پلاسٹک کے لفافے: ماحول کی بربادی

دنیا بھر میں آلودگی تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کا ذمہ کسی نہ کسی حد تک خود انسان کے سرجاتا ہے۔ انسان نے اپنی آسانی کے لئے لاکھوں چیزیں بنائیںجبکہ ان کے منفی پہلوﺅں ہر توجہ نہ دی اور ، نتیجہ آج ہمیں آلودگی کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ انسان آسائشوں کو حاصل کرنے کی لالچ میں اتنا مگن ہوگیا کہ اسے اس بات کابھی اندازہ نہ ہوا کہ وہ اپنی تباہی کا ساماں خود بنا رہا ہے۔ دنیا بھر میں تمام تر اقدامات کے باوجود آلودگی کے مسائل بڑھتے ہی جارہی ہیں۔
دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح ہمارا ملک پاکستان بھی آلودگی کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے سروے کے مطابق پاکستان، ایران، بھارت اور منگولیا دنیا کے آلودہ ترین ممالک ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع شہر کوئٹہ آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ملک میں آلودگی کی شرح بڑھنے کی وجہ حکومت اور عوام کا اس اہم مسئلے پر توجہ نہ دینا ہے۔ آلودگی کی وجہ سے ہر سال کروڑوں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔​
ہم روزانہ کروڑوں کے حساب سے پلاسٹک کے لفافے استعمال کرتے ہیں جو کہ ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہماری بے احتےاطی کی وجہ سے پاکستان کا ماحول بہت ہی آلودہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پلاسٹک ایک پولیمر ہے جو کہ ایک یا کئی مختلف کیمیائی اجزاءسے مل کر تیار ہوتا ہے۔ یہ دو طرح سے تیار ہوتا ہے، ایک قدرتی طریقہ ہے جس میں جانوروں اور درختوں سے پلاسٹک تیار ہوتاہے اور دوسرا لیبارٹریوں یا فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے۔ پلاسٹک ایک سیال مادہ ہے، اس کو باآسانی نہ صرف کسی بھی شکل و صورت میں ڈھالا جاسکتا ہے بلکہ اسے کسی بھی رنگ میں رنگا بھی جاسکتا ہے۔ پلاسٹک کو نرمی اور ملائم کی کسی بھی حد تک پہنچایا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سستے سے سستے پلاسٹک لفافوں اور دوسری بہت سی کار آمد چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔​
پلاسٹک کے لفافوں میں ایک زہریلا مادہ کیڈیم کا عنصر شامل ہوتا ہے جو کہ خوراک میں زہریلے مادے کو پیدا کردیتا ہے، جس کی وجہ سے ہم خالص غذا سے محروم ہوجاتے ہیں اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان تمام مضر اثرات کے باوجود ہم بیشتر کھانے پینے کی اشیاءعام طور پلاسٹک کے لفافوں میں ہی لاتے ہیں جو کہ سخت نقصان دہ ہے۔ عوام کو چاہیے کہ بازار جاتے وقت پرانے زمانے کی طرح اپنے ساتھ سامان خریدنے کے لیے کپڑے کے تھیلے یا ٹوکریاں اور دودھ دہی کے لیے برتن لے کر جایا کریں۔​
پلاسٹک کے لفافوں کی زندگی ایک سو سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کو جلانے سے زہریلی گیسز فضا میں شامل ہو جاتی ہیں اور انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان گیسز کے باعث لوگ بلڈ کینسر، پھیپھڑوں اور سانس کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کو ضائع کرنے کے لئے سمندر میں بہایا جاتا ہے جو کہ آبی حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ہمارے ملک میںپلاسٹک کی ان اشیاءکو ٹھکانے لگانے کا کوئی معقول انتظام نہیں۔​
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ پلاسٹک کے لفافے تیار کرنے والے کارخانوں میں کام کرنےو الے افراد مختلف بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کو پگھلانے کے باعث متعدد گیسز کا اخراج ہوتا ہے اور یہ لوگ حفاظتی ماسک کا استعمال کئے بغیر کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ پلاسٹک کی اشیاءبنانے والی فیکٹریز کے مالکان کو بھی ان مزدوروں کی صحت سے کوئی غرض نہیں ہوتا اور وہ بغیر کوئی ماسک دیئے ان سے کام کرواتے ہیں۔​
