پاکستان کے موجودہ حالات اور پسِ پردہ محرکات۔ ۔ ۔ رائے شماری

کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حالیہ سیلاب اور بدنظمی :


  • Total voters
    13
آجکل یہ بات بڑے تواتر کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے کہ “ پاکساتان پر اللہ کا عذاب آیا ہوا ہے“ اور یہ کہ “ خدا ہم سے ناراض ہوچکا ہے“ وغیرہ وغیرہ۔۔ ۔
ہماری چند دینی جماعتوں کے سرکردہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے، یہ طالبان کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آفتیں ہماری بداعمالیوں، زندگی اور مذہب کے بارے میں ہمارے عمومی اور منافقانہ رویوں کی مکافات ہے۔
ایک مخصوص اقلیتی گروہ کے لوگ کافی عرصے سے مسلسل اس پراپیگنڈے میں مشغول ہیں کہ یہ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے یہ انکے ساتھ روا رکھی گئی مبّینہ نا انصافیوں کا نتیجہ ہے اور یہ کہ جب سے انکی عبادت گاہ پر حملے ہوئے ہیں پاکستان کی بدبختیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ گویا پاکستان پر آنے والی ہر تباہی اور ذلت میں ان لوگوں کی مجروح انا کی کچھ نہ کچھ تسکین کا سامان موجود ہوتا ہے اور شماتتِ اعداء کا مظاہرہ کرنے سے کبھی چوکتے نہین۔ اور دل سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی الٹی گنتی شروع ہے اور اسکے اختتام کا آغاذ ہوچکا ہے۔
غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں ہین۔
ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ حالیہ سیلاب اور بدنظمی :
1- پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں پر اللہ کا عذاب ہے۔ اور خدا کی ناراضگی کا اظہار ہے۔
2- اللہ کی طرف سے قوم کی آزمائش ہے تاکہ قوم اس آزمائش سے سرخرو ہوکر صحیح معنوں میں ایک قوم بن کر ابھرے۔ اور یہ تخریب کسی تعمیر کا پیش خیمہ ہے۔
3- محض اتفاقیہ امر ہے۔ قدرتی آفات آتی رہتی ہین۔
 

عثمان

محفلین
قدرتی آفات ہر جگہ آتی ہیں۔ نقصان ان کا زیادہ ہوتا ہے جو پیشگی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ ابھی حال ہی میں ہیٹی میں زلزلہ سے ہزاروں اموات ہوئیں ہیں۔ جو لوگ اس واقعہ کو مذہب سے جوڑ رہے ہیں ان کے پاس ہیٹی کے زلزلے کے بارے میں کیا جواز ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اس وقت ایک کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔

گندم کے ساتھ گُھن تو پستا ہی ہے۔ اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے کہ اس میں کیا بہتری ہے۔

علما کا یہ کہنا کہ اجتماعی توبہ و استغفار کرنا چاہیے بالکل درست ہے۔
 

عثمان

محفلین
گندم کے ساتھ گُھن تو پستا ہی ہے۔

شمشاد بھائی ادھر تو صرف گھن ہی پس رہا ہے۔ گندم تو ویسی کی ویسی ہے۔ :(
سیلاب کو لے لیجئے۔ جو جتنا لاچار ہے۔ اس نے اتنا ہی نقصان اٹھایا ہے۔ طاقتور لوگ تو اپنی زمینیں اور باغات تک بچا گئے۔
 
[AYAH]وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ [/AYAH]
الم سجدہ:21،22
اور ہم ان کو یقیناً (آخرت کے) بڑے عذاب سے پہلے قریب تر (دنیوی) عذاب (کا مزہ) چکھائیں گے تاکہ وہ (کفر سے) باز آجائیں۔
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے پھر وہ اُن سے منہ پھیر لے، بیشک ہم مُجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں
 
اس رائے شماری کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ مذکورہ بالا سوالات پر غور کریں۔ سرسری اور سطحی رائے دینے کی بجائے سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے بعد اپنی رائے دیجئے اور اگر مناسب سمجھیں تو اس رائے کے حق میں اپنے دلائل بھی سامنے لائیے۔
جیسا کہ میں نے اشارہ کیا کہ کچھ لوگ اس مصیبت کی گھڑی مین قوم میں مایوسی پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ذرا سوچئیے کہ کیا آپ بھی اسی راہ پر گامزن ہیں یا علیٰ وجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا کا عذاب ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو براہ کرم اس عذاب کے پس پردہ محرکات اور وجوہات کی بھی نشاندہی فرما دین۔
 
