پرویز مشرف کی مقبولیت

زیک

مسافر
پرویز مشرف پاکستان میں کتنا مقبول ہے اس کا اندازہ پچھلے ماہ کے دو سروے سے ہو جاتا ہے۔

انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹٹیوٹ کے سروے کے مطابق:

- 57 فیصد کی فوج کے متعلق رائے مشرف کی وجہ سے خراب ہوئی ہے۔
- 72 فیصد مشرف کی کارکردگی کو disapprove کرتے ہیں۔
- 75 فیصد کا خیال ہے کہ مشرف کو استعفٰی دینا چاہیئے۔
- صرف 8 فیصد کا خیال ہے کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے مشرف بہترین لیڈر ہے۔
- مشرف کی favorable rating صرف 16 فیصد ہے۔
- 62 فیصد کا خیال ہے کہ مشرف کا استعفٰی پاکستان کے لئے بہت اچھا ہو گا۔ مزید 17 فیصد کا خیال ہے کہ یہ کچھ اچھا ہو گا۔

ٹیرر فری ٹومارو کے سروے کے مطابق:

- 10 فیصد پاکستانی مشرف کی کارکردگی کو strongly approve کرتے ہیں اور مزید 20 فیصد somewhat approve۔ 18 فیصد somewhat disapprove اور 50 فیصد strongly disapprove۔
- مشرف کی favorability rating صرف 30 فیصد ہے۔
- 47 فیصد شدت سے چاہتے ہیں کہ مشرف فوراً مستعفی ہو جائے۔ مزید 23 فیصد بھی کچھ حد تک استعفٰی کے حامی ہیں۔ یعنی 70 فیصد پاکستانی مشرف کو صدر نہیں دیکھنا چاہتے۔
- 16.5 فیصد کا خیال ہے کہ مشرف پاکستان کے لئے بہترین لیڈر ہے۔
- بہترین لیڈر کے لئے صرف 3 فیصد کی مشرف دوسری چوائس ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
زیک،
میرا نظریہ ہے کہ پاکستان میں حکومت میں جو بھی ہو گا عوام میں اُس کی مقبولیت کم ہی ہوتی جائے گی کیونکہ بقیہ تمام جماعتیں متحد ہو کر [بمعہ میڈیا] اسکے پیچھے پڑے رہیں گے۔
آپکو یاد ہو گا کہ نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر آیا، مگر جب آخر میں اُسکی حکومت گری تو اس کی مقبولیت اس سے کہیں کم تھی [بلکہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اس ملٹری بغاوت کو خوش آمدید کہا]
مشرف صاحب کے پہلے تین سال [جہاں انہیں بغیر پارلیمنٹ کے حکومت کرنے کا موقع ملا] اُسوقت تک انکی مقبولیت کا گراف بہت بلند تھا۔ اور جلد جب پی پی پی اور نواز شریف کے نئی حکومت قوم کے بجلی جیسے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گی تو مقبولیت کا یہ گراف خود بخود بلند ہوتا چلا جائے گا۔

بہرحال، صدر مشرف نے اپنی ذات میں بہت سے لوگوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ انکا سیاسی بیک گراونڈ کچھ نہیں تھا، مگر اب پاکستان میں کم از کم پندرہ بیس فیصد لوگ تو ایسے ہیں جو ان کے Die Hard حمایتی ہیں۔ اور یہ ایک لیڈر کی بہت کامیابی ہے۔

ویسے ان غیر ملکی پولنگ کو میں اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتی کیونکہ یہ صرف کچھ علاقوں یا لوگوں تک محدود ہوتی ہے۔ اصل رزلٹ آپکے پاس الیکشن کی صورت میں موجود ہے۔ اگرچہ کہ قائد لیگ کو سیٹیں کم ملی ہیں، مگر پاکستان میں بہت سی جگہوں پر اُن کی امیدوار دوسرے نمبر پر رہے ہیں اور انکے مجموعی ووٹوں کی تعداد اچھی خاصی بنتی ہے۔ اس میں ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ لوگوں نے مشرف صاحب کو ووٹ نہیں دیا بلکہ قائد لیگ کے امیدواروں کو انکی برادری وغیرہ کی وجہ سے ووٹ دیا ہے۔
بہرحال، نواز شریف کو جو دو تہائی سے زیادہ مقبولیت ماضی میں حاصل تھی، وہ آج نہیں ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ آج سے 5 سال کے بعد پاکستان کی یہی عوام صدر مشرف کو یاد کر رہی ہو۔
 

ساجداقبال

محفلین
میرا نظریہ ہے کہ پاکستان میں حکومت میں جو بھی ہو گا عوام میں اُس کی مقبولیت کم ہی ہوتی جائے گی کیونکہ بقیہ تمام جماعتیں متحد ہو کر [بمعہ میڈیا] اسکے پیچھے پڑے رہیں گے۔
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی اچھے کام کرے اور لوگ خوامخواہ اسکے پیچھے پڑ جائیں۔ آپ لوگوں کو ریلیف دیں، لوگ آپکو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔
 

