پریوں کا دیس اور قاتل پہاڑ- میرا پاکستان، میرےکیمرے کی آنکھ سے

mfdarvesh

محفلین
جی پیر ودہائی روالپنڈی سے سیدھا گللکت اور سکردو کی گاڑیاں ملتی ہیں، گلگت کے لیے تو بہت گاڑیاں جاتی ہیں
 

فرخ

محفلین
ایک بات اور بتائیں کہ یہ کتنے دن کا سفر تھا ۔ اور پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ براہ راست کسی بڑے شہر سے مل سکتی ہے ؟ یعنی راولپنڈی یا اسلام آباد سے سیدھے گلگت یا کسی اور بڑے شہر کے لئے ؟۔
اورآپ کے یا کسی اور صاحب کے علم میں ہو تو بتائیں کہ شاہراہ قراقرم کے راستے چین میں داخل ہونے کے لئے ایمبسی سے ویزہ کی ضرورت ہے یا سرحد پر ہی اس کا بندوبست موجود ہے ؟

ویسے اس “عیاشی“ کے باوجود اخراجات مناسب ہیں ۔ لیکن میرے اخراجات اس سے بھی کم ہونے کی امید ہے کہ اگر راستہ اور ساتھی مناسب ہوں تو میں زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے کو ترجیح دیتا ہوں ۔
وسلام

دیر سے جواب دینے پر معذرت۔۔۔

ہم لوگوں نے 6 دن کا منصوبہ بنایا تھا، مگر 5 دن میں ہی واپس آگئے اور وہ بھی صرف اس لئے کہ ہم نانگا پربت کے بیس کیمپ تک نہیں گئے۔ بلکہ اس سے پہلے ایک ویو پوائینٹ 1 ہے، اس سے تھوڑا سا آگے تک گئے کیونکہ گائیڈ کے مطابق آگے کوئی اتنے قابل ذکر جگہ نہیں ہے جس کے لئے چڑھائی کی جائے۔

مگر مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ گائیڈ صاحب نے بچت کی تھی اور ہمارے ساتھیوں کو پہلے ہی یہ کہنا شروع کردیا کہ بیس کیمپ میں کوئی قابل دید بات نہیں حالانکہ جو دوست پہلے وہاں ہو کر آئے ہیں ان کے مطابق نانگا پربت کا جو نظارہ بیس کیمپ سے ہوتا ہے ویسا کسی دوسری جگہ سے نہیں ۔ اسکے علاوہ بیس کیمپ پر ان کوہ پیماؤں کی یاد میں ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے جو اسے سر کرنے کی آرزو میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
۔ اور میں وہاں جانے والوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ اگر آپ بیس کیمپ جاؤ (اور ضرور جاؤ) تو پہلے ایک رات بیال کیمپ (بیس کیمپ سے پہلے) میں ٹھہرو اور پھر اعلی الصبح بیس کیمپ کے لئے روانہ ہو جائیں۔ اور یوں آپ کے پاس پورا دن ہوگا اس علاقے کی سیر کے لئے۔ وہاں آپ زوہ (یاک اور گائے کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بیل سے ملتا جلتا جانور) بھی دیکھ سکیں گے اور اللہ جل شانہ کے لاتعداد نعمتیں اور خوبصورتیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔

باقی، ایک صاحب نے بتا دیا کہ پیرودھائی سے بھی گاڑیاں مل جاتی ہے اور ناٹکو کے لئے آپ یہاں سے بھی رجوع کر سکتے ہیں:
http://www.natco.com.pk/contactus.htm

چین کے ویزے کے لئے شائید آپ کو پہلے ایمبیسی ہی جانا پڑے اور یہی مناسب طریقہ ہے۔ اگر کسی وجہ سے سرحد پر ویزا نہ لگا تو خوامخواہ کی خواری ہو جاتی ہے۔ چین کی ایمبیسی سے آپ کو اچھی راہنمائی مل سکتی ہے۔ اگر میرے کسی دوست سے معلومات ملیں تو میں وہ فراہم کر دوں گا۔

میں بذات خود پیدل زیادہ چلنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ مگر وقت بچانے کے لئے کم از کم اس جیپ ٹریک پر پیدل جانا ایک بے وقوفی ہوگی۔ کیونکہ اس راستے پر پورا دن لگ سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فرخ بھائی یہ دھاگہ تو “دیس اپنا اپنا“ میں ہونا چاہیے نا کہ تصاویر والے زمرے میں۔

اور اگر کوئی اور رکن ایسا ہی کوئی سفر کرے تو اسے ضرور ایسی ہی تصویری روداد لکھنی چاہیے۔
 

فرخ

محفلین
السلام و علیکم
شمشاد بھائی
اگر یہ اس فورم کے لئے مناسب ہے، تو وہاں منتقل کر دیں

یہ دراصل سفری داستان بن ہی گئی، ورنہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں تو بس تصاویر دکھا رہا تھا، مگر احباب نے اس سفر کی تفصیلات دریافت کیں تو پھر یہ داستان کی شکل لگ رہی ہے۔

والسلام
فرخ بھائی یہ دھاگہ تو “دیس اپنا اپنا“ میں ہونا چاہیے نا کہ تصاویر والے زمرے میں۔

اور اگر کوئی اور رکن ایسا ہی کوئی سفر کرے تو اسے ضرور ایسی ہی تصویری روداد لکھنی چاہیے۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
بہت بہت بہت ہی اعلیٰ پائے کی تصاویر ہیں فرخ بھائی۔۔۔ اتنے اتنے خوبصورت نظارے کہ میں تو بس مسحور ہوتا جا رہا تھا اور آپ کو دعائیں دیتا جا رہا تھا۔۔
بہت ہی خوبصورت ہے میرا وطن۔۔۔ اور کیوں نہ ہو۔اس ہجوم میں کئی خاموش چہرے ایسے بھی ہیں جو چُپکے سے اس کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتے ہیں۔۔ اپنے خون سے اسے سینچتے ہیں۔
کسی بھی چیز کی اہمیت اس سے وابستہ احساسات و جذبات سے ہوتی ہے، دھرتی بھی انہی احساسات سے پروان چڑھتی ہے۔۔ ہم جیسے نادانوں کی بھیڑ میں آپ جیسے پیارے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دھرتی کو سب تک پہنچاتے ہیں۔ آپ کیمرے کی آنکھ میں تصویریں نہیں۔ جذبے قید کرتے ہیں۔۔ اور جب یہ جذبے سب کی نظر بنتے ہیں تو ”سوہنی دھرتی“ تشکیل پاتی ہے۔اور رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے۔
خدا آپ کو سلامت رکھیں اور سدا شاد و آباد رکھیں۔
 
Top