کاشفی

محفلین
132563_story.jpg

ماخذ: آج نیوز
 

کاشفی

محفلین
’بجلی کے نرخوں میں فوری اضافہ کیا جا رہا ہے‘
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے پانی اور بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبے میں مالی بحران کو حل کرنے کے لیے جولائی میں بجلی کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
بی بی سی کو ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ فوری طور پر جولائی ہی میں صنعتی اور تجارتی صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جائے گا جبکہ گھریلو صارفین اور خاص طور پر وہ گھریلو صارفین جن کا بجلی کا استعمال زیادہ ہے، ان کے لیے نرخوں میں اضافہ دو تین ماہ میں کیا جائے گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ غریب صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا اور ان پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے گا۔
توانائی کے شعبے میں مالی بحران اور گردشی قرضے پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ بنیادی طور پر گردشی قرضے کا مسئلہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی یا رعائیتی قیمت کی وجہ سے پیدا ہوا۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں سبسڈی کی مد میں کچھ رقم رکھی ہے لیکن یہ اتنی نہیں جتنی گذشتہ حکومت نے رکھی تھی اور اب حکومت نے سبسڈی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر بجلی کے نرخوں میں فوری طور پر اضافہ کر لیا جائے تو گردشی قرضوں میں اضافے کو روکا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر نرخوں میں اضافے کو دو تین ماہ کے لیے موخر کر دیا گیا تو پھر گردشی قرضے میں 100، 150 ارب کا اضافہ ہو جائے گا۔
بجلی کے بحران کے حل کے لیے حکومتی حکمتِ علمی پر روشنی ڈالتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت کو بھی کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ انھوں نے بتایا کہ فی الوقت فی یونٹ بجلی کی پیداواری قیمت 14 روپے سے زیادہ ہے جسے کم کر کے 10 یا 11 روپے فی یونٹ پر لانا پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ موجود حکومت کا یہ ہدف ہے کہ اگلے تین سے چار سال میں اس قیمت کو کم کر کے 10 یا 11 روپے پر لایا جائے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت بجلی کی رسد کے ساتھ ساتھ طلب کو حقیقت پسندانہ بنانے کی کوشش کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ کسی ملک میں بھی دکانیں اور کاروباری مراکز رات گئے تک کھلے نہیں رہتے۔
وفاقی وزیر کا دعویٰ تھا کہ طلب کو ٹھیک کر کے 1200 سے 1300 میگاوٹ بجلی بچائی جا سکتی ہے۔
توانائی پالیسی میں دکانوں کے جلد بند کیے جانے کی تجویز کے شامل ہونے کے بارے میں ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ وہ اس کے حق میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انھیں وزیر اعظم کی تائید بھی حاصل ہے لیکن اس بارے میں چاروں صوبوں کو شامل کرنا لازمی ہو گا۔
کھاد پیدا کرنے والے کارخانوں کو دی جانے والی گیس اور امدادی قیمت کے بارے میں انھوں نے کہا کہ گیس کی فراہمی صرف ان یونٹس کو کی جائے گی جن کی مشینری میں گیس ضائع نہیں ہوتی۔
انھوں نے کہا کہ کھاد اور فرٹیلائزر فیکٹریوں کو جس قیمت پر گیس فراہم کی جا رہی ہے اس کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔
سی این جی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی اتنی گاڑیاں سی این جی پر نہیں چلائی جاتیں جتنی پاکستان میں چلتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ چند لاکھ افراد کی سہولت کے لیے کروڑوں پاکستانیوں کو بجلی سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں سیاسی بنیادوں پر سی این جی سٹیشن لگانے کی اجازت دی جاتی رہی اور اپنے من پسند لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتا رہا۔
 

arifkarim

معطل
واہ جی واہ! کیسی حکومت ہو رہی ہے۔ عوام کیلئے مزید مہنگائی اور اسکے ذریعے مسائل پر قابو پانے کے ناکام دعوے بھی ہو رہے ہیں۔
 
Top