پانچ سو عیسائی راہبوں کا قبول اسلام : ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے کالم سے اقتباس

سید ذیشان

محفلین
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
اگر یہ واقعی میں ابلیس کی ایجاد ہے تو ہم آج مسلمان نہ ہوتے کیونکہ حضور(ص) ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جو بت پرست معاشرہ تھا۔ اور حضور(ص) اگر آزادی افکار سے کام نہ لیتے اور توحید کا پرچار نہ کرتے تو آج ہم کہاں ہوتے؟

سورہ الانعام(6):
: 76پھر جب رات نے اس ہر اندھیرا کیا اس نے ایک ستارہ دیکھا کہا یہ میرا رب ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا
77پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا
78پھر جب آفتاب کو چمکتاہوا دیکھا کہا یہی میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا کہا اے میری قوم میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم الله کا شریک بناتے ہو

یہ ابراہیم(ع) کا وہ سفر ہے جو انہوں نے توحید کی تلاش میں طے کیا۔ اگر وہ اپنے اباواجداد کے دین پر مطمئن رہتے تو توحید کا سفر کبھی نا طے کر پاتے۔
 

انتہا

محفلین
ہم سب اپنے اپنے تجربوں، تحقیق اور مشاہدات کے کنووں میں قید ہیں۔ میں شاید یہاں اس فورم پر شاید ڈھائی سال سے زیادہ عرصے سے آوارہ گردی کر رہا ہوں، لیکن میں نے آج تک کسی بحث میں کسی فریق(مجھ سمیت) کو قائل ہوتے دیکھا اور نہ ہار مانتے۔ تو کیوں نہ ہم اپنی صلاحیتیں آپس میں محبتیں بانٹنے میں صرف کریں اور جن چیزوں میں اختلاف نہیں ان کی حوصلہ افزائی کر کے ایک دوسرے کے قریب آئیں نہ کہ اس طرح کی باتوں سے ہمارے درمیان دوری ہو۔
 
اگر یہ واقعی میں ابلیس کی ایجاد ہے تو ہم آج مسلمان نہ ہوتے کیونکہ حضور(ص) ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جو بت پرست معاشرہ تھا۔ اور حضور(ص) اگر آزادی افکار سے کام نہ لیتے اور توحید کا پرچار نہ کرتے تو آج ہم کہاں ہوتے؟
۔

آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد

این فرمودہ ء اقبال است ۔مجھے چھوڑیں۔اقبال پہ لگائیں یہ فتوی
 
یہ ابراہیم(ع) کا وہ سفر ہے جو انہوں نے توحید کی تلاش میں طے کیا۔ اگر وہ اپنے اباواجداد کے دین پر مطمئن رہتے تو توحید کا سفر کبھی نا طے کر پاتے۔
وہ اللہ کے نبی علیہ السلام نے تنقید کے طور پر فرمایا تھا۔
آزادی افکار کے باطل حامیوں نے ہی تو اپنی ذاتی رائے سے آپ کو قرآن کی اس آیت کا مطلب تحریف کر کے غلط بتایا۔ اگر یہ نام نہاد مفسرین (بکاؤ مال ، زر خرید، کفار کے فکری غلام) انسانوں والا کام کرتے تو آج مسلمان یوں رسوا نہ ہوتے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم سب اپنے اپنے تجربوں، تحقیق اور مشاہدات کے کنووں میں قید ہیں۔ میں شاید یہاں اس فورم پر شاید ڈھائی سال سے زیادہ عرصے سے آوارہ گردی کر رہا ہوں، لیکن میں نے آج تک کسی بحث میں کسی فریق(مجھ سمیت) کو قائل ہوتے دیکھا اور نہ ہار مانتے۔ تو کیوں نہ ہم اپنی صلاحیتیں آپس میں محبتیں بانٹنے میں صرف کریں اور جن چیزوں میں اختلاف نہیں ان کی حوصلہ افزائی کر کے ایک دوسرے کے قریب آئیں نہ کہ اس طرح کی باتوں سے ہمارے درمیان دوری ہو۔

