پاکستان پھر نمبر ون

زیک

مسافر
آج فیسبک پر اردو میں کچھ تلاش کرنے لگا تو دنگ رہ گیا۔

جب آپ تلاش کے الفاظ لکھ رہے ہوتے ہیں تو فیسبک ایپ سرچ آٹو کمپلیٹ کے ذریعہ آپ کو مقبول تلاش کے الفاظ دکھاتی ہے۔

یہ الفاظ ایک اردو دان کے لئے چلو بھر پانی میں مر جانے کا مقام ہیں۔
 

فلسفی

محفلین
یہ الفاظ ایک اردو دان کے لئے چلو بھر پانی میں مر جانے کا مقام ہیں۔
محترم اس میں اردو دان کا کیا قصور ہے؟ گوگل میں بسا اوقات انگریزی زبان میں انتہائی عجیب و غریب فقرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس معاشرتی برائی کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں وہ تو نتیجہ ہے ان محرکات کا جن کو بحیثیت قوم ہم لوگوں نے کبھی سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کچھ باتیں تو ایسی ہیں جن پر گفتگو کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔

میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ جس تیزی سے اخلاقی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہم بچپن میں اپنے محلے میں کھیلا کرتے تھے۔ اور پورے محلے کے دروازے چوپٹ سب کے لیے کھلے ہوتے تھے۔ میں لاہور شہر کے گنجان آباد علاقے، اسلام پورہ کی بات کر رہا ہوں۔ گھروں میں مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہوتی تھی جن کی عزت اور وقار سب کے لیے ایک سا تھا۔ کسی سے اگر کبھی کوئی غلط حرکت سرزد ہوتی تھی تو مجموعی طور پر لوگ، علاقے والے اس کا تقریبا بائیکاٹ کردیتے تھے۔ مطلب برائی کو برائی سمجھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ لیکن اس میں فقط زبان یا فرد کا قصور نہیں۔ بلکہ بحیثیت قوم ہم سب مجموعی طور پر اس کے مجرم ہے۔

مثال کے طور پر ایک محرک یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نکاح کرنا مشکل ہو گیا ہے اور زنا کرنا اتنا ہی آسان۔ جسی کی وجہ سے بے شمار معاشرتی برائیوں نے جنم لیا ہے۔ میں ایک عرصے سے اس کوشش میں ہوں (انفرادی سطح پر) کے لوگوں میں یہ شعور بیدار کر سکوں کہ وہ حلال ذرائع کو استعمال کریں۔ کیونکہ انسان کی جسمانی، روحانی، نفسانی ضروریات ہوتی ہیں۔ اگر وہ حلال طریقے سے پوری نہ ہوں اور حرام کے ذرائع باآسانی موجود ہوں تو انسان کا اس غلط راہ پر چلنا فطری سا عمل ہے، الاماشاءللہ، جسے اللہ اپنے فضل سے محفوظ رکھے۔

ہر انسان کی ضرورت کی شدت اس کے حالات اور واقعات کے حساب سے مختلف ہوتی ہے۔ مثلا ایک بھوکے شخص کو لباس سے زیادہ روٹی کی فکر ہوتی ہے جبکہ ایسا شخص جس کا پیٹ بھرا ہوا ہے اس کے لیے شاید لباس کی اہمیت زیادہ ہو۔ کسی کی بھوک زیادہ ہوتی ہے، کسی کی کم۔ کوئی ایک روٹی پر راضی ہو جاتا ہے کسی کو ایک وقت میں تین چار روٹیاں چاہیے ہوتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک روٹی والے کو تین یا چار روٹیاں کھانے والا عجیب لگتا ہے جبکہ اس کی جسمانی ضرورت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ اسی طرح باقی ضروریات زندگی کا بھی یہی حال ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں برائی سے محفوظ رکھے اور ہمارے دل، دماغ اور عمل کو پاک اور صاف رکھ کر صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور حلال ذرائع کو ہمارے لیے آسان فرمائے اور ان سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

زیک

مسافر
محترم اس میں اردو دان کا کیا قصور ہے؟
فیسبک کے سرچ باکس میں یہ الفاظ لکھیں اور دیکھیں نتیجہ:

ماموں
چچا
لڑکا
لڑکی

یہ عام الفاظ ہیں اور ان کے ساتھ جو سرچ سجیشن آتی ہیں ان سے تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے سارا اردو دان طبقہ غلاظت میں لپٹا ہوا ہے
 

