ٹیڈی بیر کا نام پیغمبر کے نام پر

سپینوزا

محفلین
سوڈان میں ایک سکول کی برطانوی استانی کو حضرت محمد کی شان میں گستاخی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بیچاری ٹیچر کا قصور؟ اس نے ایک طالبہ کو کہا کہ وہ اپنا بھالو کلاس مین لائے اور پھر اپنی کلاس کے 6 اور 7 سالہ بچوں کو اس بھالو کا نام رکھنے کی اجازت دی۔ کئی نام تجویز ہوئے اور استانی نے بچوں سے ووٹ کرایا کہ انہیں بھالو کا کیا نام پسند ہے۔ 23 میں سے 20 بچوں نے بھالو کا نام محمد رکھا۔ اس پر لوگوں کو آگ لگ گئی اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اب شاید استانی کو چھ ماہ جیل، 40 کوڑے یا جرمانہ ہو جائے۔

ایک بار پھر کچھ مسلمانوں کے کرتوت سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی جگ‌ہنسائی ہو رہی ہے۔ بقول مائیکل او ہیئر کے کہ کیا اسلام اتنا کچا مذہب ہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ کیا مسلمانوں کو ایمان متزلزل ہونے کا اتنا زیادہ خطرہ ہے!
 

ظفری

لائبریرین
ایک بار پھر کچھ مسلمانوں کے کرتوت سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی جگ‌ہنسائی ہو رہی ہے۔ بقول مائیکل او ہیئر کے کہ کیا اسلام اتنا کچا مذہب ہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ کیا مسلمانوں کو ایمان متزلزل ہونے کا اتنا زیادہ خطرہ ہے!

اسلام کے کچے اور پکے ہونے کا یہاں سوال نہیں ہے ۔ یہ ایک انسانی حرمت کا سوال ہے ۔ رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی گستاخ جسارت پر کاروائی نہ کریں تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں نکلتا کہ ہمیں بھی کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہیئے ۔ مثال کے طور پر اگر میرے سامنے میرے باپ کی توہین ہوئی ہے ۔اور میرے باپ نے آدمی کو معاف کردیا ہے تو وہ اس کی اعلیٰ ظرفی ہے ۔ لیکن میں بیٹے ہونے کی حیثیت سے ہوسکتا ہے کہ اس کو برداشت نہ کر سکوں ۔ اسی طرح رسالت مآب صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو مجھے یا کسی اور کو ایک مسلمان کی حیثیت سے محبت اور عقیدت ہے ، جو تعلقِ خاطر ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو مقام بیان کیا ہے ۔ ظاہر ہے ہم اس کے لحاظ سے جذبات رکھتے ہیں ۔ لہذا ہمیں اس بارے میں حق حاصل ہے کہ مسلمانوں کو اس سلسلے میں کوئی قانون یا ضابطہ بنانا چاہیئے ۔ ہم جس طرح عام لوگوں کی ہتکِ عزت کے قانون بناتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ایک انسانی حرمت ہے جس کا ہم پاس کرتے ہیں ۔ اس سے ہزار گنا زیادہ حرمت اور عزت ہمارے پغیمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے ۔ اور ہم کو یہ حق حاصل ہے کہ ہم ان لوگوں‌کو جو گستاخی سے کام لیں ، جو حدود سے تجاویز کریں ، جو ناشائستگی کا ارتکاب کریں ۔ ان کے لیئے کوئی قدم اٹھائیں اور کوئی قانون بنائیں ۔

مجھے نہیں معلوم کہ سوڈان کا اصل واقعہ کیا ہے ۔ مگر میں نے موصوف کی پوسٹ کا جو حصہ کوٹ کیا ہے ۔ اس کا جواب دے دیا ہے ۔
 

دوست

محفلین
بچوں کی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ جب ان کے دل میں محترم ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت راسخ کی جائے گی تب ایسا نہیں ہوگا۔ ہمارے کسی بچے نے تو کبھی ایسا نہیں کیا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
سب سے پہلے میری آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے جذباتیت کو نظر انداز کر کے (اور جو کچھ منصور صاحب نے لکھا ہے اُسے بھی نظر انداز کر کے) اسی واقعے کو اس اینگل (زاویے) سے بھی دیکھیں:

دیکھئیے، ایک انسان پر 40 کوڑوں کی حد جاری ہوئی ہے۔ ہمیں تھوڑی احتیاط کرنی پڑے گی کیونکہ اسلام کا بہت ہی بنیادی اصول ہوتا ہے کہ "شک" کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔

1۔ انما الاعمال بالنیات (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)

مجھے آپ لوگوں کا سب سے پہلے یہ امپریشن چاہیے کہ کیا واقعی اس برٹش لیڈی ٹیچر نے جان بوجھ کر ہتکِ اسلام کے لیے یہ کام کیا؟

انصاف کرنا ذرا مشکل کام ہوتا ہے، لیکن میں نے بار بار یہ چیز پڑھی ہے اور میرا امپریشن تو یہی آ رہا ہے کہ یہ چیز جان بوجھ کر نہیں کی گئی ہے۔


2۔ کیا اسلامی شریعت میں یہ چیز منع ہے کہ رسولوں کے نام پر عام انسانوں کے نام رکھے جائیں؟

کیا آپ کے سامنے ایسا واقعہ ہوا ہے کہ کسی بچے، یا مجرم کا نام یونس یا یوسف وغیرہ ہو، اور اس شخص کو کوئی نام لیکر گالیاں دے رہا ہو؟

تو یہ بے حرمتی اس "یونس" نامی شخص کی ہو رہی ہے یا پھر اللہ کے نبی "یونس" کی؟

کیا ہم اس قابل ہیں کہ کسی چیز کو ظاہری معنوں میں لے جانے کی بجائے اسکے روحانی اور مجازی معنی سمجھنے کے قابل ہو سکیں؟



3۔ اچھا، اگر یہ مان لیں کہ انسانوں کے نام تو انبیاء کے نام پر رکھے جا سکتے ہیں، مگر مجھے اسلامی شریعت میں "قران" یا "قولِ رسول" دکھائیں جہاں یہ حرام قرار دیا ہو کہ بچوں کے کھلونوں کے نام انبیاء کے نام پر رکھنا "جرم" ہے۔

دیکھئیے، انبیاء کے ناموں کی عزت و حرمت ایک مسلمان کے لیے مسلم ہے اور اسی بنیاد پر اجتہاد کیا جا سکتا ہے (بلکہ فطرتِ سلیم) اس طرف اشارہ کر دے گی کہ کھلونوں کے نام انبیاء کے ناموں پر نہ رکھے جائیں۔

لیکن کیا ہم نے اس "قانون" یا اپنے اس "نئے اجتہاد" کو واقعی اپنے ملک کے قانون میں صاف الفاظ میں درج کر دیا ہے اور اسکی نئے قانون کی اتنی تشہیر کر دی ہے کہ ہماری عوام اس بات سے باخبر ہیں کہ ایسا کرنا ملک کے قانون کے خلاف ہے؟

تو مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا یہ اجتہاد کھلے الفاظ میں ملک کے قانون میں بیان ہوا ہو اور ملک کے عوام میں اسکی اتنی تشہیر ہو کہ وہ اس سے مکمل طور پر باخبر ہوں۔



4۔ اور ایک غیر ملکی خاتون، جس کا اسلام سے کوئی تعلق بھی نہیں، اُس سے تو ہمیں بالکل ہی توقع نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ایسے کسی قانون کو جانتی ہو۔

میرے خیال میں ایک اور چیز بھی ہمارے ملک کے قانون کا حصہ ہونا چاہیے کہ ایسے تمام "نئے اجتہادات" جن کی عوام میں تشہیر نہیں ہوئی ہو، پہلی دفعہ ایسی چیزیں کرنے پر زیادہ سے زیادہ زبانی طور پر انتباہ ہونا چاہیے۔
مگر اگر دوسری بار وہی حرکت دھرائی جائے تو پھر اسکے بعد سزا کا نفاذ کیا جانا چاہیے۔

