الف نظامی

لائبریرین
تیرا دعوی، تیرا مسلک قابل صد احترام
اے غریبوں اور ناداروں کے رکھوالے! سلام

کہکشاں ہے تیرے رہوارِ مقدس کا غبار
تیرے نقشِ پا ہیں فردوسِ بریں کے لالہ زار

دو جہانوں کے مقدر پر ہے تیرا اختیار
خالقِ کون و مکاں کے روبرو تیرا قیام

اے غریبوں اور ناداروں کے رکھوالے! سلام

تیرے در پر سرنگوں ہیں آفتاب و ماہتاب
تو نے ختم المرسلیں کا حق سے پایا ہے خطاب

فکرِ انساں ہونہیں سکتی وہاں تک باریاب
طائر سدرہ کو بھی حاصل نہیں تیرا مقام

اے غریبوں اور ناداروں کے رکھوالے! سلام

تاابد روشن رہیں گے تیرے تابندہ اصول
اے خدا کے ماننے والے! خدای کے رسول
بے نوا شاعر کے ویرانے میں بھی دو چار پھول

تیرے ہاتھوں میں بہار لالہ و گل کا نظام
اے غریبوں اور ناداروں کے رکھوالے سلام
 

اردو شمع

محفلین
کوئی ایسی زندہ نعت کہو

الف نظامی نے کہا:
ائے نعت نگار ہنر مندو !
کوئی ایسی زندہ نعت کہو ، روحوں کے اندھیرے چھٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
پھر روحِ صداقت جاگ اٹھے ! رنگیں منافق لفظوں کے رشتے ہونٹوں سے کٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
افشاں ہوں محمد کے جلوئے ، اور گرد کے جو طوفاں اٹھے ہیں چار طرف ، وہ چھٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
احسان و وفا کی راہوں میں ، جادو کے گڑھے جو کھودے ہیں باطل نے، وہ سارے پٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
خواہش کے بگولوں کے بل پر ، جب اسفل جذبے اونچے اڑیں ، پر ان کے ہوا سے کٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
ہر مقتل دل بن جائے کھنڈر! دولت کے منارے ٹوٹ گریں! نخوت کے غبار پھٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
آسیب غلامی باطل نے ، ذہنوں میں اگا دی زنجیریں ، یہ زنجیریں سب کٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
اعدائے محمد کی فکریں ، جو پجتی ہیں مانند بتان ، ایماں کے نگر سے ہٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
یہ جاہ و جنس کے فتنوں سے ، سیلاب جو امڈئے آتے ہیں ، قطروں میں یہ پھر سے بٹ‌جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
تزویر کی اندھی نگری میں ، کمزوروں پر کرکر کے ستم ، جو بڑھتے رہے وہ گھٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
لوگوں کے ضمیروں پر جن کے پایوں کو ٹکایا جاتا ہے ، وہ اونچے تخت الٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
عشاقِ پیمبر ایسے اٹھیں ، جو تلواروں کی چھاوں میں حق بات کہیں اور ڈٹ جائیں
ائے نعت نگار ہنر مندو!​

ٔجزاک اللہ و والدیک خیر الجزاء
بہت خوب
 

الف نظامی

لائبریرین
ان کی ذاتِ اقدس ہی، رحمتِ مجسم ہے
عرش پر معظّم ہے، اور فخرِ عالم ہے​
یہ شرف ملا کس کو، فرش کے مکینوں میں
قدسیوں کی محفل میں، ذکر ان کا پیہم ہے​
مخزنِ تقدس ہے، چشم پُر حیا اُن کی
گیسوئے حسیں اُن کا، نرم مثلِ ریشم ہے​
قطرۂ عرق روشن، یوں ہے اُن کے چہرے پر
پھول کی ہتھیلی پر، جیسے دُرِّ شبنم ہے​
بے مثال سیرت ہے، اُن کی ڈھونڈتے کیا ہو
انبیا میں افضل ہے اکرم و مُکرّم ہے​
اُن کے جہدِ پیہم سے، انقلابِ نو آیا
شرک کو ندامت ہے، اور کفر برہم ہے​
اُن کی مدح میں آگے، اور کیا لکھے ساحل
اِس کی عقل ناقص ہے، اِس کا علم بھی کم ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
جو تیری ثنا میں نہ ہو فنا مجھے وہ زباں نہیں چاہیئے
تیرے پیار میں ہیں میری رتیں مجھے یہ جہاں نہیں چاہیئے​
تیری خاکِ پا یے میری حنا تیرا عکس بھی میرا آئینہ
میں فقط نظر تو نظارہ گر مجھے تو کہاں نہیں چاہیئے​