اظہرالحق

محفلین
یار لوگو ۔ ۔ ۔ گَل مکدی اے مکاندا کیوں نئیں‌؟
مشرف چھوڑ کہ جاندا کیوں نئیں ؟؟
آپے شرم اے کھاندا کیوں نئیں ؟؟؟
چاچا چھوڑ کہ جاندا کیوں نئیں؟؟؟؟
 

زیک

مسافر
میرا نظریہ ہے کہ پاکستان میں حکومت میں جو بھی ہو گا عوام میں اُس کی مقبولیت کم ہی ہوتی جائے گی کیونکہ بقیہ تمام جماعتیں متحد ہو کر [بمعہ میڈیا] اسکے پیچھے پڑے رہیں گے۔

آسان الفاظ میں آپ کہہ رہی ہیں‌کہ عوام الو ہیں۔ ;)
 

زیک

مسافر
بہرحال، صدر مشرف نے اپنی ذات میں بہت سے لوگوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ انکا سیاسی بیک گراونڈ کچھ نہیں تھا، مگر اب پاکستان میں کم از کم پندرہ بیس فیصد لوگ تو ایسے ہیں جو ان کے Die Hard حمایتی ہیں۔ اور یہ ایک لیڈر کی بہت کامیابی ہے۔

اسے پولنگ پر نظر رکھنے والے پاگل پرسنٹیج کہتے ہیں کہ آپ کوئی بھی سوال کر لیں دس پندرہ فیصد عجیب و غریب جواب ہی دیں گے۔ ویسے مشرف کی مقبولیت کو باقی لیڈروں کی مقبولیت سے موازنہ کریں اور پھر بتائیں۔

ویسے ان غیر ملکی پولنگ کو میں اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتی کیونکہ یہ صرف کچھ علاقوں یا لوگوں تک محدود ہوتی ہے۔

ذرا سروے کی methodology تو پڑھیں پھر بات کریں۔

اصل رزلٹ آپکے پاس الیکشن کی صورت میں موجود ہے۔ اگرچہ کہ قائد لیگ کو سیٹیں کم ملی ہیں، مگر پاکستان میں بہت سی جگہوں پر اُن کی امیدوار دوسرے نمبر پر رہے ہیں اور انکے مجموعی ووٹوں کی تعداد اچھی خاصی بنتی ہے۔ اس میں ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ لوگوں نے مشرف صاحب کو ووٹ نہیں دیا بلکہ قائد لیگ کے امیدواروں کو انکی برادری وغیرہ کی وجہ سے ووٹ دیا ہے۔
بہرحال، نواز شریف کو جو دو تہائی سے زیادہ مقبولیت ماضی میں حاصل تھی، وہ آج نہیں ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ آج سے 5 سال کے بعد پاکستان کی یہی عوام صدر مشرف کو یاد کر رہی ہو۔

معلوم نہیں آپ کس دنیا میں رہتی ہیں۔ 1988 سے یہ ثابت ہے کہ پی‌پی‌پی اور مسلم لیگ (جو آج ن لیگ ہے) پاکستان کی دو مقبول‌ترین جماعتیں ہیں اور اس میں بیس سالوں میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں ہوئی۔ دونوں پارٹیوں کی غلطیاں، حماقتیں، کرپشن سے انکار نہیں مگر ان کی عوام میں مقبولیت سے انکار کرنا بھی بیوقوفی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آسان الفاظ میں آپ کہہ رہی ہیں‌کہ عوام الو ہیں۔ ;)

زیک، کچھ باتیں ان کہی ہوتی ہیں۔ مجھے بیچ سے نکال دیں، مگر کراچی کو جو عوام الطاف حسین کو ووٹ دیتی ہے اُسے بقیہ پاکستان کیا کہتا ہے [اور اگر منہ سے نہیں کہتا تو دل سے کیا سوچتا ہے]

اور جو لوگ مشرف کو ووٹ دیتے ہیں اُسے دیگر جماعتوں والے کیا کہتے/سوچتے ہیں۔ اور نواز شریف کے حامی زرداری پارٹی کو ووٹ دینے والوں کو کیا کہتے/سوچتے ہیں؟

///////////////////

بات یہ نہیں ہے کہ عوام الو ہے، مگر میں نے آپکے سامنے عوام کی ایک حقیقی سائیکو پیش کی تھی کہ جو بھی حکومت میں ہوتا ہے پاکستان کی عوام اسکے خلاف ہوتی جاتی ہے۔ یہ عمل میڈیا کے مادر پدر آزاد ہو جانے کے بعد اور تیز ہو گیا ہے۔ اگر یہ صورتحال کا صحیح تجزیہ نہیں تو آپ بتلائیں کہ:

1۔ پی پی پی ضیا کے مرنے کے بعد بہت اکثریت میں جیتی ہے۔

2۔ مگر اگلے الیکشن میں یہی عوام اسکے جانے کے بعد مٹھائیاں بانٹتی ہے اور تاج نواز شریف کے سر پر رکھا جاتا ہے۔

