پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار بشکریہ ڈان نیوز


حنیف محمد، کپتان کاردار کا اہم ہتھیار — فائل فوٹو

یہ اس فیچر کا پہلا حصّہ ہے…

کاردار کا زور :
عبدلحفیظ کاردار، ایک اوسط بیٹس مین تھے اور بسا اوقات بولنگ بھی کرتے تھے-
لیکن یہ حقیقت کہ انہوں نے 1947 میں پاکستان بننے سے پہلے انڈیا کے لئے ٹیسٹ کرکٹ کھیلا تھا اور یہ کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اس کھیل کے شوقین تھے، نومولود ملک کے کرکٹ بورڈ کو انھیں پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کرکٹ کپتان بنانے کی وجہ بنی-
فطرتاً برجستہ گو اور تحکم پسند، کاردار، آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ، ایک ایسے کھلاڑیوں کے گروپ کے لئے مناسب انتخاب تھے جو قابل تو تھے لیکن ایک دوسرے سے مختلف تھے- ان میں سے بہت سے تو مناسب کرکٹ کٹ خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تھے-


کاردار نے اپنی حیثیت ایک سخت اور تحکم پسند لیکن قابل احترام سکپر کے طور پر مضبوط کی جس نے اپنی قیادت میں پاکستان کو1952-1958 کے دوران، 23 میں سے 8 میچوں میں فتح دلائی-
یہ ایک قابل ذکر ریکارڈ ہے، ایک ایسے وقت میں جب کھلاڑیوں کو انتہائی کم معاوضہ ملتا تھا اور انہیں عموماً اپنے دوستوں اور چاہنے والوں سے کرکٹ کا سامان ادھار لینا پڑتا تھا، یہاں تک کہ جوتے بھی-
کاردار کا اصل ہتھیار ضدی اوپنر، حنیف محمد اور مثالی سوئنگ بولر، فضل محمود تھے- جب انہوں نے پاکستان کی قیادت، وطن سے ہزاروں میل دور، کریبین آئلینڈ (ویسٹ انڈیز ) میں کی- یہ اس وقت تک، پاکستان کا سب سے مشکل دورہ تھا-

hanif-mohammad-172x300.jpg

یہ دورہ، کاردار کے لئے کافی محنت طلب ثابت ہوا، کیوں کہ پاکستان نے ایک بلکل انجان ماحول میں، مخالف ہجوم کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا-
پاکستان وہ سیریز 3-1 سے ہار گیا- لیکن اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ کاردار کی قیادت میں، پاکستان نے تمام ٹیسٹ کھیلنے والے فریقین سے ایک ٹیسٹ میچ جیتا ہے، سوائے ساؤتھ افریقہ کے، جو ان دنوں گوروں کے علاوہ کسی کےساتھ نہیں کھیلتے تھے-
تینتیس سال کی عمر میں تھکے ہارے کاردار نے کھیل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا-
ساٹھ کی دہائی کے آخر میں، کاردار کی دوستی، شعلہ صفت سیاستدان ذولفقار علی بھٹو سے ہو گئی، اور وہ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر بن گئے- 1970 کے انتخابات کے بعد جب پی پی پی اقتدار میں آئی تو انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا صدر بنا دیا گیا-


کاردار، مشہور صحافی مرحوم خالد حسین کے ساتھ، لاہور میں — فائل فوٹو
ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کرکٹ ڈھیر ہوگئی تھی- چھ کپتانوں کی قیادت میں، ٹیم نے 33 ٹیسٹ کھیلے، لیکن صرف 2 ہی جیت پائی-بھٹو نے خود، کاردار سے کرکٹ بورڈ کا سربراہ بننے اور ٹیم کی ڈگمگاتی قسمت کو سنبھالنے کے لئے کہا-
اپنے سخت ترین طریقہ کار کے لئے مشہور، کاردار نے کرکٹ بورڈ کی سربراہی بلکل اسی طرح کی جیسے انہوں نے اپنی ٹیم کی، کی تھی، یعنی بلکل ایک آمر کی طرح-
وہ ٹیم میں جوان خون لانے کی وجہ بنے- انہی کی زیر نگرانی عمران خان، سرفراز نواز، وسیم راجہ اور میانداد جیسے مستقبل کے روشن ستارے ٹیم کا حصّہ بنے-
حالانکہ انہوں نے 1975 تک تجربہ کار انتخاب عالم کو کپتان بنائے رکھا، 1976 میں انہوں نے سوچا کہ جتنا ٹیم میں ٹیلنٹ ہے اتنے اچھے نتائج ٹیم نہیں دے رہی-چناچہ انہوں نے انتخاب عالم کو ہٹا کر انکی جگہ جارحیت پسند، مشتاق محمد کو کپتان بنا دیا-
مشتاق کے بھائی، لٹل ماسٹر حنیف محمد، کاردار کی قیادت میں کھیل چکے تھے، اور انسے متاثر تھے- کاردار اس بات کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور سمجھ رہے تھے کے مشتاق بھی اپنے بھائی کی طرح انکے فرمانبردار رہیں گے-
لیکن کاردار کو جھٹکا اس وقت لگا، جب مشتاق نےکپتان کی حیثیت سے اپنی پہلی ہی سیریز(نیوزی لینڈ ، 1976) میں کاردار پر براہراست چڑھائی کر دی-
کاردار نے حنیف کو بھی اس معاملے میں گھسیٹا اور انکو کہا کہ اپنے بھائی کو تھوڑی عقل سکھائے، لیکن مشتاق نے ایک نہ سنی-
مشتاق نے اپنے کھلاڑیوں کے معاوضے میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا لیکن کاردار نے مسترد کردیا- انہوں نے مشتاق کو ہٹا کر انتخاب کو واپس کپتان بنا دینے کی دھمکی دی اور انہوں نے پاکستان کے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے دورے سے پہلے ایسا کر بھی دیا-
انہوں نے مشتاق اور اس کے حمایتیوں عمران خان، آصف اقبال، ماجد خان اور سرفراز نواز کو سلیکٹرز کے ذریعہ ہٹا کر اس لمبے دورے کے لئے بلکل نئی ٹیم منتخب کر لی-
اس سے پہلے کاردار نے حیدرآباد میں نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں 11 فرسٹ کلاس کھلاڑیوں کو بلایا اور انکو ڈریسنگ روم میں بیٹھا دیا کہ اگر مشتاق اور اسکی ٹیم معاوضے کے معاملے میں کاردار سے مخالفت کرے تو دوسری ٹیم کو استعمال کیا جا سکے-ٹاس کے وقت، پاکستانی ڈریسنگ روم 25 کھلاڑیوں سے بھرا ہوا تھا-
بھٹو دور کے وزیر قانون، حفیظ پیرزادہ، نے مداخلت کی اور مشتاق کے مطالبوں کو تسلیم کر لیا-کاردار کا حوصلہ ختم ہو گیا اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا لیکن بھٹو نے انہیں اپنا کام جاری رکھنے پر اصرار کیا- جب جون 1977 میں ضیاء الحق نے ایک فوجی بغاوت میں بھٹو کا تختہ الٹ دیا تو کاردار کو غیر رسمی طور پر بورڈ کے اعلیٰ عہدے سے ہٹا دیا گیا-انہوں نے 1980 میں پی پی پی کو چھوڑ دیا- وہ ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے جب 1987 میں پی ٹی وی نے انہیں پاکستانی ٹیم کے، پانچ ٹیسٹ میچوں کے انڈیا دورے کے کمینٹری پینل جوائن کرنے کو کہا-جب عمران خان نے، بنگلور میں آخری ٹیسٹ میچ، انڈیا کے خلاف جیتا تو کاردار اپنے جذبات میں قابو نہ رکھ سکے اور لائیو نشریات پر بول پڑے :” ہم نے ہندوؤں کو انکی زمین پر شکست دی ہے- ہم نے ہندوؤں پر فتح حاصل کرلی-”کچھ نے اس بیان کے لئے، کاردار کی انگوری سکاچ کی حد سے زیادہ پسندیدگی کو مورد الزام ٹھرایا، دوسروں نے اسے بڑھتی ہوئی عمر کا تقاضہ کہا (جبکہ اس وقت وہ صرف 62 سال کے تھے)-
اپنے آبائی شہر، لاہور میں 1996 میں، 71 سال کی عمر میں، وہ وفات پا گئے-
کہا جاتا ہے کہ جنہوں نے 1950 میں کاردار کی قیادت میں کھیلا وہ کبھی انکی مخالفت نہ کر پائے ، اور اس کے بعد بھی کئی دہائیوں تک ان سے نظر نہ ملا پائے-
 
پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار –2
returning-after-winning-at-oval.jpg


فضل محمود اوول کی تاریخی فتح کے بعد پویلین لوٹ رہے ہیں

لاہور کے فضل محمود نے پہلے ہی سے ایک کامیاب سوئنگ بولر کی حیثیت سے ٹیم میں اپنی پوزیشن پکّی کر لی تھی، جب انہوں نے کاردار کی جگہ پاکستانی کپتان کی پوزیشن سنبھالی-

