پاکستان کی ڈگری یافتہ مشینیں

میں نے ایک بار شاید پہلے بھی لکھا تھا کہ ہمارے یہاں بننے والے ڈاکٹر ہوں یا انجنئیر، سب ڈگری یافتہ مشینیں ہیں۔ ہمیں مشین کی طرح کام کرنے کی عادت ہوتی۔ جس رفتار سے پاکستانی ڈاکٹر دوائیوں کے نسخے لکھتے ہیں، اس رفتار سے شاید دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہیں لکھ سکتا۔ اس کا مشاہدہ آپ اپنے قریبی کلینک میں جاکر بالمشافہ کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر ادھیڑ عمروں کے ڈاکٹر جو پینتیس چالیس سال تک کی عمروں میں ہوں، زیادہ تر مریض کی ہسٹری لکھتے ہوئے نہیں، بلکہ علامات در علامات پر دوا در دوا لکھتے نظر آتے ہیں۔
یہ بات غلط ہے یا صحیح یہ میرا موضوع نہیں ہے۔
موضوع یہ ہے کہ اسی مشینی انداز کی وجہ سے ہمارے یہاں سائنسی زرخیزی نہیں پائی جاتی۔ ویب ایم ڈی، ڈرگز ڈاٹ کام، اور میڈیسن نیٹ جیسی ویب سائٹوں کو تو چھوڑ دیجیے، ہمارے یہاں نور کلینک کے علاوہ کسی دیسی ڈاکٹر کا ایک عدد ایسا بلاگ بھی نہیں پایا جاتا جو کہ کم از کم اندرونِ ملک میں اچھا خاصا مشہور ہو۔ یا وہاں سے لوگ طبی رہنمائی لیتے ہوں۔
تصور یہ ہے کہ بس جب تک ہڈیوں میں جان ہے تب تک کُتا خواری کریں گے، دبا کر نوٹ پیٹیں گے۔ بارہ گھنٹے کی نوکری کریں گے۔ اور ایک دن مر جائیں گے۔ کیا یہ تصور کسی مشین سے زیادہ صلاحیت کی علامت ہے؟
ویسے یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے یہاں جو شخص تھوڑا سا قابل ہو جائے، وہ یا تو منظرِ عام سے ہٹا دیا جاتا ہے، یا پھر وہ پرویز ہود بھائی بن جاتا ہے۔
یہاں بی بی سی دیکھیے کیا لکھ رہا ہے:
"چند روز قبل کراچی میں ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے طبی نسخوں میں مخففات کا بےمحابا استعمال بھی اغلاط کا باعث بنتا ہے۔
پوسٹ گریجویٹ جرنل میں شائع ہونے والے اس مطالعے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ زیرِ تربیت ڈاکٹر عام طبی مخفف تک سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2014 میں پشاور میں ہونے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا تھا کہ حیرت انگیز طور پر تحقیق میں شامل ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامیطبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ طبی قواعد کے برعکس ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
طبی اغلاط کی وجہ سے بےشمار اموات ہو رہی ہیں جن کا کہیں کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔"
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کی تمام باتیں ہی درست ہیں مزمل بھائی۔
لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کے اسباب جاننا بےحد ضروری ہے۔ میڈیکل داخلوں میں شروع ہونے والی کرپشن سے لے کر مفت ہاؤس جاب تک کروائی جاتی ہے۔ میڈیکل سٹوڈنٹ کا باقاعدہ استحصال کیا جاتا ہے۔ قابل میڈیکل سٹوڈنٹس پر اشرافیہ ڈاکٹرز کا پریشر الگ سے ہوتا ہے کہ ہمارے ہسپتال میں ہاؤس جاب کرو۔ اور وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔ جو ذرا اڑنے کی کوشش کرے۔ اس کی نائٹ شفٹ الگ۔ ایسے غلاظت سے لتھڑے ماحول سے ایک قصائی نما مشین ہی نکل سکتی ہے۔ انسان تو وہی رہے گا جس کی تربیت کے بنیاد اتنی پختہ رکھی گئی ہو کہ یہ سب باتیں اس کو ہلا نہ سکیں۔ میں اب ایسے قابل لڑکے کو جانتا ہوں۔ جو کہیں پر بھی ہاؤس جاب نہیں کر رہا ہے۔ لیکن ہر کوئی اس قابل نہیں ہوتا کہ پانچ سال کی اتنی فیس بھرنے کے بعد بھی بیروزگاری کا بوجھ سہہ سکے۔ سو نوجوان نسل ڈھل جاتی ہے۔ جینے کی آس لیے مر جاتی ہے۔ پھر ہمارا معاشی نظام۔۔۔ خاندان کی توقعات۔۔۔ ان کا آدھا پورا کرتے کرتے ہی احساس تب ہوتا ہے جب بال سفید اور کمر جھک جاتی ہے۔ اس لتھڑے ماحول میں کوئی ایک آدھا باصفات ڈاکٹر جب آپ کو نظر آجائے تو سب کو کنول کی طرح سراہتے ضرور ہیں۔ لیکن اس کے پاؤں کس دلدل میں دھنسے ہیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا۔
اس کے بعد بات آتی ہے تحقیق و بلاگز کی۔ یہ سلجھے معاشرو ں کی باتیں ہیں۔ جہاں لوگ روٹی پانی کی بک بک سے نکل آتے ہیں۔ ایک قابل ڈاکٹر اگر فوت ہوجائے تو اس کی اولاد معاشرے میں کس کس طرح ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ اہل دل سب جانتے اور دیکھتے ہیں۔ پھر اگر بلاگ لکھو تو ملے گا کیا۔ کھاؤ گے کیا کماؤ گے کیا۔ وہ لوگ جو عورتوں کی تعلیم کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ وہ ہسپتال میں اس بات پر لڑ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری بہن ماں بیٹی بہو کو صرف لیڈی ڈاکٹر ہی دیکھ سکتی ہے۔ کوئی مرد نہیں۔ اگر اتنا ہی شوق ہے تو پھر بیٹیوں کو پڑھاتے کیوں نہیں۔ مرد پر ذمہ داری اور توقعات کا اتنا بوجھ لاد دیتے ہو کہ وہ مشین نہ بنے تو مر جائے۔ یہ صرف ایک شعبے کا المیہ نہیں۔ ہر شعبے میں یہی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ کیا صحافی، کیا مہندس، کیا قلم کار اور کیا اساتذہ۔۔۔۔ سب کے گریبان چاک ہیں۔ ان کے حالات دیکھو تو سہی۔ ان کے رفو کیے دامن نہیں نظر آتے سروے والوں کو۔ پرچی پر لکھی غلطیاں نظر آتی ہیں۔
