تجمل حسین

محفلین
واہ، زبردست!
بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ ہمارے ملک میں بھی یہ سلسلہ اتنی بہت سی جگہوں پر آغاز ہو چکا ہے۔ کتنا اچھا ہو اگر ہر شہر ہر گاؤں میں ایسا ہو جائے۔
خیال اچھا ہے لیکن گاؤں وغیرہ میں زیادہ تر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں سے نشئی پارٹی ہی نہیں چھوڑتی۔ :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خیال اچھا ہے لیکن گاؤں وغیرہ میں زیادہ تر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں سے نشئی پارٹی ہی نہیں چھوڑتی۔ :)

تجمل بھائی، خدا رازق و پروردگار ہے، وہ بلا تخصیص گناہگار اور نیک سب کو دیتا ہے، سب کچھ دیتا ہے، پھر بھلا ہم کیوں محدود ہو کے سوچیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنے اور باقی سب کے لیے دعا کرنا چاہیے۔

کیا وہ ہمارے سیاستدانوں سے زیادہ خطرناک ہیں؟ :)
وہ بچارے تو زیادہ سے زیادہ چند استعمال شدہ اشیاء ہی لے پائیں گے بس۔
 

تجمل حسین

محفلین
تجمل بھائی، خدا رازق و پروردگار ہے، وہ بلا تخصیص گناہگار اور نیک سب کو دیتا ہے، سب کچھ دیتا ہے، پھر بھلا ہم کیوں محدود ہو کے سوچیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنے اور باقی سب کے لیے دعا کرنا چاہیے۔

کیا وہ ہمارے سیاستدانوں سے زیادہ خطرناک ہیں؟ :)
وہ بچارے تو زیادہ سے زیادہ چند استعمال شدہ اشیاء ہی لے پائیں گے بس۔

جی آپ کی بات بھی درست ہے۔ لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے جب وہ اشیاء اکٹھی کرکے بیچنے چل پڑتے ہیں۔ اگر صرف اپنے استعمال کے لیے لیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اسی مقصد کے لیے رکھی جائیں گی۔ :)
 