حالانکہ ایک بولر کی حیثیت سے انکی کار کردگی ہی، اپنے ساتھیوں کے درمیان انکی عزت کی ضمانت تھی، لیکن پریس مستقل انکی قائدانہ صلاحیتوں کا کاردار کے ساتھ موازنہ کرتے رہے-حقیقت میں کاردار کا استعفیٰ کے بعد، اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے، کاردار کو کپتان بنے رہنے کے لئے اصرار کیا تھا- کاردار نے نرمی کے ساتھ انکار کردیا اور محمود 31 سال کی عمر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے دوسرے کپتان بن گئے-

f-mahmood-n-staduim-370x300.jpg

کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں سن 1959
جاذب نظر، پر کشش اور انتہائی مشہور، فضل ٹیم کی جارحانہ پیشقدمی کی قیادت کر رہے تھے اور تقریباً اکیلے ہی پاکستان کو کئی ٹیسٹ جتوانے کی وجہ بنے-اپنی پہلی سیریز میں بطور کپتان، فضل کی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو 2-1 سے ہرا دیا-لیکن ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر بے اطمینانی اس وقت شروع ہوئی جب 1959 میں مہمان آسٹریلیا سے پاکستان 2-0 سے ہار گیا اور 1961 میں انڈیا کے خلاف 5 ٹیسٹ سیریز میں مقابلہ برابر رہا-

fazal1.jpg

سابق پاکستانی کپتان فضل محمود(دائیں سے دوسرا نمبر) ہندوستانی شہر ممبئی میں منعقدہ ایک تقریب میں لیجنڈری بالی وڈ اداکار راج کپور سے خوش گوار موڈ میں گفتگو کرتے ہوئے۔
پریس کا یہ ماننا تھا کہ کپتانی کا بوجھ، فضل کی کار کردگی پر اثر انداز ہو رہا ہے اور یہ کہ ٹیم کو ایک زیادہ جارح کپتان کی ضرورت ہے- دوسرے لفظوں میں پنڈتوں کا یہ کہنا تھا کہ ٹیم کو ایک دوسرا کاردار چاہیے-اور پھر 1961 میں کرکٹ بورڈ نے فضل کو اچانک کپتانی سے ہٹا دیا-پاکستانی پریس کے کچھ حصّوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ٹیم کے کچھ کھلاڑی، فضل پر اقربا پروری اور ٹیم کے انتخابی معاملات میں جانبداری کا الزام عائد کر رہے ہیں-جب 1962 میں انگلینڈ کے دورے کے لئے فضل کو منتخب نہ کیا گیا تو وہ بورڈ کے فیصلے پر ناراض ہو گئے اور کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی-

fazal-2.jpg

جاوید برکی 1962 میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں شاٹ کھیلتے ہوئے۔
پاکستانی کرکٹ کے شائقین، ٹیم کے اہم بیٹس مین حنیف محمد کو کپتان بنائے جانے کی توقع کر رہے تھے- لیکن کرکٹ بورڈ نے، جو ابھی تک ایک اور کاردار کی تلاش میں تھا، 24 سالہ درمیانی حیثیت کے بیٹس مین، جاوید برکی کو کپتان بنا کر سب کو حیرت میں ڈال دیا-لاہور سے تعلق رکھنے والے برکی، آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ، انتہائی لائق بلے باز تھے- انہوں چند ہی ٹیسٹ میچ کھیلے تھے جب 1962 میں انہیں انگلینڈ کے دورے کے لئے کپتانی کرنے کو کہا گیا-وہ دورہ انتہائی برا تھا- برکی کو ایک ایسی ٹیم کی کمان دی گئی جو دو کیمپوں میں بٹ گئی تھی- ایک سائیڈ ناراض حنیف کی حمایت کر رہی تھی اور دوسری نوجوان برکی کی-جب دورے پر پاکستانی جارحانہ پیش قدمی انجریز کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تو بورڈ نے فضل محمود کو ریٹارمنٹ سے باہر آنے کی درخواست کی- وہ مان گئے اور انگلینڈ بھیج دیے گئے- فضل کو انگلینڈ بھیجنے کا فیصلہ، برکی سے مشورے کے بغیر کیا گیا-انگلینڈ میں فضل کی موجودگی کو برکی اور اس کے حمایتیوں نے پسند نہیں کیا-انہیں ڈر تھا کہ فضل، حنیف کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے نوجوان (اور جدوجہد میں لگے) برکی سے اپنی کپتانی واپس لینے کی کوشش کریں گے-حالانکہ برکی نے فضل کو پانچویں اور آخری ٹیسٹ میں 63 اوورز دینے کے لئے استعمال کیا، لیکن دونوں کے درمیان بات چیت بند تھی- برکی کو یہی گمان تھا کہ بورڈ نے فضل کو اسے ہٹانے کے لئے بھیجا ہے-ایسا کچھ بھی نہ ہوا- پاکستان نے وہ سیریز 4-0 سے ہار دی اور فضل، 35 سال کی عمر میں واپس ریٹائر ہو گئے-

1970 کے آخر میں فضل، کرکٹ کمنٹیٹر بن گئے اور 1978 کے پاک-انڈیا سیریز کے دوران، سابقہ بیٹس مین لالہ امرناتھ کے ساتھ ان کے دوستانہ اور برجستہ مکالمے، ٹی وی ناظرین میں بہت مقبول ہوے-

fazal-5.jpg

فضل 1978 کے پاک و ہند ٹیسٹ میچ میں بطور کمنٹیٹر

بہرحال، کمنٹیٹر کی حیثیت سے انکا کیریئر بہت مختصر رہا کیوں کہ وہ مختلف کرکٹ اصطلاحات کے لئے اپنے ایجاد کردہ الفاظ استعمال کرتے تھے- یہ مانا جاتا ہے کہ فضل نے ہی رنز کے لئے اردو اصطلاح” رنزیں” ایجاد کی تھیں-مثال کے طور پر لاہور میں 1978 کی سیریز میں انہوں نے، جارح بولر عمران خان کی ایک بال اور اس کے نتائج کچھ اس طرح بیان کیے “عمران خان بھاگتے ہوے آئے، گیند کرائی، ٹپا بال، وشوناتھ کے سر کے اوپر والا شاٹ، فیلڈ باز گیند کے پیچھے، پر چار رنزیں-”

fazal-6.jpg

فضل محمود 2005 میں سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے ساتھ۔
اپنے کیریئر کے دوران وہ مذہبی نہیں تھے لیکن 1980 کے آخر میں انہوں نے اسلامی تبلیغی تنظیم، تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی-وہ 2005 میں 77 سال کی عمر میں انتقال کر گئے-
 
پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار –3



سعید کی قلابازیاں:
حیرت کی بات ہے کہ کرکٹ شائقین کی بڑی تعداد کو سعید احمد یاد نہیں-
1958میں، 21 سال کی عمرمیں انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا اور جلد ہی ایک کار آمد، دوسرے بیٹس مین کی حیثیت سے اپنی جگہ مستحکم کر لی-
2000 رنز سکور کر لینے کے بعد سعید خود کو اگلا پاکستانی کرکٹ کپتان تصور کرنے لگے- اس حوالے سے سعید کا خواب پورا ہوا، جب انگلینڈ کے دورے سے کچھ پہلے 1968 میں، کرکٹ بورڈ نے انہیں حنیف محمد کی جگہ کپتان بنایا-
حالانکہ اس سیریز کا اختتام 0-0 سے برابر رہا لیکن کھلاڑیوں اور شائقین دونوں کا یہ خیال تھا کہ سعید ایک اعلانیہ دفاعی کپتان تھے- بورڈ نے بھی یہ محسوس کیا کہ انہوں نے کھلاڑیوں کے ساتھ کسی قسم کا تعلق اور ہمدردی قائم کرنے کی کوشش نہیں کی-1969 میں انکی جگہ، انتخاب عالم کو دے دی گئی-
نیوزی لینڈ کے خلاف 1969 کی سیریز میں سعید شامل نہیں ہوے- وہ انگلینڈ منتقل ہو گئے اور وہاں جا کر اس وقت کی پرشباب راتوں کے شوقین ہو گئے-
1971 میں پاکستان کے دورہ انگلینڈ کے دوران واپس آئے لیکن تین میں سے صرف ایک ٹیسٹ کے لئے منتخب ہوے-پاکستان وہ سیریز 2-0 سے ہار گیا اور سعید نے دوبارہ کپتان بننے کے لئے کوششیں شروع کر دیں-
1972-73 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دوروں کے لئے کپتانی انتخاب عالم کے پاس ہی رہی اور سعید ٹیم کے ساتھ مڈل-آرڈر بیٹس مین کی حیثیت سے سفر کرتے رہے-
آسٹریلیا میں کھیلے جانے والے 3 ٹیسٹ، سبز سطح والی تیز وکٹ پر کھیلے گئے-تیسرے ٹیسٹ میں سڈنی والی وکٹ سب سے زیادہ سبز تھی- ٹیسٹ سے ایک دن پہلے انتخاب عالم نے سعید کو بتایا کہ انہیں اپنی پرانی دوسری پوزیشن پر کھیلنا ہو گا-سعید نے انکار کر دیا- انکا کہنا تھا کہ وہ چھٹی پوزیشن پر زیادہ اچھا کھیل لیں گے پر انتخاب عالم نہیں مانے-
جب ٹیسٹ سے دو گھنٹے پہلے، ٹیم سڈنی کرکٹ گراؤنڈ پنہنچی تو سعید پچ کی طرف چہل قدمی کرنے گئے- جب انہوں نے دیکھا کہ پچ اتنی ہی سبز ہے جتنی ایک دن پہلے تھی، تو انہوں نے انتخاب سے کہا کہ وہ ٹھیک محسوس نہیں کر رہے اور پریکٹس کے دوران انکی پیٹھ میں موچ آگئی ہے-
سعید ٹیم سے فارغ ہو گئے- لیکن جلد ہی کسی نے یہ دیکھا کہ سعید جو کہ کمر کی موچ میں مبتلا تھے، سڈنی کے نائٹ کلب میں رقص کرتے ہوے، زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں-ٹیم کے کپتان اور مینیجر نے تحقیق کی اور یہ پتا چلا کہ سعید نے اپنی چوٹ کے بارے میں جھوٹ کہا تھا- تادیبی بنیادوں پر انھیں واپس پاکستان بھیج دیا گیا-
سعید پاکستان واپس آگئے اور دوبارہ انگلینڈ منتقل ہو گئے، لیکن انہوں نے پھر پاکستان کے لئے نہیں کھیلے-