بہت اچھی بات ہے۔ خوش رہیے۔

نام تو آپ کا انتہا ہے لیکن انتہا پسندی کہیں نظر نہیں آرہی، کہیں یہ مفاہمت کی انتہا تو نہیں ہے۔ وہی 'مفاہمت' جس کے نام سے ہی ڈر لگتا ہے۔ :D

:) :) Just Kidding
 

محمداحمد

لائبریرین
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد

این فرمودہ ء اقبال است ۔مجھے چھوڑیں۔اقبال پہ لگائیں یہ فتوی

بھائی اقبال بصد ہزار احترام ہمیں بہت زیادہ عزیز ہیں ۔ لیکن اقبال کی بات قران اور حدیث تو نہیں ہیں کہ نہیں 'بلا چوں و چرا مان' لیا جائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد

فرض کیجے اگر آپ کسی غیر مسلم کو ایمان کی دعوت دیتے ہیں اور وہ سوچتا ہے کہ "آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد" اور یہ سوچ کر وہ آپ کی دعوت پر غور ہی نہیں کرتا ۔کیونکہ اگر اس نے آزاد خیال ہو کر اپنے مذہب کو پرکھنے کی کوشش کی تو وہ بقول آپ کے ابلیس کے راستے پر لگ جائے گا ۔ سو وہ یہی سمجھے گا کہ اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ اپنے جامد اعتقادات پر ڈٹا رہے اور آپ کی بات پر کان نہ دھرے کیونکہ :

آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
 

سید ذیشان

محفلین
وہ اللہ کے نبی علیہ السلام نے تنقید کے طور پر فرمایا تھا۔
آزادی افکار کے باطل حامیوں نے ہی تو اپنی ذاتی رائے سے آپ کو قرآن کی اس آیت کا مطلب تحریف کر کے غلط بتایا۔ اگر یہ نام نہاد مفسرین (بکاؤ مال ، زر خرید، کفار کے فکری غلام) انسانوں والا کام کرتے تو آج مسلمان یوں رسوا نہ ہوتے۔
تو آپ کے خیال سے وہ لوگ تین دن تک بیٹھے رہے کہ پہلی رات تارے نکلے اور صبح ڈوب گئے پھر ابراہیم(ع) نے فرمایا کہ یہ ڈوبنے والے تارے میرے خدا نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد وہ سب انتظار کرتے رہے کہ کب رات ہو اور چاند نکلے۔ پھر رات ہوئی اور چاند نکلا، پھر وہ غروب ہو گیا اور ابراہیم(ع) نے فرمایا کہ یہ بھی غروب ہو گیا اس لئے میرا خدا نہیں ہو سکتا۔ پھر جب صبح ہوئی اور سورج نکلا تو سب پھر انتظار کرنے لگے کہ یہ بھی ڈوب جائے اور ابراہیم(ع) نے فرمایا کہ یہ ڈوب گیا تو میرا خدا نہیں ہو سکتا۔
یہ اصل میں ابراہیم(ع) کا سفر توحید بیان کیا جا رہا ہے جو کہ چند پہروں پر مشتمل ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک پڑے عرصے پر محیط ہے۔
آپ کو پورا حق ہے میری بات سے اختلاف کرنے کا، لیکن مہربانی کر کے پرسنل قسم کے کمینٹس سے گریز کیجئے۔
 

انتہا

محفلین
بہت اچھی بات ہے۔ خوش رہیے۔

نام تو آپ کا انتہا ہے لیکن انتہا پسندی کہیں نظر نہیں آرہی، کہیں یہ مفاہمت کی انتہا تو نہیں ہے۔ وہی 'مفاہمت' جس کے نام سے ہی ڈر لگتا ہے۔ :D

:) :) Just Kidding

اب ہم اتنے اچھے بھی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے محسوسات کو الفاظ میں ڈھالنے کا فن نہیں جانتا۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول مجھے بہت پسند ہے اسے میں اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں،
لوگ آپ کو بہت غم گین اور پریشان دیکھتے، اس کی وجہ پوچھی تو بتایا:
’’مخلوق کے گناہ مجھے پریشان رکھتے ہیں، کیوں کہ سارے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور یہی مطلب ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا، جس کا مفہوم ہے کہ اس راہ حق میں جتنی تکلیف مجھے پہنچائی گئی کسی نبی اور رسول کو نہیں پہنچائی گئی۔‘‘
 