3۔ مگر پھر اگلے الیکشن ہوتے ہیں اور عوام پیپلز پارٹی کی گود میں ہوتی ہے۔

4۔ مگر اس سے اگلے الیکشنز میں پیپلز پارٹی کے اتنے خلاف ہوتی ہے کہ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آتے ہیں۔

5۔ اسکے بعد پاکستان کی نواز دور میں بہت بری حالت ہوتی ہے۔ فارن ایکسچینج صرف چند ملین ڈالر رہ جاتا ہے، پاکستان کرپشن میں دنیا میں دوسرے نمبر پر پہنچ جاتا ہے، نواز اسی عدلیہ پر حملہ کرواتے ہیں.
گو نواز گو کے نعرے لگتے ہیں، نواز ہٹاو ملک بچاو کے نعرے لگتے ہیں۔
پھر تمام روایتی پارٹیاں اس احتجاج میں شامل ہو جاتی ہیں۔ عمران خان، نوابزادہ نصر اللہ۔۔۔
پھر جماعت اسلامی کے قاضی اعلان کرتے ہیں: "اب نواز اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہیں جانا ہی ہو گا۔"
قاضی صاحب آگے بڑھتے ہیں اور بولتے ہیں: "نواز شریف کا دور پاکستان کی تاریخ کا سب سے تاریک دور ہے" اور پھر اسکے خلاف باقاعدہ "اعلانِ جہاد" کرتے ہیں۔
مرحومہ بینظیر بھٹو لندن سے بیان دیتی ہیں: "نواز گورنمنٹ کو لازمی استعفی دینا ہو گا اور تازہ الیکشن نیوٹرل سیٹ اپ میں کروانا ہوں گے [دھاندلی کے الزامات]۔ نواز حکومت اپنی قانونی اور سیاسی حیثیت کھو چکی ہے۔"
ان سب چیزوں کے بعد جب نواز حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو یہی عوام مٹھائیاں بانٹ رہے ہوتے ہیں۔
کیا آپ نہیں مانتے کہ جب نواز گیا تو اس وقت صدر مشرف کو اس سے کہیں زیادہ سپورٹ حاصل تھی۔

تو کیا پاکستان کی عوام کی اس تاریخ کا ذکر کرنا عوام کو الو کہنے کے برابر ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
ہماری تاریخ بھی یہی ہے جیسا کہ سسٹر مہوش نے کہا کہ ہم ۔۔۔ چند سالوں بعد تبدیلی کو ناگزیر سمجھنے لگتے ہیں ۔ اور اس مقصد کے لیئے اپنے " مخلص قائدین " کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔ ہر دور ِ اقتدار میں یہ بات مسلسل تکرار کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ " یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے " اگر اس تکرار کا مشاہدہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ بھٹو کے دور کو اسلام اور قومی سلامتی کے لیئے بدترین دور قرار دیا گیا ۔ وہ رخصت ہوئے تو گلی کوچوں میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں ۔ ابھی اسی مستی میں تھے تو معلوم ہوا کہ ملک مارشل لاء کی زد میں ہے ۔ اور پھر اسی طرح گیارہ برس گذر گئے ۔ پھر اسی دوران قوم کو یہ احساس ہوا کہ ضیاء کے دور سے " بدترین دور " پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا ۔ ایک حادثے کے بعد وہ گئے تو بینظیر آگئیں ۔ پھر ان کو دور کو بھی بدترین دور قرار دیا گیا اور پھر اسی طرح نواز شریف کے دور کو بھی " بدترین دور " کہا گیا ۔ اور اب یہ تبدیلی کی خواہش مشرف کی حکومت کے ساتھ ہے ۔ تاریخ کے تسلسل میں دیکھئے تو آج تبدیلی کی یہ خواہش کونسا دور لیکر آئے گی تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والا دور بھی پچھلے ادوار کی طرح " بدترین دور " ہوگا ۔ کم از کم اقتدار سے محروم لوگوں کی تو یہی رائے ہوگی ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہی بدترین کا حصول دراصل وہ تبدیلی کی خواہش ہے ۔ جو عوام چاہتی ہے ۔ ؟ ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ خیر کے راستے پر کیوں نہیں جاتی ۔ ؟ اس کو وجود پذیر نہ ہونے کے عوامل کونسے ہیں ؟ میرا تاثر یہ ہے کہ محض تبدیلی کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتی ۔ اس کے لیئے ایک ایسے اصلاحی عمل کا ناگزیر ہونا ضروری ہے ۔ جس سے اخلاقی ، سیاسی ، معاشرتی رواداری کا پہلو لوگوں میں اجاگر ہو اور یہ پہلو قومی وحدت پر آکر منتج ہو ۔ جب تک " لے کے رہیں گے پاکستان " والی اجتماعی سوچ نہیں پیدا ہوگی تب تک ایک ایسی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے جو معاشرے میں کسی جوہری تبدیلی کا باعث بن سکے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اسے پولنگ پر نظر رکھنے والے پاگل پرسنٹیج کہتے ہیں کہ آپ کوئی بھی سوال کر لیں دس پندرہ فیصد عجیب و غریب جواب ہی دیں گے۔ ویسے مشرف کی مقبولیت کو باقی لیڈروں کی مقبولیت سے موازنہ کریں اور پھر بتائیں۔