ساقی۔

محفلین
1103361745-1.jpg
دیوار مہربانی‘ میزبان فریج

وہ کون تھا‘ اس کا نام کیا تھا اور وہ کہاں کا رہنے والا تھا‘ دنیا نہیں جانتی لیکن اس کے ایک فیصلے نے کروڑوں لوگوں کی سوچ بدل دی اور سوچ بدلنے کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا‘ یہ دریا ابھی بہہ رہا ہے! اس اجنبی نے کیا کیا؟ اس نے شہر کی دیوار پر کھونٹیاں لگائیں‘ ان پر اپنے فالتو کپڑے لٹکائے‘ دیوار پر جلی حروف میں ”دیوار مہربانی“ لکھا‘ اس کے نیچے یہ دوفقرے لکھے اور غائب ہو گیا ”اگر آپ کو ضرورت نہیں تو آپ یہاں لٹکا جائیے اور اگر آپ کو ضرورت ہے تو آپ یہاں سے اتار لیجئے“ ان دو فقروں‘ ان آدھ درجن کھونٹیوں اور دیوار پر درج اس ”دیوار مہربانی“ نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا‘ یہ ”دیوار مہربانی“ اب وائرس کی طرح پوری دنیا میں پھیل رہی ہے‘ آپ کو آج صرف دو ماہ میں یہ ”دیوار مہربانی“ دنیا کے مختلف ملکوں میں نظر آ رہی ہے‘ ماہرین کا خیال ہے‘ یہ تصور ایک برس میں آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور یوں یہ دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی روایت بن جائے گا۔
یہ تصور ہے کیا اور یہ کیوں پھیلا‘ ہم اس طرف جانے سے پہلے ایک جغرافیائی حقیقت جانتے ہیں‘ بلوچستان کا ایک حصہ افغانستان اور دوسرا ایران سے جڑا ہوا ہے‘ یہ دو سرحدیں صرف زمینی سرحدیں نہیں ہیں‘ یہ موسمیاتی باﺅنڈریز بھی ہیں‘ یہاں سے سرد موسم شروع ہوتا ہے اور آپ جوں جوں بلوچستان سے دور ہوتے جاتے ہیں‘ سردی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ یہ سردی ایران اور افغانستان سے سنٹرل ایشیا میں داخل ہوتی ہے‘ یہ وہاں پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے‘ ایک لہر روس سے ہوتی ہوئی سائبیریا پہنچتی ہے‘ وہاں سے قطبین میں داخل ہوتی ہے اور آخر میں برفوں میں دفن ہو جاتی ہے‘ دوسری لہر ترکی سے ہوتی ہوئی یورپ میں داخل ہو جاتی ہے اور یہ 28 ملکوں سے ہوتی ہوئی سپین پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے‘ سپین سے گرمی شروع ہو جاتی ہے‘ یہ گرمی مراکش میں داخل ہوتی ہے اور پورے افریقہ کو دوزخ بناتی ہوئی عرب ملکوں تک پہنچتی ہے اور وہاں سے لاطینی امریکا کی طرف نکل جاتی ہے‘ گرمی اور سردی کی یہ لہریں سورج کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر دوڑتی بھاگتی رہتی ہیں‘ یہ کیسے اٹھتی ہیں‘ یہ کیسے سفر کرتی ہیں اور ان کا ہمارے شمسی نظام کے ساتھ کیا تعلق ہے‘ یہ ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع دیوار مہربانی ہے‘ ہم اس طرف آتے ہیں‘ یہ دیوار مہربانی ایران کے سرد علاقے میں پیدا ہوئی‘ ایران کے شمال مشرقی اور مغربی صوبے سردیوں میں شدید سرد ہو جاتے ہیں‘ مشہد اسی ”ٹھنڈی بیلٹ“ میں واقع ہے‘ 2015ءکے دسمبر میں مشہد کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے تھا‘ زندگی جمنا شروع ہو گئی‘ سردی کے اس شدید موسم میں کسی شخص نے غریبوں کو کپکپاتے دیکھا تو اس کے ذہن میں اچھوتا آئیڈیا آیا‘ وہ ایک رات پینٹ کا ڈبہ‘ برش‘ کھونٹیاں اور گھر بھر کے فالتو کپڑے لے کر شہر کی مرکزی شاہراہ ”سجاد بلیوارڈ“ چلا گیا‘ اس نے دیوار پینٹ کی‘ اس پر کھونٹیاں لگائیں‘ اپنے فالتو گرم کپڑے ان پر لٹکائے‘ دیوار پر ”دیوار مہربانی“ لکھا‘ اس کے نیچے دو فقرے لکھے اور پینٹ اور برش لے کر غائب ہو گیا‘ صبح جب شہر جاگا تو اس آئیڈیا نے تمام شہریوں کو حیران کر دیا‘ لوگ گھر گئے‘ اپنے فالتو کپڑے نکالے اور آ کر چپ چاپ کھونٹیوں پر لٹکا دیئے‘ ضرورت مند آئے‘ اپنے ماپ کے کپڑے اتارے‘ پہنے اور چلے گئے‘ یہ دیوار چند دنوں میں مخیر حضرات اور ضرورت مندوں کی عبادت گاہ بن گئی‘ مشہد کے لوگ دن میں کم از کم ایک بار اس دیوار پر ضرور