جو نظر میں ہو تیرا روپ بھی شبِ ماہ لگتی ہے دھوپ بھی
تیری رحمتیں جو پناہ دیں کوئی سائباں نہیں چاہیئے​

میرے سانس ہوں تیری چاپ ہو فلک اور زمیں کا ملاپ ہو
تیری روشنی کے سوا کوئی سرِ کوئے جاں نہیں چاہیئے​

میرے دھیان کو وہ رسائی دے مجھے تو یہیں سے دکھائی دے
کوئی واسطہ کوئی راستہ کوئی کارواں نہیں چاہیئے​
از مظفر وارثی
 

الف نظامی

لائبریرین
جہاں کہیں بھی اجالا دکھائی دیتا ہے
تمہارا نقشِ کفِ پا دکھائی دیتا ہے​
یہ سارا عالم امکاں تمہارے سامنے ہے
تمہیں کہو کوئی تم سا دکھائی دیتا ہے​
عروج سرحد روح الامیں سے بھی آگے
براق آپ کا بڑھتا دکھائی دیتا ہے​
فرازِ عرش پہ ایوانِ ذاتِ وحدت میں
تمہارے نور کا ہالہ دکھائی دیتا ہے​
جہاں پہ ممکن و امکاں کا کوئی دخل نہیں
وہاں بھی جلوہ تمہارا دکھائی دیتا ہے​
اس اک نگاہ کی وسعت پہ دوجہاں صدقے
جسے خدا شبِ اسری دکھائی دیتا ہے​
نہ اس جمال الہی کا ہے مثیل و نظیر
نہ تم سا کوئی دیکھنے والا دکھائی دیتا ہے​
بھٹک گیا ہے اندھیروں میں کاروانِ حجاز
نہ راہبر ہے نہ رستہ دکھائی دیتا ہے​
کوئی پناہ کی صورت نظر نہیں آتی
اک آپ ہی کا سہارا دکھائی دیتا ہے​
اسی امید پر جیتے ہیں دیکھیے کب تک
دیارِ خواجہ بطحا دکھائی دیتا ہے​
ملا ہے جب سے مجھے سرو ذوقِ نعتِ رسول
مقدر اپنا چمکتا دکھائی دیتا ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
از ماہر القادری

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دست گیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

سلام اس پر کہ دشمن کو حیاتِ جاوداں دے دی
سلام اس پر ابوسفیان کو جس نے اماں دے دی

سلام اس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اس پر ہوا مجروح جو بازار طائف میں

سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا

سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا

سلام اس پر کہ جس کی سادگی درسِ بصیرت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیت ہے

سلام اس پر کہ جس نے فضل کے موتی بکھیرے ہیں
سلام اس پر بروں کو جس نے فرمایا کہ "میرے ہیں"

سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھر دیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی

سلام اس پر بھلا سکتے نہیں جس کا کبھی احساں
سلام اس پر مسلمانوں کو دی تلوار اور قرآں

سلام اس ذات پر جس کے پریشاں حال دیوانے
سنا سکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے

از ماہر القادری​
 

الف نظامی

لائبریرین
از اقبال صفی پوری

آپ نے جس طرف بھی بڑھائے قدم
کہکشاں گرد راہ سفر ہوگئی

وہ حسیں لب کھلے اور چمن کھل گئے
وہ نگاہیں اتھیں اور سحر ہوگئی

آج کیوں درد دل میں‌ ہے اپنی کمی
ہو نہ ہو، ان کو میری خبر ہوگئی

روئے پاک نبی کا تصور ہے کیا
روشنی تا بہ حدِ نظر ہوگئی

اللہ اللہ عروج شہ دوسرا
وسعت آسماں رہگزر ہوگئی

بات جب تھی ، مدینے میں ہوتی بسر
زندگانی کا کیا ہے بسر ہوگئی

کس بلندی پہ اقبال پہنچیں گے ہم
ان کے در تک رسائی اگر ہوگئی

از اقبال صفی پوری​
 

الف نظامی

لائبریرین
از حافظ لدھیانوی

سلام اس پر ، خدا کے بعد جس کی شان یکتا ہے
ثنا خواں خود خدائے پاک ہے جو سب کا آقا ہے