قرآن میں جہاں کہیں زمین کا ذکر آیا ہے، واحد کے طور پر آیا ہے۔ یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ ساتھ زمینیں ہیں۔ آسمانوں کا ذکر جمع کے طور پر آیا ہے۔ پھر ایک ایسا پائے کا عالم دین کیونکر سات زمینوں کا ذکر کرے گا؟


کوئی حوالہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی نے حج کیا یا بیت اللہ کا طواف کیا؟ حج تو انسان پر بھی کئی ایک شرائط کے ساتھ فرض ہے کہ صاحبِ حیثیت ہو، صحت مند ہو وغیرہ۔ کُجا کہ کشتی نے حج کیا۔


قرآن سے کوئی حوالہ ہے کہ کل نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار تھے۔ اللہ تعالٰی تو قرآن میں فرماتا ہے کہ ہم نے بہت سے نبی بھیجے، تعداد تو کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔

سبع سموت و من الارض مثلھن (سورۃ الطلاق)
کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟

نوح علیہ السلام کی کشتی کے متعلق پہلی مرتبہ سنا ہے

یہ بات بھی درست ہے کہ انبیا علیہم السللام کی تعداد متعین نہیں ہے۔ و اللہ اعلم
 

محمداحمد

لائبریرین
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد

شکر ہے آپ کو پہلے مصرعے کی یاد بھی آئی۔ پوری نظم پڑھیے اور سر دھنیے۔
آزادی افکار
(ماخوذاز نطشہ)
جو دونی فطرت سے نہیں لائق پرواز
اس مرغک بیچارہ کا انجام ہے افتاد
ہر سینہ نشیمن نہیں جبریل امیں کا
ہر فکر نہیں طائر فردوس کا صیّاد
اس قوم میں ہے شوخئ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
 

عدیل منا

محفلین
"مثل ھن" کا مطلب "انہی کی مانند"
مگر یہاں یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ تعداد بھی سات ہے۔
یہاں پر ہر مسلک کے علماء نے اپنی سمجھ کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ اس لئے یہاں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ قرآن میں جہاں بھی 7 آسمانوں کا ذکر ہے وہاں پر اگر زمین کا ذکر آیا تو تعداد کے بغیر۔ جیسا کہ "تسبح لہ سماوات السبع والارض"
خیر، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زمین سات ہیں یا نہیں اس سے کسی کے ایما ن کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اصل ٹاپک یہ ہے کہ کوئی بھی پوسٹ بغیر کسی تحقیق کے کسی کے نام سے منسوب کرنا غلط ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سبع سموت و من الارض مثلھن (سورۃ الطلاق) کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟

اس میں کہاں لکھا ہے کہ زمینیں ایک سے زائد ہیں؟

اللَّ۔هُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّ۔هَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّ۔هَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴿١٢
ترجمہ : اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین میں انہی کی مثل (بنایا)۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز ہر حاوی ہے۔

سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۳۳

قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿٣٣

ترجمہ : اس نے کہا "اے آدم! انہیں ان کے نام بتا" پھر جب اس نے انہیں ان کے نام بتا دیئے تو اللہ نے کہا "کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی باتیں جانتا ہوں، اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے تھے۔"
 

