم ”شاگردوں“ :mrgreen: کے منفی رویوں سے دلبرداشتہ نہ ہوں۔:)
 
بچوں کو اسلامی تعلیمات سے ضرور آگاہ کرنا چاہئیے اور اگر نصاب میں اس حوالے سے کچھ شامل کیا جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ایسے مضامین شامل کئے جائیں جو بچوں کو اسلام کی ابدی آفاقی تعلیمات سے آگاہ کریں، ایسے موضوعات شامل نہیں کئیے جانا چاہئیں جن سے بچوں کے اندر کنفیوژن پھیلنے کا امکان ہو، کیونکہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جنکے حوالے سے بچے تو کیا، بڑے بھی اور اچھے خاصے پڑھے لکھے مسلمان بھی کنفیوژن کا شکار ہیں اور ان معاملات کو کماحقہ خود بھی نہیں سمجھتے۔
 

نایاب

لائبریرین
اس سلسلے میں بنیادی سی بات یہ ہے کہ جب تک آپ روایتی تعلیمی ادارے قائم نہیں کرتے تب تک تو نصاب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی آپ کوئی درسگاہ قائم کرتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو کوئی نصاب بھی طے کرنا پڑتا ہے اور دنیا بھر میں دستور یہی ہے کہ طے کیا جانے والا نصاب اس علاقے، خطے یا ملک کے رہنے والوں کی غالب اکثریت کے نظریات اور حکومتی بزرجمہروں کے ظاہری فکری رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔ اسی نکتے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں ایسا نصاب بنانے کی کوشش کی گئی جو عوام کی غالب اکثریت کے مذہبی نظریات اور فکری رجحانات سے ہم آہنگ ہو (یہ الگ بحث ہے کہ کتنے فیصد لوگ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر اس نصاب سے کوئی مثبت راہنمائی لینے کے قابل ہوپائے)۔ دنیا کے ہر ملک میں نصاب وہاں کے باسیوں کے مذہبی و معاشرتی رویوں کے رنگوں میں گندھا ہوا ہوتا ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں جہاں نوے فیصد سے زائد لوگ اسلام سے وابستگی کے دعویدار ہیں وہاں اس بات کو بحث کا موضوع بنادینا محض اس ملک کو غیرمستحکم کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
اسلام کی ترویج و اشاعت کیسے ہوئی اور اس میں کن عوامل و عناصر نے کتنا کردار ادا کیا، یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے۔ وہ عوامل جو اسلام کو انسان کے لئے لازم قرار دیتے ہیں انسان کے اپنے ہی فطری اور جبلی تقاضے ہیں۔ انہی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں نسلِ نو کے لئے ایسا نصاب تشکیل دینے کی کوشش کی گئی جو اسے اس کے ماضی کے بارے میں آگاہی مہیا کرسکے۔ ایک سوچ یہ تھی کہ مستقبل کی بہتری کے لئے اس نئی نسل کو حال میں جو رویے اپنانے ہیں وہ بھی ماضی کی اسی آگاہی کے رہینِ منت ہوں گے۔ مسلم رویے اسی نصاب کے تابع جیسے تشکیل پائے تھے اس کے دسیوں یا بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں مثبت نمونے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں مگر افسوس کہ ہمارے اپنے ہی لوگوں نے ہماری اجتماعی دانش اورمجموعی فکر کو اغیار کے سامنے یوں مزاح بنا کر رکھ دیا کہ آج محض منفی مثالیں پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارے نصاب نے یہ غلط رویہ تشکیل دیا ہے یا ہماری تعلیم فکری کجی کے ایسے رجحان کو پروان چڑھا رہی ہے۔
یہ موضوع بہت بحث طلب ہے اور دامنِ وقت میں گنجائش پاتا تو اس پر مزید بھی کافی کچھ کہتا!