سلام اس پر کہ توڑا زور جس نے بت پرستوں کا
علم اونچا کیا جس نے جہاں کے زیر دستوں کا

سلام اس پر کہ جس کی پاک صورت پاک سیرت تھی
سلام اس پر کہ جس کی زندگی خلق و مروت تھی

سلام اس پر کہ بعد اس کے نہ آئے گا نبی کوئی
نہ ان سا کوئی آیا ہے ، نہ آئے گا نبی کوئی

سلام اس پر کہ جس نے درد کی دولت عطا کردی
سکھائے جس نے کمزوروں کو آئین جواں مردی

سلام اس ذات اقدس پر کہ حامی ہے یتیموں کا
چلام ان جانِ اطہر پر ، جو والی ہے غریبوں کا

سلام اس پر ، اندھیرے میں اجالا کردیا جس نے
خدا کے نور سے دونوں جہاں کو بھر دیا جس نے

سلام اس پر غلاموں کو عطا کی جس نے سلطانی
سکھائے جس نے مظلوموں کو اندازِ جہاں بانی

سلام اس پر ، ملی ہے مہر و مہ کو جس سے تابانی
سلام اس پر کہ پائی چرخ نے جس سے درخشانی

سلام اس پر کہ جو مطلوب و مقصودِ خدا ٹھہرا
سلام اس پر کہ جو ٹوٹے دلوں کا آسرا ٹھہرا

از حافظ لدھیانوی​
 

سارہ خان

محفلین
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گُلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصافِ حمیدہ

تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ

اے ہادیء برحق تری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے ترے لب سے شنیدہ

اے رحمتِ عالم ، تری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ

تو روحِ زمن ، روحِ چمن ، روحِ بہاراں
تو جانِ بیاں ، جانِ غزل ، جانِ قصیدہ

(حفیظ تائب)

 

الف نظامی

لائبریرین
تو روحِ زمن ، روحِ چمن ، روحِ بہاراں
تو جانِ بیاں ، جانِ غزل ، جانِ قصیدہ

یہ میری پسندیدہ نعت ہے۔ بہت خوب سارہ خان۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پو پھٹی دیدہ و دل منور ہوئے
آپ آئے تو سب نقش اجاگر ہوئے