زیک، دیکھیں آپ کو جو تجزیہ ہو، یا باقی دنیا کا جو تجزیہ ہو اُس کا میں احترام کر سکتی ہوں۔

مگر جب اپنی ذاتی رائے قائم کرنے کا موقع آئے گا، تو پھر میں چیزوں کو دنیا کی آنکھوں سے نہیں، بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر قائم کروں گی، اور یہ رائے اگر آپکے یا بقیہ دنیا کے خلاف جا رہی ہے تو بھی مجھے صرف اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے رائے قائم کرنا ہے۔
اور میں اسی نتیجے پر ہوں کہ صدر مشرف ایک عظیم لیڈر ہیں۔ ان کے لب و لہجے سے واضح ہے کہ یہ پاکستان کے لیے کتنے مخلص ہیں۔ ایک بہت ہی اچھے انسان ہیں۔ غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہیں مگر ان کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے صرف میں نے انہیں دیکھا ہے۔ لوگ انہیں آمر کہتے ہیں، جبکہ میرے نزدیک یہ لوگ اندھے ہیں جو یہ نہ دیکھ پائے کہ یہ تو حقیقی جمہوری اقدار کے مالک ہیں۔ کیا فوج کے زور پر جب یہ حکومت میں آئے تو کسی میں اتنا دم تھا کہ انکے خلاف بولتا؟ مگر انہوں نے خود میڈیا کو بغیر کسی دباو کے آزادی دی [مگر غلطی سے مادر پدر آزادی دے دی کیونکہ انہوں نے بقیہ لوگوں کو بھی اپنی طرح نفیس انسان سمجھا]۔ ضلعی سطح تک اختیارات کو منتقل کر کے صحیح معنوں میں ملک کو جمہوریت کی راہ دکھائی [اور ہمارے اخبارات میں لکھنے والوں میں ایسے حضرات ابھی تک اس نظام کی مخالفت کر رہے ہیں] ۔ اسی نظام کی وجہ سے کراچی میں نعمت اللہ کو موقع ملا کہ کراچی میں ترقیاتی کام کر سکیں۔ اور پھر جب ایم کیو ایم آئی تو پھر تو اس کی رفتار دگنی ہو گئی]۔ صرف اس ایک قدم سے کراچی کے عوام کی آدھی ڈیمانڈز پوری ہو گئیں اور یہ وجہ ہے کہ ایم کیو ایم سے آخر تک انکا اتحاد رہا [جبکہ اس سے قبل نواز شریف اور بینظیر کے ادوار میں کراچی میں سرکاری سطح پر قتل و غارت ہی ہوتی رہی، حالانکہ ایم کیو ایم نے ان دونوں سے بھی شروع میں اتحاد کیا تھا]۔

تو اگر آپکی رائے مشرف صاحب کے خلاف ہے تو میں اسکا احترام کرتی ہوں، مگر اس کو صحیح نہیں مانتی۔



ذرا سروے کی methodology تو پڑھیں پھر بات کریں۔

کیا آپ نے نواز شریف کے جانے کے وقت جو سروے کیے گے تھے، وہ پڑھے تھے؟

بہرحال یہ جملہ معترضہ ہے، میں ان سرووں کی بنیاد پر مشرف صاحب کی حمایت کیوں ترک کروں جبکہ جس عوام سے یہ سروے کیا جا رہا ہے انکی آراء بھی میرے علم الیقین کو ختم نہیں کر سکتی؟



معلوم نہیں آپ کس دنیا میں رہتی ہیں۔ 1988 سے یہ ثابت ہے کہ پی‌پی‌پی اور مسلم لیگ (جو آج ن لیگ ہے) پاکستان کی دو مقبول‌ترین جماعتیں ہیں اور اس میں بیس سالوں میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں ہوئی۔ دونوں پارٹیوں کی غلطیاں، حماقتیں، کرپشن سے انکار نہیں مگر ان کی عوام میں مقبولیت سے انکار کرنا بھی بیوقوفی ہے۔

صرف ان دو جماعتوں کو مقبولیت حاصل نہیں، بلکہ الطاف حسین کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہے اور مجیب الرحمان کو بھی بہت مقبولیت حاصل تھی۔ اور یقینا قائد لیگ کو بھی نواز کے پچھلے دور ختم ہو جانے کے بعد کافی مقبولیت حاصل تھی۔

