طارق شاہ
محفلین
غزل
گوپال متل
رنگینئ ِ ہَوَس کا وَفا نام رکھ دِیا
خوددَاریِ وَفا کا جَفا نام رکھ دِیا
اِنسان کی ، جو بات سمجھ میں نہ آسکی!
اِنساں نے اُس کا ، حق کی رضا، نام رکھ دِیا
خود غرضِیوں کے سائے میں پاتی ہے پروَرِش
اُلفت، کہ جِس کا صِدق و صَفانام رکھ دِیا
بے مہرئِ حَبِیب کا مُشکِل تھا اعتراف
یاروں نے اُس کا ناز و اَدا ، نام رکھ دِیا
فِطرت میں آدمی کی ہے مُبہم سا ایک خوف!
اُس خوف کا، کسی نے خُدا نام رکھ دِیا
یہ رُوح کیا ہے؟ جسم کا عکسِ لَطِیف ہے
یہ اور بات ہے کہ، جُدا نام رکھ دِیا
مُفلِس کو اہلِ زر نے بھی کیا کیا دِیئے فَریب!
اپنی جَفا کا، حُکمِ خُدا نام رکھ دِیا
گوپال متل
گوپال متل
رنگینئ ِ ہَوَس کا وَفا نام رکھ دِیا
خوددَاریِ وَفا کا جَفا نام رکھ دِیا
اِنسان کی ، جو بات سمجھ میں نہ آسکی!
اِنساں نے اُس کا ، حق کی رضا، نام رکھ دِیا
خود غرضِیوں کے سائے میں پاتی ہے پروَرِش
اُلفت، کہ جِس کا صِدق و صَفانام رکھ دِیا
بے مہرئِ حَبِیب کا مُشکِل تھا اعتراف
یاروں نے اُس کا ناز و اَدا ، نام رکھ دِیا
فِطرت میں آدمی کی ہے مُبہم سا ایک خوف!
اُس خوف کا، کسی نے خُدا نام رکھ دِیا
یہ رُوح کیا ہے؟ جسم کا عکسِ لَطِیف ہے
یہ اور بات ہے کہ، جُدا نام رکھ دِیا
مُفلِس کو اہلِ زر نے بھی کیا کیا دِیئے فَریب!
اپنی جَفا کا، حُکمِ خُدا نام رکھ دِیا
گوپال متل