ایک واقعہ شئیر کر رہا ہوں۔ ملک کے انتہائی سینئر ڈاکٹر کی وال سے لیا ہے۔ ذرا پڑھیے اور سر دھنیے۔
"
فروری 2016 میں لاہور کے مشہور سروسز ہاسپٹل میں 223 آسامیوں کو پر کرنے کیلئے اخبارات میں اشتہار شائع ہوئے۔ ان آسامیوں میں نرسوں سے لے کر لیب ٹیکنیشنز تک اور دھوبی، نائب قاصد سے لے کر جمعدار تک کی پوزیشنیں شامل تھیں۔
ہاسپٹل کے ایم ایس کئی سال تک بیرون ملک خدمات انجام دے کر اپنے آخری چند سال اپنے وطن کی خدمت کرنے کا جزبہ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے ان آسامیوں کو پر کرنے کیلئے ہیومن ریسورس، ایڈمن اور ٹیکنکل سٹاف کی ایک کمیٹی بنائی جس کا کام تمام درخواستوں کی چھانٹی کرکے ان میں سے قابل افراد کا انٹرویو کرکے انہیں سیلیکٹ کرنا تھا۔ یہ تمام عمل تقریباً ڈھائی ماہ جاری رہا جس میں ہاسپٹل کی تاریخ میں شاید پہلی بار مکمل میرٹ پر انٹرویو کرنے کے بعد امیدواروں کو فائنل کیا گیا۔
فائنل امیدواروں کی لسٹ بن چکی تھی اور ایم ایس صاحب نے اس پر دستخط کرکے متعلقہ محکمے کو بھجوانے کی تیاری کرلی تھی کہ اچانک لاہور سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ایک مقامی رہنما کو ان نوکریوں کی خبر مل گئی۔ ن لیگ کا یہ غنڈہ نما رہنما فوراً لاہور کی مقامی قیادت سے ملا اور انہیں کہا کہ ہمیں یہ نوکریاں اپنے خاص بندوں کو دینی چاہیئں یا پھر بیچ کر مال بنانا چاہیئے۔ لاہور کی قیادت جو کہ خواجہ سعد رفیق، ضعیم قادری اور ایسے ہی دوسرے "قابل" افراد پر مشتمل ھے، کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ آناً فاناً اپنے پسندیدہ افراد کے ناموں پر مشتمل ایک لسٹ بنائی گئی جو کہ ن لیگ کا وہ غنڈہ نما مقامی رہنما اپنے ساتھ لے کر سروسز ہاسپٹل کے ایم ایس کے دفتر پہنچ گیا۔
دفتر پہنچ کر اس نے ایم ایس صاحب سے نوکریوں کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ وہ یہ نوکریاں پہلے ہی میرٹ پر دے چکے ہیں اور متعلقہ محکمہ کامیاب امیدواروں کو نوٹس بھی بھیجنے جارہا ھے۔ ن لیگ کے اس غنڈے نے ایم ایس صاحب کے ہاتھ سے وہ لسٹ پکڑ کر پھاڑدی اور اپنی لسٹ دے کر کہا کہ یہ لسٹ وزیراعلی ہاؤس سے فائنل ہوئی ھے، آپ نے انہی امیدواروں کو نوکریوں پر رکھنا ھے۔
ساری عمر باہر کے ممالک میں پروفیشنل طریقے سے نوکری کرنے والے اس ایم ایس کو یہ بات سن کر سخت غصہ آیا اور انہوں نے ن لیگ کی اس لسٹ کو پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا کہ نوکریاں صرف اہل امیدواروں کو ہی ملیں گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے سٹاف سے کہہ کر ن لیگ کے اس غنڈے کو دروازے تک چھوڑنے کا کہہ دیا۔
اس دن شام تک یہ خبر خواجہ سعد رفیق سے ہوتی ہوئی حمزہ شہباز اور پھر خادم اعلی تک پہنچ چکی تھی۔ اگلے دن صبح 8 بجے جب ایم ایس صاحب اپنے دفتر پہنچے تو ان کی نوکری سے برخواستگی کا نوٹس ان کا انتظار کررہا تھا۔
وہ الٹے پاؤں گھر واپس چلے گئے۔ گھر پہنچے تو شام تک خبر ملی کہ ان پر تین، چار مقدمات بن چکے ہیں اور متعلقہ محکے کے لوگ باری باری ان کے گھر آکر ان کے بیوی بچوں کو ہراساں کررہے تھے، محلے میں شور کرکے انہیں بدنام کررہے تھے۔
ایم ایس صاحب کو سمجھ لگ گئی کہ ان کا پاکستان کی خدمت کرنے کے جزبے پر اب ٹھنڈا پانی ڈالنے کا وقت آگیا ھے۔ انہوں نے سوچا کہ اپنی فیملی سمیت واپس بیرون ملک شفٹ ہوا جائے۔
اگلے دن انہیں پتہ چلا کہ حکومت نے ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا ھے اور اگلے احکامات تک ان پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگ چکی ھے۔
یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ انہوں نے ن لیگ کی بنائی ہوئی نوکریوں کی لسٹ پھاڑ دی تھی اور ان پر کیسز حفظ ماتقدم کے طور پر بنائے گئے تاکہ وہ ٹی وی یا سوشل میڈیا پر یہ خبر نہ پھیلا دیں۔
جن 223 اہل افراد کو نوکریاں ملنی تھیں وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہونگے جو ' شیر، اک واری فیر ' کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے ہونگے۔ ان کیلئے اطلاع ھے کہ ابھی وہ یہ نعرے مزید کئی سال تک ایسے ہی لگاتے رہیں اور نوکری ملنے کا انتظار کرتے رہیں۔
جس میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے پاکستان کی خدمت کرنے کا سوچا تھا، وہ اب اپنے گھر بیٹھا اپنے فیصلے پر پچھتا رہا ھے۔
اور ن لیگ کی لاہور کی قیادت یہ سوچ کر خوش ہورہی ھے کہ انہوں نے ووٹ کمانے کے ایک اور موقع سے فائدہ اٹھالیا۔
عوام اور اس کے منتخب کردہ یہ رہنما، یہ پوسٹ پڑھیں اور اپنی جہالت پر خوشیاں منائیں!!!
"


یہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور بزعم خود ترقی یافتہ شہر کا قصہ ہے۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ اس ماحول سے آپ پاؤلو اور گبریل گارشیا پیدا کریں گے۔ وہ فیض اور اقبال بھی اپنے زور پر پیدا ہوگئے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست والے چکر میں۔ ورنہ اس معاشرے کے اندر ایسی کوئی صلاحیت نہیں ہے کہ یہ ایسے لوگ پروان چڑھیں جن کا آپ اپنی تحریر میں تقاضا کر رہے ہیں۔
میں خود ڈاکٹرز کے کاموں سے بہت تنگ ہوں۔ اور میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ کسی پر انگلی اٹھانا سب سے آسان کام ہے۔ جب ہم اس معاشرے سے اتنے تنگ ہیں۔ تو اب اس کو بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے۔ کیوں انہی کرپٹ راہوں کے راہی بنے ہیں جن کو ہم صبح و شام کوستے ہیں۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
لاہور کے ایک معروف پرائیویٹ اسپتال میں ایک مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں موجود ڈاکٹر نے نسخے پر پانچ چھ ادویات لکھ دیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ادویات کس لیے ہیں تو کہنے لگے "میں ایک ڈاکٹر ہوں، یہ بتانا فارمیسی والے کا کام ہے"۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لاہور کے ایک معروف پرائیویٹ اسپتال میں ایک مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں موجود ڈاکٹر نے نسخے پر پانچ چھ ادویات لکھ دیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ادویات کس لیے ہیں تو کہنے لگے "میں ایک ڈاکٹر ہوں، یہ بتانا فارمیسی والے کا کام ہے"۔
اسلام آباد جا کر دیکھ لیں۔ وہاں بھی یہی حالات ہیں۔ میں نے بیٹےکے ختنے کروانے تھے۔ قائداعظم ہسپتال چلا گیا۔ کہنے لگے ختنے کرنے کے اٹھارہ ہزار روپے۔ میں نے کہا اتنے کے تو میں پورے گاؤں کے ختنے کروا دوں۔
 
لاہور کے ایک معروف پرائیویٹ اسپتال میں ایک مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں موجود ڈاکٹر نے نسخے پر پانچ چھ ادویات لکھ دیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ادویات کس لیے ہیں تو کہنے لگے "میں ایک ڈاکٹر ہوں، یہ بتانا فارمیسی والے کا کام ہے"۔

بات تو انہوں نے ٹھیک کہی کہ فارمیسی والے کا کام ہے۔
البتہ یہ دیکھنا ضروری تھا کہ مرض کی کوئی تشخیص بھی کی گئی ہے یا نہیں۔ اگرتشخیص نہیں ہے تو فارمیسی والا کیا کرے گا بھلا؟
 