آپ آئے تو رحمت کی جھڑیاں لگیں
آپ آئے تو شاداب منظر ہوئے

آپ آئے تو فصل بہار آگئی
سب ورق گل کدوں کے مصور ہوئے

آپ آئے تو گلبانگ توحید اٹھی
منتشر شرک و طغیاں کے دفتر ہوئے

آپ آئے تو ایماں ہوا دل نشیں
شک پریشاں ہوئے وہم ششدر ہوئے

آپ آئے تو بگڑی بنی خلق کی
آپ آئے تو سیدھے مقدر ہوئے

آپ آئے تو غم دیدہ انسان کو
سچی خوشیوں کے عنواں میسر ہوئے

آپ آئے تو امکان کی گرہیں کھلیں
آشکار آدمیت کے جوہر ہوئے

آپ آئے تو فتح تمدن ہوئی
اور تہذیب کے معرکے سر ہوئے

آپ آئے تو ذرے بھی انجم بنے
آپ آئے تو کنکر بھی گوہر بنے

اونچ نیچ آدمیت کا مقسوم تھی
آپ آئے تو انساں برابر ہوئے

آپ آئے تو بھٹکے ہوئے قافلے
گامزن خیر کے راستے پر ہوئے
از پروفیسر جعفر بلوچ مرحوم
 

الف نظامی

لائبریرین
آنکھوں کا نور دل کی ضیا آپ ہی تو ہیں
ہر تیرگی میں راہنما آپ ہی تو ہیں

تکرار و تثنیہ کو نہیں جس میں شائبہ
وہ ایک شاہکار خدا آپ ہی تو ہیں

جن سے ہر ایک مرحلہ کرب میں ہمیں
درس ثبات و صبر ملا آپ ہی تو ہیں

محتاج کون آپ کے دربار کا نہیں
امیدگاہ شاہ و گدا آپ ہی تو ہیں

ویران دل پہ ایک نگاہ کرم حضور
عزلت نواز ثور و حرا آپ ہی تو ہیں

شائستہ وجود ہو جعفر بھی آپ کا
وجہ وجود ارض و سما آپ ہی تو ہیں
از پروفیسر جعفر بلوچ مرحوم
 

الف نظامی

لائبریرین
بڑھ کر امکانات تحسیں سے ان کی ہر ادا
کون کرسکتا ہے حق نعت پیغمبر ادا

اللہ اللہ مدحت خیر الوری کے باب میں
خود بخود ہوتا ہے مضمون دل مضطر ادا

یاس آغشتہ بشر کی جان میں جان آگئی
دیکھ کر خلق محمد کی رواں پرور ادا

آپ کے در کی غلامی کا ملا جس کو شرف
ہیں غلام اس کے فریدوں جاہ اسکندر ادا

ہے سہارا آپ کا دونوں جہانوں میں مجھے
میں کروں کس منہ سے شکر شافع محشر ادا

جاں نچھاور ہو ان مری ان کے مقدس نام پر
جتنا جلدی ہوسکے ہوجائے قرض سر ادا

ہو عمل سے بھی زباں کے ساتھ ساتھ اظہار نعت
سنت ختم الرسل بھی اب کرو جعفر ادا
از پروفیسر جعفر بلوچ مرحوم
 

آبی ٹوکول

محفلین
نعت بحضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم
عشق کی انتہا نہیں ہوتی
لادوا ہے دوا نہیں ہوتی
وہ عبادت ہی ہم نہیں کرتے
جس میں تیری ادا نہیں ہوتی
عشق ایسا مرض ہے لوگو
جس میں جائز دوا نہیں ہوتی
جیسے حق ہے میرے کریم نبی
ہم سے تیری ثنا نہیں ہوتی
تیری رحمت بھری عدالت میں
مجرموں کو سزا نہیں ہوتی
کس کو حاجت نہیں ہے رحمت کی
کس سے ناصر خطا نہیں ہوتی​
صلی اللہ علیہ وسلم
 

الف نظامی

لائبریرین
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینہ پہ تسلی کو تیرا ہاتھ دھرا ہو

کیوں اپنی گلی میں وہ روادار صدا ہو
جو بھیک کے لئے راہ گدا میں دیکھ رہا ہو

گر وقت اجل سر تیری چوکھٹ پہ جھکا ہو
جتنی ہو قضا ایک ہی سجدہ میں ادا ہو

ہمسایہء رحمت ہے ترا سایہء دیوار
رتبہ سے تنزل کرے تو ظل ہما ہو

موقوف نہیں صبح قیامت پہ یہی عرض
جب آنکھ کھلے سامنے تو جلوہ نما ہو

دے اس کو دم نزع اگر حور بھی ساغر
منہ پھیر لے جو تشنہء دیدار ترا ہو

فردوس کے باغوں سے ادھر مل نہیں سکتا
جو کوئی مدینہ کے بیاباں میں گما ہو

دیکھا انہیں محشر میں تو رحمت نے پکارا
آزاد ہے جو آپ کے دامن سے بندھا ہو

آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتے کا بھلا ہو

ویراں ہوں جب آباد مکاں صبح قیامت
اجڑا ہوا دل آپ کے جلوؤں سے بسا ہو

ڈھونڈا ہی کریں صدر قیامت کے سپاہی
وہ کس کو ملے جو ترے دامن میں چھپا ہو

جب دینے کو بھیک آئے سر کوئے گدایاں
لب پر یہ دعاء تھی میرے منگتے کا بھلا ہو

جھک کر انہیں ملنا ہے ہر اک خاک نشیں سے
کس واسطے نیچا نہ وہ دامان قبا ہو

تم کو تو غلاموں سے ہے کچھ ایسی محبت
ہے ترک ادب ورنہ کہیں ہم پہ فدا ہو

دے ڈالئے اپنے لب جاں بخش کا صدقہ
اے چارہء دل درد حسن کی بھی دوا ہو

از حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
 

الف نظامی

لائبریرین
اے رسول امیں، خاتم المرسلیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
ہے عقیدہ اپنا بصدق و یقیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

