سندباد
لائبریرین
راحت زاخیلی
(تعارف: فضل ربی راھی)
[align=justify:41ebc30b68]راحت زاخیلی نے پشتو زبان میں پہلا افسانہ اس وقت لکھا جب اُردو میں بھی افسانہ انگریزی زبان سے ابھی نیا نیا آیا تھایعنی گزشتہ صدی کے اوائل میں پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم اردو میں افسانے کا تجربہ کر رہے تھے۔ جب راحت زاخیلی کو اس نئی صنف کا علم ہوا تو انھوں نے اس صنف میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ اگر پریم چند نے اُردو زبان میں پہلی دفعہ ’’بڑے گھرانے کی بیٹی‘‘ کے عنوان سے ابتدائی افسانہ 1910ء میں لکھا تو راحت صاحب نے ’’کونڈہ جینئی‘‘ (بیوہ لڑکی) کے عنوان سے پشتو ادب میں پہلا افسانہ 1917ء میں لکھا۔ راحت صاحب کے افسانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہ صرف فنی اعتبار سے معیاری ہیں بلکہ اپنے موضوعات کی وجہ سے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ جس معاشرے میں رہتے تھے انھوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات وہاںسے لئے۔ اپنے افسانوں میں انھوں نے پشتون معاشرے کی بہترین عکاسی کی ہے۔ ان کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے قطعاً یہ محسوس نہیں ہوتا کہ انھوں نے کسی نئی صنف میں طبع آزمائی کی ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ صنف پشتو زبان میں پرانی ہے اور وہ اس میں کافی عرصہ سے لکھ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں پشتون معاشرے میں خواتین کے ساتھ ناانصافی اور پشتونوں میں رائج غلط اور نامناسب رسوم و رواج کے خلاف ایک توانا آواز بلند کی ہے اور ان قبیح رسوم کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔ راحت زاخیلی نے ایک ناول پشتو میں ’’نتیجۂ عشق‘‘ کے نام سے جب کہ دوسرا ناول اردو میں ’’ستارۂ زمین‘‘ کے نام سے بھی لکھا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے علامہ محمد اقبال کی نظم ’’شکوہ جوابِ شکوہ‘‘ اور ان کی ’’بانگِ درا‘‘ کی پوری کتاب کا پشتو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔ ان کی ’’بانگِ درا‘‘ کا پشتو ترجمہ بعد ازاں پشتو اکیڈمی پشاور نے ’’اقبال اکیڈمی‘‘ کے لیے کتابی صورت میں شائع کیا۔ یوں راحت زاخیلی پشتو زبان کے وہ ادیب، صحافی اور شاعر ہیں جنھیں علامہ اقبال کے کلام کو پشتو زبان میں منتقل کرنے کا اولین اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ راحت صاحب ایک بہترین خوش نویس بھی تھے اوراس موضوع پر ان کی ایک کتاب ’’قو اعد خوش خطی‘‘ بھی شائع ہوئی ہے۔ انھوں بہت سی کتابیں لکھیں اور قریباً ادب کے ہر موضوع پر طبع آزمائی کی۔ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’د راحت افسانے‘‘ (راحت کے افسانے) کے نام سے شائع ہوا ہے۔ جس سے اُردو محفل کے لیی میں ان کے اولین افسانے ’’کونڈہ جینئی‘‘ (بیوہ لڑکی) کا اُردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ اس افسانے میں ایک شادی شدہ پشتون لڑکی کے بیوہ ہونے کے بعد کے حالات اور مسائل پیش کر دئیے گئے ہیں اور پشتونوں کے اس دور کے غلط رسم و رواج کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ تاہم یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ پشتونوں کے معاشرے میں اب یہ غلط رسوم عام نہیں۔ ایسے مناظر اب خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پشتون، اب علم عام ہونے کی وجہ سے جدید دور کے نئے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور وہ زمانے کے قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔پشتو زبان کے پہلے افسانہ نگار، ناول نگار راحت زاخیلی بنیادی طور پر ایک صحافی تھے۔ وہ پشتو کے ہفت روزہ اخبار ’’افغان‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے پشتو زبان میں ایک رسالہ ’’ستڑے مہ شے‘‘ بھی جاری کیا تھا اس کے علاوہ انھوں نے ’’فرنٹئیر ایڈووکیٹ‘‘ کے نام سے بھی ایک اخبار کا اجراء کیا تھا۔ جب ان کے اپنے اخبارات کی اشاعت بند ہوگئی تو بعد میں انھوں نے روزنامہ ’’شہباز‘‘ پشاور کی ادارت سنبھالی اور ایک طویل عرصہ تک صحافت اور ادب کی خدمت کرتے رہے۔
پشتو زبان و ادب اور صحافت کے شہسوار راحت زاخیلی پشاور کے قریب ضلع نوشہرہ کے ایک گاؤں زاخیل میں 1884ء میں پیدا ہوئے اور 29 مئی 1963ء میں 79 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔[/align:41ebc30b68]