آپ کی تمام باتیں ہی درست ہیں مزمل بھائی۔
لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کے اسباب جاننا بےحد ضروری ہے۔ میڈیکل داخلوں میں شروع ہونے والی کرپشن سے لے کر مفت ہاؤس جاب تک کروائی جاتی ہے۔ میڈیکل سٹوڈنٹ کا باقاعدہ استحصال کیا جاتا ہے۔ قابل میڈیکل سٹوڈنٹس پر اشرافیہ ڈاکٹرز کا پریشر الگ سے ہوتا ہے کہ ہمارے ہسپتال میں ہاؤس جاب کرو۔ اور وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔ جو ذرا اڑنے کی کوشش کرے۔ اس کی نائٹ شفٹ الگ۔ ایسے غلاظت سے لتھڑے ماحول سے ایک قصائی نما مشین ہی نکل سکتی ہے۔ انسان تو وہی رہے گا جس کی تربیت کے بنیاد اتنی پختہ رکھی گئی ہو کہ یہ سب باتیں اس کو ہلا نہ سکیں۔ میں اب ایسے قابل لڑکے کو جانتا ہوں۔ جو کہیں پر بھی ہاؤس جاب نہیں کر رہا ہے۔ لیکن ہر کوئی اس قابل نہیں ہوتا کہ پانچ سال کی اتنی فیس بھرنے کے بعد بھی بیروزگاری کا بوجھ سہہ سکے۔ سو نوجوان نسل ڈھل جاتی ہے۔ جینے کی آس لیے مر جاتی ہے۔ پھر ہمارا معاشی نظام۔۔۔ خاندان کی توقعات۔۔۔ ان کا آدھا پورا کرتے کرتے ہی احساس تب ہوتا ہے جب بال سفید اور کمر جھک جاتی ہے۔ اس لتھڑے ماحول میں کوئی ایک آدھا باصفات ڈاکٹر جب آپ کو نظر آجائے تو سب کو کنول کی طرح سراہتے ضرور ہیں۔ لیکن اس کے پاؤں کس دلدل میں دھنسے ہیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا۔
اس کے بعد بات آتی ہے تحقیق و بلاگز کی۔ یہ سلجھے معاشرو ں کی باتیں ہیں۔ جہاں لوگ روٹی پانی کی بک بک سے نکل آتے ہیں۔ ایک قابل ڈاکٹر اگر فوت ہوجائے تو اس کی اولاد معاشرے میں کس کس طرح ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ اہل دل سب جانتے اور دیکھتے ہیں۔ پھر اگر بلاگ لکھو تو ملے گا کیا۔ کھاؤ گے کیا کماؤ گے کیا۔ وہ لوگ جو عورتوں کی تعلیم کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ وہ ہسپتال میں اس بات پر لڑ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری بہن ماں بیٹی بہو کو صرف لیڈی ڈاکٹر ہی دیکھ سکتی ہے۔ کوئی مرد نہیں۔ اگر اتنا ہی شوق ہے تو پھر بیٹیوں کو پڑھاتے کیوں نہیں۔ مرد پر ذمہ داری اور توقعات کا اتنا بوجھ لاد دیتے ہو کہ وہ مشین نہ بنے تو مر جائے۔ یہ صرف ایک شعبے کا المیہ نہیں۔ ہر شعبے میں یہی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ کیا صحافی، کیا مہندس، کیا قلم کار اور کیا اساتذہ۔۔۔۔ سب کے گریبان چاک ہیں۔ ان کے حالات دیکھو تو سہی۔ ان کے رفو کیے دامن نہیں نظر آتے سروے والوں کو۔ پرچی پر لکھی غلطیاں نظر آتی ہیں۔
ایک واقعہ شئیر کر رہا ہوں۔ ملک کے انتہائی سینئر ڈاکٹر کی وال سے لیا ہے۔ ذرا پڑھیے اور سر دھنیے۔
"
فروری 2016 میں لاہور کے مشہور سروسز ہاسپٹل میں 223 آسامیوں کو پر کرنے کیلئے اخبارات میں اشتہار شائع ہوئے۔ ان آسامیوں میں نرسوں سے لے کر لیب ٹیکنیشنز تک اور دھوبی، نائب قاصد سے لے کر جمعدار تک کی پوزیشنیں شامل تھیں۔
ہاسپٹل کے ایم ایس کئی سال تک بیرون ملک خدمات انجام دے کر اپنے آخری چند سال اپنے وطن کی خدمت کرنے کا جزبہ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے ان آسامیوں کو پر کرنے کیلئے ہیومن ریسورس، ایڈمن اور ٹیکنکل سٹاف کی ایک کمیٹی بنائی جس کا کام تمام درخواستوں کی چھانٹی کرکے ان میں سے قابل افراد کا انٹرویو کرکے انہیں سیلیکٹ کرنا تھا۔ یہ تمام عمل تقریباً ڈھائی ماہ جاری رہا جس میں ہاسپٹل کی تاریخ میں شاید پہلی بار مکمل میرٹ پر انٹرویو کرنے کے بعد امیدواروں کو فائنل کیا گیا۔