اے براہیمی و ہاشمی خوش لقب، اے تو عالی نسب، اے تو والا حسب
دودمانِ قریشی کے دُرِثمین، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے، جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں، اے ابد کے حسیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

بزم کونین پہلے سجائی گئی، پھر تری ذات منظر پر لائی گئی
سید االاولیں، سید الآخریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

تیرا سکہ رواں‌ کل جہاں میں ہوا، اِس زمیں میں ہوا، آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم، سب ہیں زیرِ نگیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی، تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی
تیرے انفاس میں‌ خلد کی یاسمیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

"سدرۃ ُالمنتہیٰ" رہگزر میں تری ، "قابَ قوسین" گردِ سفر میں تری
تو ہے حق کے قریں، حق ہے تیرے قریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی، زلف ِتاباں حسیں رات معراج کی
"لیلۃُ القدر "تیری منور جبیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

مصطفےٰ مجتبےٰ، تیری مدح وثنا، میرے بس میں ، دسترس میں نہیں
دل کو ہمت نہیں ، لب کو یارا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں، کوئی ہے ! وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں
توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

چار یاروں کی شان جلی ہے بھلی، ہیں یہ صدیق، فاروق، عثمان ، علی
شاہدِ عدل ہیں یہ ترے جانشیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

اے سراپا نفیس انفسِ دوجہاں، سرورِ دلبراں دلبرِ عاشقاں
ڈھونڈتی ہے تجھے میری جانِ حزیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
از نفیس الحسینی علیہ الرحمۃ
 

الف نظامی

لائبریرین
سرور سروراں فخر کون و مکاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں
تیری چوکھٹ ہے بوسہ گہِ قدسیاں تجھ ساکوئی کہاں تجھ ساکوئی کہاں

جو زمانے میں پامال و بدحال تھے ان کو بخشے ہیں تو نے نئے ولولے
تجھ سے روشن ہوا بخت تیرہ شباں تجھ سا کوئی کہاں تجھ ساکوئی کہاں

حد روح الامینی سے بھی ماوراء تیری محشر خرامی ہے معجز نما
اے گلستان وحدت کے سرو رواں تجھ ساکوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

تیرا طرز تکلم ہے موج صبا تیرے الفاظ پر نورو نکہت فدا
نطق سے تیرے ناطق ہے رب جہاں تجھ ساکوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

زینت افزائے برج ”دنی“ہے توئی مسند آرائے عرش علی ہے توئی
ہے توئی بزم قوسین کا رازداں تجھ ساکوئی کہاں تجھ ساکوئی کہاں

تیری رحمت عداوت فراموش ہے تو عطا پاش ہے تو خطا پوش ہے
دشمن جاں کو بھی تو نے بخشی اماں تجھ ساکوئی کہاں تجھ ساکوئی کہاں

وہ جسے تیرا آئین مرغوب ہے کب وہ تہذیب حاضر سے مرعوب ہے
تیری سیرت تمدن کی روح رواں تجھ سا کوئی کہاں تجھ ساکوئی کہاں

قائد انس وجاں خسرو خشک و تر ، رہبران امم تیرے دریوزہ گر
تیرا ہر نقش پا نورِدیدہ وراں ، تجھ ساکوئی کہاں تجھ ساکوئی کہاں

میرے الفاظ درماندہ و بے نوامیرا سرمایہ فکر و فن نارسا
مجھ ساعاجز کہاں تیری مدحت کہاں، تجھ ساکوئی کہاں تجھ ساکوئی کہاں
از شاکر القادری
 