سابقہ انگلش کپتان اور مشہور کمنٹیٹر، ٹونی گریگ اور سعید

1998 میں، پچیس سال بعد وہ اچانک شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں ظاہر ہوئے جہاں پاکستان ایک او ڈی آئی (ODI) ٹورنامنٹ کھیل رہا تھا-سابقہ انگلش کپتان اور مشہور کمنٹیٹر، ٹونی گریگ نے انہیں پاکستانی ڈریسنگ روم کے باہر گھومتے ہوے دیکھا- سعید بلکل بدل گئے تھے-گریگ کو ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے خدا کو دوبارہ پایا ہے اور 1980 کی دہائی کے آخر میں تبلیغی تنظیم، تبلیغی جماعت، میں شامل ہو گئے ہیں اور وہ یہاں کچھ پاکستانی کھلاڑیوں کی دعوت پر آئے ہیں جو جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں-یہ مانا جاتا ہے کہ سعید نے پاکستانی ٹیم کے پہلے گروپ کو جماعت میں شامل کرنے میں اھم کردار ادا کیا ہے-سعید ابھی بھی جماعت سے وابستہ ہیں اور یو کے میں خاموش زندگی گزار رہے ہیں-
 
پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار –4
دیوانہ راجہ:


وسیم حسن راجہ

بے انتہا موڈی، تکلیف دہ حد تک خود پرست، اور وقتاً فوقتاً پڑنے والے اداسی کے دوروں کے ساتھ وسیم راجہ نے اپنا آغاز 1973 میں، 20 سال کی عمر میں کیان کا تعلق ملتان کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے تھا-سابقہ پاکستانی کپتان، عمران خان نے ایک بار وسیم راجہ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ انتہائی لائق بیٹس مینوں میں سے ایک ہیں جن کے ساتھ عمران کھیلے، لیکن ساتھ ہی انتہائی من چلے۔
1975 کی پاک ویسٹ انڈیز سیریز میں وسیم راجہ کی ویسٹ انڈیز کے خلاف تیز رفتار سنچری نے، پہلی بار ان کے حقیقی مداحوں کا گروپ بنایا-


پہلے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف شاندار ففٹی بناتے ہوئے

اور انہوں نے اپنے مداحوں کو مایوس نہیں کیا- 1975 کے انگلینڈ میں کھیلے جانے والے ورلڈکپ میں دوبارہ ویسٹ انڈیز کا خلاف، تقریباً میچ جتا دینے والے پچاس رن بھی انہی نے بنائے-کراچی میں کھیلے جانے والا ٹیسٹ، جس میں انہوں نے اپنی پہلی سنچری بنائی، ان کی بدنامی کی پہلی وجہ بھی بنا- باؤنڈری وال کے پاس فیلڈنگ کے دوران انہوں نے ہجوم کو ہکا بکا کر دیا، جب انہوں نےشرارتاً تماشائیوں کی طرف مڑ کر، اپنی ٹراؤزر کی زپ کھول کر نازیبا حرکت کی دھمکی دی-
کسی کو یہ یاد نہیں کہ ان کی اس حرکت کا محرک کیا تھا، لیکن اردو پریس نے رد عمل کا اظہار یہ کہ کر کیا کہ راجہ جب فیلڈ میں گیا تو نشے میں تھا-


ویسٹ انڈیز کے خلاف زوردار چکا لگاتے ہوئے

راجہ نے پریس کو اسکا جواب سنچری بنا کر دیا- لیکن پھر آخر میں انھیں ہسپتال بھی جانا پڑا جب کلائیو لائیڈ کے پل شاٹ نے ان کے دائیں پیر میں فریکچر کر دیا-
1976 میں، غیر منظم بیٹنگ کی وجہ سے راجہ کو مہمان ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف ایک ہی ٹیسٹ کے بعد ہٹا دیا گیا تھا- لیکن پھر وہ واپس، کپتان مشتاق محمد کی قیادت میں، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے دورے پر جانے والی 17 رکنی ٹیم میں شامل کر لئے گئے-آسٹریلیا کے دورے کے پہلے دو ٹیسٹوں میں، راجہ کو 11 کھلاڑیوں کے بیچ جگہ نہ مل سکی- لیکن کوئینز لینڈ کے خلاف کھیل میں آتش فشانی سنچری بنا کر انہوں نے کپتان مشتاق اور نائب کپتان آصف اقبال کو ہلا کر رکھ دیا-راجہ کو اس بات کا یقین تھا کہ سڈنی میں کھیلے جانے والے تیسرے ٹیسٹ میں انھیں چنا جائے گا، لیکن مینیجر شجاح الدین نے انھیں بتایا کہ مشتاق اور آصف نے ان کے بجائے، ہارون رشید کو کھلانے کا فیصلہ کیا ہے-

pak-cricketers-427x300.jpg

ایک ویسٹ انڈین اخبار میں 1977 میں چھپا، پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں کا ایک فیچر

اس رات راجہ اپنے کمرے میں بیٹھا خوب پیتے رہے- وہ غصے میں آ گئے- اپنے کمرے کا آئینہ توڑنے کے بعد، وہ ہوٹل کی لابی میں لڑکھڑاتے ہوئے پنہچے اور مینیجر کو گالیاں دینا شروع کر دیں اور ان پر الزام لگایا کہ وہ راجہ کا کیریئر تباہ کرنا چاہتے ہیں-کچھ پاکستانی کھلاڑی، مدثر نذر، سلیم الطاف، سرفراز نواز اور ظہیر عبّاس، ہوٹل کے بار میں بیٹھے خاموشی کے ساتھ پی رہے تھے جب انہوں نے راجہ کو نشے اور غصّے کی حالت میں صوفوں پر لڑکھڑاتے دیکھا- انہوں نے فوراً کپتان کو خبردار کیا جنہوں نے آ کر راجہ کو ٹھنڈا کیا-جب پاکستانی پریس نے اس واقعہ کی رپورٹ کی تو بورڈ نے راجہ کی واپسی کا مطالبہ کیا، لیکن کپتان مشتاق نے انکار کر دیا- اس کے بعد راجہ نے ویسٹ انڈیز میں کھلے جانے والے تمام پانچ ٹیسٹ کھیلے اور 500 رنز کا سکور کیا-
مشہور ویسٹ انڈیز کرکٹ ماہر اور کمنٹیٹر، ٹونی کوزیر نے، پاکستانی کرکٹرز کے بارے میں لکھتے ہوے یہ محسوس کیا کہ راجہ نے ویسٹ انڈیز کے سینکڑوں مداحوں کو اپنا گرویدہ کر لیا ہے، “جو اس شخص کی لڑاکا بیٹنگ اور برتاؤ کی محبّت میں گرفتار ہو گئے ہیں-”ٹیم کے ایک سابقہ فاسٹ بولر سالوں بعد اس دورے کی یاد تازہ کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ کس طرح اس دورے کے دوران ایک ٹیسٹ میں راجہ، ڈریسنگ روم سے نکل کر ویسٹ انڈین مداحوں کے ساتھ گانجہ پینے کے لئے گھل مل گئے تھے-

raja-with-sikander-bakht-425x300.jpg

راجہ پاکستانی فاسٹ بولر سکندر بخت کے ساتھ

وہ ایک وکٹ گرنے کے بعد واپس آئے، تیار ہوے، میدان میں گئے اور ویسٹ انڈیز کے 6 فٹ 7 انچ کے تیز رفتار بولر، جوئل گارنر کی پہلی گیند پر زوردار چھکا مار دیا-جب پاکستان نے پورٹ آف اسپین میں چوتھا ٹیسٹ جیتا تو، ایک جمیکن اخبار ‘دی اسٹار’ نے کچھ یوں لکھا “ہمارے مہمان، خوش دل لوگ ہیں، وہ دل و جان سے کرکٹ کھیلتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ دل جان سے پارٹی مناتے ہیں-”راجہ کو 1978 میں پاک انڈیا سیریز کے دوران ٹیم میں جگہ نہ ملی لیکن 1979 میں انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ میں وہ واپس آگئے-بہرحال، ایک متاثر کن اسکور بنانے کے بعد، انہیں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیمی فائنل میں گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم سے ہٹا دیا گیا- ٹورنامنٹ کے بعد، فاسٹ بولر سرفراز نواز نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ انہیں اور راجہ کو “مشترکہ حکمت عملی پر نہ چلنے کی وجہ سے” نئےکپتان آصف اقبال نے سزا دی اور برا سلوک کیا-حالانکہ نواز نے آصف اقبال کی قیادت میں انڈیا دورے پر جانے سے انکار کر دیا لیکن راجہ گئے اور وہاں 500 سے زائد رنز کا سکور کیا حالانکہ وہ سیریز پاکستان 2-0 سے ہار گیا تھا-

group-446x300.jpg

راجہ کی شادی کی تقریب میں عمران خان، آصف مسعود، شفیق احمد، تسلیم عارف اور کرکٹ کومنتیٹر منیر حسین

اس مشکل دورے میں راجہ، پاکستان کے سب سے کامیاب بیٹس مین تھے، اور شاید اسی لئے پریس نے انہیں کسی حد تک کم پریشان کیا- حالانکہ پریس کے بقول پاکستانی کرکٹرز، کرکٹ پر توجہ دینے کے بجائے، اپنا زیادہ وقت گلچھڑے اڑانے میں صرف کرتے ہیں-


اپنے بھائی اور کرکٹر رمیز راجہ کے ساتھ خوشگوار موڈ میں

گو کہ وہ عمران خان اور بالی ووڈ کی اداکارہ زینت امان کا معاشقہ تھا جو پاکستان اور انڈیا دونوں کے میگزینز کی شہ سرخی بنا- راجہ پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے شراب کے نشے میں بیٹنگ کی-پاکستانی دورے کی انتظامیہ کے ایک رکن نے اس بات پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر راجہ واقعی بیٹنگ کے وقت نشے میں تھا تو تمام بیٹسمینوں کو نشے میں بیٹنگ کرنی چاہیے، کیوں کہ راجہ نے اس دورے کے چھ ٹیسٹوں میں 500 سے زیادہ رنز بنائے-
خواتین مداحوں میں راجہ کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی (عمران خان کے ساتھ) لیکن 1981 میں آسٹریلیا کے دورے پر راجہ کی ملاقات ایک نوجوان آسٹریلین خاتون سے ہوئی اور وہ اس کی محبّت میں گرفتار ہو گئے- 1981 میں دونوں نے شادی کر لی-