فائنل امیدواروں کی لسٹ بن چکی تھی اور ایم ایس صاحب نے اس پر دستخط کرکے متعلقہ محکمے کو بھجوانے کی تیاری کرلی تھی کہ اچانک لاہور سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ایک مقامی رہنما کو ان نوکریوں کی خبر مل گئی۔ ن لیگ کا یہ غنڈہ نما رہنما فوراً لاہور کی مقامی قیادت سے ملا اور انہیں کہا کہ ہمیں یہ نوکریاں اپنے خاص بندوں کو دینی چاہیئں یا پھر بیچ کر مال بنانا چاہیئے۔ لاہور کی قیادت جو کہ خواجہ سعد رفیق، ضعیم قادری اور ایسے ہی دوسرے "قابل" افراد پر مشتمل ھے، کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ آناً فاناً اپنے پسندیدہ افراد کے ناموں پر مشتمل ایک لسٹ بنائی گئی جو کہ ن لیگ کا وہ غنڈہ نما مقامی رہنما اپنے ساتھ لے کر سروسز ہاسپٹل کے ایم ایس کے دفتر پہنچ گیا۔
دفتر پہنچ کر اس نے ایم ایس صاحب سے نوکریوں کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ وہ یہ نوکریاں پہلے ہی میرٹ پر دے چکے ہیں اور متعلقہ محکمہ کامیاب امیدواروں کو نوٹس بھی بھیجنے جارہا ھے۔ ن لیگ کے اس غنڈے نے ایم ایس صاحب کے ہاتھ سے وہ لسٹ پکڑ کر پھاڑدی اور اپنی لسٹ دے کر کہا کہ یہ لسٹ وزیراعلی ہاؤس سے فائنل ہوئی ھے، آپ نے انہی امیدواروں کو نوکریوں پر رکھنا ھے۔
ساری عمر باہر کے ممالک میں پروفیشنل طریقے سے نوکری کرنے والے اس ایم ایس کو یہ بات سن کر سخت غصہ آیا اور انہوں نے ن لیگ کی اس لسٹ کو پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا کہ نوکریاں صرف اہل امیدواروں کو ہی ملیں گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے سٹاف سے کہہ کر ن لیگ کے اس غنڈے کو دروازے تک چھوڑنے کا کہہ دیا۔
اس دن شام تک یہ خبر خواجہ سعد رفیق سے ہوتی ہوئی حمزہ شہباز اور پھر خادم اعلی تک پہنچ چکی تھی۔ اگلے دن صبح 8 بجے جب ایم ایس صاحب اپنے دفتر پہنچے تو ان کی نوکری سے برخواستگی کا نوٹس ان کا انتظار کررہا تھا۔
وہ الٹے پاؤں گھر واپس چلے گئے۔ گھر پہنچے تو شام تک خبر ملی کہ ان پر تین، چار مقدمات بن چکے ہیں اور متعلقہ محکے کے لوگ باری باری ان کے گھر آکر ان کے بیوی بچوں کو ہراساں کررہے تھے، محلے میں شور کرکے انہیں بدنام کررہے تھے۔
ایم ایس صاحب کو سمجھ لگ گئی کہ ان کا پاکستان کی خدمت کرنے کے جزبے پر اب ٹھنڈا پانی ڈالنے کا وقت آگیا ھے۔ انہوں نے سوچا کہ اپنی فیملی سمیت واپس بیرون ملک شفٹ ہوا جائے۔
اگلے دن انہیں پتہ چلا کہ حکومت نے ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا ھے اور اگلے احکامات تک ان پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگ چکی ھے۔
یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ انہوں نے ن لیگ کی بنائی ہوئی نوکریوں کی لسٹ پھاڑ دی تھی اور ان پر کیسز حفظ ماتقدم کے طور پر بنائے گئے تاکہ وہ ٹی وی یا سوشل میڈیا پر یہ خبر نہ پھیلا دیں۔
جن 223 اہل افراد کو نوکریاں ملنی تھیں وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہونگے جو ' شیر، اک واری فیر ' کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے ہونگے۔ ان کیلئے اطلاع ھے کہ ابھی وہ یہ نعرے مزید کئی سال تک ایسے ہی لگاتے رہیں اور نوکری ملنے کا انتظار کرتے رہیں۔
جس میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے پاکستان کی خدمت کرنے کا سوچا تھا، وہ اب اپنے گھر بیٹھا اپنے فیصلے پر پچھتا رہا ھے۔
اور ن لیگ کی لاہور کی قیادت یہ سوچ کر خوش ہورہی ھے کہ انہوں نے ووٹ کمانے کے ایک اور موقع سے فائدہ اٹھالیا۔
عوام اور اس کے منتخب کردہ یہ رہنما، یہ پوسٹ پڑھیں اور اپنی جہالت پر خوشیاں منائیں!!!
"


یہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور بزعم خود ترقی یافتہ شہر کا قصہ ہے۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ اس ماحول سے آپ پاؤلو اور گبریل گارشیا پیدا کریں گے۔ وہ فیض اور اقبال بھی اپنے زور پر پیدا ہوگئے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست والے چکر میں۔ ورنہ اس معاشرے کے اندر ایسی کوئی صلاحیت نہیں ہے کہ یہ ایسے لوگ پروان چڑھیں جن کا آپ اپنی تحریر میں تقاضا کر رہے ہیں۔
میں خود ڈاکٹرز کے کاموں سے بہت تنگ ہوں۔ اور میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ کسی پر انگلی اٹھانا سب سے آسان کام ہے۔ جب ہم اس معاشرے سے اتنے تنگ ہیں۔ تو اب اس کو بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے۔ کیوں انہی کرپٹ راہوں کے راہی بنے ہیں جن کو ہم صبح و شام کوستے ہیں۔
جی آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے۔ در اصل یہ تحریر ڈاکٹروں سے نہیں بلکہ معاشرے سے گلہ ہے۔ ورنہ تو میں خود ہی طب کے شعبے سے تعلق رکھتا ہوں۔ :(
 

فاتح

لائبریرین
بات تو انہوں نے ٹھیک کہی کہ فارمیسی والے کا کام ہے۔
البتہ یہ دیکھنا ضروری تھا کہ مرض کی کوئی تشخیص بھی کی گئی ہے یا نہیں۔ اگرتشخیص نہیں ہے تو فارمیسی والا کیا کرے گا بھلا؟
میں نے اس سے پہلے جتنے ڈاکٹرز دیکھے وہ نسخہ لکھتے ہوئے مریض کو بتاتے ہیں کہ یہ گولیاں اس مقصد کے لیے ہیں اور یہ شربت اس مرض کے لیے اور فلاں کیپسول فلاں کام کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ
کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ یہ بتانا فارمیسی والے کا کام ہے کہ یہ ادویات کیوں دی گئی ہیں
 
میں نے اس سے پہلے جتنے ڈاکٹرز دیکھے وہ نسخہ لکھتے ہوئے مریض کو بتاتے ہیں کہ یہ گولیاں اس مقصد کے لیے ہیں اور یہ شربت اس مرض کے لیے اور فلاں کیپسول فلاں کام کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ
کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ یہ بتانا فارمیسی والے کا کام ہے کہ یہ ادویات کیوں دی گئی ہیں

اصل میں پہلے پاکستان میں فارمیسی کا سکوپ اتنا نہیں تھا۔ اب ان کے آنے کے بعد ڈاکٹر کچھ زیادہ آرام پسند ہوتے جارہے ہیں۔ جان بوجھ کر ڈوز غلط لکھتے ہیں بعض اوقات تو۔
 

فاتح

لائبریرین
اصل میں پہلے پاکستان میں فارمیسی کا سکوپ اتنا نہیں تھا۔ اب ان کے آنے کے بعد ڈاکٹر کچھ زیادہ آرام پسند ہوتے جارہے ہیں۔ جان بوجھ کر ڈوز غلط لکھتے ہیں بعض اوقات تو۔
اگر مرض سے آگاہ کرنا اور ادویات کی نوعیت کے متعلق بتانا واقعی ڈاکٹر کا کام نہیں تو میرے یہ کہنے پر کہ "میں آپ کا یہ بیان اس نسخے کی کاپی سمیت، جس پر آپ کا نام اور اسپتال نام پرنٹڈ ہے، پی ایم ڈی سی کو بھجواتا ہوں اور ساتھ ہی فیس بک اور یو ٹیوب پر ڈالتا ہوں" ڈاکٹر صاحب کیوں فر فر شروع ہو گئے ادویات کی تفصیلات بہم پہنچانا (اور سامنے بیٹھی نرسیں منہ نیچے کر کے ہنسنا)؟ ;)
 
میں نے اس سے پہلے جتنے ڈاکٹرز دیکھے وہ نسخہ لکھتے ہوئے مریض کو بتاتے ہیں کہ یہ گولیاں اس مقصد کے لیے ہیں اور یہ شربت اس مرض کے لیے اور فلاں کیپسول فلاں کام کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ
کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ یہ بتانا فارمیسی والے کا کام ہے کہ یہ ادویات کیوں دی گئی ہیں
میں ایک ہیلتھ کئر سسٹم پر کام کر رہا ہوں. جو کہ پاکستان کے ایک ادارے کے لئے بنایا.
اس میں سینئر فارمسسٹ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ڈاکٹر کی دی گئی دوائی کو تبدیل کر سکے.

بچھلے دنوں ایک ڈاکٹر نے مجھے دوائی لکھ کر دی.
جب پرچی لے کر شاہین کیمیسٹ گیا تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹر نے دو ایسی میڈیسن لکھ دی ہیں کہ جن میں ایک کامن سالٹ بھی ہے. اگر آپ یہ دونوں کھائیں گے تو دل کی دھڑکن بے قابو ہو جائے گی. لہٰذا میں آپ کو ایک میڈیسن اس سالٹ کے بغیر دے رہا ہوں.
 
اگر مرض سے آگاہ کرنا اور ادویات کی نوعیت کے متعلق بتانا واقعی ڈاکٹر کا کام نہیں تو میرے یہ کہنے پر کہ "میں آپ کا یہ بیان اس نسخے کی کاپی سمیت، جس پر آپ کا نام اور اسپتال نام پرنٹڈ ہے، پی ایم ڈی سی کو بھجواتا ہوں اور ساتھ ہی فیس بک اور یو ٹیوب پر ڈالتا ہوں" ڈاکٹر صاحب کیوں فر فر شروع ہو گئے ادویات کی تفصیلات بہم پہنچانا (اور سامنے بیٹھی نرسیں منہ نیچے کر کے ہنسنا)؟ ;)

ادویات کی نوعیت تو واقعی فارماسسٹ ہی بتائے گا۔ البتہ مرض کے بارے میں سب کچھ بتانا ڈاکٹر کا کام ہے۔ وہ علامات لے،تشخیص لکھے گا اور دوائیں تجویز کردے گا۔ اس کے بعد فارماسسٹ کا کام ہے۔ وہ ڈوز اڈجسٹمنٹ کو، سائڈ افیکٹس، ڈرگ ڈرگ انٹر ایکشن اور کونٹرا انڈکیشنز کو بہت زیادہ سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر یہ سب علم نہیں رکھتا۔
 

فاتح

لائبریرین
مرض کے بارے میں سب کچھ بتانا ڈاکٹر کا کام ہے۔ وہ علامات لے،تشخیص لکھے گا اور دوائیں تجویز کردے گا۔
یہی کام تو نہیں کیا تھا ان حضرت نے۔۔۔ علامات ضرور پوچھیں لیکن نہ تو مرض کے بارے میں بتایا، نہ تشخیص لکھی۔ کاغذ پر صرف ڈاکٹر، اسپتال، مریض اور ادویات کے نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ :)
 