الف نظامی

لائبریرین
بجا تم وہ کہا وہ گنبدِ اخضر میں رہتے ہیں
مگر جلوے تو ان کے میری چشمِ تر میں رہتے ہیں

جہاں ہوں رابطے دل کے وہاں دوری نہیں ہوتی
اگرچہ وہ مدینے میں ہم اپنے گھر میں رہتے ہیں

مگر پھر بھی دل ان کا نام لے لے کر تڑپتا ہے
یقیں ہے مجھ کو وہ میرے دلِ مضطر میں رہتے ہیں

جہاں رہتے ہیں آقا ، یقینا باغ جنت ہے
وہ اماں عائشہ کے حجرہِ اطہر میں رہتے ہیں

شہوں کا شہ وہ دلبر اس کا کوچہ کوچہِ شاہی
بڑے خوش بخت ہیں جو کوچہ دلبر میں رہتے ہیں

یہ ان کا معجزہ دیکھو کہ سب پر ہے نظر ان کی
اگرچہ چاہنے والے تو دنیا بھر میں رہتے ہیں

امین ان شاعروں کو کیوں نہ پیغمبر نوازیں گے
قلم مصروف جن کے مدحِ پیغمبر میں رہتے ہیں

از سید امین گیلانی
 

باسم

محفلین
[ame=http://www.divshare.com/download/9102791-2ff]DivShare File - nabeakram.mp3[/ame]
نبیِ اکرمؐ شفیعِ اعظمؐ دکھے دلوں کا سلام لے لو
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو
شکستہ کشتی ہے تیز دھارا، نظر سے روپوش ہے کنارہ
نہیں کوئی ناخدا ہمارا، خبر تو عالی مقامؐ لے لو
عجیب مشکل میں کارواں ہے، نہ کوئی جادہ نہ پاسباں ہے
بشکل راہبر چھپے ہیں راہزن، اٹھو! ذرا انتقام لے لو
قدم قدم پہ ہے خوفِ راہزن، زمیں بھی دشمن فلک بھی دشمن
زمانہ ہم سے ہوا ہے بدظن، تمہی محبت سے کام لے لو
کبھی تقاضا وفا کا ہم سے، کبھی مذاقِ جفا ہے ہم سے
تمام دنیا خفا ہے ہم سے، خبر تو خیرالانامؐ لے لو
یہ کیسی منزل پہ آگئے ہیں، نہ کوئی اپنا نہ ہم کسی کے
تم اپنے دامن میں آج آقاؐ تمام اپنے غلام لے لو
یہ دل میں ارماں ہے اپنے طیّب، مزارِ اقدس پہ جاکے اک دن
سناؤں ان کو میں حال دل کا، کہوں میں ان سے سلام لے لو
قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ
 

الف نظامی

لائبریرین
راہوں میں تری طُور کے آثار ملے ہیں
ذروں کے جگر مطلع انوار ملے ہیں

اللہ رہے ترے حسن کی یہ گرمئی بازار
لاکھوں یہاں یوسف سے خریدار ملے ہیں

تاروں میں ترے حسنِ تبسم کی ضیاء‌ ہے
پھولوں کی مہک میں ترے آثار ملے ہیں

معراج کی شب سرحدِ امکاں سے بھی آگے
نقشِ قدمِ احمد مختار ملے ہیں

جو ذات الہی کی تجلی سے نہ جھپکے
ہاں آپ کو وہ دیدہ بیدار ملے ہیں

جو دل کہ تیرے پیار کی لذت سے ہیں محروم
وہ بھی تری رحمت کے خریدار ملے ہیں

جو لوگ ہوئے تیری غلامی سے مشرف
وہ عظمت انسان کا معیار ملے ہیں

سردار بھی دیکھیں ہیں ، سرِ دار بھی دیکھے
ہر حال میں ساتھی ترے سرشار ملے ہیں

ہے ناز ہمیں اپنے مقدر پہ ، نہ کیوں ہو
سرکار ملے ہیں ، ہمیں سرکار ملے ہیں

جو نعت پیمبر کی حلاوت کے امیں ہیں
اے سرو مجھے وہ لبِ گفتار ملے ہیں

از حکیم سید محمود احمد سروسہارنپوری
 
Top