یہ بات ایک مشاہدہ اور طے شدہ حقیقت ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں عملی طور پر قدم رکھنے کے لیے پہلے متعلقہ شعبے میں تربیت یعنی سیکھنے کے مراحل سے گزرنا لازمی ہوتا ہے،مثلاً اگر کوئی شخص کسی کمپنی کے ساتھ ملازمت کے طور پر ’’ڈرائیور‘‘ ہے تو وہ شخص پہلے سیکھنے کے مراحل سے گزر چکا ہوگا ، حکومت کی طرف سے متعلقہ شخص کو گاڑی چلانے کا اجازت نامہ ’’لائسنس‘‘ مل چکا ہو گا،اگر کوئی شخص سیکھے بغیر گاڑی چلائے اور کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے تو حادثے کی تمام تر ذمہ داری اُس شخص پر عائد ہوتی ہے جو بغیر سیکھے گاڑی چلا رہا ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں تو اول بڑی بڑی کتابیں پڑھ کر تجربے کے مراحل سے گزرنے کے بعد حکومت کی طرف سے علاج کرنے کا ’’اجازت نامہ‘‘ جاری کیا جاتا ہے۔ اگر آپ سیکھے بغیر کسی کا علاج کرتے ہیں اور مریض کی جان جاتی ہے تو شریعت کی رو سے آپ ضامن ہیں ۔اگر آپ انجینئر بننا چاہتے ہیں، سیلز مین بننا چاہتے ہیں، سودا گر بننا چاہتے ہیں، ایک کامیاب تاجر بننا چاہتے ہیں ، الغرض زندگی میں آپ عملی طور پر جس شعبہ کو بھی اختیار کرنا چاہتے ہیں ، متعلقہ شعبہ میں سیکھنے کے مراحل سے گزرنا انتہائی ضروری ہے لیکن اگر آپ استاد بننا چاہتے ہیں اور خصوصاً بچوں کو ’’قاعدہ‘‘ یا قرآن شریف پڑھا رہے ہیں تو آپ کی ذمہ داری ایک ڈرائیور، ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر، ایک تاجر، ایک سیلز مین سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ آپ اُس مسند شریف پر براجمان ہیں جس پر کبھی معلم انسانیتﷺ تشریف فرمایا کرتے تھے، جس پر ایک دور میں نجوم ہدایت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین جلوہ افروز ہوا کرتے تھے، جس پر کبھی اس امت کے مفسرین، محدثین، فقہاءکرام ، اولیائے کرام اور اس امت کے اللہ والے ہوا کرتے تھے۔

یوں تو جہاں مغربی پروپیگنڈا نے دیندار طبقہ کے خلاف عموماً اور علمائے کرام کے خلاف خصوصاً عوام الناس کے ذہنوں کو پراگندہ کیا ہوا ہے وہاں ہماری نا سمجھی اور غلط رویہ بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ہمارے ملک کے مدارس کا نظام و نصاب الحمد للہ بڑی تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے اور طلبہ کی تربیت پر انتہائی توجہ دی جاتی ہے لیکن علاقے محلّے کے بعض مساجد و مدارس جہاں کثیر تعداد میں بچے ابتدائی قاعدہ اور قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، بد قسمتی سے ایسے ’’قاری صاحبان‘‘ تشریف فرما ہوتے ہیں جو ہاتھ میں ایسا ڈھنڈا لیے گھوم رہے ہوتے ہیں جو جانوروں کے لیے بھی استعمال کرنا نا انصافی اور زیادتی معلوم ہوتی ہے، جنہیں اپنے رویے کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے نہ بچوں کی نفسیات کا ادراک کر پاتے ہیں اور نہ طریقہ تعلیم و طریقہ تدریس سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، بس ایک حرف کی غلطی کے لیے بچے کو سولی پر چڑھانے کے لیے تیار ہوتے ہیں، کبھی کسی کی آنکھ پھوڑ دیتے ہیں، کبھی کسی کا سر تھوڑ دیتے ہیں۔پچھلے روز مسجد کے ایک ’’قاری صاحب‘‘ نے ایک چھوٹے سے بچے جس کی عمر بمشکل چھ سے سات سال ہو گی صرف ایک حرف کی غلطی کے لیے گلے میں پٹہ ڈال کر کھینچا تو بچے کی سانس پھولنے لگی، جبکہ دوسرے ’’قاری صاحب‘‘نے شاگرد کو ’’سات ڈھنڈے‘‘ لگائے۔ یوں والدین اپنے بچوں کو مسجد بھیجنے سے گھبراتے ہیں اور رفتہ رفتہ آج کے چھوٹے بچے جو کل کو یقیناً ملک و قوم کے محافظ و پاسبان ہوں گے کا رابطہ مسجد سے منقطع ہو جاتا ہے اور یوں ملکی سطح پر مدارس،طلبائے کرام اور علمائے کرام کے خلاف منفی رویہ پروان چڑھتا جاتا ہے۔

یہ طریقہ نہ تو معلم انسانیتﷺ کا تھا اور نہ وقت کے تقاضے ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں۔ بچوں کو بوسہ لے کر پیار محبت سے انتہائی مشکل سے مشکل اسباق بھی پڑھائے جا سکتے ہیں جبکہ ڈرا دھمکا کر شاید ہی کوئی فائدہ حاصل ہو، ہاں اتنا نقصان ضرور ممکن ہوسکتا ہے کہ بچے کی تخلیقی صلاحیتیں ڈر اور خوف کے مارے وہی پر دب پر ختم ہو جاتی ہیں ۔ آجکل کے بچے گھروں میں والدین کی طرف سے اچھی خاصی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی شرارتی اور بد تمیز ہوتے ہیں لہذا اس امر کو انتہائی حد تک محسوس کیا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو تربیت کےلیے مساجد میں بھیجتے ہیں لہذا تربیت کے لیے بچوں کو اپنی نگرانی میں رکھنا انتہائی ضروری ہے جبکہ کبھی کبھی تادیبی کاروائی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ ’’قاری صاحبان‘‘ ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے تادیبی کاروائی میں مبالغہ کر بیٹھتے ہیں جن سے معاشرے میں مختلف قسم کے حساس نوعیت کے مسائل جنم لیتے ہیں اور منفی رویے پروان چڑھتے ہیں لہذا کسی بھی مسجد انتظامیہ کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ اِن اساتذہ کرام کے لیے ’’ٹیچر ٹریننگ‘‘ کے موضوع پر ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے تاکہ اعلیٰ تربیت شدہ اساتذہ کی خدمت کے نتیجے میں اعلیٰ تربیت یافتہ نوجوان نسل پروان چڑھے جو اسلام کی سربلندی اور ملک و قوم کے تحفظ کے لیے ہر وقت اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہوں۔

ای میل ایڈرس: nts143043@gmail.com

رابطہ : 03329193093
 
Top