عدیل منا

محفلین
وہ کئی سال ہمارے ملک میں سفیر رہا، سفیر تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن وہ دانشور اور تجزیہ نگار بھی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اسکا مشغلہ ہے۔ جب وہ گفتگو کرتا ہے اور دلائل دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ غبار چھٹ رہا ہے اور حقیتیں ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں۔ ماضی کے تجربوں کی بنیاد پر وہ مستقبل کی ایسی پیشگوئی کرتا ہے کہ آنیوالا زمانہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔
میری اس سے ملاقات ایک تقریب میں ہوئی اور میں اسکےعلم و دانش کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ جس دن مجھے اطلاع ملی کہ طویل قیام کے بعد وہ یہاں سے واپس جا رہا ہے اور اپنے فرائض منصبی اب کسی اور ملک میں سر انجام دیگا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ روانگی سے پہلے میرے ہاں آئے اور کچھ وقت گزارے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ ہمارے ملک میں تم نے اتنے سال گزارے، مشاہدہ کیا! طول و عرض میں گھومے پھرے، شہر قصبے اور قریے دیکھے، عوام اور خواص سے ملاقاتیں کیں، سیاست دان، نوکر شاہی، فوج سب کو قریب سے دیکھا، تم کس نتیجے پر پہنچے اور ہمارا مستقبل تمہیں کہاں اور کیسا نظر آرہا ہے؟
وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا، مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ میرے سوال کا جواب دینا پسند نہیں کریگا تا ہم کچھ دیر کے بعد اس نے میرے طرف مسکرا کر دیکھا۔"میں یہاں آنے سے پہلے بہت سے ملکوں میں رہا، مسلمان ملکوں میں بھی، مغربی ملکوں میں بھی اور مشرق بعید کے ملکوں میں بھی۔ میری سوچی سمجھی رائے تمہارے ملک کے بارے میں یہ ہے کہ یہاں بےپناہ ٹیلنٹ ہے، ترقی کے لامحدود امکانات ہیں لیکن تمہارے قومی جسم میں چند بیماریاں لاحق ہیں اور یہ بیماریاں ٹیلنٹ کو کچھ بھی نہیں کرنے دیتیں۔

1۔ تم لوگوں کی انتہا درجے کی جذباتیت، جو تمہیں سوچنے سمجھنے سے، تجزیہ کرنے سے اور دعوی کا ثبوت دیکھنے سے روکتی ہے۔ اسکی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے یا ایک تاریخی روایت کا تسلسل، مجھے نہیں معلوم لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام جذبات کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں یہ سن کر حیران ہوتا ہوں کہ تحریک پاکستان میں عوام تمہارے محبوب قائد کی تقریر انگریزی میں سنتے تھے اور بغیر سمجھے لبیک کہتے تھے۔ یہ بات فخر سے یہاں کرتے وقت تم لوگوں کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ یہی وہ عوام ہیں جو بغیر سوچے سمجھے ہر بھٹو، ہر جمشید دستی، ہر پیر سپا ہی، ہر نجومی اور ہر تعویذ فروش کو کامیاب کراتے ہیں۔ اس جذباتیت کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تم لوگ کسی ثبوت، کسی شہادت کے بغیر اپنی رائے کی درستی پر اصرار کرتے ہو اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہو۔ کچھ لوگ آنکھیں بند کرکے طالبان کو الزام دیتے ہیں اور کچھ امریکھ کو۔۔۔۔۔۔۔اور ثبوت دونوں کے پاس نیہں ہیں اور یہ صرف مثال ہے۔