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر پروفیشن اور ہر ادارے کے ساتھ نچلی سطح سے لے کر اوپر تک مالی اور اخلاقی کرپشن کا دور دورہ ہے۔ اور کوئی آگے بڑھ کر اس نظام میں بہتری لانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو بری طرح دھتکار دیا جاتا ہے۔ کہ جیسا چل رہا ہے چلنے دیا جائے۔
 

arifkarim

معطل
فروری 2016 میں لاہور کے مشہور سروسز ہاسپٹل میں 223 آسامیوں کو پر کرنے کیلئے اخبارات میں اشتہار شائع ہوئے۔ ان آسامیوں میں نرسوں سے لے کر لیب ٹیکنیشنز تک اور دھوبی، نائب قاصد سے لے کر جمعدار تک کی پوزیشنیں شامل تھیں۔
ہاسپٹل کے ایم ایس کئی سال تک بیرون ملک خدمات انجام دے کر اپنے آخری چند سال اپنے وطن کی خدمت کرنے کا جزبہ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے ان آسامیوں کو پر کرنے کیلئے ہیومن ریسورس، ایڈمن اور ٹیکنکل سٹاف کی ایک کمیٹی بنائی جس کا کام تمام درخواستوں کی چھانٹی کرکے ان میں سے قابل افراد کا انٹرویو کرکے انہیں سیلیکٹ کرنا تھا۔ یہ تمام عمل تقریباً ڈھائی ماہ جاری رہا جس میں ہاسپٹل کی تاریخ میں شاید پہلی بار مکمل میرٹ پر انٹرویو کرنے کے بعد امیدواروں کو فائنل کیا گیا۔
فائنل امیدواروں کی لسٹ بن چکی تھی اور ایم ایس صاحب نے اس پر دستخط کرکے متعلقہ محکمے کو بھجوانے کی تیاری کرلی تھی کہ اچانک لاہور سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ایک مقامی رہنما کو ان نوکریوں کی خبر مل گئی۔ ن لیگ کا یہ غنڈہ نما رہنما فوراً لاہور کی مقامی قیادت سے ملا اور انہیں کہا کہ ہمیں یہ نوکریاں اپنے خاص بندوں کو دینی چاہیئں یا پھر بیچ کر مال بنانا چاہیئے۔ لاہور کی قیادت جو کہ خواجہ سعد رفیق، ضعیم قادری اور ایسے ہی دوسرے "قابل" افراد پر مشتمل ھے، کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ آناً فاناً اپنے پسندیدہ افراد کے ناموں پر مشتمل ایک لسٹ بنائی گئی جو کہ ن لیگ کا وہ غنڈہ نما مقامی رہنما اپنے ساتھ لے کر سروسز ہاسپٹل کے ایم ایس کے دفتر پہنچ گیا۔
دفتر پہنچ کر اس نے ایم ایس صاحب سے نوکریوں کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ وہ یہ نوکریاں پہلے ہی میرٹ پر دے چکے ہیں اور متعلقہ محکمہ کامیاب امیدواروں کو نوٹس بھی بھیجنے جارہا ھے۔ ن لیگ کے اس غنڈے نے ایم ایس صاحب کے ہاتھ سے وہ لسٹ پکڑ کر پھاڑدی اور اپنی لسٹ دے کر کہا کہ یہ لسٹ وزیراعلی ہاؤس سے فائنل ہوئی ھے، آپ نے انہی امیدواروں کو نوکریوں پر رکھنا ھے۔
ساری عمر باہر کے ممالک میں پروفیشنل طریقے سے نوکری کرنے والے اس ایم ایس کو یہ بات سن کر سخت غصہ آیا اور انہوں نے ن لیگ کی اس لسٹ کو پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا کہ نوکریاں صرف اہل امیدواروں کو ہی ملیں گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے سٹاف سے کہہ کر ن لیگ کے اس غنڈے کو دروازے تک چھوڑنے کا کہہ دیا۔
اس دن شام تک یہ خبر خواجہ سعد رفیق سے ہوتی ہوئی حمزہ شہباز اور پھر خادم اعلی تک پہنچ چکی تھی۔ اگلے دن صبح 8 بجے جب ایم ایس صاحب اپنے دفتر پہنچے تو ان کی نوکری سے برخواستگی کا نوٹس ان کا انتظار کررہا تھا۔
وہ الٹے پاؤں گھر واپس چلے گئے۔ گھر پہنچے تو شام تک خبر ملی کہ ان پر تین، چار مقدمات بن چکے ہیں اور متعلقہ محکے کے لوگ باری باری ان کے گھر آکر ان کے بیوی بچوں کو ہراساں کررہے تھے، محلے میں شور کرکے انہیں بدنام کررہے تھے۔
ایم ایس صاحب کو سمجھ لگ گئی کہ ان کا پاکستان کی خدمت کرنے کے جزبے پر اب ٹھنڈا پانی ڈالنے کا وقت آگیا ھے۔ انہوں نے سوچا کہ اپنی فیملی سمیت واپس بیرون ملک شفٹ ہوا جائے۔
اگلے دن انہیں پتہ چلا کہ حکومت نے ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا ھے اور اگلے احکامات تک ان پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگ چکی ھے۔
یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ انہوں نے ن لیگ کی بنائی ہوئی نوکریوں کی لسٹ پھاڑ دی تھی اور ان پر کیسز حفظ ماتقدم کے طور پر بنائے گئے تاکہ وہ ٹی وی یا سوشل میڈیا پر یہ خبر نہ پھیلا دیں۔
جن 223 اہل افراد کو نوکریاں ملنی تھیں وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہونگے جو ' شیر، اک واری فیر ' کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے ہونگے۔ ان کیلئے اطلاع ھے کہ ابھی وہ یہ نعرے مزید کئی سال تک ایسے ہی لگاتے رہیں اور نوکری ملنے کا انتظار کرتے رہیں۔
جس میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے پاکستان کی خدمت کرنے کا سوچا تھا، وہ اب اپنے گھر بیٹھا اپنے فیصلے پر پچھتا رہا ھے۔
اور ن لیگ کی لاہور کی قیادت یہ سوچ کر خوش ہورہی ھے کہ انہوں نے ووٹ کمانے کے ایک اور موقع سے فائدہ اٹھالیا۔
عوام اور اس کے منتخب کردہ یہ رہنما، یہ پوسٹ پڑھیں اور اپنی جہالت پر خوشیاں منائیں!!
یہ تو صرف ایک ہسپتال کا قصہ ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے ہسپتال ہیں جہاں نون لیگی وائرس گھسا ہوا ہے اور ملک و قوم کے اثاثوں کو تباہ کر رہا ہے۔ خادم اعلی شہنشاہ اعلی بنے ہوئے ہیں اور پنجاب کو اپنی جاگیر کی طرح چلا رہے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟
 

