پاکستان کو ’سرن‘ کی ایسوسی ایٹ رکنیت مل گئی!

arifkarim

معطل
پاکستان کو ’سرن‘ کی ایسوسی ایٹ رکنیت مل گئی

150603095108_cern_624x351_reuters.jpg

دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ سرن کی رکنیت ملنا پاکستان کے جوہری توانائی کے پرامن استعمال کی دلیل ہے
جوہری تحقیق کی یورپی تنظیم ’سرن‘ نے پاکستان کو باقاعدہ طور پر اپنا ایسوسی ایٹ رکن بنا لیا ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستان یہ رکنیت حاصل کرنے والا پہلا غیر یورپی ملک ہے۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور سرن کے درمیان ایسوسی ایٹ ممبر شپ کے معاہدے پر دسمبر 2014 میں دستخط ہوئے تھے۔

31 جولائی 2015 کو جنیوا میں پاکستانی سفیر ضمیر اکرم کی جانب سے تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل کو انسٹرومینٹ آف ریٹیفیکیشن کی فراہمی کے بعد پاکستان کی رکنیت کو باقاعدہ حیثیت مل گئئ ہے۔

دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ سرن کی رکنیت ملنا پاکستان کے جوہری توانائی کے پرامن استعمال کی دلیل ہے۔

بیان کے مطابق پاکستان پہلے ہی ’سرن‘ کے اہم ترین منصوبے لارج ہیڈرون کولائیڈر میں قابلِ ذکر تعاون کر چکا ہے اور اب ایسوسی ایٹ رکن کی حیثیت سے وہ تنظیم کے تحت ہونے والی جدید سائنسی تحقیق سے فائدہ اٹھانے کی امید رکھتا ہے۔

150305142551_large_hadron_collider_1_webb_cern_640x360_bbc_nocredit.jpg

پاکستان ’سرن‘ کے اہم ترین منصوبے لارج ہیڈرون کولائیڈر میں قابلِ ذکر تعاون کر چکا ہے
دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اس قسم کے اداروں اور منصوبوں سے تعلق جوڑنا ملک کے عوام کے لیے دور رس مثبت نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ سرن کی رکنیت ملنے سے قبل ہی وہاں پاکستانی سائنسدان کئی سال پہلے سے سائنسی تحقیق میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔

’سرن ‘سے منسلک ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر حفیظ ہورانی نے سنہ 2012 میں بی بی سی اردو سے بات چیت میں بتایا تھا کہ سنہ 1994 میں میں سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ طے پانے کے بعد سو سے زائد پاکستانی سائنسدان سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

ہیڈرون کولائیڈر منصوبے سے وابستہ ڈاکٹر ہورانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان میں سے ایک وقت میں لیبارٹری میں 15 کے قریب سائنسدان کام کرتے ہیں اور باقی سائنسدان پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیقی کام کرتے ہیں جسے ویلیو ایڈیشن کہا جاتا ہے۔

’سرن سے مختلف مواد تحقیق کے لیے بھیجا جاتا ہے اور پاکستان میں اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف ماڈلز تیار کر کے واپس بھیجے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق پاکستان کے نیشنل سینٹر فار فزکس اور ملک کے جوہری ادارے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔
http://www.bbc.com/urdu/science/2015/08/150801_pakistan_cern_associate_membership_zs?SThisFB

پاکستانیوں کو جدید سائنسی دور میں پیش قدمی مبارک!

فاتح تجمل حسین زہیر عبّاس عباس اعوان نایاب لئیق احمد عبدالقیوم چوہدری شزہ مغل محمد امین محمداحمد
 

arifkarim

معطل
ایک کمپیوٹر اسکرین پر ونڈوز 7 انسٹالڈ لگ رہی ہے۔ ریسرچرز کو چاہئے کہ جلد از جلد ونڈوز 10 پر منتقل ہو جائیں تا کہ نت نئے ذرات کی بجائے بگز نہ نظر آنا شروع ہو جائیں :)
 

تجمل حسین

محفلین
ایک کمپیوٹر اسکرین پر ونڈوز 7 انسٹالڈ لگ رہی ہے۔ ریسرچرز کو چاہئے کہ جلد از جلد ونڈوز 10 پر منتقل ہو جائیں تا کہ نت نئے ذرات کی بجائے بگز نہ نظر آنا شروع ہو جائیں :)
اس کھڑاگ میں سب سے بہتر لینکس نہیں؟؟ بگز نظر آنے، نہ آنے کا مسئلہ ہی نہ رہے۔ :)
 