[AYAH]وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ [/AYAH]
الم سجدہ:21،22
اور ہم ان کو یقیناً (آخرت کے) بڑے عذاب سے پہلے قریب تر (دنیوی) عذاب (کا مزہ) چکھائیں گے تاکہ وہ (کفر سے) باز آجائیں۔
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے پھر وہ اُن سے منہ پھیر لے، بیشک ہم مُجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں
شکریہ جاوید صاحب، آپ نےجس آیت کو کوٹ کیا ہے، اسکی رو سے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب لوگ جو اس آفت سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں وہ سب “مجرمین“ ہیں اور اللہ کے “ انتقام“ کی زد میں آئے ہوئے ہیں؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والوں، اور اللہ سے استغفار کرنے والے بے کس مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کبھی عذاب نازل نہیں کرتے۔ ۔

وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں

ایک حدیث قدسی بھی ہے کہ “ ان عند ظن عبدی بی۔ ۔ ۔“ یعنی اللہ لوگوں کے ساتھ انکے گمان اور ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے۔ اگر ہم اس سے اچھا ظن رکھتے ہیں تو وہ ایسا ہی ہے اور اگر سوءظن رکھتے ہیں تو اسکا ہمارے ساتھ معاملہ ویسا ہی ہوگا۔ ۔

چنانچہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان پر اللہ کا عذاب ہے تو واقعی انکے حق میں یہ اللہ کا عذاب ہی ہے اور جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے اور وہ رحمٰن رحیم لطیف اور حکیم و کریم ہے تو انکے خیال مین یہ اللہ کا لطف ہی ہے جو بصورت قہر ظاہر ہورہا ہے۔

میرے خیال میں اس میں فیصلہ کن بات یہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک متفق علیہ حدیث میں بیان کی گئی ہے آپ نے فرمایاجسکا مفہوم یہ ہے کہ“مومن کیلئے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے کوئی نعمت پہنچتی ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے (جو مزید نعمت کا باعث بنتا ہے) اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اسے اپنے رب کی رضا اور حکمت سمجھتے ہوئے صبر کرتا ہے جس سے اسکے گناہ جھڑتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہین اور اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے“۔۔۔۔

لہذا میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ مصیبتوں کی لہر بھی ہم لوگوں کیلئے ایک آزمائش ہے، اگر ہم اسے محض اپنے رب کا انتقام سمجھتے رہے اور اسکی رحمت سے مایوس ہونے لگے تو یہ طرز فکر ہمین کفار سے مشابہ بنادیتا ہے کیونکہ اسکی رحمت سے تو صرف کفار ہی مایوس ہوا کرتے ہین۔

واللہ اعلم بالصواب۔ ۔ ۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یاد رکھنا چاہیئے کہ کسی زمانے میں فلو یا نزلہ یا زکام بھی ایک قدرتی آفت تھی کہ ہزاروں لاکھوں لوگ اس کے پھیلنے سے مر جاتے تھے، خسرہ، خناس، پولیو وغیرہ وہ قدرتی آفات تھیں جو انسان کے بچوں پر بلائے ناگہانی کی طرح پڑتی تھیں اور ان کو عمر کی پانچ بہاریں دیکھنے سے پہلے ہی ختم کر دیتی تھیں اور اب ان کو ان "قدرتی آفات" سے رحمِ مادر میں ہی محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ طاعون سے بڑی قدرتی آفت کیا ہو گی کہ اس سیاہ موت نے عہدِ وسطیٰ میں یورپ کی آبادی ایک تہائی تک کم کر دی تھی اور لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے۔

لیکن انسان نے ان سب پر قابو پایا، اور انسان کا اپنے ماحول اور اپنے اردگرد پر تسخیر کا ہزاروں سالوں کا سفر جاری و ساری ہے، رکا نہیں۔

