پنجابی شعراں وچ شبد "کیجے" دا ورتن ؛ پنجابی اشعار میں لفظ "کیجے" کا استعمال

الف نظامی

لائبریرین
اٹھارھویں صدی میں میر سودا اور درد وغیرہ نے جب کثرت سے استعمال کیا ہے تو یقینا اس سے پہلے بھی ہوا ہو گا ۔
یہ کلیات قلی قطب شاہ ہے اس میں سے کیجے لفظ پر مشتمل شعر نکال کر پیش کیجیے۔ اور پھر نوشہ گنج بخش کا اردوو پنجابی دیوان گنج شریف ہے جو قلی قطب شاہ سے ۱۴ سال پہلے پیدا ہوئے۔

پھر قلی قطب شاہ کے کلام میں بھی پنجابی الفاظ ملتے ہیں۔

پھر بھی دمودر ان سے پہلے کے دور کا ہے۔

یعنی پنجابی کلام میں شبد کیجے کے ہونے کو اولیت حاصل ہے لہذا اس شبد کی اصل پنجابی زبان ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ویسے اردو معیاری لفظ تو کیجیے ہے ۔ کیجے اس کی وہ شکل ہے جس کو شعر میں وزن کی قید کے باعث تخفیف میں کیجے بنانا پڑتا ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ویسے اردو معیاری لفظ تو کیجیے ہے ۔ کیجے اس کی وہ شکل ہے جس کو شعر میں وزن کی قید کے باعث تخفیف میں کیجے بنانا پڑتا ہے ۔

محترم سید صاحب ، کیا اس سے یہ بات غلط ثابت ہوگئی؟

یعنی پنجابی کلام میں شبد کیجے کے ہونے کو اولیت حاصل ہے لہذا اس شبد کی اصل پنجابی زبان ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محترم سید صاحب ، کیا اس سے یہ بات غلط ثابت ہوگئی؟
نہیں بھئی میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔بس یونہی بر سبیل تذکرہ ۔۔۔
ویسے یہ شبد بھی پنجابی ہے ؟ میں اسے ہندی کا شبد سمجھتا تھا ۔ ہندی اور پنجابی کا تلفظ ایک ہی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
پنجابی میں تو میرے خیال میں لفظ "शब्द" نہیں، ب پر سکون نہیں بلکہ فتحہ ہے، شبد کیرتن عام اصطلاح ہے سکھوں کی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آمدم بر سرِ مطلب
یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اردو شعرا میں سے لفظ کیجے سب سے پہلے کس نے استعمال کیا؟
ظہیر احمد ظہیر الف عین سید عاطف علی
افسوس ، مجھے اس بارے میں علم نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ پہلے کبھی میری نظر سے گزرا۔
کیجے مخفف ہے کیجیے کا۔ شائستگی اور ادب ظاہر کرنے کا یہ پیرایہ اردو میں عام ہے ۔ جیسے پیجیے ، لیجیے ، دیجیے ۔
طریقہ یہ ہے کہ جو فعلِ امر "ی" پر ختم ہوتا ہے اس کے آگے جیے لگادیتے ہیں ۔ان الفاظ کو دیگر افعال کے ساتھ بطور امدادی فعل بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً: یہ خط لکھ دیجیے ، کھانا کھالیجیے ، یہ کام کردیجیے وغیرہ۔ با ادب تاکید کے لیے ان جملوں کے آگے لفظ "گا"لگادیتے ہیں ۔ مثلاً کھانا کھا لیجیے گا ، یہ حلوہ انہیں دے دیجیے گا۔ وغیرہ۔
لیکن جو فعلِ امر الف پر ختم ہوتے ہیں ان کے آگے "ئیے " اضافہ کرتے ہیں ۔ جیسے وہ شعر پھر سنائیے ، یہ کتاب مجھے دکھائیے ، وغیرہ۔ اور تاکید کے لیے "گا" کا اضافہ کرتے ہیں ۔ کتاب دکھائیے گا ، شعرسنائیےگا وغیرہ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
با ادب تاکید کے لیے ان جملوں کے آگے لفظ "گا"لگادیتے ہیں ۔ مثلاً کھانا کھا لیجیے گا ، یہ حلوہ انہیں دے دیجیے گا۔ وغیرہ۔
خوب وضاحت کی ہے ظہیر بھائی ۔
لیکن دیجیے اور لیجیے کے ساتھ گا کا ایک اور مقصد(استعمال) یہ بھی ہوتا ہے کہ مطلوبہ فعل امر کو مستقبل قریب میں مطلوب کر دیا جاتا ہے ۔ جیسے بیگم صاحبہ نے آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے اخبار پڑھتے صاحب کو کھانامیز پر رکھتے ہوئے کہا ہو کھانا کھالیجیے۔(یعنی کھانا تیار ہے ابھی کھالیجیے)
اسی طرح فرائض منصبی پر روانہ کرے وقت ظہرانہ ہاتھ میں تھماتے ہو ئے اگر بیگم صاحبہ کہیں گی کہ کھانا وقت پر کھا لیجیے گا۔اس کا مطلب ہوا کہ اس گا نےکھانے کے فعل امر کو مسقبل قریب میں ظہر کے وقت تک آگے کر دیا ۔
سو اس طرح کا۔ گا۔ تاکید و ادب وغیرہ کے ساتھ تاخیر کا فائدہ بھی دیتا ہے۔

ویسے اس کی ایک شکل دیجیو اور لیجیو بھی ہے (لکھ دیجیو یارب اسے قسمت میں عدو کی -غالب)۔
ہمارے راجستھانی بزرگوں کے ہاں تو لہجے کی ایک شکل کر لیجو کر دیجوبھی ہے ۔(حتی کہ ایک شکل کرجو بھی ہے ) :)
بات شاید کہیں اور ہی چل نکلی :) معذرت الف نظامی صاحب
 
Top