arifkarim

معطل
لاہور کے ایک معروف پرائیویٹ اسپتال میں ایک مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں موجود ڈاکٹر نے نسخے پر پانچ چھ ادویات لکھ دیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ادویات کس لیے ہیں تو کہنے لگے "میں ایک ڈاکٹر ہوں، یہ بتانا فارمیسی والے کا کام ہے"۔
شکر کریں کہ موصوف نے یہ نہیں کہا کہ یہ بتانا خادم اعلی کا کام ہے :p
 
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر پروفیشن اور ہر ادارے کے ساتھ نچلی سطح سے لے کر اوپر تک مالی اور اخلاقی کرپشن کا دور دورہ ہے۔ اور کوئی آگے بڑھ کر اس نظام میں بہتری لانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو بری طرح دھتکار دیا جاتا ہے۔ کہ جیسا چل رہا ہے چلنے دیا جائے۔
یہ بات سولہ آنے درست ہے۔ صرف چلنے ہی نہیں دیا جاتا بلکہ ساتھ کھڈے لائن لگایا جاتا ہے اور وفاقی ادارہ جات میں باقاعدہ دور دراز علاقوں ،جیسے دالبدین اور مچھ وغیرہ، میں انتقامی ٹرانسفر کی جاتی ہے۔
 
پاکستانی ہسپتالوں میں ہیلتھ کیئر سسٹمز نہ لگنے کی ایک بڑی وجہ کرپشن کے دروازے بند ہونے کا ڈر ہے۔
کچھ ہسپتالوں کو جب ہم نے اپنے سسٹم کا ڈیمو دیا تو انہوں نے سسٹم میں کچھ جگہوں پر "گنجائش" نکالنے کا مطالبہ کیا، جس سے ہم نے معذرت کی اور سودا نہ بن سکا۔
 
یہی کام تو نہیں کیا تھا ان حضرت نے۔۔۔ علامات ضرور پوچھیں لیکن نہ تو مرض کے بارے میں بتایا، نہ تشخیص لکھی۔ کاغذ پر صرف ڈاکٹر، اسپتال، مریض اور ادویات کے نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ :)

یہی تو وہ مشینی کام ہے۔ ہمارے دوستوں میں ایسے ڈاکٹر بھی پائے جاتے ہیں جو مریض کے کلینک میں داخل ہوتے ہی نسخہ لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ تین منٹ میں مریض کلینک سے باہر :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ تو صرف ایک ہسپتال کا قصہ ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے ہسپتال ہیں جہاں نون لیگی وائرس گھسا ہوا ہے اور ملک و قوم کے اثاثوں کو تباہ کر رہا ہے۔ خادم اعلی شہنشاہ اعلی بنے ہوئے ہیں اور پنجاب کو اپنی جاگیر کی طرح چلا رہے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟
بات خادم اعلی کی نہیں ہے عارف۔۔۔ یہاں کوئی بھی آجائے۔ کوئی بھی۔۔۔۔ جب تک اس "بحوالہ" نظام سے چھٹکارہ نہیں حاصل کیا جائے گا۔ کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑے گا۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ عمران خان آکر جادو کی چھڑی گھمائے گا۔ ان کو بھی اس فئیری ٹیل سے باہر آجانا چاہیے۔
 

فاتح

لائبریرین
یہی تو وہ مشینی کام ہے۔ ہمارے دوستوں میں ایسے ڈاکٹر بھی پائے جاتے ہیں جو مریض کے کلینک میں داخل ہوتے ہی نسخہ لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ تین منٹ میں مریض کلینک سے باہر :)
بڑے ہی خدا ترس دوست ہیں آپ کے جو لگاتار تین منٹ مریض کی بکواس سنتے ہیں۔
 
Top