زلزلے، طوفان، سیلاب، آتش فشانی، ابھی بھی انسان کے سب سے بڑے دشمن ہیں، ان پر بھی قابو پا لے گا، کیا یہ غلط ہے کہ جاپان میں دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں لیکن وہ ان کے ساتھ رہنا سیکھ چکے ہیں؟ انسانی اپنی بہتر تدابیر سے ان آفات کو ضرور مسخر کر سکتا ہے، چاہے وہ وقت ابھی کتنا ہی دور کیوں نہ ہو۔

کیونکہ خود اسلام کی رو سے، انسان کو علم دے کر ساری کائنات اس کے لیے مسخر کی گئی سو وہ اس کو مسخر کر کے رہے گا اور ضرور بالضرور کر کے رہے گا۔

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
(خاکسار)
 

طالوت

محفلین
یاد رکھنا چاہیئے کہ کسی زمانے میں فلو یا نزلہ یا زکام بھی ایک قدرتی آفت تھی کہ ہزاروں لاکھوں لوگ اس کے پھیلنے سے مر جاتے تھے، خسرہ، خناس، پولیو وغیرہ وہ قدرتی آفات تھیں جو انسان کے بچوں پر بلائے ناگہانی کی طرح پڑتی تھیں اور ان کو عمر کی پانچ بہاریں دیکھنے سے پہلے ہی ختم کر دیتی تھیں اور اب ان کو ان "قدرتی آفات" سے رحمِ مادر میں ہی محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ طاعون سے بڑی قدرتی آفت کیا ہو گی کہ اس سیاہ موت نے عہدِ وسطیٰ میں یورپ کی آبادی ایک تہائی تک کم کر دی تھی اور لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے۔

لیکن انسان نے ان سب پر قابو پایا، اور انسان کا اپنے ماحول اور اپنے اردگرد پر تسخیر کا ہزاروں سالوں کا سفر جاری و ساری ہے، رکا نہیں۔

زلزلے، طوفان، سیلاب، آتش فشانی، ابھی بھی انسان کے سب سے بڑے دشمن ہیں، ان پر بھی قابو پا لے گا، کیا یہ غلط ہے کہ جاپان میں دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں لیکن وہ ان کے ساتھ رہنا سیکھ چکے ہیں؟ انسانی اپنی بہتر تدابیر سے ان آفات کو ضرور مسخر کر سکتا ہے، چاہے وہ وقت ابھی کتنا ہی دور کیوں نہ ہو۔

کیونکہ خود اسلام کی رو سے، انسان کو علم دے کر ساری کائنات اس کے لیے مسخر کی گئی سو وہ اس کو مسخر کر کے رہے گا اور ضرور بالضرور کر کے رہے گا۔

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
(خاکسار)
سو فیصد متفق ۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ اگر اسے عذاب بھی کہا جائے تو عذاب کا شکار غافل قومیں ہی ہوتی ہیں۔
وسلام
 
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ قدرتی آفات آتی رہتی ہین اور انسان وقت کے ساتھ ساتھ ان آفات سے نمٹنے کے جتن کرتا رہتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ بحیچیت مسلمان ہم لوگوں کا ایمان ہے کہ کوئی پتّہ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا اور یہ کہ ہمیں جو بھی مصیبت یا بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے۔ اللہ کا کوئی کام بے سبب اور عبث نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس تناظر مین دیکھا جائے تو دو رائیں سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ جیسا میں نے پچھلی پوسٹس میں عرض کیا کہ منفی انداز فکر ہے اور ایک مثبت۔
اس نازک وقت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور جو لوگ قوم میں مایوسی پھیلانے کی کوششیں کررہے ہیں انکی اس کوشش کو اپنی مثبت سوچ اور اللہ اور اسکے رسول سے اچھے گمان کے ذریعے شکست دیں۔ ۔۔

