میرا خیال ہے کہ دنیا میں سب سے اسلامی طرز کے لباس صرف سعودیہ میں ہی ہیں۔ اگر کہیں معاشرے کو دیکھ کر اسلام یاد اتا ہے تو وہ سعودی ہی ہے۔
ہمت بھیا پھر ایمو شنل ہو گئے۔ عالی جاہ ، آپ کس معاشرے کی بات کر رہے ہیں کہ جہاں "اجنبی" خادماؤں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کے اپنے ملک میں لاکھوں غریب افریقی آباد ہیں جو دو وقت کی روٹی کے لئیے صدقات پر منحصر ہیں لیکن یہ شیوخ ان کو کام پر رکھنے کی بجائے 16 ،17 سال کی خادمائیں انڈونیشیا اور فلپائن جیسے دور دراز ممالک سے لاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ بھی انتہائی گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے سعودی اخباروں میں خادماؤں کی خود کشی کے واقعات نہیں پڑھے؟کبھی گلی کی نکڑوں پر پائے جانے والے لاوارث نو زائیدہ نہیں دیکھے ؟ یہ سب کیا ہے؟ جائیے کسی قریبی ولادہ ہسپتال میں اور معلوم کیجئیے کہ یہ نو زائیدہ کون ہوتے ہیں اور خود کشی کرنے والی کیا واقعی خود کشی کرتی ہیں یا انہیں ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔
صرف لباس میں اسلام نہیں ہے۔ جو لباس بھی ستر شریعت کے تقاضوں کے مطابق چھپائے وہ پہنا جا سکتا ہے۔جو عبایا عرب عورتیں پہنتی ہیں وہ آگے سے اوپن ہوتا ہے اور عرب کی تند صحرائی ہوا میں خود ہوا ہو کر فساِد نظر کی دعوت دیتا ہے اور اس پہ مستزاد یہ کہ ان میں سے اکثر خواتین کا عبایا کے نیچےکا لباس برائے نام ہی ہوتا ہے۔
عبایا کی پابندی صرف پاکستانیوں پر لگائی گئی ۔ یہ درست کہ ہمارے کچھ لوگ عمرہ اور حج کو بھی پکنک سمجھ کر لباس کی شرعی حدود کا پاس نہیں کرتے لیکن انڈونیشیا ، ملائشیا کی مکمل اور ترکی کی اکثر خواتین پینٹس میں ملبوس ہی ایک چادر اوڑھ کر حرمین شریفین میں آتی ہیں اور ہماری کچھ پاکستانی بیبیاں کہنے کو تو کھلے شلوار قمیض میں ملبوس ہوتی ہیں لیکن باریک کپڑے کا استعمال اور دوپٹے سے بے نیازی کے علاوہ چھوٹی قمیض اور لمبے چاک ان کی ہئیت کذائی کو قومی شرمندگی کا سبب بنا دیتے ہیں۔ لہذا ہمیں خود ہی اس بات کا خیال کرنا چاہئیے کہ لباس ایسا پہنیں جو ستر چھپائے اور چادر کو سر اور سینے پر ہمہ وقت اوڑھنے کا کوئی ڈھنگ اختیار کریں۔ باوقار رہیں۔ اور انسانوںسے بھیک مانگنے جیسے قبیح فعل کی بجائے اس سے مانگیں جو سب کا داتا ہے اور جس نے انہیں اپنا مہمان بنایا ہے۔