لوگ پلاسٹک کے لفافوں کو گلی کوچوں، سڑکوں ، نالیوں ، ندی نالوں، دریائوں ، باغیچوں حتیٰ کہ اپنے صحن میں بِلا سوچے سمجھے پھینک دےتے ہیں۔ یہی ان کا بے تحا شا پھینک دےنا ہمارے ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بن چکا ہے۔ ملک کے مختلف شہری علاقوں میںپلاسٹک کے لفافوں سے نالیوں و سیورج کا بند ہونا ایک عام سی وبا بن گیا ہے۔ گندے پانی کے نکاس کے بند ہونے اور دبائو سے سیورج لائن پھٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے تمام علاقے میں بدبو، گندگی اور مختلف بیماریوں پھےلتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ برسات کے موسم کی ذرا سی بارش بھی ایک سیلاب کا رخ اختیار کرلیتی ہے۔​
سنہ 1995 میں پاکستان میں قانونی طور پر پلاسٹک کے لفافے بنانے اور فروخت کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے تحت تین سو مائیکرون سے کم موٹائی یا وزن والی تھیلیوں کی تیاری، فروخت اور استعمال کو جرم قرار دیتے ہوئے چھ ماہ کی قید یا پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزائیں موجود ہیں تاہم بہت کم لوگ اس قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔​
پاکستان کے شہر کراچی کے ماحول کی آلودگی میں ا ضافہ خطرے کے نشان کو چھونے لگا ہے اور یہاںپلاسٹک کے لفافے آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ گزشتہ عرصے حکومت کی کوششوں سے پولی تھن کے لفافوں کے استعمال میں کمی آئی تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ مضر صحت، مضر ماحولیات،” پولی تھن کے لفافے“ دوبارہ دکانوں اور مارکیٹوں میں اس طرح استعمال ہونے لگے ہیں جیسے کبھی ان پر پابندی لگی ہی نہیں تھی اور اب تو حکومت نے بھی اس معاملے پر چپ سادہ لی ہے۔​
پلاسٹک چونکہ ایک نہ سڑنے والی شے ہے ، اس لئے یہ زمین کی ساخت اور ذرخیزیت کو شدید طرح برباد کر دیتی ہے۔ یہ زمین کی سانس کو بند کرکے اس کو منجمد کر دیتا ہے اور پیڑ پودوں کو زمین سے جو غذا اور دوسرے اجزاءملنے چائےے تھے ان کی ترسیل میں رکاوٹ بن جاتی ہے جس سے زمین کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔​
ہمیں پلاسٹک کے لفافوں کا استعمال رضاکارانہ طور پر ترک کردینا چاہیئے۔ پلاسٹک کے لفافوں کا استعمال معاشرے میں بہت عام ہوگیا ہے جو تشویشناک حد تک خطرناک بنتا جارہا ہے، اس سے فائدے کے مقابلے میں نقصانات اور مضر اثرات زیادہ ہیں جو ہماری صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ عرصے میں بنگال میں سیوریج نالوں میں پلاسٹک بیگ کی بڑے پیمانے پر موجودگی کے سبب سیلاب آ چکا ہے۔ پلاسٹک بیک سیوریج کے نالوں کو چوک کر رہے ہیں اور برساتی پانی کی روانی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔​
دنیا بھر کے متعدد ممالک نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے پلاسٹک کے لفافوں کا استعمال ترک کرکے کاغذ کے بنے لفافوں کا استعمال شروع کردیا ہے۔ کاغذ کا لفافہ استعمال کے فوراًباآسانہ ضائع کیا جاسکتا ہے اور اس کے صحت پر مضر اثرات بھی نہیں ہیں۔ ہماری حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے پلاسٹک کے لفافوں کو ملک میں سے مکمل طور پر ختم کر دے اور لوگوں کو پلاسٹک کے لفافوں کی جگہ عام کاغذ کے بنے ہوئے لفافے استعمال کرنے پر ابھارے۔ اس مقصد کےلئے حکومت الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے سیمینارز اور ورکشاپس کے انعقاد کے ذریعے بھی پلاسٹک لفافوں کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے۔​
تحریر: سید محمد عابد
 
Top