راجہ کی آخری دنوں ایک یادگار تصویر

شادی کے بعد ان کی کج روائیاں کچھ کم ہو گئیں اور وہ 1985 تک پاکستان کے لئے کھیلے- 1980 کی دہائی کے آخر میں وہ انگلینڈ منتقل ہو گئے اور ایک مختصر عرصے کے لئے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ بھی رہے-
2006 میں انگلینڈ میں ویٹرن میچ کھیلتے ہوے ان کی موت واقع ہو گئی-
 
آخری تدوین:
پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار۔5


سرفراز نواز

سرفراز نواز :

فاسٹ بولر، سرفراز نواز نے اپنا کیریئر کا آغاز 1969 میں، 20 سال کی عمر میں کیا-لیکن ان کی صحیح پہچان 1974 میں کرکٹر اور بقول ایک کپتان کے “ایک عاجز بچے” کی حیثیت سے ہوئی-ایک جھگڑالو، انتہائی شرابی، اور کلبوں کے شوقین، 6.4 فٹ کے سرفراز، مشتاق اور عمران خان کے مطابق دہری شخصیت کا حامل تھے، جو کرکٹ کے میدان میں اپنی پوری جان لگا دیتے تھے لیکن ساتھ ہی انہیں انتظامیہ اور بورڈ کی طرف سے لگائے گئے تمام قائدے قانون توڑ دینے کی بھی بیماری تھی-مثال کے طور پر، مشتاق کو ہمیشہ یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی کہ کس طرح سرفراز باقائدگی سے ٹیم پر لگائے گئے کرفیو کے باوجود ہوٹل سے نکل جاتے اور کلبوں میں رات بھر شراب اور عورتوں کے ساتھ گل چھڑے اڑاتے اور پھر صبح گراؤنڈ میں پنہچنے والے سب سے پہلے شخص بھی وہی ہوتے-


ایک میچ میں کامیابی کے بعد جشن مناتے ہوئے، مشتاق اور صادق محمد

ایک اور سابقہ کپتان، انتخاب عالم کا کہنا تھا کہ سرفراز نواز نے ہی عمران خان کو 1974 میں لندن کی نائٹ لائف کی رنگینیوں سے متعارف کر وایا تھا- اس چیز سے عمران خان کے کزن ماجد خان کافی فکرمند ہوئے-نواز کو (میانداد کے ساتھ) پاکستانی کرکٹ میں پہلی بار آسٹریلین ‘سلیجنگ’ تکنیک اپنانے کا سہرا جاتا ہے، جس میں بولر/فیلڈر بیٹس مین کو پریشان کرنے کے لئے طنزیہ اور توہین آمیز کلمات ادا کرتے ہیں-مشتاق اور عمران بتاتے ہیں کہ کس طرح نواز اور میانداد 1976 اور 1979 کے درمیان میدان کی دہشت بن گئے تھے-


ورلڈ کپ سنہ 1979 کا پاکستانی اسکواڈ

سرفراز، پنجابی میں آسٹریلین کے ساتھ بد کلامی تو کرتے ہی تھے لیکن انکا اصل نشانہ انڈیا کے بہترین اوپنر، سنیل گواسکر تھے جو 1978 میں انڈیا کے پاکستان دورے کے دوران بار بار پاکستانی کپتان مشتاق کے پاس آتے اور انہیں سرفراز کو قابو میں رکھنے کو کہتے-نواز، ذولفقار علی بھٹو کا بہت بڑا مداح تھے چناچہ جب ضیاء الحق نے جولائی 1977 میں، ایک فوجی کاروائی میں بھٹو کا تختہ الٹا تو نواز بری طرح چڑ گئے- دسمبر 1977، میں مہمان ٹیم انگلینڈ کے خلاف ایک میچ کے دوران، ایک ٹی وی کیمرے نے حادثاتی طور پر نواز کو باؤنڈری وال پر اپنے ایک ساتھی سے پنجابی میں جنرل ضیاء الحق کے بارے میں نازیبا کلمات بولتے ہوے کیپچ کر لیا-کیمرا جھٹکے کے ساتھ، جیسے گھبراہٹ میں دوسری طرف مڑ گیا، اور مائکرو. فون بند کر دیا گیا-


کرکٹ کمنٹیٹر مرحوم عمر قریشی کے ساتھ ایک پارٹی میں

1979 کی پاک آسٹریلیا سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں، ایک ہی اننگ میں 9 وکٹیں لے کر پاکستان کو ناممکن فتح دلانے کے بعد، جب سرفراز نواز کا ایک آسٹریلین ٹی وی کمنٹیٹر نے انٹرویو لیا اور پوچھا کہ ٹیم اس فتح کا جشن کس طرح منائے گی تو سرفراز نے جواب دیا “بس کچھ پینا پلانا کر کے“- لیکن یہ یاد آنے پر کہ اپریل 1977 میں شراب کی فروخت (مسلمانوں) پر پابندی لگ چکی ہے اور یہ انٹرویو میلبورن سے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے- انہوں نے فوراً اپنے جملے میں مزید اضافہ کیا- “میرا مطلب سوفٹ ڈرنک ، سوفٹ ڈرنک، ہم سوفٹ ڈرنک کے ساتھ جشن منائیں گے-”سرفراز نواز کی حیثیت ریٹائرمنٹ کے بعد اور زیادہ متنازعہ ہو گئی جب انہوں نے ایسے کھلاڑیوں کے نام لینا شروع کر دئے جو ان کے خیال میں میچ فکسنگ میں ملوث تھے- ان سب کا آغاز انگلینڈ میں 1979 کے ورلڈ کپ کے دوران ہوا-اس موقع پر سرفراز اور کپتان آصف اقبال کے درمیان شدید لڑائی ہوئی- آصف اقبال کا یہ کہنا تھا کہ سرفراز، قوائد کی خلاف ورزی کر رہا ہے- وہ ساری رات باہر گزارتا ہے، نہ مشق کرنے آتا ہے نہ ہی ٹیم میٹنگ میں شریک ہوتا ہے-ٹورنامنٹ کے بعد سرفراز نے پاکستان کرکٹ کے ماہانہ میگزین ( پاکستان کرکٹر، جو اب بند ہو چکا ہے) کو بتایا کہ آصف نے اپنے گرد مخصوص کھلاڑیوں کا گروہ بنا لیا ہے اور جس نے اسکی تائید نہیں کی وہ دورے کے دوران نظر انداز کیا گیا اور دھمکایا گیا-انہوں نے کہا کہ آصف نے سرفراز کو بعض میچوں سے ہٹا دیا، بغیر کسی وجہ کے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف انتہائی اھم سیمی فائنل میں سے وسیم راجہ کو بھی ہٹا دیا- یہ جانتے ہوئے بھی کہ وسیم کا ویسٹ انڈیز کے خلاف ریکارڈ کافی متاثر کن رہا ہے-
“راجہ اور میرے ساتھ، دورے کے دوران بلکل اجنبیوں جیسا سلوک کیا گیا کیوں کہ ہم آصف اقبال کی آنکھوں کا تارا نہیں تھے-”یہ تنازعہ اور بھی بری شکل اختیار کر گیا جب 1979 میں انڈیا میں 6 ٹیسٹ کے دورے سے ذرا پہلے مشتاق محمد کو کپتانی سے ہٹا کر آصف اقبال کو کپتان بنا دیا گیا- سرفراز نے آصف اقبال پر مشتاق کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا اور آصف کی قیادت میں ٹیم کا حصّہ بننے سے انکار کر دیا-جب 1980 کے اوائل میں آصف ٹیم سے ریٹائر ہو گئے تو سرفراز واپس آ گئے-


عمران خان کے ساتھ ایک یادگار تصویر

سرفراز خود بھی 1982 کے اختتام پر ریٹائر ہو گئے لیکن اپنے پرانے دوست اور فاسٹ بولر، عمران خان کے اصرار پر واپس آ گئے، جو مئی 1982 میں پاکستان کرکٹ کے کپتان بن گئے تھے-سرفراز نواز 35 سال کی عمر میں، حتمی طور پر 1984 میں کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے-بہرحال 1990 میں سرفراز اور عمران کی دوستی کا خاتمہ ہو گیا جب عمران خان ‘ازسرنو مسلمان‘ بن گئے-سرفراز نے عمران کو منافق کہا اور عمران نے جواب میں انھیں ‘پاگل‘ کہا-
1994 میں جب راشد لطیف، عامر سہیل، اور باسط علی نے جب سامنے آ کر کئی کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزام لگائے تو سرفراز نواز انکے سب سے بڑا حمایتی بن گئے-
1999 میں انہوں نے یہ تک کہا کہ میچ فکسنگ کی اصل ابتدا، آصف اقبال اور سنیل گواسکر نے پاک انڈیا سیریز 1979 کے دوران کی- دونوں کھلاڑیوں نے جواب میں یہ کہا کہ سرفراز کا دماغ خراب ہو گیا ہے-سرفراز نے تین بار شادیاں کیں، اور آج تنہا زندگی گزار رہے ہیں- وہ اپنے ساتھیوں پر لگائے ہوئے الزامات واپس لینے سے انکار کر رہے ہیں چاہے اس کے نتیجے میں انہیں پاکستان کرکٹ میں کوئی قابل ذکر مقام کبھی نہ حاصل ہو-
 
پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار۔6

عمران خان



عمران خان کا تعلق، کرکٹ سے وابستہ خاندان سے تھا- انہوں نے تعلیم لاہور کے ایچیسن اسکول سے حاصل کی اور بعد میں ماسٹر ڈگری کے حصول کر لئے آکسفورڈ چلے گئے-انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ 1971 میں انیس سال کی عمر میں کھیلا، جس میں کوئی خاص قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دیا اور بڑی جلدی ہی بھلا دے گئے- لیکن پھر 1974 میں واپس ٹیم میں بلائے گئے- کپتان مشتاق کی نگرانی اور اپنے ساتھی فاسٹ بولر، سرفراز نواز کی سرپرستی میں عمران ایک اچھے فاسٹ بولر کی حیثیت سے ابھرے-
ان کے شہرت کے لمحات 1976 میں آسٹریلیا میں کھیلے گئے پاکستان کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں سامنے آئے- 3 ٹیسٹ سیریز میں پاکستان 1 میچ ہار چکا تھا لیکن خان نے اپنی تیز بولنگ سے 12 وکٹ لے کر پاکستان کو تاریخی فتح سے ہمکنار کیا-