ؕؕؕؕؕؕؕؕ////////////////////

مگر چونکہ اس برطانوی خاتون کا یہ پہلا واقعہ ہے، اس لیے بہت بہتر ہوتا کہ اتنی سختی دکھانے کی بجائے پہلی بار انتباہ کر کے چھوڑ دیا جاتا کہ یہ چیز ملک کے اسلامی قانون کے خلاف ہے۔

والسلام۔
 

فرید احمد

محفلین
مگر چونکہ اس برطانوی خاتون کا یہ پہلا واقعہ ہے، اس لیے بہت بہتر ہوتا کہ اتنی سختی دکھانے کی بجائے پہلی بار انتباہ کر کے چھوڑ دیا جاتا کہ یہ چیز ملک کے اسلامی قانون کے خلاف ہے۔

بجا فرمایا ، ایسا ہی ہونا چاہیے ، اور ۔۔۔۔۔ شاید پہلے ایسا کیا بھی گیا ہو !

کیا اس خاتون کا فرض نہ تھا کہ اس پہلے بچے کو ہی روک دیتی کہ بیٹا اپنے پیارے نبی کے نام سے جانوروں کو نہیں بلایا کرتے !‌ آخر اس کو تربیت کے لیے رکھا گیا تھا، ووٹنگ کے لیے نہیں ۔
 
یہ تو واقعی خبر نہیں کہ اصل واقع کیا ہوا ہے اور واقعی اگر اس عورت کو نہیں پتہ تو تنبیہ کرکے چھوڑ دینا چاہیے مگر مسئلہ صرف ایک ٹیچر کے اس فعل کا نہیں ہے بلکہ اس وقت پورے عالم میں یہ کاروائی بار بار مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے دہرائی جا رہی ہے۔ کارٹونز والا معاملہ بار بار سامنے آ‌رہا ہے اور جانتے بوجھتے اور سخت ترین احتجاج کے باوجود جاری و ساری ہے۔ کیوں ؟‌
 

مہوش علی

لائبریرین
برٹش مسلم کونسل کا اس فیصلے کے خلاف احتجاج

ٹیچر پر توہینِ رسالت کا الزام

t.gif
_44267594_gibbons_203.jpg

جرم ثابت ہونے پر مسز گبنز کو چھ ماہ قید، چالیس دروں یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہےسوڈان میں ایک برطانوی سکول ٹیچر جلیئن گبنز کو اس الزام پر آج عدالت میں پیش کیا جائے گا کہ انہوں نے سکول کے بچوں کو یہ اجازت دے کر توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے کہ وہ اپنے ٹیڈی بیر کا نام محمد رکھ لیں۔
ان پر تین الزامات لگائے گئے ہیں، توہین مذہب، مذہبی عقائد سے حقارت اور نفرت کا فروغ۔ان جرائم کی سزا قید، جرمانہ یا چالیس دُرے مقرر ہے۔
مسز گبنز کو اتوار کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب کئی والدین نے سوڈان کی وزارتِ تعلیم سے شکایت کی تھی کہ ٹیچر نے بچوں کو ٹیڈی بیر کا نام محمد رکھنے کی اجازت دی ہے۔
برطانیہ میں دفترِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ جلیئن گبنز کے خلاف باقاعدہ الزامات لگا دیئے گئے ہیں۔ مسز گبنز کا تعلق لِیور پول سے ہے اور ان کی عمر 54 برس ہے۔
انہیں خرطوم سے اس وقت گرفتار کییا گیا جب انہوں نے اپنے پرائمری سکول کے بچوں کو یہ اجازت دی کہ وہ ٹیڈی بیر کا نام محمد رکھ لیں۔
ایک بیان میں وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے کہا کہ انہیں جلیئن گبنز کے خلاف لگائے جانے والے الزامات پر ’حیرت اور مایوسی‘ ہوئی ہے۔
وکلاء کہتے ہیں کہ مسز گبنز کو چھ ماہ قید، چالیس درے یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
سوڈان میں ریاستی میڈیا کا کہنا ہے کہ استغاثہ نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ مسز گبنز پر کریمنل کوڈ کے آرٹیکل 125 کے تحت الزامات عائد کیے جائیں۔
t.gif
_44267516_teddy203getty.jpg