لیکن شاید آپ میرا نظریہ سمجھ جائیں جب میں یہ کہوں کہ یہ مقبولیت یا یہ اکثریت میرے نزدیک اہمیت نہیں رکھتے اور اگر پاکستان کی 99 فیصد عوام بھی مشرف صاحب کے خلاف فیصلہ دے دیں تو بھی میں اپنی رائے پر قائم ہوں کہ مشرف صاحب کا دور پاکستان کی عوام کے لیے بینظیر اور نواز کے پچھلے چاروں ادوار سے بہتر تھا۔ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں، بلکہ شاید بہت سی خرابیاں ہوں، مگر جب بھی میں موازنہ کروں گی تو مشرف صاحب کو میری نظر میں بینظیر اور نواز شریف پر فوقیت حاصل رہے گی۔

تو جب لوگ مشرف صاحب کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہاں نہیں چوکتے تو پھر میں مشرف صاحب کے حق میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کیوں تنقید کا نشانہ بنوں۔
 

زیک

مسافر
بات آپ کی رائے کی نہیں بلکہ پاکستانی عوام کی رائے کی ہو رہی تھی۔ باقی جو کچھ بھی ہو میرا خیال ہے کہ پاکستان کے حکمران چننے کا حق پاکستان کے عوام کو حاصل ہونا چاہیئے۔

باقی میری رائے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ مجھے پاکستان چھوڑے عرصہ گزرا۔:grin:
 

اظہرالحق

محفلین
عوام تبدیلی اس لئے چاہتے ہیں کہ ، جو بھی حکمران بنتا ہے وہ ایک سال کے بعد ہی عوام سے اور عوامی مسائیل سے منہ موڑ لیتا ہے ، اور عوام جب اس سے مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں‌، کیونکہ ہمارے ہاں لیڈرشپ صرف طبقہ اعلٰی سے ہی آ سکتی ہے یا پھر اسٹیبلیشمنٹ اور پارٹی پاور کسی کو بھی لیڈر بنا دیتی ہے ۔ ۔ اور جو لیڈر بنتا ہے اسے عوام کا احساس نہیں ہوتا ۔ ۔ ہمارے ملک میں آج تک کے حکمرانوں میں لیڈر صرف ایک بھٹو تھا ۔ ۔ ۔ میں بھٹو کی بہت ساری پالیسیوں کے خلاف ہوں مگر اسکا عوامی ہونا کسی سے چھپا نہیں ہے ۔ ۔ اسکے بعد نواز شریف نے بھی کوشش کی لیڈر بننے کی مگر نہیں بن پایا ایسی ہی کوشش بے نظیر کی تھی اور اگر اسے قتل نہ کیا جاتا تو شاید وہ مزید عوامی ہو جاتی ۔ ۔ ۔ یہ بات اسٹیبلیشمنٹ کی نظر میں بری طرح کھٹک رہی تھی ۔ ۔۔ اب نواز شریف کا مسلہ بھی یہ ہی ہے وہ وہ بات کر رہا ہے جو پبلک کر رہی ہے یعنی ججوں کی بحالی ۔ ۔۔اسٹبیلشمنٹ کے لئے یہ ممکن نہیں‌اور زرداری کا بے نظیر قتل کی تحقیقات کا مطالبہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے لئے پریشان کن ہے ، مگر یہ اتنا بڑا مسلہ نہیں جتنا ججوں کی بحالی ہے ، کیونکہ زرداری کی بات ماننے سے مشرف کو اپنے چند مہروں کی قربانی دینی ہو گی ، نواز شریف کی بات رکھنے کی صورت میں ۔ ۔ بہت کچھ بدل سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور جو لوگ ماضی کی مثالوں سے یہ بات ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ عوام تو کچھ عرصے بعدہی تبدیلی مانگتی ہے تو انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس بات کی ذمہ دار عوام نہیں وہ لیڈر ہیں جو اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد چند مہینوں میں ہی بدل جاتے ہیں ۔ ۔ اور عوام کو مجبوراً تبدیلی کی امید لگانی پڑتی ہے ۔ ۔ ۔

مشرف کی حمایت کرنا اس وقت ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک طرف تو جمہوریت کا راگ الاپ رہیں ہوں اور دوسری طرف ووٹ دینے والوں کو بے وقوف سمجھ رہے ہوں ۔ ۔ ۔ کیا ہمارے سارے مسائیل کا حل مشرف ہے ؟ جیسے اس وقت مشرف نے اپنے آپ کو لازم و ملزوم بنایا ہے پاکستان کے لئے کیا اپنے آپ کو ہی عقل کل کہنا انصاف ہے ؟ جمہوریت میں تو ایسا نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ اور پارلیمانی نظام میں‌تو ایسا نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ میری نظر میں ہمیں اس وقت ایک طتہیر (عمل طہارت) سے گذرنا ہو گا ۔ ۔۔ اور شاید اس میں کافی سارے "جراثیم" مر جائیں ;)
 