انتخاب عالم ملکہ برطانیہ سے عمران کا تعارف کروا رہے ہیں

اسی ٹیسٹ کے دوران خان نے پہلی بار اپنے حصّے کے تنازعہ کا مزہ چکھا-آسٹریلین پلیئر، خصوصاً فاسٹ بولر ڈینس لیلی اور وکٹ کیپر روڈ مارش، پورے دورے میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ سلیجنگ کرتے رہے تھے-پاکستانی کپتان مشتاق نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے فاسٹ بولر عمران اور سرفراز کوآزادی دے کر میچ کا نقشہ بدل دیا جائے کہ وہ آسٹریلین آخری بیٹس مینوں پر باؤنسر بولنگ کریں- امپائر کے کی بار بار تنبیہ کے باوجود، خان خاص طور سے مارش اور لیلی پر بار بار باؤنسر پھینک رہے تھے-



ادھر جب کہ سرفراز اپنی مخصوص پنجابی میں مسلسل بیٹس مین کو گالی گلوچ کر رہے تھے- خان شارٹ بال کراتے ہوئے دوڑتے ہوے بیٹس مین کی طرف جاتے اور اسے کینہ پرور نظروں سے دیکھتے، اور جب بھی خان ایسا کرتے، 19 سالہ میانداد جو وکٹ کے انتہائی پاس کھڑے ہوتے تھے، لیلی اور مارش سے بار بار یہی دہراتے رہے کہ یہ تو تمھیں مار ہی دے گا، پکا پکا مار دے گا-آخر کار امپائر نے کھیل روک دیا- خان کے باؤنسر نے لیلی کو لمبا لیٹ کر دیا- مشتاق نے مداخلت کی اور امپائر سے پوچھا کہ جب لیلی پاکستان کے آخری بیٹس مینوں کو باؤنسر کرا رہا تھا تب امپائر نے کیوں نہیں روکا-خیر یہ معاملہ اس وقت رفع دفع ہوا جب مشتاق نے با آواز بلند خان کو باؤنسر مارنے سے منع کیا- بہرحال، جب عمران خان بولنگ مارک پر پنھنچے تو مشتاق نے انہیں کہا کہ حرامزادے کی آنکھوں کے درمیان کا نشانہ لو-


مشتاق محمد

دلچسپ بات یہ ہے کہ خان کی کارکردگی اور اسکی خوبصورتی نے اسے پہلے آسٹریلیا اور پھر اپنی ملک میں مشہور کر دیا-لیکن جب وہ پاکستان ٹیم میں 1978 میں واپس آئے ( آسٹریلیا میں کیری پیکر لیگ جوائن کرنے پر ان پر پابندی لگ گئی تھی)، تو پاکستان میں ان کی شہرت کرکٹ اسٹار کے علاوہ اور وجوہات کی بنا پر بھی ابھرنے لگی-
اخبارات یو کے میں ان کے مختلف معاشقوں کی رپورٹ دینے لگے، کہ وہ کس طرح ایک نائٹ کلب مگنٹ بن گئے ہیں جو ان تمام شہروں کے نائٹ کلبوں میں جاتے ہیں جہاں جہاں پاکستان کا دورہ ہوتا ہے- اور جب وہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ پاک انڈیا سیریز کے لئے انڈیا پنہچے تو انڈین میگزینز میں پہلی بار ان کے لئے لفظ ‘پلے بوائے‘ کا استعمال کیا گیا-


اپنی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے

خان نے اپنی ستائسویں سالگرہ، بنگلور کے ڈریسنگ روم میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ منائی- لیکن کچھ انڈین میگزینز کے مطابق وہ شام میں انڈین اداکارہ زینت امان کے ساتھ دیکھے گئے-جب دوسرے ٹیسٹ میں عمران خان، کمر کی موچ کی وجہ سے 2 اوور سے زیادہ نہ بال نہ کرا سکے تو قدامت پسند اردو اخبارات نے زینت امان والا معاملہ اٹھایا- انہوں نے ان پر ٹیم کو غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث کرانے اور کلبوں اور انڈین اداکاراؤں کے ساتھ راتیں گزارنے پر طعن تشنہ کیا-سچ تو یہ ہے کہ ٹیم نے 1976-77 کے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا دورے میں زیادہ عیاشیاں کی تھیں، فرق بس اتنا تھا کہ وہ اس بار پہلے جیسی کار کردگی نہیں دکھا رہے تھے-


زینت امان

پاکستان 2-0 سے سیریز ہار گیا، اور ایک اردو اخبار نے تو یہ تک کہا کہ خان کی کمر درد کی ذمہ دار زینت امان ہے-کئی سال بعد جب ایک انڈین مصنفہ شوبھا دے نے زینت امان سے عمران خان اور اس کے حوالے سے سوال کیا تو زینت امان نے یہ جواب دیا کہ ان کے درمیان ایسی کوئی سنجیدہ بات نہیں تھی اور یہ کہ عمران خان مغرور، بد اخلاق اور اپنے مداحوں کے ساتھ بہت ناشائستہ تھے-بہرحال انڈیا کے بہترین ماہانہ میگزین، انڈیا ٹوڈے نے 1984 میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ دونوں کے درمیان معاملہ سنگین تھا اور یہ کہ دونوں شادی کے قریب پنہنچ گئے تھے- برٹش خواتین کے ساتھ عمران کے معاشقوں کی کہانیاں چلتی رہیں، لیکن جب انہوں نے اپنا پلے بوائے کا تصور ختم کیا، تو انہیں ایک اور تنازعہ نے گھیر لیا-

imran-with-others-in-mumbai-500x295.jpg

عمران، مدثر، عبدلقادر اور صادق محمد

سنہ 1979 کی ہار کے بعد آصف اقبال نے کپتانی اور کھیل سے ریٹائرمنٹ لے لی- ان کی جگہ 23 سالہ میانداد کو کپتان بنایا گیا- لیکن 1982 میں ماجد خان کی سربراہی میں 10 کھلاڑیوں بشمول عمران خان، نے میانداد کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کر دیا-اس کا فیصلہ یہ ہوا کہ عمران خاں کو کپتان بنا دیا جائے- اور وہ پاکستان کے سب سے مشہور اور کامیاب کپتان بن گئے- ظاہر ہے خان اور میانداد کے درمیان مختصر عرصے کے لئے تناؤ رہا لیکن جلد ہی دونوں نے معاملہ ختم کر دیا-


ماجد خان

حیرت کی بات یہ ہے کہ خان کا اپنے کزن، سرپرست اور میانداد مخالف تحریک کے سربراہ ماجد خان سے سب سے بڑا اختلاف ہوا-
1982 میں انگلینڈ کے دورے کے دوران عمران نے یہ فیصلہ کیا کہ ماجد خان کو پہلے ٹیسٹ سے ہٹا کر نوجوان منصور اختر کو ان کی جگہ کھلایا جائے-خوش باش، اسٹائلش اور 1970 کے اوائل سے ٹیم کی بیٹنگ لائن اپ کا ایک کارآمد، مرکزی اثاثہ، ماجد خان یہ دیکھ کر خفا ہو گئے- یہ حقیقت جانتے ہوے بھی کہ وہ اپنا اسٹائل کھو چکے تھے- اس بات کا اقرار عمران خان نے بھی کیا ہے کہ اس واقعہ کو 30 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ماجد خان نے اب تک عمران سے ٹھیک طور پر بات نہیں کی ہے-
1982-83 میں آسٹریلیا اور انڈیا دونوں کو 3-0 سے ہرانے کا بعد، خان کی پنڈلی میں شدید دباؤ کے سبب فریکچر ہو گیا اور وہ کچھ عرصے کے لئے کھیل سے کنارہ کش ہو گئے- انہوں نے انڈیا کے خلاف 6 ٹیسٹوں میں 40 وکٹیں لیں اور اپنی بولنگ کی انتہا پر ڈھیر ہو گئے- ان کی مختصر غیر حاضری میں پاکستانی ٹیم، اندرونی لڑائیوں اور بدنظمی کا شکار ہو گئی- خان 1985 میں واپس آئے اور کچھ عرصہ میانداد کی قیادت میں کھیلنے کے بعد دوبارہ کپتان بنا دئے گئے اور میانداد ان کے نائب بن گئے- 1986 میں ایک بار پھر تنازعات شروع ہو گئے-قاسم عمر نے، جو اپنے آپ کو آسٹریلیا کے 1986-87 کے دورے میں ایک شاندار اور جوان بیٹس مین کی حیثیت سے منوا چکے تھے، دورے سے واپسی کے فوراً بعد، پریس کانفرنس کر ڈالی- پہلی کانفرنس میں انہوں نے خان پر حسد کرنے کا الزام لگایا-