خرطوم میں بی بی سی کی نامہ نگار ایمبر ہینشا کہتی ہیں کہ مسز گبنز کو جمعرات کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
برطانیہ میں مسلم کونسل آف برٹن نے اس خبر پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مسز گبنز کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
تنظیم کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد عبدالباری نے ایک سخت بیان میں کہا: ’یہ فیصلہ شرمناک ہے اور عقلِ سلیم کے خلاف ہے۔ یہ واضح ہے کہ ٹیچر کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جان بوجھ کر اسلامی عقیدے کی توہین کریں۔‘
ڈاکٹر باری نے سوڈانی صدر عمر البشیر سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے میں فوری طور پر مداخلت کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ مسز گبنز کو اس ’شرمناک اور مشکل صورتِ حال‘ سے فوری رہائی ملے۔
اس سے قبل لندن میں سوڈانی سفارت خانے نے کہا تھا کہ یہ چھوٹا سے مسئلہ ہے اور یہ کہ ٹیچر کو جلد ہی رہا کر دیا جائے گا۔ سفارت خانے نے کہا تھا کہ یہ واقعہ ثقافتی غلط فہمی کی پیداوار ہے۔
لیکن سوڈان کے بڑے مولویوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیچر کے خلاف بھرپور انداز میں قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیچر نے جو کچھ کیا وہ اسلام کے خلاف مغربی سازش کا حصہ ہے۔
سوڈان میں حقوقِ انسانی کے وکیل کا کہنا ہے کہ مسز گبنز کو بری کیا جا سکتا ہے یا مجسٹریٹ انہیں جرمانے کی سزا سنا سکتا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ایک سفارتی مسئلے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اگر آپ محمد نامی ٹیڈی بیر نہیں چاہتے تو پھر آدم بھالو خریدیں۔

جس سکول میں ٹیڈی بیر والا واقعہ ہوا وہ ایک کرسچین سکول ہے۔

اس آدم بھالو کے حوالے سے آپ کا اعتراض Valid اعتراض ہے۔ میں نے بھی اوپر اسی چیز کی طرف نشاندھی کی ہے کہ اسلامی شریعت میں شاید بذاتِ خود ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

لیکن کرسچین سکول ہونے کا جو آپ نے لکھا ہے تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ اس سے کیا کہنا یا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔
 

arshadmm

محفلین
بھائی اس میں‌ کرتوت کی تو کوئی بات نہیں بات صرف اتنی ہے کہ بندہ جس ملک میں ‌رہے جس جگہ رہے وہاں‌ کے قوانین کا احترام تو کرنا ہی پڑے گا چاہے وہ کیسے بھی ہوں‌ ہر معاشرہ اپنے مزاج کے مطابق قانون بناتا ہے اگر کسی کو سوٹ نہیں‌کرتے تو نہ رہے وہاں رہے جہاں اس کی مرضی کے قوانین ہوں‌۔۔۔۔۔۔ اور آپ کو ایسے لوگوں‌ کے سامنے "مسلم کرتوت" کی کیوں‌ فکر ہے کہ جو لوگ شادی کے بغیر شادی شدہ ہو کر رہتے ہیں اور ہم جنسوں‌کو شادی جیسے مقدس رشتے میں باندھ دیتے ہیں ۔ ہم نے کبھی اعتراض‌کیا ؟؟؟؟ کہیں‌کوئی جلوس نکلا؟؟؟؟ تو پھر انکے قوانین انکے مزاج کے مطابق ۔۔۔ مسلم بیچارے کا قصور کیا ہے صرف جرم ضعیفی اور بس ۔۔۔۔۔۔۔غیر تو غیر اپنے بھی اس انداز میں‌ سوچنے لگ گئے ہیں تکلیف ہوتی ہے،
 
Top