محترم بٹ بھائی ۔ سرخ کشیدہ تحریر " تعلیمی نصاب کا قائم کرنا " کی حقیقت کو پوری معنویت سے بیان کر رہی ہے ۔
اور نصاب بنانے والے بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہو چکے کہ
اسلام پر عمل پیرا ہونا الگ بات ہے اور اسلام سے وابستگی کا دعوی کرنا الگ بات ۔
اسلام کے جس ماضی کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ۔ اس سے تو " جھوٹ دھوکہ ملاوٹ منافقت مفاد پرستی " کے ناجائز و حرام ہونے کا اثبات ہوتا ہے ۔
مگر اس نصاب سے آگہی پانے والوں میں یہ برائیاں پوری شدت سے محو عمل نظر آتی ہیں ۔
اب اگر اک کوشش نصاب سے مسلمان بنانے کی بجائے انسان بنانے کی کر لی جائے ۔ تو شائد اصل مسلمان سامنے آ جائے ۔۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
محترم بٹ بھائی ۔ سرخ کشیدہ تحریر " تعلیمی نصاب کا قائم کرنا " کی حقیقت کو پوری معنویت سے بیان کر رہی ہے ۔
اور نصاب بنانے والے بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہو چکے کہ
اسلام پر عمل پیرا ہونا الگ بات ہے اور اسلام سے وابستگی کا دعوی کرنا الگ بات ۔
اسلام کے جس ماضی کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ۔ اس سے تو " جھوٹ دھوکہ ملاوٹ منافقت مفاد پرستی " کے ناجائز و حرام ہونے کا اثبات ہوتا ہے ۔
مگر اس نصاب سے آگہی پانے والوں میں یہ برائیاں پوری شدت سے محو عمل نظر آتی ہیں ۔
اب اگر اک کوشش نصاب سے مسلمان بنانے کی بجائے انسان بنانے کی کر لی جائے ۔ تو شائد اصل مسلمان سامنے آ جائے ۔۔۔ ۔
نایاب بھائی! لگتا ہے آپ ”انسانیت“ کو ”اسلامیت“ سے کوئی ”بلند ترین شئے“ سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف دین اسلام میں ہی انسانیت کی معراج کو پہنچا جاسکتا ہے، اسلام کو ترک کر کے یا سائیڈ میں رکھ کر نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھا انسان اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما ”آغوش اسلام“ میں آنے کے بعد ہی انسانیت کے بہترین مدارج پر پہنچے تھے، جو آج بھی ہمارے لئے رول ماڈل ہیں۔
آپ کو میری رائے سے اختلاف کا اسی طرح پورا پورا ”حق“ ہے، جیسے مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
عمران نجانے کون سے اسلام کی بات کرتا ہے۔ شاید اس کو طالبان/ظالمان والا اسلام ہی ہر جگہ نظر آتا ہے۔ اس کو وہ اسلام نظر نہیں آتا جو مسلمانوں کا سچا دین ہے۔
 
جو اگر ہم حقیقت کو جتنا جلدی مان لیں اتنا اچھا ہے
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اکثریت کا نصاب تبدیل کرسکے۔
اگر نصاب تبدیل ہوا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اکثریت تبدیل شدہ نصاب سے متفق ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اسلام کے صرف دعوی دار ہی ہیں
اکثریت روز انڈین ناچ گانے اور ڈرامے بلکہ اب تو کارٹون بھی دیکھتے ہیں
تو اپنا نصاب وہی رکھیں گے جو وہ چاہتے ہیں

وہ پاکستان جو اسلام کے لیے بنا تھا وہ فوجی ہاتھوں سے فوت ہوچکا ہے۔ جی ہاں
 

عاطف بٹ

محفلین
محترم بٹ بھائی ۔ سرخ کشیدہ تحریر " تعلیمی نصاب کا قائم کرنا " کی حقیقت کو پوری معنویت سے بیان کر رہی ہے ۔
اور نصاب بنانے والے بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہو چکے کہ
اسلام پر عمل پیرا ہونا الگ بات ہے اور اسلام سے وابستگی کا دعوی کرنا الگ بات ۔
اسلام کے جس ماضی کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ۔ اس سے تو " جھوٹ دھوکہ ملاوٹ منافقت مفاد پرستی " کے ناجائز و حرام ہونے کا اثبات ہوتا ہے ۔
مگر اس نصاب سے آگہی پانے والوں میں یہ برائیاں پوری شدت سے محو عمل نظر آتی ہیں ۔
اب اگر اک کوشش نصاب سے مسلمان بنانے کی بجائے انسان بنانے کی کر لی جائے ۔ تو شائد اصل مسلمان سامنے آ جائے ۔۔۔ ۔