ایسے لوگ ہر دور میں رہے ہین۔ سرکار دوعالم کی حیات ظیبہ میں بھی گروہ منافقین تھا جو مصیبت کی ہر گھڑی میں مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا تھا اور جو مسلمانوں کے مصائب پر خوشی محسوس کرتا تھا۔ ۔ ۔
ہم اس سوچ کو انتہائی حقارت کے ساتھ مسترد کرتے ہیں کہ 18 کروڑ مسلمانوں کا یہ ملک اللہ کے عذاب اور ناراضگی و انتقام کا شکار ہوتے ہوئے رو بہ زوال ہے اور ختم ہونے کو ہے۔ ۔ اللہ کے فضل سے اس قوم میں اللہ کے رسول سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، استغفار کرنے والے لوگ ہین، لوگوں کی مدد کرنے والے لوگ ہین، حساس اور درد دل رکھنے والے لوگ ہیں۔ ۔ ۔اپنا تن من دھن اللہ کی راہ میں قربان کرنے والے لوگ ہین۔۔ ۔ اللہ کبھی ان لوگوں کو ضائع نہیں کرے گا۔۔اسکا وعدہ ہے۔۔ ۔
اللہ ہمیں اس آزمائش میں سرخرو کرے ۔ ۔ ۔ ۔ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق دے، ہم پر رحم و کرم کرے۔ ۔ اور کچھ ایسا ہو کہ پھر کوئی اقبال کہہ اٹھے :
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی تابانی
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں صرف سمجھنے کی غرض سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ ایمان کہاں سے آیا کہ کوئی پتہ بھی اللہ کی مرضی سے نہیں ہل سکتا۔ پتہ تو شاید نہ ہل سکتا ہوں لیکن انسان اپنے اعمال و اقوال میں خود مختار ہے اگر وہ خود مختار نہ ہو تو پھر جزا اور سزا سب بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں پھر تمام برائیاں بھی اللہ کی مرضی سے ہی پنپ رہی ہیں ان سے جنگ کرنا عبث ہے۔ اقبال کے ہی الفاظ میں
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الہٰی کا ہے پابند
 
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں، انہیں اس کے سوا (اَز خود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریاؤں میں ہے، اور کوئی پتّا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)

جہاں تک یہ مسئلہ ہے کہ تمام برائیاں اللہ کی مرضی سے پنپ رہی ہین، تو اس سلسلے میں یہی عرض ہے کہ ایک ہوتی ہے اللہ کی مشیئت یعنی ارادہ، اور ایک ہوتی ہے اسکی رضا۔ ۔ ۔اللہ نے آدم کو ایک حکم دیا اور اسکی رضا اسی میں تھی کہ اس حکم کی پاسداری کی جائے، لیکن اسکا ارادہ اور مشیئت یہ تھی کہ آدم سے اسکی خلاف ورزی سرزد ہو اور آدم و ابلیس کی نفسیات کا فرق واضح ہو۔ زمین پر بنی آدم کا سلسلہء روزوشب چلے۔ ۔ ۔
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار۔ ۔ ۔۔
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
چنانچہ مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند۔۔۔۔
اودہیاں اوہ جانے، توں اپنی توڑ نبھائی جا۔ ۔ ۔ ۔:)
مالی دا کم پانی لانا، بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پُھل لانا، لاوے یا نہ لاوے۔ ۔​
 

عثمان

محفلین
غزنوی صاحب۔۔
فدوی کی ناقص رائے میں اللہ تعالیٰ کے علم اور مرضی میں فرق ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک پتہ بھی ہلتا ہے تو وہ اللہ کے علم میں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی مرضی بھی یہی ہے۔ کچھ یہی حال نفس انسانی کے بارے میں ہے۔ کہ اللہ کےعلم میں ہے کہ ہرنفس کیا کرے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی مرضی ہی یہ ہے کہ نفس یہ کرے گا۔واللہ علم
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں اس آیت سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ اللہ علیم و خبیر ہے۔ تمام کائنات کے اسرار و رموز سے وہ آگاہ ہیں۔ لیکن اس آیت سے یہ کہیں ثابت نہیں ہو رہا کہ پتہ بھی اللہ سے پوچھ کر ہلتا ہے۔ یعنی صرف یہی کہا گیا ہے کہ ایک پتہ بھی جب ہلتا ہے تو وہ اس کے علم میں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اختیار دیا ہے۔ سیدھا اور غلط راستہ بتا دیا ہے، اب یہ انسان کی مرضی پر ہے کہ وہ سیدھا راستہ اختیار کرے یا غلط راستہ اختیار کرے۔

کتنا اختیار دیا ہے اس کے متعلق ایک روایت ہے کہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا “اللہ تعالٰی نے انسان کو کتنا اختیار دیا ہے؟“ تو آپ نے فرمایا “اپنا ایک پاؤں زمین سے اٹھاؤ۔“