محمد سعد

محفلین
میرے ذہن سے الیکٹرانکس انجنئیرنگ کا خیال نکال کر مجھے نظری طبیعیات کی طرف لگانے میں بھی ایک ایسی خبر کا کردار کچھ حد تک تھا جس میں پاکستانی طبیعیات دانوں نے سرن کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے کوئی نئے ذرات دریافت کیے تھے۔ :)
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
میرے ذہن سے الیکٹرانکس انجنئیرنگ کا خیال نکال کر مجھے نظری طبیعیات کی طرف لگانے میں بھی ایک ایسی خبر کا کردار کچھ حد تک تھا جس میں پاکستانی طبیعیات دانوں نے سرن کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے کوئی نئے ذرات دریافت کیے تھے۔ :)
پھر سر سر کرتے سرن کب جا رہے ہیں؟ ہماری امید تو یہی ہے کہ 100 سال بعد یہ لیب پاکستانی ریسرچر محمد سعد کے نام سے منسوب تھیوریٹیکل پارٹیکل سعد بوزون کو ڈھونڈنے کی انتھک کوشش میں لگی ہو اور پھر اسکا اثبوت کسی آیت یا حدیث سے پہلے ہی مل جائے :)
 

mohdumar

محفلین
جی اس رکنیت کے معاہدہ پر دسمبر 2014ء میں دستخط ہوئے تھے۔ ہم نے ساتھی طلبہ کے ساتھ قومی مرکز برائے طبیعیات (نزد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد) CERNکے چیف سے ملنے جانا تھا لیکن انتہائی افسوس ناک طور پر انہی دنوں پشاور سکول پر حملہ ہوگیا اور ہمارے بھی پلان منسوخ کردیے گئے۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت ہی خوش کن خبر ہے۔ گو کہ پاکستانی سائنس دان کافی عرصے سے سرکاری طور پر سرن کو مختلف تجربات میں مدد کر رہے تھے۔ ایسوسی ایٹ ممبر بننا ممبر سٹیٹ بننے کی جانب ایک بڑ اقدم ہے۔
یاد رہے کہ 21 ممالک سرن کی ممبر سٹیٹس ہیں اور پاکستان کے علاوہ صرف دو اور ممالک (سربیا اور ترکی) ایسوسی ایٹ ممبر ہیں جن میں سے سربیا اب ممبر سٹیٹ بننے کے ابتدائی مرحلے میں ہے۔
 

arifkarim

معطل
بہت ہی خوش کن خبر ہے۔ گو کہ پاکستانی سائنس دان کافی عرصے سے سرکاری طور پر سرن کو مختلف تجربات میں مدد کر رہے تھے۔ ایسوسی ایٹ ممبر بننا ممبر سٹیٹ بننے کی جانب ایک بڑ اقدم ہے۔
کیا ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوریٹیکل فزکس انسٹی ٹیوٹ جو غالبا اٹلی میں موجود ہے کا اس حوالے سے کوئی کردار ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
کیا ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوریٹیکل فزکس انسٹی ٹیوٹ جو غالبا اٹلی میں موجود ہے کا اس حوالے سے کوئی کردار ہے؟
میرا نہیں خیال کہ اس کا کوئی براہ راست کردار ہے اس میں اور اگر ہے بھی تو میرے علم میں نہیں۔ ہاں NUST اسلام آباد کا ضرور ہے جہاں سرن کے مختلف ڈیٹیکٹرز سے حاصل کردہ ڈیٹا انالسس کے لیے آتا ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
مبارک ہو۔
ویسے معزرت کے ساتھ عرض کر دوں کہ مجھے ایسی چیزیں کم کم سمجھ آتی ہیں۔
سائنسی میدان میں پیش رفت ہو رہی ہے یہ ہی اچھی بات ہے
 

رانا

محفلین
کیا ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوریٹیکل فزکس انسٹی ٹیوٹ جو غالبا اٹلی میں موجود ہے کا اس حوالے سے کوئی کردار ہے؟
یہ تو علم نہیں لیکن پاکستان کو سرن میں متعارف کرانے میں ڈاکٹر عبدالسلام کا کردار رہا تھا۔
Dr Parvez said Pakistan's scientific community was introduced to CERN through Dr Abdul Salam in 1960's. He said, “The experience gained by working in the world largest accelerators at CERN is helping our scientists and engineers in developing our own Linear Accelerator for medical purposes”.
ڈان نیوز
 

ماسٹر

محفلین
cernpak4_10-03.jpg

Visitors from Pakistan - including Ishfaq Ahmad (second from left) and Muhammad Afzal, minister (technical affairs) (third from left) - pose on the road at CERN that has been named in honour of Abdus Salam, Pakistan's first Nobel Laureate.
( تاریخ نا معلوم )
 
Top