نایاب بھائی، یہ بات آپ نے کہاں سے اخذ کرلی کہ ’اس نصاب سے آگہی پانے والوں میں یہ برائیاں پوری شدت سے محو عمل نظر آتی ہیں‘؟ پاکستان کی کتنی آبادی ہے جو پرائمری اسکول کی سطح سے آگے بڑھ پاتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی موازنہ کر کے دیکھا ہے کہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور اسی عمر کے ایک ان پڑھ کے رویوں میں کیا فرق ہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اندازاَ کتنے لوگوں کو دیکھ کر آپ نے یہ رائے قائم کی ہے اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو میرا مشورہ ہے کہ آئندہ جب بھی آپ پاکستان آئیں تو کچھ نوجوانوں سے مل کر موازنہ ضرور کیجئے، حقیقت آپ پر خود بخود واضح ہوجائے گی۔
میں ایک ایسے علاقے میں استاد کے طور پر فرائض انجام دے رہا ہوں جو خالص دیہی علاقہ ہے۔ وہاں میری ان بچوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو اسکول کالج میں پڑھتے ہیں اور ایسے نوجوانوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے جنہوں نے کبھی اسکول کالج کی شکل نہیں دیکھی۔ میں آپ کو دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جو بچے اسکول اور کالج جا کر باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کی غالب اکثریت ایسی ہے جس میں اچھے برے کی تمیز، چھوٹے بڑے کا لحاظ اور حلال حرام کا تصور ان نوجوانوں سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی۔
 

نیلم

محفلین
آج ہم جس مقام پہ کھڑے ہیں یہ اسلام سے دوری کی ہی وجہ سے ہے۔اسلام ،جھوٹ ،دھوکہ ،فریب ،ظلم کی تعلیم نہیں دیتا ہے ۔بلکہ اسلام تو یہ ہے کہ دریائے دجلا کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا سوتا ہے تو امیر سلطنت سے اُس کی بھی پوچھ ہوگی ۔آج جو قانون یورپ میں لاگو ہے وہ اسلام کی ہی دہن ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے دور میں بیواؤں ،یتیموں کو فنڈ دیے جاتے تھے۔
ہمارے آنے والی نسل کو یہ سب پتہ ہونا چایئے ،ہماری ہسٹری ہی ہماری اصل پہچان ہے ۔۔آج کل تو جو ہم ہیں اور جو کر رہیں ہیں وہ مسلمانوں والے عمل ہیں ہی نہیں۔
اور مجھے پنجاب حکومت سے یہ توقع ہے بھی نہیں کہ اُنہوں نے ایسا کوئی حکم جاری کیا ہوگا۔اس بار سب سے سٹرونگ پارٹی ن لیگ ہی لگ رہی ہے ۔
پنجاب میں اُنہوں نے نظام تعلیم کو اور نظام ہیلتھ پر بہت کام کیا ہے ۔
میرے ماموں ایک گورمنٹ اسکول کے پرنسپل ہیں وہ بتاتے ہیں کہ پہلے وہ آرام سے اٹینڈس کے بعد اسکول سے باہر بھی چلے جاتے تھے یا چھٹی کر لیتے تھے لیکن اب پنجاب حکومت نے ایسا کچھ کیا ہے کہ اپسنٹ کی صورت میں فورا اطلاع اوپر پہنچ جاتی ہے اور پھر اُن کی پوچھ ہوتی ہے ۔میرا بھائی بھی محکمہ ہیلتھ میں گزٹیڈ آفیسر ہے اُن کی بھی کڑی نگرانی ہوتی ہے۔یہاں سول ہسپتال میں علاج بہت اچھا ہوگیا ہے۔کسی بھی آپریشن کے بعد باقاعدہ مریض کے موبائل پہ میسج آتا ہے شہبازشریف کی طرف سے کہ آپ کو کسی قسم کی سفارش یا مشکل کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا آپ اپنے علاج سے مطمن ہیں ۔وغیرہ
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی! لگتا ہے آپ ”انسانیت“ کو ”اسلامیت“ سے کوئی ”بلند ترین شئے“ سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف دین اسلام میں ہی انسانیت کی معراج کو پہنچا جاسکتا ہے، اسلام کو ترک کر کے یا سائیڈ میں رکھ کر نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھا انسان اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما ”آغوش اسلام“ میں آنے کے بعد ہی انسانیت کے بہترین مدارج پر پہنچے تھے، جو آج بھی ہمارے لئے رول ماڈل ہیں۔
آپ کو میری رائے سے اختلاف کا اسی طرح پورا پورا ”حق“ ہے، جیسے مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے۔ :)