آتے تھے‘ نوجوانوں نے دیوار کی تصویریں بنائیں اور سوشل میڈیا پر چڑھا دیں‘ یہ آئیڈیا سوشل میڈیا پر پاپولر ہو گیا‘ عوام نے شہر کی دوسری گلیوں اور سڑکوں پر بھی دیوار مہربانی بنا دیں‘ یہ دیوار ایک ہفتے میں مشہد سے نکلی اور پورے ایران میں پھیل گئی‘ دسمبر کے آخر میں تہران میں ”دیوار مہربانی“ بنی اور تہران کے لوگ بھی دیوار پر کپڑے‘ جیکٹیں‘ کمبل اور جوتے لٹکانے لگے اور تہران کے ضرورت مند بھی دیوار مہربانی کی مہربانی سے اپنی ضرورتیں پوری کرنے لگے‘ یہ آئیڈیا سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ تک پھیل گیا‘ مشرقی یورپ میں اس وقت شامی پناہ گزینوں کی یلغار جاری تھی‘ یورپ کے لوگوں کو بھی یہ آئیڈیا پسند آ گیا‘ انہوں نے بھی ان تمام سڑکوں پر دیوار مہربانی بنانا شروع کر دیں جہاں سے شامی مہاجرین کے قافلے گزرتے تھے‘ یورپی میڈیا نے ان دیواروں کی تصاویر نشر کرنا شروع کر دیں اور یوں یہ آئیڈیا گلوبل ہو گیا۔
پاکستان میں بڑی تعداد میں اہل تشیع رہتے ہیں‘ مشہد ان کی نظروں میں مقدس شہر ہے‘ دسمبر میں چند زائرین مشہد سے کراچی واپس آئے‘ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشہد میں دیوار مہربانی دیکھی تھی‘ یہ لوگ اس آئیڈیا سے متاثر تھے چنانچہ انہوں نے کراچی کی چند دیواروں پر دیوار مہربانی لکھا اور وہاں فالتو کپڑے لٹکا دیئے‘ کراچی شہر میں سردی نہیں پڑتی چنانچہ اس آئیڈیا کو یہاں زیادہ پذیرائی نہ ملی لیکن یہ آئیڈیا جب لاہور‘ سیالکوٹ‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ اور پشاور پہنچا‘ جب ان شہروں میں ”دیوار مہربانی“ بنیں اور جب لوگوں نے ان پر اپنے سویٹر‘ جیکٹیں‘ چادریں‘ کوٹ‘ جرابیں‘ لانگ شوز اور مفلر لٹکانا شروع کئے تو اس آئیڈیا کو پر لگ گئے‘ یہ آئیڈیا کتنا موثر ہے‘ آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجئے‘ پشاور میں جنوری میں پہلی بار دیوار مہربانی بنی‘ اس دیوار پر پہلے دو دن ہزار لوگوں نے گرم کپڑے لٹکائے اور اتنی ہی تعداد میں ضرور مندوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا‘ یہ آئیڈیا اب پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے‘ اخبارات میں روزانہ کسی نہ کسی دیوار مہربانی کی تصویر شائع ہوتی ہے اور عوام کھونٹیوں پر لٹکے لباس اور ان میں سے اپنے ماپ کے کپڑے تلاش کرتے ضرورت مندوں کی تصویریں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اس عظیم مشہدی انسان کےلئے دعا کرتے ہیں جس نے دنیا کو دیوار مہربانی کا آئیڈیا دیا‘ یہ ایران کا پہلا آئیڈیا نہیں جس نے تیزی سے دنیا کے دروازے پر دستک دی‘ اس سے قبل ایران سے فریج کا آئیڈیا بھی نکلا تھا‘ تہران کے کسی صاحب نے اپنی دکان کے سامنے ایک فریج رکھا اور اس فریج کے دروازے پر لکھ دیا ”آپ اگر بھوکے ہیں تو آپ اس فریج سے اپنی مرضی کی چیز نکال کر کھا لیں“ یہ آئیڈیا بھی کامیاب ہو گیا‘ لوگوں نے اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے فریج رکھنا شروع کر دیئے‘ لوگ زائد کھانا ان فریجوں میں رکھ جاتے تھے‘ ضرورت مند آتے تھے‘ فریج کھولتے تھے اور اپنی ضرورت کے مطابق کھانا لے لیتے تھے‘ تہران کے بعد یہ فریج ایران کے باقی شہروں میں بھی رکھے جانے لگے‘ یہ آئیڈیا بھی سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں پھیل گیا‘ آپ کو آج یہ فریج بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں نظر آتے ہیں‘ یہ دونوں آئیڈیاز شاندار ہیں۔
ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں‘ اس میں 85 کروڑ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں‘ یہ لوگ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں‘ دنیا میں سب سے زیادہ بھوکے ایشیا میں رہتے ہیں‘ ایک اندازے کے مطابق ایشیا کی ایک تہائی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے‘ آپ اگر صرف بچوں کے اعداد و شمار دیکھ لیں تو آپ پریشان ہو جائیں گے‘ دنیا میں ساڑھے چھ کروڑ بچے روزانہ بھوکے پیٹ سکول جاتے ہیں‘ ان میں سے دو کروڑ 30 لاکھ بچے افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ تصویر کی ایک سائیڈ ہے جبکہ دوسری طرف دنیا میں روزانہ ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے‘ یہ کل خوراک کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے‘ ہم اگر اس خوراک کو رقم میں تبدیل کریں تو ترقی یافتہ ممالک کے عوام سالانہ 680 ارب ڈالر اور ترقی پذیر ملکوں کے لوگ 310 ارب ڈالر کی خوراک ضائع کرتے ہیں‘ ضائع ہونے والی خوراک کا بڑا حصہ پھلوں‘ سبزیوں‘ گوشت‘ مچھلی‘ ڈیری مصنوعات اور اناج پر مشتمل ہوتا ہے‘ یہ ملک اگر اپنا فالتو کھانا کوڑے کے ڈھیروں پر پھینکنے کی بجائے یہ خوراک بھوک سے بلبلاتے اور مرتے لوگوں تک پہنچا دیں تو دنیا کی شکل بدل جائے گی‘ انسان‘ انسان کے قریب آ جائے گا مگر ہم لوگ اپنی فالتو خوراک ڈسٹ بینوں میں پھینک دیں گے‘ ہمارے فالتو کھانے سے ہمارے گٹر بند ہو جائیں گے لیکن ہمیں اپنے ہمسائے میں بھوک کا بھنگڑا دکھائی نہیں دے گا‘ آپ ذرا سوچئے‘ ہم اپنے گھر کے سامنے ایک پرانا فریج رکھ کر بھوک کے خلاف کتنا بڑا جہاد کر سکتے ہیں؟ کپڑوں کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے‘ ہماری وارڈروبز بھری رہتی ہیں‘ ہم سال بھر درجنوں سوٹس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے‘ ہمارے پاس ایسے درجنوں جوتے بھی ہوتے ہیں جنہیں سال میں ایک بار بھی ہمارے پاﺅں نصیب نہیں ہوتے لیکن ہم اس کے باوجود ان جوتوں اور ان کپڑوں کو اپنے آپ سے جدا نہیں کرتے‘ ہمارے کپڑے‘ ہمارے جوتے خواہ الماری میں سڑ جائیں لیکن ہم کسی کو دیں گے نہیں!ہمارے سٹوروں میں گرم چادریں‘ کمبل‘ گدے اور تکئے سڑتے رہ جائیں گے‘ ہم گھر سے نکلنے سے پہلے یہ سوچتے رہیں گے‘ہم آج کون سا سویٹر پہنیں لیکن ہمیں ہمسائے میں پڑے وہ لوگ نظر نہیں آئیں گے جو پوری رات کپکپا کر گزارتے ہیں‘ جن کے پاس سردیاں گزارنے کےلئے کوٹ ہوتے ہیں‘ جیکٹیں اور نہ ہی رضائیاں اور کمبل۔ ہم زیادہ نہیں کر سکتے‘ نہ کریں لیکن ہم اپنی گلی میں دیوار مہربانی تو بنا سکتے ہیں‘ ہم اپنے تمام فالتو کپڑے دھو کر اور استری کر کے اس دیوار مہربانی پر لٹکا تو سکتے ہیں‘ ہم اسی طرح اپنی گلی میں میزبان فریج بھی رکھ سکتے ہیں تا کہ ہماری گلی کے لوگ اپنی فالتو خوراک اس فریج میں رکھ دیں اور ضرورت مند گزرتے گزرتے یہ خوراک نکال کر کھا لیں‘ کیا یہ بھی ممکن نہیں‘ کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ ہم اسی طرح غریب بستیوں کے سکولوں اور ہسپتالوں میں بھی میزبان فریج اور دیوار مہربانی بنا سکتے ہیں تا کہ لوگ وہاں اپنی زائد ادویات بھی چھوڑ جائیں‘ خوراک بھی اور کپڑے بھی اور یہ تمام چیزیں بعد ازاں ضرورت مند مریضوں اور ان کے لواحقین کے کام آ جائیں‘کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے؟۔
میں نے ملک میں فلاح و بہبود کے درجنوں بڑے ادارے دیکھے ہیں‘ ان میں کراچی کا سیلانی ٹرسٹ ابتدائی نمبروں میں آتا ہے‘ مولانا بشیر قادری اس ٹرسٹ کے روح رواں ہیں‘ یہ ٹرسٹ ہر سال فلاح پر اربوں روپے خرچ کرتا ہے‘ میرا خیال ہے‘ اگر سیلانی ٹرسٹ دیوار مہربانی اور میزبان فریج کا یہ آئیڈیا گود لے لے تو یہ لوگ یہ کار خیر پورے ملک میں پھیلا سکتے ہیں‘ یہ شاندار آئیڈیا ہے اور یہ شاندار آئیڈیا اپنے جیسے شاندار لوگوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ایسے شاندار لوگوں کا انتظار جو ان شاندار آئیڈیاز کو ملک کے شاندار لوگوں تک پہنچا دیں اور سیلانی ٹرسٹ کے لوگ ایسے ہی شاندار لوگ ہیں۔