2۔ تم قانون کو فیصلہ نہیں کرنے دیتے، خود فیصلہ کرتے ہو۔ یوں ہر شخص کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے۔ جب بھی ٹریفک کا حادثہ ہوتا ہے، ایک منٹ سے کم عرصہ میں لوگ وہاں جمع ہوجاتے ہیں تو مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ چھوڑیں، کوئی بات نہیں۔ کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ کے درمیان پولیس فیصلہ کریگی۔ آپ اس حد تک پولیس سے بھاگتے ہیں کہ اپنے اسلامی قوانین کے مقابلے میں بھی ذاتی رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کا پسندیدہ رہنما کرپشن کرے تو آپکی رائے یہ ہوتی ہے کہ سارے کرپشن کرتے ہیں۔ آپ کا پسندیدہ رہنما کسی کو قتل کرادے تو آپ کی رائے یہ ہوتی ہےکہ آخر بادشاہ قتل کراتے ہی رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ناجائز زمین پر مسجد بنائی جائے تو اسلامی قانون کو پس پشت ڈال کر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کا گھر ہے، جہاں بھی بن جائے۔
3۔ تم لوگ دوسرے سے رابطہ صرف اس وقت کرتے ہو جب تمہارا اپنا کام ہوتا ہے لیکن جب تمہارے ذمے دوسرے کا کام ہو تو تم رابطہ نہیں کرتے۔ دنیا میں جتنے ترقی یافتہ قومیں ہیں وہ اس بےحد خطرناک بیماری سے پاک صاف ہیں جس کے ذمے جو کام ہے وہ اسے پورا کرکے متعلہ شخس کو یا ادارے کو مطلع کرتا ہے اور اگر نہیں کرسکتا تب بھی اطلاع دیتا ہے۔ تمہارے معاشرے میں ایک غدر برپا ہے، سائل مسئول کے پیچھے، قرض خواہ مقروض کے پیچھے، آجر مزدور کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ جس نے کسی جگہ پہیچنا ہے وہ وہاں پہینچتا ہے نہ کچھ بتاتا ہے۔ جس نے کام کردیا وہ بھی نہیں بتاتا کہ کام ہوچکا ہے، جسنے کام نہیں کیا وہ بھی خاموش ہے یا غائب ہے۔ یہ جہالت ہے یا غیر ذمہ داری، جو کچھ بھی ہے تمہارے وسائل کو ضائع کررہی ہے۔
4۔ تمہاری اکثریت مذہب کو ذاتی اصلاح کی بجائے مالی فائدے کیلئے استعمال کررہی ہے اور تم لوگوں کو اسکا احساس تک نہیں۔ اسلام کا اولین مقصد فرد کی اصلاح ہے لیکن اسلام کے جو اصول فرد کی اصلاح کیلئے تیر بہدف ہیں، انہیں آج ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ استعمال کررہے ہیں اور مسلمان انہیں رات دن اپنے پیروں تلے روندھ رہے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھ لوکہ وعدہ خلافی تمہارے معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ شاید ہی کوئی شخص اسے برا سمجھتا ہو۔ جھوٹ کی وہ کثرت ہے کہ گھر، بازار، دفتر، سیاست، تجارت، مسجد، ہر جگہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ دوسری انتہاء یہ ہے کہ تاجر اپنی اشیا بیچنے کیلئے لوگوں کے مذہبی جذبات کا بے تحاشا استحصال کررہے ہیں۔ شہد بیچتے وقت اسے اسلامی شہد کا نام دیا جاتا ہے۔ میں نے کسی ملک میں عیسائی ہندو یا یہودی شہد نہیں دیکھا۔ دکانوں کا نام مدینہ، مکہ، اسلامی اور حرمین رکھا جاتا ہے تاکہ جذبات سے کیھلا جائے۔ لالچ اور سنگدلی کی انتہا یہ ہے کہ نہاری اور پائے تک تم لوگ اپنی رسول صل اللہ علیہ وسلم کے نام سے بیچ رہے ہو اور اس توہین پر کسی کو شرم نہیں آتی نہ افسوس۔ مذہبی رہنماؤں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہاری آمدنی کے ذرائع کیا ہیں اور مدرسوں میں پڑھانے والے مفلوک الحال علماء، مدرسوں کے مالکان سے نہیں پوچھتے کہ تمہارا معیار زندگی کروڑپتیوں جیسا کس طرح ہوگیا؟ 5
5۔ جتنے گندے تمہاری مسجدوں کے طہارت خانے ہیں، اتنا گند میں نے کسی مسلمان ملک میں نہیں دیکھا۔ تم لوگوں کو دھول اور گرد سے گھبراہٹ نہیں ہوتی، نہ ٹھرے ہوئے گندے پانی سے گھن آتی ہے۔ مکان تعمیر کرنیوالا تمہاری پوری سڑک پر ریت اور سیمنٹ ڈال دیتا ہے لیکن کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔ تمہارے ٹاپ کے شہروں میں لوگ چلتی گاڑیوں سے پھلوں سے چھلکے اور سگریٹ کی خالی ڈبیاں سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور کسی کو شرم آتی ہے اور نہ اعتراض کرتا ہے۔
کاش! تم لوگ پوری دنیا کی اصلاح کرنے کے بجائے کچھ وقت ان پانچ پیماریوں کی فکر کرو جنہوں نے تمہارے جسم کو تعفن میں ڈال رکھا ہے۔
 
Top