اس آدمی نے اپنا ایک پاؤں زمین سے اٹھا لیا۔ آپ نے فرمایا “اپنا دوسرا پاؤں بھی زمین سے اٹھاؤ۔“

اس آدمی نے کہا “میں نہیں اٹھا سکتا۔“

آپ نے فرمایا “بس اتنا ہی اختیار دیا گیا ہے۔“
 
اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہونے کے ساتھ ساتھ قدیر اور فعّال لّما یرید بھی ہے۔ ۔ جب ان آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری تخلیق سے بھی بہت پہلے روز ِ ازل میں ہی سب کچھ لکھ کر قلم ِ الٰہی فارغ ہوچکا ہے یعنی جفّ القلم بما ھو کائن۔۔تو اس سے اللہ کی قدرت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ انسان مجبور محض ہے اور جزا و سزا نا انصافی پر مبنی ہیں۔ انسان کو ‘امانت‘ دی گئی ہے جس کا بوجھ اور کسی مخلوق نے نہیں اٹھایا۔ اور وہ امانت یہی محدود اختیار ہے۔ ہوتا تو وہی ہے جو لکھا جاچکا ہے انسان کو تو صرف اسکی نیت پر جزا سزا ملتی ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ باتوں سے نہ کبھی حل ہوا ہے نہ ہوگا کہ انسان کے آختیار اور بیچارگی کی حدکہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم۔ ۔ ۔ چند ایک ایات پیش کرتا ہوں:

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ
حالانکہ اﷲ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خَلق فرمایا ہے

فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَ۔كِنَّ اللّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا، (اور یہ بات یاد رکھو کہ) اگر اﷲ چاہتا (یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے

وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ-1- اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے۔

وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ -2-۔ اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے ۔

وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا -3- اور b
 

عثمان

محفلین
اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہونے کے ساتھ ساتھ قدیر اور فعّال لّما یرید بھی ہے۔ ۔ جب ان آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری تخلیق سے بھی بہت پہلے روز ِ ازل میں ہی سب کچھ لکھ کر قلم ِ الٰہی فارغ ہوچکا ہے یعنی جفّ القلم بما ھو کائن۔۔تو اس سے اللہ کی قدرت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ انسان مجبور محض ہے اور جزا و سزا نا انصافی پر مبنی ہیں۔ انسان کو ‘امانت‘ دی گئی ہے جس کا بوجھ اور کسی مخلوق نے نہیں اٹھایا۔ اور وہ امانت یہی محدود اختیار ہے۔ ہوتا تو وہی ہے جو لکھا جاچکا ہے انسان کو تو صرف اسکی نیت پر جزا سزا ملتی ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ باتوں سے نہ کبھی حل ہوا ہے نہ ہوگا کہ انسان کے آختیار اور بیچارگی کی حدکہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم۔ ۔ ۔ چند ایک ایات پیش کرتا ہوں:

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ
حالانکہ اﷲ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خَلق فرمایا ہے

فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَ۔كِنَّ اللّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا، (اور یہ بات یاد رکھو کہ) اگر اﷲ چاہتا (یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے

وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ-1- اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے۔

وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ -2-۔ اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے ۔

وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا -3- اور b

تو کیا انسان کی نیت نہیں لکھی جا چکی؟ مثلا میں اگلے لمحے کیا کرنے جا رہا ہوں پہلے ہی طے شدہ ہے۔ تو پھر میری Free Will تو ختم ہوگئی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ایک شخصیت بھی۔ میں تو صرف ایک ربورٹ رہ گیا۔ ربورٹ کو سزا یا جزا کیوں دی جائے؟
میرے خیال سے میں اگلے لمحے کیا کرنے جا رہا ہوں۔ یہ خدا کے علم میں ہے۔ لیکن اس کے فیصلہ پہلے سے طے شدہ نہیں ہے۔ اور یہاں ایک اور پیچیدگی پیدا ہوتی ہے اور بحث مسئلہ تقدیر کی طرف جا نکلتی ہے۔
فی الحال اس بحث کو رہنے ہی دیں۔:)

آپ نے جو آیات بیان کی ہیں وہ خدا کی قدرت اور علم کا اظہار کررہی ہیں۔
 
Top