قاسم عمر

قاسم کا دعویٰ تھا کہ میچ میں 50 رنز بنانے کے بعد میں نے شائقین کی تالیوں کا جواب دینے کے لئے بیٹ ہوا میں اٹھایا اور بجائے اس کے کہ کپتان میری تعریف کرتا، اس نے مجھے آؤٹ ہو جانے پر برا بھلا کہا اور مستقل میری بے عزتی کرتا رہا-جب خان نے اس الزام کی تردید کی تو جواب میں قاسم نے کپتان اور اس کے ساتھیوں پر حشیش استعمال کرنے کا الزام لگایا اور یہ کہ وہ منشیات اپنے استعمال کے لئے بیٹنگ گلووز میں چھپا کر شہر بشہر لے جاتے ہیں-قاسم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ آسٹریلیا دورے میں کھلاڑیوں کو اپنے ہوٹل روم میں طوائفیں لانے کی بھی اجازت تھی-یہ خان اور اس کی ٹیم کی خوش قسمتی ہی تھی کہ وہ اچھی کار کدردگی دکھا رہے تھے- جسکی وجہ سے قاسم اور تلخ ہو گیا، حد یہ کہ ایک سپورٹ صحافی نے قاسم کو ‘غیر متوازن‘ تک کہہ دیا- قاسم پر قومی ٹیم اور اس کے کپتان پر بے بنیاد الزامات لگانے کے جرم میں پابندی عائد ہو گئی- 1990 کے اوائل میں، قاسم نے اسلامی تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی-حالانکہ خان اور ان کی ٹیم کامیاب نتائج مہیا کر رہے تھے لیکن منشیات کے تنازعہ نے 1987 میں پاک انڈیا سیریز میں پاکستان کی فتح کے بعد ایک بار پھر سر اٹھایا-انڈیا کی سپین بولنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے عمران خان نے ایک سابقہ بائیں ہاتھ کے کھلاڑی یونس احمد کو دوبارہ ٹیم میں لانے کا فیصلہ کیا-


انڈیا کے دورے پر نواز شریف کے ساتھ ایک فنکشن میں

یونس نے 1969-70 میں پاکستان کے لئے کچھ ٹیسٹ کھیلے تھے- لیکن ایک انگلش کلب کے ساتھ ساؤتھ افریقہ کے دورے پر جانے کی وجہ سے پاکستانی گورنمنٹ نے ان پر پابندی لگا دی تھی- ساؤتھ افریقہ پر اس زمانے میں ایک نسل پرست حکومت قائم تھی-یونس ایک انتہائی قابل بیٹس مین تھے اور وہ انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلتا رہا تھے- وہ 40 سال کے تھے جب عمران خان نے انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا-بہرحال 1987 میں انگلینڈ کے دورے سے کچھ پہلے یونس نے ایک بیان جاری کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان ٹیم پر برے اثرات مرتب کر رہے ہیں اور یہ کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کی منشیات استعمال کرنے اور عورت بازی میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں-حالانکہ یونس کے الزامات سن کر کچھ اخبارات نے یہ مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی چھان بین کی جائے، لیکن عمران خان اور ان کی ٹیم، اس وقت انڈیا کو اس کے ملک میں ہی شکست دینے کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر تھی-


عمران اور میانداد، دو دوست، دو عظیم کھلاڑی

لیکن یونس نہیں پسیجے- ایک مشہور کرکٹ میگزین ‘پاکستان کرکٹر’ کو انٹرویو کے دوران یونس نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک پارٹی میں عمران خان کو منشیات کے کش لیتے ہوے دیکھا- یونس نے کہا کہ “جب میں نے عمران کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھا تو اس پوچھا کہ کیا اس نے سگریٹ نوشی شروع کردی ہے- وہ مسکرایا اور مجھے بتایا کہ یہ کوئی عام سگریٹ نہیں ہے- تو میں نے اس سے پوچھا، کیا مطلب اسکا- اس نے سگریٹ کا لمبا کش لگایا اور میرے ہاتھ میں یہ کہ کر تھما دی کہ’ٹرائی کرو‘- جلد ہی مجھے پتا چل گیا کہ وہ حشیش تھی-


عمران دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ

خان نے ایک بار پھر ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا یہ کہتے ہوے کہ یونس صرف اس لئے ناراض ہیں کیوں کہ عمران نے انہیں انگلینڈ دورے کے لئے منتخب نہیں کیا-
(* 1993 میں وسیم اکرم کی قیادت میں، ویسٹ انڈیز کے دورے پر گریناڈا بیچ سے چھ کھلاڑیوں کو گانجے کا نشہ کرتے ہوے گرفتار کیا گیا تھا )


دورہ انگلینڈ میں وسیم اکرم کو مشورہ دیتے ہوئے

گو کہ عمران خان کے منشیات اور جنسی آوارگی کے قصے وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے لیکن انہوں نے 1992 میں آسٹریلیا میں جیتے جانے والے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کی-انہیں آج بھی ملک کے اعلیٰ ترین کرکٹر اور بہترین کپتان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے-انہوں نے نا صرف ٹیم میں اتحاد اور نئی روح پھونکی جو مشتاق محمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے ٹیم میں ختم ہو گئی تھی بلکہ تیز بولروں ( وقار، وسیم، عاقب) اور جوان بیٹس مین ( انضمام، رمیز، سلیم ملک، اعجاز احمد) اور چالاک اسپنر (عبدل قادر، مشتاق احمد) کی تربیت کی اور انہیں میچ فاتحین میں تبدیل کر دیا-ایک کامیاب ٹیم بنانے اور اس کو چلانے میں ان کے نائب جاوید میانداد کا بڑا ہاتھ ہے-پاکستانی ٹیم کے لئے یہ دونوں سب سے اھم کھلاڑی بن گئے-


ورلڈ کپ بانوے کے دوران میانداد کے ساتھ

مشہور پاکستانی کمنٹیٹر، چشتی مجاہد نے ایک بار کہا تھا کہ یہ دونوں (میانداد اور عمران خان) مل کر کرکٹنگ حکمت عملی اور صلاحیتوں کا سر چشمہ ہیں-حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں رمیز راجہ اور وسیم اکرم نے اپنے کھیل کے دنوں پر بات کرتے ہوے کہا کہ عمران ایک سخت کپتان تھے لیکن بہت خیال رکھنے والے-
انہوں نے کہا کہ عمران خان اور میانداد نے انتہائی مشکل معیار وضح کر رکھے تھے- وہ کھیل کے ساتھ مکمل وابستگی سے کم پر، کسی طور نہیں مانتے تھے- لیکن انہوں نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ کرکٹ کھیلنا اور دوروں پر جانا لڑکوں کے لئے تفریح کا باعث ہو-
 
پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار۔7

جاوید کو جانا ہی پڑے گا :

miandad-441x300.jpg


اپنی شناخت، غیر معمولی بیٹنگ سے کروا کر، میانداد نے اپنا پہلا ٹیسٹ 19 سال کی عمر میں 1976 میں کھیلا- 23 سال کی عمر میں انہیں ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا- میانداد ٹیم کے مستقل ممبر کی حیثیت سے ابھرے- ان کی تربیت میں کپتان مشتاق محمد کا بڑا ہاتھ تھا، جنہوں نے اس غیر معمولی، شرارتی اور گستاخ کھلاڑی میں ایک ایسا دماغ پایا جو کھیل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا-

zahir-abbas-192x256.jpg

ظہیر عبّاس

1979 میں پاکستان کی انڈیا سے 2-0 سے شکست کے بعد جب آصف اقبال ریٹائر ہوے تو دو سینئر کھلاڑیوں کے کپتان بنائے جانے کے امکانات تھے- ظہیر عبّاس اور ماجد خان-لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے مشتاق محمد (جن کا یہ دعویٰ تھا کہ آصف اقبال نے ان سے کپتانی چھینی ہے) کو آسٹریلیا کے مہمان دورے پر کھیلی جانے والی 1980 کی سیریز کی کپتانی سنبھالنے کو کہا-بورڈ کے ساتھ کپتانی کے معاملے پر صلاح مشورے کے دوران مشتاق نے نوجوان میانداد کا نام تجویز کیا-
بورڈ کے نئے چیف، نور خان جو کہ خود بھی میانداد کی قائدانہ صلاحیتوں پر یقین رکھتے تھے، ان سے متفق ہوے اور 23 سالہ میانداد پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے کپتان بن گئے-


ایئر مارشل نور خان

سینئر کھلاڑیوں کی طرف سے اس فیصلے پر تھوڑی بہت چڑچراہٹ ہوئی، لیکن ظہیر عبّاس اور ماجد خان جو کہ انڈیا کے دورے کے دوران بلکل فٹ نہیں تھے، ٹیم میں اپنی جگہ قائم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے-میانداد نے کپتان کی حیثیت سے اپنی پہلی سیریز آسٹریلیا کے خلاف 1-0 سے جیت لی- لیکن مہمان ویسٹ انڈیز کے خلاف 1-0 سے ہار گئے- بہرحال میانداد، آسٹریلیا کے جوابی دورے کے لئے بھی ٹیم کے کپتان بنے رہے جہاں وہ سیریز 2-1 سے ہار گئے-


محسن خان

اور جب تک 1982 کے آغاز میں سری لنکا اپنا پہلا ٹیسٹ میچ، پاکستان کے خلاف کھیلنے آیا تب تک ماجد خان اور ظہیر عبّاس اپنی حیثیت مستحکم کر چکے تھے-چناچہ جب بورڈ نے اگلی سیریز کی کپتانی کے لئے میانداد کا نام لیا تو دونوں کھلاڑیوں نے ان کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کردیا-میانداد کو جھٹکا لگا- پہلے تو وہ سمجھے کہ صرف ظہیر اور ماجد ہی اس میں شامل ہیں لیکن نور خان نے بتایا کہ اس بغاوت میں دوسرے کھلاڑی بھی شامل ہیںاب میانداد کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ کراچی بمقابلہ لاہور کا جھگڑا ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے- میانداد کا تعلق کراچی سے تھا اور ان کا خیال تھا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی مسلہ کھڑا کر رہے ہیں- لیکن انہیں اس بات کے یقین تھا کہ لاہور کے عمران خان، سرفراز نواز اور وسیم راجہ اس بغاوت کی حمایت نہیں کریں گے- لیکن وہ غلطی پر تھے-ماجد اور ظہیر کو نا صرف لاہور کے کھلاڑیوں بشمول مدثر نذر کی حمایت حاصل تھی بلکہ کراچی کے کھلاڑی، اقبال قاسم، محسن خان، وسیم باری اور سکندر بخت بھی اس میں شامل تھے- میانداد کو ہٹا دیا گیا-ماجد اور ظہیر نے 8 کھلاڑیوں کے دستخط پر مبنی ایک احتجاجی خط بورڈ کے سامنے پیش کیا جس میں یہ کہا گیا کہ میانداد ناتجربہ کار ہیں اور سینئر کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں- کھلاڑی انکی قیادت میں نہیں کھیلنا چاہتے-