ساجداقبال

محفلین
میں اسی نتیجے پر ہوں کہ صدر مشرف ایک عظیم لیڈر ہیں۔ ان کے لب و لہجے سے واضح ہے کہ یہ پاکستان کے لیے کتنے مخلص ہیں۔
انکے خلوص اور عظمت کے نمونہ یہ الفاظ دیکھ لیں:
When I ask about the deposed chief justice, Iftikhar Chaudhry, who is still under house arrest, he denounces him as "the scum of the earth – a third-rate man – a corrupt man".​
بحوالہ: انڈیپینڈنٹ

بدقسمتی سے آپ جس عوام کو اُلو ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں (دوسری طرف آپ اسی عوام کی بیس فیصد عقلمندوں کو صدر کا ڈائی ہارڈ فین ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہیں)، آپ اُسی عوام کیطرح شخصیت پرستی میں پڑی ہوئی ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی بدولت ہم ہر مخصوص عرصہ بعد قیادت کی تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اور ہاں اگر میں آپکو قتل کر کے کہوں کے غلطی ہوگئی اور ”کھلے“ دل سے بھی کہوں تو کیا کوئی فائدہ ہوگا؟ کیا ان کھلے دل اعترافات سے جامعہ حفصہ کی بچیاں زندہ ہو جائینگی؟ یا بلوچوں پر برسنے والے وہ میزائیل رک گئے جنکا منبع بھی ”پتہ نہیں چلے گا“؟
جن بیس فیصد ڈائی ہارڈ مداحوں کا ذکر آپ کرتی ہیں کم از کم ہمیں نظر نہیں آئے کہیں۔۔۔۔۔
 

مون

محفلین
اندھیروں کا تسلسل مختصر ہونے نہیں دیتا
سحر کا نام لیتا ہے، سحر ہونے نہیں دیتا

وہ شب فطرت ہے اس کو روشنی اچھی نہیں لگتی
کسی گھر میں اجالوں کا گزر ہونے نہیں دیتا

وہ دہشت بانٹتا ہے خوف کے منظر بناتا ہے
کوئی شاخِ تمنا بارور ہونے نہیں دیتا

وہ سارے فیصلے حسبِ ضرورت آپ کرتا ہے
کسی کا حرف، حرفِ معتبر ہونے نہیں دیتا

ہمیشہ دوسروں میں فاصلے تقسیم کرتا ہے
وہ لوگوں کو بہم شیروشکر ہونے نہیں دیتا

امیرِ کارواں رہنے کا اتنا شوق ہے اس کو
کہ دانستہ بھی تکمیلِ سفر ہونے نہیں دیتا
(سید عارف)

آخری شعر بہت اہم ہے میرے خیال میں۔۔۔۔۔ :)
 

مہوش علی

لائبریرین
انکے خلوص اور عظمت کے نمونہ یہ الفاظ دیکھ لیں:
When I ask about the deposed chief justice, Iftikhar Chaudhry, who is still under house arrest, he denounces him as "the scum of the earth – a third-rate man – a corrupt man".​
بحوالہ: انڈیپینڈنٹ

بدقسمتی سے آپ جس عوام کو اُلو ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں (دوسری طرف آپ اسی عوام کی بیس فیصد عقلمندوں کو صدر کا ڈائی ہارڈ فین ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہیں)، آپ اُسی عوام کیطرح شخصیت پرستی میں پڑی ہوئی ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی بدولت ہم ہر مخصوص عرصہ بعد قیادت کی تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اور ہاں اگر میں آپکو قتل کر کے کہوں کے غلطی ہوگئی اور ”کھلے“ دل سے بھی کہوں تو کیا کوئی فائدہ ہوگا؟ کیا ان کھلے دل اعترافات سے جامعہ حفصہ کی بچیاں زندہ ہو جائینگی؟ یا بلوچوں پر برسنے والے وہ میزائیل رک گئے جنکا منبع بھی ”پتہ نہیں چلے گا“؟
جن بیس فیصد ڈائی ہارڈ مداحوں کا ذکر آپ کرتی ہیں کم از کم ہمیں نظر نہیں آئے کہیں۔۔۔۔۔

ساجد دیکھئیے، یہ اکا دکا واقعات بیان کر کے پوری تصویر پیش نہیں ہو سکتی۔ کیا آپ بھول گئے کہ یہ چیف جسٹس صاحب بذات خود کتنے مغرور تھے اور دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے۔

جہاں تک شخصیت پرستی کا تعلق ہے، تو میں سمجھتی ہوں کہ شخصیت پرستی وہ کہلاتی ہے جب آپ کسی شخصیت کی غلطیوں کا دفاع کرنا شروع کر دیں۔ جبکہ میں نے کبھی مشرف صاحب کی غلطیوں کا دفاع نہیں کیا ہے، بلکہ مشرف صاحب بذاتِ خود اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتے ہیں۔

میرے نزدیک مسئلہ یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں "حکومت" [چاہے وہ کسی کی بھی ہو] وہ بہت کمزور ہے اور اسکے مقابلے میں اپوزیشن بہت زیادہ ہے اور میڈیا بھی حکومت کو کمزور کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرے گا۔ شاید اگر مخلوط حکومت بنی تو وہ اس پریشر کا سامنا کر پائے۔

