پریشاں ہوں پرانا یار گم ہے مشتاق عاجز

(مرحوم دوست اشفاق امین کے لیے)

پریشاں ہو پرانا یار گم ہے
غموں کی بھیڑ میں غمخوار گم ہے

ادھر انبار ہیں کار جہاں کے
ادھر میرا شریک کار گم ہے

سوا نیزے پہ سورج آگیا ہے
مگر سایہ پس دیوار گم ہے

مزاج گردش دوراں ہے برہم
کہیں اک ساعت سیار گم ہے

بہت بے ربط ہوتی جارہی ہے
کہانی کا کوئی کردار گم ہے

کوئی زیر زمیں سویاہوا ہے
کوئی ساتھی سمندر پار گم ہے

کھڑا ہے لشکر اعدا مقابل
مگر میرا علم بردار گم ہے

مشتاق عاجز
(الاپ)​
 
Top