میرے محترم بھائی یہ " دین اسلام " جسے آپ انسانیت کی معراج ٹھہرا رہے ہیں ۔
کیا آپ کی نگاہ میں اس کی ابتدا آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک سے ہے ۔۔۔۔؟
اور جہاں تک بات ہے کہ " آغوش اسلام " میں آنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہما " انسانیت " کے مفہوم کو جان کر " انسانیت کی معراج تک پہنچے ۔ تو میرے بھائی یہ انسانیت سے آگاہی ہی تھی جس کی بنا پر جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق پر ہونے کی گواہی دینے میں کوئی تاخیر نہ کی تھی ۔۔۔
جناب ابراہیم علیہ السلام کس " دین اسلام " کی آغوش میں تھے ۔۔۔۔؟
آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی کس " دین اسلام " کی آغوش میں بسر کرتے " صادق و امین سچا اور راستباز " کے مدارج طے کیئے تھے ۔۔۔۔۔؟
قران پاک جس دین اسلام کو بیان کرتا ہے ۔ وہ کون سی اسلامیت کو انسانیت سے برتر قرار دیتا ہے ۔۔ ؟
انسانیت سب سے برتر سب سے اعلی ہے ۔ اور اس کی دلیل " عبدہ و رسولہ " ہے ۔
اور اس پر آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خالق حقیقی کی جانب سے " رحمت للعالمین " کا خطاب پانا ہے ۔
دین اسلام ۔ سلامتی کا دین ہے ۔ اور انسان اول کے وجود میں آنے کے بعد سے رائج ہے ۔
قران پر قائم " دین اسلام " گزرے وقت میں اللہ کی جانب سے انسانوں تک پہنچنے والے تمام پیغامات کو " تحریف " سے پاک کرتا سچے اسلام کو سامنے لاتا ہے ۔ اور انسانیت کے شرف کو واضح سمجھنے کے لیئے اللہ کی اپنے منتخب و محبوب پیارے رسول سے اک نابینا بارے گفتگو مددگار ہے ۔
بلا شک " عنداللہ دین اسلام ہی ہے " اور یہ گزرے وقت کے تمام عظیم انسانوں کے عمل و کردار کے نمونے اک ذات پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارکہ میں روشن " اسوہ حسنہ " کے اتباع پر استوار ہے ۔ اور کون نہیں جانتا کہ آپ کی ہستی پاک کسی بھی تفاخر و تفریق سے پاک انسانیت کا روشن چراغ ہے ۔
اسلامیت اگر کوئی سچا دین ہوتا تو " رب العالمین " کی جگہ " رب المسلمین " پکارا جاتا ۔۔۔۔ اسلامیت تو نام ہے انسانیت کی فلاح کے لیئے مصروف عمل رہنے کا ۔ اسلامیت انسانیت سے الگ کچھ بھی نہیں ۔ " مسلمان وہ ہے جو کہ اپنے ہر عمل سے انسان اور انسانیت کے لیئے بھلائی پھیلائے "
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی، یہ بات آپ نے کہاں سے اخذ کرلی کہ ’اس نصاب سے آگہی پانے والوں میں یہ برائیاں پوری شدت سے محو عمل نظر آتی ہیں‘؟ پاکستان کی کتنی آبادی ہے جو پرائمری اسکول کی سطح سے آگے بڑھ پاتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی موازنہ کر کے دیکھا ہے کہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور اسی عمر کے ایک ان پڑھ کے رویوں میں کیا فرق ہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اندازاَ کتنے لوگوں کو دیکھ کر آپ نے یہ رائے قائم کی ہے اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو میرا مشورہ ہے کہ آئندہ جب بھی آپ پاکستان آئیں تو کچھ نوجوانوں سے مل کر موازنہ ضرور کیجئے، حقیقت آپ پر خود بخود واضح ہوجائے گی۔
میں ایک ایسے علاقے میں استاد کے طور پر فرائض انجام دے رہا ہوں جو خالص دیہی علاقہ ہے۔ وہاں میری ان بچوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو اسکول کالج میں پڑھتے ہیں اور ایسے نوجوانوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے جنہوں نے کبھی اسکول کالج کی شکل نہیں دیکھی۔ میں آپ کو دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جو بچے اسکول اور کالج جا کر باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کی غالب اکثریت ایسی ہے جس میں اچھے برے کی تمیز، چھوٹے بڑے کا لحاظ اور حلال حرام کا تصور ان نوجوانوں سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی۔