مشرف صاحب کی حکومت کو میڈیا اور وکلاء اور دیگر سیاسی اپوزیشن اور انتہا پسندوں نے اتنا کارنر کر دیا گیا تھا کہ میرے نزدیک وہ کوئی موثر کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہ گئی تھی۔ اس موقع پر اچھا ہوتا ہے کہ "ایک قدم پیچھے" ہٹا جائے کیونکہ اسکے بغیر آپ زور میں نہیں آ سکتے۔ قوم کو پھر ضرورت ہے کہ ان پر زرداری پارٹی کا سایہ اگلے 5 سال تک لہرائے تاکہ انہیں بہت کچھ یاد آ سکے جسے وہ بھول گئے تھے۔ اسی دوران میڈیا اور وکلاء اور ججوں والی عدلیہ کا کردار بھی اس کھل کر عوام کے سامنے آ چکا ہو گا اور دیکھتے ہیں کہ عدلیہ اب بھی "از خود نوٹس" لیتی ہے یا نہیں اور کیا وکلاء اب بھی سیاسی کردار ادا کرتے رہیں گے۔


/////////////////////

جہاں تک جامعہ حفصہ کا تعلق ہے، تو میں اپنا موقف بیان کر چکی ہوں اور آپکے اور میرے موقف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

میں اس موقف پر ہوں کہ "اگر ہزار لوگ مل کر ایک معصوم شخص کی جان و مال کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو حکومت پر لازم ہے کہ اس ایک معصوم شخص کی جان و مال کو ان ہزار لوگوں پر مشتمل فتنے پر ہر صورت میں فوقیت دے اور انہیں کوئی چانس نہ دیا جائے کہ وہ اس ایک معصوم شخص کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچا سکیں اور اگر یہ لوگ باز نہ آئیں اور اسلحہ کے زور پر قانون شکنی کریں تو انہیں اُس وقت تک مارا جائے جبتک وہ اپنے فتنے سے باز نہ آ جائیں۔"

مثلا جب بینظیر ماری گئیں اور کراچی میں بلوائیوں نے کھل کر معصوم لوگوں کی جان و کاروں اور دیگر اموال پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ تو حکومت پر لازم تھا کہ ایسے بلوائیوں کو اس سے قبل ہی طاقت کے زور پر روکے کہ وہ ایک معصوم شخص کو بھی نقصان پہنچا سکیں۔"

جامعہ حفصہ کا معاملے پر پہلے ہی بہت بحث ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں اسے فی الحال اس بحث سے الگ ہی رکھتے ہیں۔
 

اعجاز

محفلین
مغرور چہف جسٹس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں‌ اپنی ہنسی کیسے روکوں :)

مہوش لال مسجد سے متعلق آپ کی بات سے میں‌ مکمل اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ مغرور چیف جسٹس :eek: ۔۔مزاق تو نا کیا کریں سنجیدہ مضامین میں:rolleyes:
 

ساجداقبال

محفلین
چلیں لال مسجد کی بحث چھوڑیں، یہ زخم کریدنے والی بات ہوگی۔ کل اگر آپ نے جیو دیکھا ہو ایک بڑی دلچسب بحث تھی۔ میرا کیبل اسوقت ”خراب“ ہو گیا۔ ;) تاہم جدیدی نے وہ ضبط تحریر میں لادی۔ مقبول صدر کی حرکات ملاحظہ کریں:
ابھی ہم ٹیلیوژن پر اعتزاز احسن اور سہیل وڑا‏ئچ کی گفتگو دیکھ رہے تھے۔ دوران گفتگو پرویز مشرف کی اعتزاز احسن کی بیٹی ثمن سے ڈیووس، سوئٹزرلینڈ میں ملاقات بھی زیر بحث آئی۔ ہم یہاں اس گفتگو کو لکھنا چاہتے ہیں۔

جنرل مشرف صاحب ورلڈ اکنامک فورم کے سلسلے میں وہاں گئے ہوئے تھے۔ اعتزاز احسن صاحب کی بیٹی وہاں ملازمت کرتی ہیں۔ پرویز مشرف نے ان کی بیٹی کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ انکی بیٹی نے پاکستان اپنے والدین سے پوچھا کہ میں جاؤں یا نہیں۔ اعتزاز صاحب نے کہا کہ بیٹا آپ ضرور جائیں۔ اگرچہ ہم تو ان کو صدر نہیں مانتے لیکن باہر تو لوگ ان کو پاکستان کا صدر ہی سمجھتے ہیں۔ وہ آپ کے بزرگ ہیں۔ ان کی بیٹی نے پوچھا کہ ابو کیا میں ان سے آپ کی قید کے بارے میں بات کروں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ بات ہر گز نہ کرنا۔ ان کی بیٹی نے پوچھا کہ پھر وہ مجھ سے کیا بات کریں گے؟ اعتزاز احسن نے کہا کہ وہ آپ کے بزرگ ہیں۔ پاکستانی ہیں۔ وہ خوش ہوں گے کہ آپ نے دیار غیر میں اتنا اچھا مقام حاصل کر کے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ آپ سے شفقت کریں گے۔ آپ ضرور ملنے جائیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میری بیٹی ملنے گئی تو جنرل مشرف نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ

Will you start or should I start?