ایک میگزین کے کور پر چھپی میانداد کی ایک تصویر

جب میانداد نے ایک بلکل نئی ٹیم کے ساتھ سری لنکا کی پہلی ٹیسٹ سیریز کی قیادت کی تو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں موجود عوام نے باغیوں کے خلاف مظاہرہ کیا-باغیوں کے پوسٹر اور پتلے جلائے گئے، خصوصاً ماجد، ظہیر اور عمران کے-کراچی پریس نے اس تنازعہ کو ایک بار پھر لاہوری کھلاڑیوں کی کراچی کے میانداد سے نفرت سے تشبیہ دی حالانکہ ان میں سے چار دستخط کراچی کے قاسم، بخت، باری اور محسن کے تھے-دوسرے ٹیسٹ کے آغاز پر محسن خان اور وسیم راجہ نے باغی اسکواڈ سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور دوسرے ٹیسٹ میں شامل ہو گئے-اقبال قاسم نے بھی تیسرے ٹیسٹ کے لئے اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا لیکن اس وقت تک میانداد فیصلہ کر چکے تھے اور انہوں نے بورڈ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا-نور خان نے اصرار کیا کہ بورڈ میانداد کے ساتھ ہے لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ کر لیا تھا لیکن ایک شرط پر کہ ظہیر اور ماجد خان دونوں میں سے کسی کو بھی کپتان نہ بنایا جائے-بورڈ متفق ہو گیا اور بغاوت ختم ہو گئی- ماجد اور ظہیر دونوں کو ہٹا کر عمران خان کو نیا کپتان بنا دیا گیا-
20 سال کے بعد میانداد نے یہ کہا کہ بہت سے کھلاڑی ان کی کپتانی کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ ماجد اور ظہیر کے ساتھ اس لئے مل گئے کیوں کہ انکا خیال تھا کہ بورڈ ان دونوں میں سے کسی ایک کو کپتان بنا دیگا-اس کے باوجود بعد میں میانداد نے 34 ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کی- (عمران خان کی طرح)


مشہور زمانہ ٹو ڈبلیوز

لیکن 1993 میں ان کا سامنا ایک اور بغاوت سے ہوا جواس بار وسیم اکرم اور وقار یونس نے کی-انہوں نے ایک بار پھر استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ وسیم اکرم کو کپتان اور وقار یونس کو نائب کپتان بنا دیا گیا-بہرحال 1994 میں وقار نے وسیم اکرم کے خلاف بغاوت کردی، وسیم نے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ سلیم ملک کو سمجھوتہ کپتان بنا دیا گیا-
 
پاکستان کرکٹ کے شاہکار –8


فائل فوٹو –.

ایمان کی جنگ :
1990 کی دہائی کے آخر تک، پاکستانی کرکٹ ٹیم غیر متوقع اور دلچسپ نتائج مہیا کرنے کے لئے مشہور ہو گئی تھی- چاہے وہ کھیل کا میدان ہو یا کلبنگ اور شراب و شباب جیسی سرگرمیاں-
2001 سے ٹیم نے اپنی شکل و شباہت تبدیل کرنی شروع کردی، جس کے دوران ایک وقت آیا کہ (2004 سے 2007 کے درمیان) آدھی سے زیادہ ٹیم تبلیغی جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئی-اس کا آغاز 1999 میں شارجہ سے ہوا جہاں پاکستانی اسکواڈ، سعید انور کی قیادت میں او ڈی آئ ٹورنامنٹ میں حصّہ لے رہا تھا-

saeed-praying-370x2501.jpg

سعید انور ٹیم کو دعا کراتے ہوئے

سابقہ کرکٹ کھلاڑی اور عیش پسند سعید احمد، جنہوں نے 1980 میں تبلیغی جماعت جوائن کر لی تھی، نے کسی طرح پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ڈریسنگ روم تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ لیا-انہیں ٹیم کے لئے ایک مذہبی تقریر کرنے کی اجازت دی گئی جس میں انہوں نے نہایت نرمی سے کھیل کے میدان سے باہر کی سرگرمیوں پر کھلاڑیوں کو ملامت کی- باہر جاتے ہوئے وہ جماعت کے کچھ معروف تبلیغیوں کی تقریر والی کیسیٹ چھوڑ کر گئے-

mushtaq-264x191.jpg

مشتاق احمد سنہ 1999 میں

مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور سعید انور یہ ریکارڈنگ پاکستان کے وسیم اکرم کی کپتانی میں آسٹریلیا کے 1999-2000 کے دورے پر ساتھ لے گئے- 2001 تک یہ تینوں کھلاڑی جماعت میں شامل ہو گئے اور اپنا رہن سہن اور وضح قطع تبدیل کر لی-جب پاکستان، ساؤتھ افریقہ میں ہونے والے 2003 کے ورلڈ کپ سے باہر ہو گیا تو ان تینوں کو اپنا کیریئر ختم ہوتا نظر آیا- لیکن ساتھ ہی وسیم اکرم اور وقار یونس کا کیریئر بھی ختم ہو گیا-جب وکٹ کیپر راشد لطیف کو 3 ٹیسٹ میچوں کے بعد ہی کپتانی سے ہٹا دیا گیا تو انضمام کو یہ کام سونپا گیا-

mushtaq-450x300.jpg

مشتاق احمد سنہ 2009 میں

اب ایک ایسی ٹیم کی قیادت جس کے بہترین کھلاڑی جا چکے تھے اور مخالف کیمپوں وار سازشوں سے پریشان انضمام نے اپنے اچھے دوست مشتاق احمد سے معاملات پر بات کی-مشتاق نے ان کو کہا کہ خدا سے دلجوئی مانگو اور انھیں رائیونڈ میں جماعت کے سالانہ اجلاس میں لے گئے-
2004 تک انضمام، جماعت کے قبضے میں پوری طرح آ چکے تھے جو 1990 کی دہائی کے وسط سے پاکستان کی کھیل اور شوبز کی دنیا سے، آدمیوں کو بھرتی کرنے کے لئے کام کر رہے تھے-انضمام نے ٹیم کو دوبارہ زندگی دینے کے لئے مذہب کو (یا کم ز کم جماعت کے نظریے کو) آلہ بنایا-انہوں نے جماعت کے مختلف تبلیغیوں کو ڈریسنگ روم میں مدعو کرنا شروع کر دیا اور جلد ہی کئی کھلاڑی اس میں شامل ہو گئے- جماعت کے مخصوص ارکان، ٹیم کے ساتھ رہنے اور سفر کرنے لگے، دوروں پر بھی- کھلاڑیوں کو داڑھی رکھنے اور نماز پڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کی جاتی-کچھ مشاہدین کا یہ خیال تھا کے انضمام کی یہ حکمت عملی کام کر گئی اور ٹیم میں نظم و ضبط اور اتحاد پیدا ہونے لگا ہے-لیکن جب تمام کرکٹ مداح، متجسس تھے اور ستائشی نظروں سے پاکستان کرکٹ میں ایک نئی تہذیب کا جنم ہوتے دیکھ رہی تھے، پاکستان کے ممتاز اردو اخبار جنگ نے، جنوری 2005 میں ایک کہانی شائع کی، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹیم میں جیسا نظر آرہا ہے، سب کچھ ٹھیک نہیں ہے-اس خبر کے مطابق، جماعت انضمام پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ ٹیم کو مزید اسلامائز کرے- چناچہ، انضمام نے ٹیم کے ایسے ارکان کو بھرتی کرنا شروع کر دیا جو ابھی تک جماعت کا حصّہ نہیں تھے-

afridi-438x3001.jpg

آفریدی پرانے انداز میں

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ جماعت، خاص طور سے آتش مزاج شاہد آفریدی کو اپنے ساتھ ملانے میں دلچسپی رکھتی تھی، اور کافی محنت اور مشقت کے بعد آخر کار آفریدی کو تبلیغی گروہ میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئی-آفریدی کا رہن سہن، اس کی بیٹنگ کی طرح سر کش تھا- لیکن جنگ سے بات کرتے ہوے انہوں نے کہا “اب یہ ٹیم بلکل مختلف ہے، ماضی میں ہم کھیل کے بعد کلب کرتے تھے، اب ہم باہر جاتے ہیں اور مل کر عبادت کرتے ہیں- مجھے خوشی ہے کے میں نے (جماعت میں شامل) ہونے کا فیصلہ کیا، اس نے ٹیم کو متحد کردیا ہے-”

afridi-praying-300x3001.jpg

آفریدی کا نیا انداز

لیکن اس رپورٹ نے، لگتا تھا پراسرار طریقے سے پینڈورا باکس کھول دیا- وہ جو دیکھنے میں لگتا تھا کہ ٹیم کو متحد کرنے کے لئے ایمان کا استعمال، ایک بہترین اور قابل تحسین حکمت عملی تھا، رفتہ رفتہ تنازعہ کی شکل اختیار کرنے لگا-جلد ہی یہ خبریں آنے لگیں کہ کم از کم تین کھلاڑی ‘انضمام کی رائیونڈ نظام حکومت‘ سے خوش نہیں تھے-ان میں سے دو کھلاڑی، عبدلرزاق اور یونس خان تھے- حالانکہ یونس خود بھی کافی مذہبی انسان تھے (جو میچ کے دوران بھی روزہ رکھتے تھے)، لیکن وہ اس بات سے خوش نہیں تھے کہ ٹیم کو اپنی نئی نویلی مذہبیت کی اس طرح نمائش کرنی چاہیے-پاکستان کے انگریزی روزنامہ “دی نیوز” کو 2009 میں جب وہ کپتان بنے تو انٹرویو دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ “اس (مذہب کی نمائش) سے یہ ہوا ہے کہ اس سے بہت سے کھلاڑی اپنے آپ میں مگن رہنے لگے ہیں، انہوں نے سوشلایز ہونا اور باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے- انہوں نے دوسری ٹیموں تک سے ملنا چھوڑ دیا ہے-”