زیک

مسافر
میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ جس تیزی سے اخلاقی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
ممکن ہے کہ اس گراوٹ کا کچھ حصہ حال ہی میں ہوا ہو لیکن یہ ناسٹالجیا کا کمال ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی بہترین تھا۔ بچپن اور جوانی کا کچھ حصہ پاکستان میں گزرا اور استانیوں سے لے کر لڑکیوں تک سے سلوک اور ان کے متعلق بات چیت دیکھی۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اس وقت بھی انتہائی برا حال تھا
 

فرقان احمد

محفلین
فیسبک کے سرچ باکس میں یہ الفاظ لکھیں اور دیکھیں نتیجہ:

ماموں
چچا
لڑکا
لڑکی

یہ عام الفاظ ہیں اور ان کے ساتھ جو سرچ سجیشن آتی ہیں ان سے تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے سارا اردو دان طبقہ غلاظت میں لپٹا ہوا ہے
ہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ اردو میں بھی سرچ کا رواج واقعی میں پڑ گیا ہے اور اب اس پر مراسلات بھی دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ دراصل عام طور پر، گوگل سرچ انجن میں ہی کیوریز ڈالی جاتی ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گوگل اس بات کا بھی انتظام کرتا ہے کہ جو سجیشنز دی جائیں وہ معاشرتی اقدار کے منافی نہ ہوں اور اس کے لیے وہ خصوصی بندوبست کرتے ہیں۔ فیس بک پر تو لُٹ مچی ہوئی ہے اور ان کا سرچ انجن کئی لحاظ سے ناکارہ ہے۔ کئی مرتبہ فیس بک پر سرچ کرنے سے مطلوبہ نتائج نہیں ملتے ہیں اور فیس بک کی اکثر پوسٹس بھی گوگل سرچ انجن سے برآمد ہوتی ہیں۔ تاہم، آپ کی بات اس لحاظ سے درست ہے کہ فیس بک پر مواد شائع کرنے والے اکثر و بیشتر افراد محض لائکس سمیٹنے کے چکر میں ایسی واہیات ویڈیوز اور موادات اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں اور فیس بک کا سرچ انجن بھی بس آئینہ ہمار ےسامنے لا کر رکھ چھوڑتا ہے۔ بلاشبہ، معاشرتی برائیاں عام ہیں اور ہمیں اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔
 

فلسفی

محفلین
فیسبک کے سرچ باکس میں یہ الفاظ لکھیں اور دیکھیں نتیجہ:

ماموں
چچا
لڑکا
لڑکی

یہ عام الفاظ ہیں اور ان کے ساتھ جو سرچ سجیشن آتی ہیں ان سے تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے سارا اردو دان طبقہ غلاظت میں لپٹا ہوا ہے

ممکن ہے کہ اس گراوٹ کا کچھ حصہ حال ہی میں ہوا ہو لیکن یہ ناسٹالجیا کا کمال ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی بہترین تھا۔ بچپن اور جوانی کا کچھ حصہ پاکستان میں گزرا اور استانیوں سے لے کر لڑکیوں تک سے سلوک اور ان کے متعلق بات چیت دیکھی۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اس وقت بھی انتہائی برا حال تھا
محترم cause اور effect والی بات ہے۔ آپ جو نتائج بتا رہے ہیں وہ واقعی بھیانک ہیں۔ لیکن ان کے محرکات کو سمجھے بنا ہم درست تجزیہ نہیں کر سکتے۔ تفصیل ہھر صحیح مختصرا فرقان بھائی کی بات کو آگے بڑھاتا ہوں کہ فیس بک یا اور دوسری ویب سائٹس پر لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی شناخت چھپ جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔ یہی وہ احساس ہے جس سے پھر مزید برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے یہ احساس دیا تھا کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے تمہارا رب تمھیں دیکھتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل غالبا امریکہ کے کسی علاقے میں بجلی کی ترسیل کسی حادثے کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے موقوف ہوئی تھی۔ لوگوں کو جب پتہ چلا کہ کیمرے کی آنکھ انھیں نہیں دیکھ رہی تو دکانیں کیا گھر تک لوٹ لیے گئے (دروغ برگردن خبر)۔ تربیت سے آپ ایک جانور کو بھی مہذب بنا سکتے ہیں لیکن تب تک جب تک آپ اس کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ ورنہ پالتو بھوکا شیر اپنے مالک کو بھی کھا سکتا ہے۔ بس جانور کی جگہ آپ نفس کو رکھ لیجیے۔ اس کو سدھا کے رکھیں، اس کی جائز ضروریات کو حلال طریقے سے پورا کریں۔ اورذہن کو کسی تعمیری کام میں مصروف رکھیں تو یہ جانور قابو میں رہتا ہے ورنہ ۔۔۔ الامان الحفیظ
 
Top