ماخذ
 
1103361745-1.jpg

دیوار مہربانی‘ میزبان فریج

وہ کون تھا‘ اس کا نام کیا تھا اور وہ کہاں کا رہنے والا تھا‘ دنیا نہیں جانتی لیکن اس کے ایک فیصلے نے کروڑوں لوگوں کی سوچ بدل دی اور سوچ بدلنے کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا‘ یہ دریا ابھی بہہ رہا ہے! اس اجنبی نے کیا کیا؟ اس نے شہر کی دیوار پر کھونٹیاں لگائیں‘ ان پر اپنے فالتو کپڑے لٹکائے‘ دیوار پر جلی حروف میں ”دیوار مہربانی“ لکھا‘ اس کے نیچے یہ دوفقرے لکھے اور غائب ہو گیا ”اگر آپ کو ضرورت نہیں تو آپ یہاں لٹکا جائیے اور اگر آپ کو ضرورت ہے تو آپ یہاں سے اتار لیجئے“ ان دو فقروں‘ ان آدھ درجن کھونٹیوں اور دیوار پر درج اس ”دیوار مہربانی“ نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا‘ یہ ”دیوار مہربانی“ اب وائرس کی طرح پوری دنیا میں پھیل رہی ہے‘ آپ کو آج صرف دو ماہ میں یہ ”دیوار مہربانی“ دنیا کے مختلف ملکوں میں نظر آ رہی ہے‘ ماہرین کا خیال ہے‘ یہ تصور ایک برس میں آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور یوں یہ دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی روایت بن جائے گا۔
یہ تصور ہے کیا اور یہ کیوں پھیلا‘ ہم اس طرف جانے سے پہلے ایک جغرافیائی حقیقت جانتے ہیں‘ بلوچستان کا ایک حصہ افغانستان اور دوسرا ایران سے جڑا ہوا ہے‘ یہ دو سرحدیں صرف زمینی سرحدیں نہیں ہیں‘ یہ موسمیاتی باﺅنڈریز بھی ہیں‘ یہاں سے سرد موسم شروع ہوتا ہے اور آپ جوں جوں بلوچستان سے دور ہوتے جاتے ہیں‘ سردی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ یہ سردی ایران اور افغانستان سے سنٹرل ایشیا میں داخل ہوتی ہے‘ یہ وہاں پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے‘ ایک لہر روس سے ہوتی ہوئی سائبیریا پہنچتی ہے‘ وہاں سے قطبین میں داخل ہوتی ہے اور آخر میں برفوں میں دفن ہو جاتی ہے‘ دوسری لہر ترکی سے ہوتی ہوئی یورپ میں داخل ہو جاتی ہے اور یہ 28 ملکوں سے ہوتی ہوئی سپین پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے‘ سپین سے گرمی شروع ہو جاتی ہے‘ یہ گرمی مراکش میں داخل ہوتی ہے اور پورے افریقہ کو دوزخ بناتی ہوئی عرب ملکوں تک پہنچتی ہے اور وہاں سے لاطینی امریکا کی طرف نکل جاتی ہے‘ گرمی اور سردی کی یہ لہریں سورج کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر دوڑتی بھاگتی رہتی ہیں‘ یہ کیسے اٹھتی ہیں‘ یہ کیسے سفر کرتی ہیں اور ان کا ہمارے شمسی نظام کے ساتھ کیا تعلق ہے‘ یہ ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع دیوار مہربانی ہے‘ ہم اس طرف آتے ہیں‘ یہ دیوار مہربانی ایران کے سرد علاقے میں پیدا ہوئی‘ ایران کے شمال مشرقی اور مغربی صوبے سردیوں میں شدید سرد ہو جاتے ہیں‘ مشہد اسی ”ٹھنڈی بیلٹ“ میں واقع ہے‘ 2015ءکے دسمبر میں مشہد کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے تھا‘ زندگی جمنا شروع ہو گئی‘ سردی کے اس شدید موسم میں کسی شخص نے غریبوں کو کپکپاتے دیکھا تو اس کے ذہن میں اچھوتا آئیڈیا آیا‘ وہ ایک رات پینٹ کا ڈبہ‘ برش‘ کھونٹیاں اور گھر بھر کے فالتو کپڑے لے کر شہر کی مرکزی شاہراہ ”سجاد بلیوارڈ“ چلا گیا‘ اس نے دیوار پینٹ کی‘ اس پر کھونٹیاں لگائیں‘ اپنے فالتو گرم کپڑے ان پر لٹکائے‘ دیوار پر ”دیوار مہربانی“ لکھا‘ اس کے نیچے دو فقرے لکھے اور پینٹ اور برش لے کر غائب ہو گیا‘ صبح جب شہر جاگا تو اس آئیڈیا نے تمام شہریوں کو حیران کر دیا‘ لوگ گھر گئے‘ اپنے فالتو کپڑے نکالے اور آ کر چپ چاپ کھونٹیوں پر لٹکا دیئے‘ ضرورت مند آئے‘ اپنے ماپ کے کپڑے اتارے‘ پہنے اور چلے گئے‘ یہ دیوار چند دنوں میں مخیر حضرات اور ضرورت مندوں کی عبادت گاہ بن گئی‘ مشہد کے لوگ دن میں کم از کم ایک بار اس دیوار پر ضرور آتے