shoaib-akhtar-370x300.jpg

شعیب اختر لندن کے ایک کلب میں

لیکن انضمام کے رائیونڈ طرز حکومت کی سب سے نمایاں تنقید فاسٹ بولر شعیب اختر نے کی-پارہ صفت، سرفراز نواز کی طرح سرکش، اختر بار بار انضمام کی حکمت عملی پر سوال اٹھاتے-انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا، “مجھے زیادہ تر جو کرنے کو کہا جاتا میں اس کا الٹ ہی کرتا-” انہوں نے لکھا کہ انضمام اور جماعت، کھلاڑیوں کے حلق میں مذہب ٹھونس رہے تھے-
2007 تک، شاید شعیب اختر ہی وہ واحد کھلاڑی بچے تھے جو پرانے، اوباش اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے غیر مذہبی کلچر کی عکاسی کر رہا تھا- حالانکہ محمد آصف بھی وہیں تھے جنہیں حشیش اور بیئر خاصی پسند تھی-جیسا کہ شعیب اختر قسط در قسط، غصّے کا اظہار کرتے رہے، جھگڑے کرتے رہے، ساتھ ہی منشیات اور شراب اور بے انتہا عورت بازی بھی چلتی رہی، لیکن ان سب کے بیچ انہوں نے ہمیشہ انضمام کا کم از کم ایک بیٹس مین کی حیثیت سے احترام ملحوظ رکھا-ویسے ٹیم میں شعیب ہی ایک واحد کھلاڑی تھے جس تک ٹیم کے ساتھ چپکے ہوے جماعتی ارکان نے پنہچنے کی کوشش نہیں کی-پاکستان کرکٹ صحافی، سمیح الدین نے یہ نوٹس کیا کہ ‘یا تو وہ (جماعت کے ارکان) شعیب کے قریب جانے سے ڈرتے تھے یا پھر انہوں نے اس کا کوئی علاج نا پا کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا-”
ٹیم میں جماعت کی مداخلت کا آھستہ آھستہ پکتا ہوا، لیکن خاموش تنازعہ، آخر کار اس وقت آتش فشاں کی طرح پھٹا جب پاکستان ویسٹ انڈیز میں کھیلے جانے والے 2007 کے ورلڈ کپ سے خارج ہو گیا-وہ آئر لینڈ کی نو آموز ٹیم سے بری طرح ہار گئے اور پھر کوچ باب وولمر اچانک پراسرار حالات میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے-شعیب اختر جو اس ٹیم کا حصّہ نہیں تھے، اس بات کا رونا رونے لگے کہ مذہب کی طرف حد سے زیادہ جھکاؤ کی وجہ سے بہت سے کھلاڑیوں کی توجہ کھیل سے ہٹ گئی ہے اور وہ پہلے کی طرح مقابلہ کرنے کی خواہش اور جوش کھو چکے ہیں-

inzamam.jpg

انضمام الحق

ٹیم کے میڈیا مینیجر، پرویز میر اور زیادہ تلخ تھے- ٹورنامنٹ کے بعد ایک پریس کانفرنس میں، انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ بہت سے ٹیم ارکان گراؤنڈ میں آنے کے بجائے، باہر جا کر ویسٹ انڈین شہریوں کو مسلمان کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے- “کیا انہیں اسی بات کا معاوضہ دیا جاتا ہے؟”انہوں نے پوچھا- اس نے یہ بھی کہا کہ وولمر نے انھیں یہ بتایا تھا کہ وہ کھلاڑیوں کے ساتھ بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب نہیں دے پاتے کیوں کہ وہ یا تو عبادت کے لئے اٹھ جاتے ہیں یا فری تبلیغ کرنے نکل جاتے ہیں-اس ناکامی کے بعد، پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کو تاکید کی کہ مذہب کو نجی معاملہ رکھیں اور میچ کے دوران مذہبیت کی نمائش پر پابندی لگا دی-انضمام ریٹائر ہو گئے لیکن جب 3 کھلاڑیوں کو سپاٹ فکسنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو، سرفراز نواز نے یہ کہا کہ “پچھلے کئی سالوں سے کرکٹ ٹیم اور انتظامیہ، اخلاقی ریا کاری کا نمونہ بنی رہی ہے-”

misbah-247x2111.jpg

موجودہ کپتان مصباح الحق

حالات کچھ بہتر ہوئے جب 2011 میں مصباح الحق کپتان بنے-ایک خاموش، پر سکون اور بے انتہا ذاتی شخص اور ٹیم میں مذہبی معاملہ بھی بلکل اسی طرح، خاموش، پر سکون اور (مکمل طور پر نہ سہی) لیکن ذاتی معاملہ بن گیا-
 

x boy

محفلین
رات کو کلب دن کو میچ ہونے سے اچھا ہے کہ ٹیم رات کو تہجد پڑھے،
کلب والے اکثر اضافی خرچ کی بدولت میچ فکسنگ بھی کرجاتے ہیں۔
میچ فکسنگ انگلینڈ کی ہی شاہکار ہے جس طرح کرکٹ ،
ہمیشہ گندے کام ویسٹ سے ہی امپورٹ ہوتے ہیں اچھے کام نہیں
گندے کام جیسے پلے بوائے بننا، فیشن، فلمی میڈیا وغیرہ وغیرہ
جبکہ اچھے کام الیکٹرونکس تیار کرنا، گاڑیاں بنانا، جدید شمشی توانائی کا حصول وغیرہ وغیرہ
 

ابوشامل

محفلین
بھائی ندیم ”ایف“ پراچہ، کم از کم کرکٹ کو تو اپنی ان گندوں سے پاک رکھو :) یہ بندہ یہاں بھی اپنے تمام پسندیدہ موضوعات گھسیڑ لایا جیسا کہ مذہب اور اس سے وابستہ افراد کو رگیدنا ۔

خیر، یہ کیونکہ ندیم ”ایف“ پراچہ نے ”ڈان“ پر لکھا ہے اس لیے اس کی اہمیت ہے، ہم ڈھائی پونے تین سالوں سے ایسی تحاریر ”کرک نامہ“ پر جمع کر رہے ہیں، اور صد فی صد تعصبات سے پاک بھی، وہاں بھی نظر دوڑائیے :)
 

arifkarim

معطل
یعنی ایک تبلیغی مذہبی جماعت نے پوری پاکستانی ٹیم جو کہ 1990 کی دہائی میں اپنے عروج پر تھی، تباہ کر کے رکھ دی! لعنت ہو ان دو ٹکے کی مذہبی جماعتوں اور انکے مولویوں پر! کوئی ایک چیز تو چھوڑ دیتے! مغربی کھیل جیسے کرکٹ میں جہاں پاکستان کا نام تھا اسکو بھی اپنا جیسا اسلامی کرکے اسکا بیڑا غرق کر دیا ان داڑھی والوں نے!
 
یعنی ایک تبلیغی مذہبی جماعت نے پوری پاکستانی ٹیم جو کہ 1990 کی دہائی میں اپنے عروج پر تھی، تباہ کر کے رکھ دی! لعنت ہو ان دو ٹکے کی مذہبی جماعتوں اور انکے مولویوں پر! کوئی ایک چیز تو چھوڑ دیتے! مغربی کھیل جیسے کرکٹ میں جہاں پاکستان کا نام تھا اسکو بھی اپنا جیسا اسلامی کرکے اسکا بیڑا غرق کر دیا ان داڑھی والوں نے!
سنّت رسول کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذرا زبان کو قابو میں رکھیں
 

عمر سیف

محفلین
سید شہزاد ناصر سر بہت معلوماتی شراکت ۔۔
پاکستان کرکٹ ٹیم پہ اتار چڑھاؤ اپنے زمانوں میں آتے رہے ہیں۔
اس میں شک تو نہیں رہا کہ ہمارے کھلاڑی شراب اور میچ فکسنگ جیسے فعل میں ملوث رہے ہیں۔
جہاں کچھ سٹے باز کھیلے وہاں کچھ اچھے کھلاڑیوں نے بھی پاکستان کی نمائندگی کی ۔۔
 

arifkarim

معطل
سنّت رسول کے بارے میں بات کرتے ہوئے ذرا زبان کو قابو میں رکھیں
پاکستانی ٹیم کی 90 کی دہائی میں کارکردگی کا موازنہ سنہ 2000 کے بعد سے کر کے دیکھیں۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ سیاست میں تو مذہب کا استعمال یہاں ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ بس کھیل ہی وہ جگہ رہ گئی تھی جہاں کافی حد تک اس مُلا کی پہنچ نہیں تھی۔ اسکو بھی انہوں نے بالآخر اپنے جیسا نالائق بنا دیا۔ یوسف یوحنا جو ایک لمبا عرصہ تک عیسائی پاکستانی کی حیثیت سے کرکٹ کھیلتا رہا اسی تبلیغی جماعت کے زیر اثر آکر مسلمان ہو گیا۔ اور یوں باقی ماندہ پاکستانی اقلیتوں کو ایک سبق مل گیا کہ یہ ٹیم پاکستانیوں کی نہیں صرف پاکستانی تبلیغی جماعت والوں کی ہے!
 

شمشاد

لائبریرین
مذہب کی جگہ سیاست کہیں۔
یوسف کی کارکردگی پہلے بھی اچھی تھی، مسلمان ہونے کے بعد اور بھی اچھی ہو گئی۔ اس میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہے۔
سیاست کا کہیں۔

اگر آج کا میچ فیصل آباد ولفز کا میچ دیکھیں۔ اس کا کپتان بھی مصباح الحق ہی ہے۔ اس میں ایک ایسے کھلاڑی کو موقع دیا گیا ہے جس کی عمر ساڑھے 34 سال ہے اور اس نے اپنی زندگی میں صرف ایک ٹی20 کھیلا تھا۔ آخری وقت میں کسی کو نکال کر اس کو شامل کر لیا گیا۔ اب اس میں مذہب کہاں سے شامل ہو گیا۔ سیاست کہیں تو ماننے والی بات بھی ہے۔
 
Top