پانی

اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے بنایا (القرآن)
پانی آسمان کی طرف اٹھے تو! بھاپ
آسمان سے سے نیچے آئے تو! بارش
جم کے گرے تو! اولے
گرکر جمے تو! برف
پھول کی پتی پر ہو تو! شبنم
پتی سے نکلے تو! عرق
جمع ہو جائے تو! جھیل
بہہ پڑے تو! ندی
آنکھوں سے نکلے تو! آنسو
جسم سے نکلے تو! پسینہ
حضرات اسماعیل علیہ السلام کے قدموں سے نکلے تو! آب زم زم
اور
میرے آقا صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگلیوں سے نکلے تو! آبِ کوثر
 

اکمل زیدی

محفلین
پانی متاعِ کیف ہے سرمایہءِ سبوُ
چہروں پہ ضو، رگوں میں تھرکتا ہوا لہو
پیرِ مغاں کی بزم میں فرمانِ ہا و ہو
کچے پھلوں میں شہد ہے پھولوں میں رنگ و بو


سینے میں روحِ سنبل و سوسن لیے ہوئے
چٹکی میں بادِ صبح کا دامن لیے ہوئے
۔۔

پانی کا لوچ، ابر کی رو، موتیوں کی آب
مٹیّ کی جان، گل کی مہک، بحر کا جواب
ساغر کی آگ، تیغ کا پانی، سمن کی داب
کڑکے تو موجِ صاعقہ، کھنچ جائے تو شراب


پُروا میں ابرِ تیرہ کے لکےّ بنُے ہوئے
لیلائے برشگال کی چندری چنے ہوئے


بھنوروں کی گونج، نہر کی سیاّل راگنی
پی ہو کی دھوم گونجتی سرشار دلکشی
شوئندگی و شوخی و شنگی و شاعری
رنگینی و روانی و رقص و رُبودگی


کویل کی کوک بوڑھ کی خوُ شبو لیے ہوے
مدرا، پیالا، زمزمہ، دارو لیے ہوے


ٹپ ٹپ، شرر شرار، تڑاتڑ ، چھنن چھنن
دھمال، دھوم، دھام، دمادم، دھنن دھنن
گم کاؤ ، رُوم جُھوم ، جھما جھم، جھنن جھنن
گھن گھن، گرج، گھماوٰ ، گھماگھم ، گھنن گھنن


ہول و ہراس و ہیبت و ہیجاں لیے ہوئے
بجلی کی تیغ نوح کا طوفاں لیے ہوئے


خستّ کرے تو قحط سے عالم ہو بیقرار
گرمِ سخا اگر ہو تو رزّاقِ روزگار
دوڑے تو سازِ نور ، جو بھاگے تو سوزِ نار
کڑکے تو برق ریز جوٹھٹھرے تو برق و بار


ٹپکائے بوندیاں تو چمن بولنے لگے
پتھراوٰ پر جو آئے تو رن بولنے لگے



روپوش ہو تو دھوپ جما دے زمین پر
بگڑے تو فرش گرم بچھا دے زمین پر
تیہا کرے تو آنچ بسا دے زمین پر
منھ پھیر لے تو بھوک اُگا دے زمین پر


خوش ہو تو سر کو قشقہ کلائی کو بانک دے
لعل و گہر زمین کی چولی میں ٹانک دے

۔۔۔

جھمکے فراز پر تو گھٹا جھومنے لگے
مچلے نشیب میں تو فضا جھومنے لگے
چہکے تو کجریوں کی صدا جھومنے لگے
ناچے تو روحِ ارض و سما جھومنے لگے


کروٹ صبا میں لے تو چمیلی مہک اٹھے
پس جائے تو بتوں کی ہتھیلی مہک اٹھے

مثلِ بخار اُڑے تو گھٹائیں ہو نغمہ گر
خم سے اُبل پڑے تو بہک جائیں بام و در
اُمنڈے تو رنگ و رقص ہوں گنگا کے گھاٹ پر
چھلکے جو گاگروں سے تو گھٹائیں ہو تر بتر


نہلائے الھڑوں کو تو پنڈے بِکس پڑیں
ٹپکے جو گیسوٗں سے تو موتی برس پڑیں


بادل کی چادروں میں جو اُلجھے تو کتھئی
کرنوں کی زد پہ آ کے جو چمکے تو چمپئی
موجوں کی مدّ و جزر سے اُبھرے تو سردئی
لکوّ ں کی ظلمتوں میں جو ڈوبے تو اگرئی


گرجےجوابر میں توفلک چہچہااُٹھے
انگڑائی لے تو سر پہ دھنک جگمگا اُٹھے


برسے جو ٹوٹ کر تو جہاں ناچنے لگے
عشرت سرائے بادا کشاں ناچنے لگے
قلقل کی رو میں بانگِ اذاں ناچنے لگے
شمعوں کی لو، اگر کا دھواں ناچنے لگے


بوچھار میں جو بندِ قبا کھولنے لگے
مکھڑوں پے رنگِ ماہ وشاں بولنے لگے

۔۔۔


صد حیف کربلا میں وہی آبِ خوش گوار
جس پر حیاتِ نوعِ بشر کا ہے اِنحصار
جس کے بغیر آتشِ سوزاں ہے روزگار
بجتا ہے جس کے ساز پہ انفاس کا ستار


جس کا عَلَم ہے بارگہِ مشرقین پر
اہلِ جفا نے بند کیا تھا حسین

اِس حادثے پہ آج بھی گریاں ہیں بحروبر
اللہ یہ تلاطمِ پرُ ہولِ جوئے شر
یہ کفر الحفیظ یہ عدوان الحذر
پانی سی چیز بند ہو وہ بھی حسین پر


مولا کسی پہ کوئی نہ ایسی جفا کرے
کافر پہ بھی نہ بند ہو پانی خدا کرے
 
Top