تھے‘ نوجوانوں نے دیوار کی تصویریں بنائیں اور سوشل میڈیا پر چڑھا دیں‘ یہ آئیڈیا سوشل میڈیا پر پاپولر ہو گیا‘ عوام نے شہر کی دوسری گلیوں اور سڑکوں پر بھی دیوار مہربانی بنا دیں‘ یہ دیوار ایک ہفتے میں مشہد سے نکلی اور پورے ایران میں پھیل گئی‘ دسمبر کے آخر میں تہران میں ”دیوار مہربانی“ بنی اور تہران کے لوگ بھی دیوار پر کپڑے‘ جیکٹیں‘ کمبل اور جوتے لٹکانے لگے اور تہران کے ضرورت مند بھی دیوار مہربانی کی مہربانی سے اپنی ضرورتیں پوری کرنے لگے‘ یہ آئیڈیا سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ تک پھیل گیا‘ مشرقی یورپ میں اس وقت شامی پناہ گزینوں کی یلغار جاری تھی‘ یورپ کے لوگوں کو بھی یہ آئیڈیا پسند آ گیا‘ انہوں نے بھی ان تمام سڑکوں پر دیوار مہربانی بنانا شروع کر دیں جہاں سے شامی مہاجرین کے قافلے گزرتے تھے‘ یورپی میڈیا نے ان دیواروں کی تصاویر نشر کرنا شروع کر دیں اور یوں یہ آئیڈیا گلوبل ہو گیا۔
پاکستان میں بڑی تعداد میں اہل تشیع رہتے ہیں‘ مشہد ان کی نظروں میں مقدس شہر ہے‘ دسمبر میں چند زائرین مشہد سے کراچی واپس آئے‘ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشہد میں دیوار مہربانی دیکھی تھی‘ یہ لوگ اس آئیڈیا سے متاثر تھے چنانچہ انہوں نے کراچی کی چند دیواروں پر دیوار مہربانی لکھا اور وہاں فالتو کپڑے لٹکا دیئے‘ کراچی شہر میں سردی نہیں پڑتی چنانچہ اس آئیڈیا کو یہاں زیادہ پذیرائی نہ ملی لیکن یہ آئیڈیا جب لاہور‘ سیالکوٹ‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ اور پشاور پہنچا‘ جب ان شہروں میں ”دیوار مہربانی“ بنیں اور جب لوگوں نے ان پر اپنے سویٹر‘ جیکٹیں‘ چادریں‘ کوٹ‘ جرابیں‘ لانگ شوز اور مفلر لٹکانا شروع کئے تو اس آئیڈیا کو پر لگ گئے‘ یہ آئیڈیا کتنا موثر ہے‘ آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجئے‘ پشاور میں جنوری میں پہلی بار دیوار مہربانی بنی‘ اس دیوار پر پہلے دو دن ہزار لوگوں نے گرم کپڑے لٹکائے اور اتنی ہی تعداد میں ضرور مندوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا‘ یہ آئیڈیا اب پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے‘ اخبارات میں روزانہ کسی نہ کسی دیوار مہربانی کی تصویر شائع ہوتی ہے اور عوام کھونٹیوں پر لٹکے لباس اور ان میں سے اپنے ماپ کے کپڑے تلاش کرتے ضرورت مندوں کی تصویریں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اس عظیم مشہدی انسان کےلئے دعا کرتے ہیں جس نے دنیا کو دیوار مہربانی کا آئیڈیا دیا‘ یہ ایران کا پہلا آئیڈیا نہیں جس نے تیزی سے دنیا کے دروازے پر دستک دی‘ اس سے قبل ایران سے فریج کا آئیڈیا بھی نکلا تھا‘ تہران کے کسی صاحب نے اپنی دکان کے سامنے ایک فریج رکھا اور اس فریج کے دروازے پر لکھ دیا ”آپ اگر بھوکے ہیں تو آپ اس فریج سے اپنی مرضی کی چیز نکال کر کھا لیں“ یہ آئیڈیا بھی کامیاب ہو گیا‘ لوگوں نے اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے فریج رکھنا شروع کر دیئے‘ لوگ زائد کھانا ان فریجوں میں رکھ جاتے تھے‘ ضرورت مند آتے تھے‘ فریج کھولتے تھے اور اپنی ضرورت کے مطابق کھانا لے لیتے تھے‘ تہران کے بعد یہ فریج ایران کے باقی شہروں میں بھی رکھے جانے لگے‘ یہ آئیڈیا بھی سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں پھیل گیا‘ آپ کو آج یہ فریج بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں نظر آتے ہیں‘ یہ دونوں آئیڈیاز شاندار ہیں۔
ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں‘ اس میں 85 کروڑ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں‘ یہ لوگ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں‘ دنیا میں سب سے زیادہ بھوکے ایشیا میں رہتے ہیں‘ ایک اندازے کے مطابق ایشیا کی ایک تہائی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے‘ آپ اگر صرف بچوں کے اعداد و شمار دیکھ لیں تو آپ پریشان ہو جائیں گے‘ دنیا میں ساڑھے چھ کروڑ بچے روزانہ بھوکے پیٹ سکول جاتے ہیں‘ ان میں سے دو کروڑ 30 لاکھ بچے افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ تصویر کی ایک سائیڈ ہے جبکہ دوسری طرف دنیا میں روزانہ ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے‘ یہ کل خوراک کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے‘ ہم اگر اس خوراک کو رقم میں تبدیل کریں تو ترقی یافتہ ممالک کے عوام سالانہ 680 ارب ڈالر اور ترقی پذیر ملکوں کے لوگ 310 ارب ڈالر کی خوراک ضائع کرتے ہیں‘ ضائع ہونے والی خوراک کا بڑا حصہ پھلوں‘ سبزیوں‘ گوشت‘ مچھلی‘ ڈیری مصنوعات اور اناج پر مشتمل ہوتا ہے‘ یہ ملک اگر اپنا فالتو کھانا کوڑے کے ڈھیروں پر پھینکنے کی بجائے یہ خوراک بھوک سے بلبلاتے اور مرتے لوگوں تک پہنچا دیں تو دنیا کی شکل بدل جائے گی‘ انسان‘ انسان کے قریب آ جائے گا مگر ہم لوگ اپنی فالتو خوراک ڈسٹ بینوں میں پھینک دیں گے‘ ہمارے فالتو کھانے سے ہمارے گٹر بند ہو جائیں گے لیکن ہمیں اپنے ہمسائے میں بھوک کا بھنگڑا دکھائی نہیں دے گا‘ آپ ذرا سوچئے‘ ہم اپنے گھر کے سامنے ایک پرانا فریج رکھ کر بھوک کے خلاف کتنا بڑا جہاد کر سکتے ہیں؟ کپڑوں کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے‘ ہماری وارڈروبز بھری رہتی ہیں‘ ہم سال بھر درجنوں سوٹس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے‘ ہمارے پاس ایسے درجنوں جوتے بھی ہوتے ہیں جنہیں سال میں ایک بار بھی ہمارے پاﺅں نصیب نہیں ہوتے لیکن ہم اس کے باوجود ان جوتوں اور ان کپڑوں کو اپنے آپ سے جدا نہیں کرتے‘ ہمارے کپڑے‘ ہمارے جوتے خواہ الماری میں سڑ جائیں لیکن ہم کسی کو دیں گے نہیں!ہمارے سٹوروں میں گرم چادریں‘ کمبل‘ گدے اور تکئے سڑتے رہ جائیں گے‘ ہم گھر سے نکلنے سے پہلے یہ سوچتے رہیں گے‘ہم آج کون سا سویٹر پہنیں لیکن ہمیں ہمسائے میں پڑے وہ لوگ نظر نہیں آئیں گے جو پوری رات کپکپا کر گزارتے ہیں‘ جن کے پاس سردیاں گزارنے کےلئے کوٹ ہوتے ہیں‘ جیکٹیں اور نہ ہی رضائیاں اور کمبل۔ ہم زیادہ نہیں کر سکتے‘ نہ کریں لیکن ہم اپنی گلی میں دیوار مہربانی تو بنا سکتے ہیں‘ ہم اپنے تمام فالتو کپڑے دھو کر اور استری کر کے اس دیوار مہربانی پر لٹکا تو سکتے ہیں‘ ہم اسی طرح اپنی گلی میں میزبان فریج بھی رکھ سکتے ہیں تا کہ ہماری گلی کے لوگ اپنی فالتو خوراک اس فریج میں رکھ دیں اور ضرورت مند گزرتے گزرتے یہ خوراک نکال کر کھا لیں‘ کیا یہ بھی ممکن نہیں‘ کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ ہم اسی طرح غریب بستیوں کے سکولوں اور ہسپتالوں میں بھی میزبان فریج اور دیوار مہربانی بنا سکتے ہیں تا کہ لوگ وہاں اپنی زائد ادویات بھی چھوڑ جائیں‘ خوراک بھی اور کپڑے بھی اور یہ تمام چیزیں بعد ازاں ضرورت مند مریضوں اور ان کے لواحقین کے کام آ جائیں‘کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے؟۔
میں نے ملک میں فلاح و بہبود کے درجنوں بڑے ادارے دیکھے ہیں‘ ان میں کراچی کا سیلانی ٹرسٹ ابتدائی نمبروں میں آتا ہے‘ مولانا بشیر قادری اس ٹرسٹ کے روح رواں ہیں‘ یہ ٹرسٹ ہر سال فلاح پر اربوں روپے خرچ کرتا ہے‘ میرا خیال ہے‘ اگر سیلانی ٹرسٹ دیوار مہربانی اور میزبان فریج کا یہ آئیڈیا گود لے لے تو یہ لوگ یہ کار خیر پورے ملک میں پھیلا سکتے ہیں‘ یہ شاندار آئیڈیا ہے اور یہ شاندار آئیڈیا اپنے جیسے شاندار لوگوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ایسے شاندار لوگوں کا انتظار جو ان شاندار آئیڈیاز کو ملک کے شاندار لوگوں تک پہنچا دیں اور سیلانی ٹرسٹ کے لوگ ایسے ہی شاندار لوگ ہیں۔