میرے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ رئیسانی نے کیا خوب کہا تھا کہ " ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو "
جہاں تک اس حقیقت کو اخذ کرنے کی بات ہے ۔ تو میرے بھائی میں بھی پاکستانی ہوں ۔ بچپن جوانی گزاری ہے اسی پاکستان میں ۔
فاطمہ جناح کے ساتھ ہوئی دھاندلی سے شروع کرتے آج مشرف کے وطن پہنچنے تک قریب ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ۔
اس عرصے کے دوران آپ مجھے کسی اک ہی رہنما کا نام بتا دیں جو کہ پڑھ لکھ اس نصاب سے آگہی پاتے وطن عزیز پر حکمرانی کرنے والوں میں شامل ہوا ۔ اور کسی بھی کرپشن سے اس کا دامن صاف رہا ۔ ۔۔۔۔ ؟ اور اس نے اس نصاب سے حاصل آگہی کو اپنے اعمال درست ہونے کی دلیل نہ بنایا ہو ۔
وہ کونسا مذہبی عالم ہے جس نے " فرقہ ورانہ " آگ میں اپنا حصہ نہ ڈالتے اس نصاب کی حقانیت کو ثابت کیا ہو ۔۔۔۔؟
ہمارے پاس سب سے بہترین سب سے مصدقہ نصاب " قران پاک " ہے جو کہ فرد کو براہ راست مخاطب کرتے اس کی اصلاح میں مددگار ٹھہرتے اس درست راہ پر چلنے کی توفیق عطا کرتا ہے ۔
اگر آپ کی شراکت کردہ پوسٹ میں " قرانی آیات " کو نصاب سے نکال دینے کی بات ہوتی تو اس عمل کو بنا چون و چرا غلط قرار دینے میں پس و پیش نہ ہوتا ۔ لیکن جو مواد نصابی کتب سے نکالنے کی بات کی گئی ہے ۔ وہ اسلام و قران کے بیان کردہ اتفاق و اتحاد کی بجائے انتشار و افتراق کی راہین زیادہ آسانی سے کھولتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گدھوں پر کتب لادنے سے گدھے عالم نہیں ہو سکتے ۔۔۔ میرے بھائی
 
