مشتاق عاجز

  1. حسن محمود جماعتی

    حکم ٹھہراؤ کا دریا کے بہاؤ پر لگا مشتاق عاجز

    حکم ٹھہراؤ کا دریا کے بہاؤ پر لگا اور پھر تہمت سفر کی میری ناؤ پر لگا پھول بن جائے یہ غنچہ، اے بہار کشت جاں ایک چرکا اور دل کے گہرے گھاؤ پر لگا ہار کا امکاں بہت ہے زندگی کے کھیل میں جیتنا چاہے تو اپنا آپ داؤ پر لگا زندگی کی گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں حادثے خیمۂ جاں سوچ کر اگلے پڑاؤ پر لگا بے...
  2. حسن محمود جماعتی

    پریشاں ہوں پرانا یار گم ہے مشتاق عاجز

    (مرحوم دوست اشفاق امین کے لیے) پریشاں ہو پرانا یار گم ہے غموں کی بھیڑ میں غمخوار گم ہے ادھر انبار ہیں کار جہاں کے ادھر میرا شریک کار گم ہے سوا نیزے پہ سورج آگیا ہے مگر سایہ پس دیوار گم ہے مزاج گردش دوراں ہے برہم کہیں اک ساعت سیار گم ہے بہت بے ربط ہوتی جارہی ہے کہانی کا کوئی کردار گم ہے...
Top