اعتزاز صاحب کی بیٹی پریشان ہو گئیں کہ انکل میں کیا شروع کروں گی۔ آپ ہمارے صدر ہیں۔ میں تو صرف آپ سے ملنے کیلئے آئی ہوں۔ آپ ہی فرمائیں۔ جنرل مشرف کہتے ہیں کہ تمھارا باپ چیف جسٹس افتخار چوہدری، نواز شریف اور خلیل رمدے سے مل کر میرے خلاف سازش کر رہا ہے۔ چیف جسٹس کرپٹ ہے۔ یہ میرے پاس بوگس رسیدیں ہیں 28 ہزار روپے کا پٹرول ڈلوانے کی۔ دکھاؤں تمہیں، دکھاؤں تمہیں؟

اعتزاز صاحب کی بیٹی بے چاری پریشان ہو گئیں اور جنرل مشرف کی ذہنی سطح کو جان کر انہیں سخت افسوس ہوا۔ مشرف کس قسم کا آدمی ہے جس کو اپنی بچیوں سے بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں ہے۔

اعتزاز صاحب نے سہیل وڑائچ کو کہا کہ آپ بتائیں جنرل مشرف کس قسم کا آدمی ہے؟ کتنی petty شخصیت ہے اسکی۔ یعنی چیف جسٹس نے اگر کرپشن کرنی ہے تو وہ 20 ہزار روپے کی کرپشن کرے گا۔ وہ تو ایک ایک کیس سے چار چار کروڑ کما سکتے تھے۔

اعتزاز صاحب نے کہا کہ یہ سب وہ ثبوت تھے جو سپریم کورث کے 15 رکنی فل کورٹ کے سامنے پیش کئے جا چکے تھے اور قطعا رد کئے جا چکے تھے۔ اور جنرل مشرف ان گھٹیا اور گھڑے ہوئے ثبوتوں کو جیبوں میں لئے گھوم رہے ہیں اور سوئٹزر لینڈ میں اعتزاز احسن صاحب کی بیٹی کو دکھا کر اس کو ڈانٹ رہے ہیں۔
 
لال مسجد میں ان گنت بچے اور بچیوں کا بیہمانہ اور انتہائی سفاک قتل اکا دکا واقعات میں سے ہوگا۔ مہوش کچھ اللہ کا خوف کریں جان کل اللہ کو دینی ہے مشرف کو نہیں۔

جتنے لوگ جتنی بیدردی اور وحشیانہ تشدد سے ہلاک کیے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی پاکستان کی تاریخ میں اور اس سفاک قتل نے قاتل لیگ کو بری طرح سے ہرایا ہے۔

جاوید ہاشمی نے مسلسل یہی بات کی تھی

لال حویلی یا لال مسجد

اور اہل پنڈی اسلام آباد اور پنجاب نے اپنا فیصلہ سب کو سنا بھی دیا اور دکھا بھی دیا۔

مشرف جیسا شخص اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا کرے گا جس کے منہ کو انسانوں کا خون اور اقتدار کی ہوس لگ گئی ہو وہ کب مانے گا کہ وہ غلط ہے۔

پوری عدلیہ اپنے اقتدار کے لیے لپیٹ کر افتخار چوہدری کو برا بھلا کہنے کے لیے پورے یورپ کا دورہ کیا اور ذلیل و رسوا ہو کر اب بھی بضد ہے کہ میں اقتدار عزت سے نہیں چھوڑوں گا ذلت سے تو چھوٹ ہی جائے گا۔

چاروں صوبوں میں خون کی ہولی کھیل کر بھی اس کی ہوس اقتدار ٹھنڈی نہیں پڑی اور جو اب بھی اسے جائز سمجھتے ہیں ان سے اور کیا کہا جائے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
پوری عدلیہ اپنے اقتدار کے لیے لپیٹ کر افتخار چوہدری کو برا بھلا کہنے کے لیے پورے یورپ کا دورہ کیا اور ذلیل و رسوا ہو کر اب بھی بضد ہے کہ میں اقتدار عزت سے نہیں چھوڑوں گا ذلت سے تو چھوٹ ہی جائے گا۔
معاف کرنا، اس بات کی کچھ وضاحت کرنا۔ یہاں یورپ کے سربراہان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ دیگر ملکوں کی اس طرح کی باتیں سننےکے لئے بیٹھے رہیں کہ فلاں ملک کے چیف جسٹس کے خلاف اس کا صدر ہمیں کیا کہنے آ‌رہا ہے
 
Top