میرے محترم بھائی یہ " دین اسلام " جسے آپ انسانیت کی معراج ٹھہرا رہے ہیں ۔
کیا آپ کی نگاہ میں اس کی ابتدا آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک سے ہے ۔۔۔ ۔؟
اور جہاں تک بات ہے کہ " آغوش اسلام " میں آنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہما " انسانیت " کے مفہوم کو جان کر " انسانیت کی معراج تک پہنچے ۔ تو میرے بھائی یہ انسانیت سے آگاہی ہی تھی جس کی بنا پر جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق پر ہونے کی گواہی دینے میں کوئی تاخیر نہ کی تھی ۔۔۔
جناب ابراہیم علیہ السلام کس " دین اسلام " کی آغوش میں تھے ۔۔۔ ۔؟
آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی کس " دین اسلام " کی آغوش میں بسر کرتے " صادق و امین سچا اور راستباز " کے مدارج طے کیئے تھے ۔۔۔ ۔۔؟
قران پاک جس دین اسلام کو بیان کرتا ہے ۔ وہ کون سی اسلامیت کو انسانیت سے برتر قرار دیتا ہے ۔۔ ؟
انسانیت سب سے برتر سب سے اعلی ہے ۔ اور اس کی دلیل " عبدہ و رسولہ " ہے ۔
اور اس پر آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خالق حقیقی کی جانب سے " رحمت للعالمین " کا خطاب پانا ہے ۔
دین اسلام ۔ سلامتی کا دین ہے ۔ اور انسان اول کے وجود میں آنے کے بعد سے رائج ہے ۔
قران پر قائم " دین اسلام " گزرے وقت میں اللہ کی جانب سے انسانوں تک پہنچنے والے تمام پیغامات کو " تحریف " سے پاک کرتا سچے اسلام کو سامنے لاتا ہے ۔ اور انسانیت کے شرف کو واضح سمجھنے کے لیئے اللہ کی اپنے منتخب و محبوب پیارے رسول سے اک نابینا بارے گفتگو مددگار ہے ۔
بلا شک " عنداللہ دین اسلام ہی ہے " اور یہ گزرے وقت کے تمام عظیم انسانوں کے عمل و کردار کے نمونے اک ذات پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارکہ میں روشن " اسوہ حسنہ " کے اتباع پر استوار ہے ۔ اور کون نہیں جانتا کہ آپ کی ہستی پاک کسی بھی تفاخر و تفریق سے پاک انسانیت کا روشن چراغ ہے ۔
اسلامیت اگر کوئی سچا دین ہوتا تو " رب العالمین " کی جگہ " رب المسلمین " پکارا جاتا ۔۔۔ ۔ اسلامیت تو نام ہے انسانیت کی فلاح کے لیئے مصروف عمل رہنے کا ۔ اسلامیت انسانیت سے الگ کچھ بھی نہیں ۔ " مسلمان وہ ہے جو کہ اپنے ہر عمل سے انسان اور انسانیت کے لیئے بھلائی پھیلائے "
آپ کی تمام باتون سے مجھے اتفاق ہے مگر سرخ کشیدہ الفاط کی وضاحت کریں تو ممنون ہوں گا
 

نکتہ ور

محفلین
دیکھیئے جناب محفلین! کتابی اور عملی چیزوں میں فرق ہوتا ہے، ایک عام ذہانت رکھنے والا بچہ سکول میں ایک اچھی بات کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور سکول سے باہر آ کر یا سکول کے اندر ہی اس کے الٹ مظاہرہ دیکھتا ہے تو الجھاؤ کا شکار ہوتا ہو اور اس کا ذہن جو نتیجہ نکالتا ہے اس کو وہ حاصل تعلیم سمجھتا ہے اب اس نے اس اچھی بات کو درست معنوں میں لیا اور اس پر عمل کرنے کی ہمت بھی پائی تو سیدھے راستے پر جائے گا ورنہ اس کے برعکس ہو گا۔
 
Top