ماخذ
کل کو یہ ادمی اگوان کا پرچار کررہا تھا اج دیوارکی
کیا خبر یہ کل کو دیوار گریہ کے مرثیے لکھنے شروع کردے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جی آپ کی بات بھی درست ہے۔ لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے جب وہ اشیاء اکٹھی کرکے بیچنے چل پڑتے ہیں۔ اگر صرف اپنے استعمال کے لیے لیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اسی مقصد کے لیے رکھی جائیں گی۔ :)

کیسا مسئلہ تجمل بھائی، اشیاء بیچ کر اگر کوئی شخص اپنی کسی دوسری جائز ضرورت کو پورا کر سکے تو کیا اس میں کچھ قباحت ہو گی؟!

جہاں تک نشہ کرنے والوں کی بات ہے تو ایسے لوگوں کی رہنمائی اور مدد کی جائے کہ وہ اس سے نجات حاصل کر سکیں۔ یہ ریاست، معاشرہ اور بہت حد تک افراد کی ذمہ داری بھی ہے۔ اگر حکومتیں اور سیاستدان اپنے فرائض سے مخلص ہوں، دیانتدار ہوں اور عام افراد کو زندگی کی ضروریات اور حقوق میسر ہوں تو لوگ برائی کی راہ پر جائیں ہی کیوں!!
 
کیسا مسئلہ تجمل بھائی، اشیاء بیچ کر اگر کوئی شخص اپنی کسی دوسری جائز ضرورت کو پورا کر سکے تو کیا اس میں کچھ قباحت ہو گی؟!

جہاں تک نشہ کرنے والوں کی بات ہے تو ایسے لوگوں کی رہنمائی اور مدد کی جائے کہ وہ اس سے نجات حاصل کر سکیں۔ یہ ریاست، معاشرہ اور بہت حد تک افراد کی ذمہ داری بھی ہے۔ اگر حکومتیں اور سیاستدان اپنے فرائض سے مخلص ہوں، دیانتدار ہوں اور عام افراد کو زندگی کی ضروریات اور حقوق میسر ہوں تو لوگ برائی کی راہ پر جائیں ہی کیوں!!

یعنی بہرحال بات سیاست سےہی درست ہوگی
 

حسیب

محفلین
پہلے تویہ دیوار خود ایک قبضہ گیری ہے۔ کس کی دیوار پر دادا جی کی فاتحہ پڑھی جارہی ہے
پھر لاکھوں کی ابادی کے شہر میں دس بارہ کپڑے اس پر اتنا شو اف۔
یہ صرف سستی شہرت کی باتیں ہیں
خوش قسمتی سے پاکستان کے عوام کروڑوں روپے کی خیرات روز کرتے ہیں مگر کوئی شہرت گیری نہیں چاہتا
باقی جگہوں کا تو معلوم نہیں لیکن سیالکوٹ میں دو جگہ دیوار دیکھی ہے وہ حکومت کی جگہ ہے اور ڈی سی او سے اجازت بھی لی گئی تھی
ویسے آپ تو شاید پاکستان میں نہیں ہوتے تو آپ کو کس نے کہا کہ اس کی دیوار پہ قبضہ کرکے دیوار مہربانی بنا دی گئی ہے
 
باقی جگہوں کا تو معلوم نہیں لیکن سیالکوٹ میں دو جگہ دیوار دیکھی ہے وہ حکومت کی جگہ ہے اور ڈی سی او سے اجازت بھی لی گئی تھی
ویسے آپ تو شاید پاکستان میں نہیں ہوتے تو آپ کو کس نے کہا کہ اس کی دیوار پہ قبضہ کرکے دیوار مہربانی بنا دی گئی ہے
حکومت کی دیوار پر ہی چیرٹی پوتی
کس نے کیا میں پاکستان نہیں پوتا.
 
Top