ٹک روتے روتے

یوسف-2

محفلین
tok+rotay+rotay-1.jpg

tok+rotay+rotay-2.jpg

tok+rotay+rotay-3.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
ٹک روتے روتے
شہنائیوں کی گونج میں دلہن رخصت ہو رہی تھی۔ حسب روایت دلہن سمیت سب ہی کی آنکھیں اشکبار تھیں مگر دلہن کی چھوٹی مگر سیانی بہن نے تو رو رو کر گویا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ سب ہی اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک خاتون انہیں سمجھاتے ہوئے بولیں بھئی اب اتنا بھی کیا رونا۔ کوئی تمہاری تو رخصتی نہیں ہو رہی۔ مجمع میں سے آواز آئی اسی لئے تو رو رہی ہیں۔​
صاحبو! ہمیں موصوفہ کے رونے کا سبب تو نہین معلوم۔ مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ فی زمانہ رونا سب سے آسان کام ہے۔ جبھی تو کہتے ہیں رونا اور گانا کسے نہیں آتا۔مگر یہ اس زمانے کی بات ہے جب مرد گایا اور عورتیں رویا کرتی تھی۔ تاریخ اس بات پہ خاموش ہے کہ پھر بچے کیا کرتے تھے؟ ویسے ہم آج تک یہ گتھی سلجھانے میں ناکام رہے کہ مردوں کے گانے پر عورتیں رویا کرتی تھیں یا عورتوں کے رونے کی آواز محلہ والوں سے چھپانے کے لئے مرد گانے لگتے تھے۔ خیر وجہ کچھ بھی ہو اب اس کی توجیہہ کی قطعا ضرورت نہین رہی، کیونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ مرد و زن کے مساوات کا دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین و حضرات نے اپنے بیشتر "فرائض‘ ایک دوسرے سے بدل لئے ہیں اور "بقیہ فرائض" بدلنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آج کل خواتین نے گانے اور مرد حضرات نے رونے کا فریضہ سنبھال لیا ہے۔​
رونے کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً بچوں کا رونا، عورتوں کا رونا اور مردوں کا (عورتوں کی طرح) رونا وغیرہ وغیرہ۔ بچے عموماً آواز سے اور بلا آنسو روتے ہیں۔ بچوں کو اس طریقہ سے رونے میں اسی طرح ملکہ حاصل ہے جس طرح ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کو۔ (رونے میں نہیں بلکہ گانے میں)۔ صفر سے سو سال تک "بچے" جب کسی کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس ہمدردی کی آڑ میں انہیں دامے در قدمے یا سخنے کچھ مطلوب ہو تو وہ مختلف آوازوں کے ساتھ (بلا آنسو) رونا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی حالات کا رونا روتے ہیں تو کبھی اپنی بے چسی کا۔ کبھی دوسروں کی زیادتی کا رونا روتے ہین تو کبھی تقدیر کی ستم ظریفی کا۔ غرض کہ کسی نہ کسی سبب سے رو کر اپنا کام نکلوا لیتے ہیں۔​
 

شمشاد

لائبریرین
رونے کی دوسری قسم عورتوں کا رونا ہےہ۔ یہ ایک معروف قسم ہے۔ اس قسم کا رونا بچوں کے رونے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح کے رونے میں آنسوؤں کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ اگر دنیا بھر کی عورتیں رونا دھونا بند کر دیں تو دنیا میں سیلاب کبھی نہ آئے۔ مگر ہم اسی تجویز کے حق میں ہرگز نہیں ہیں۔ کیونکہ اس طرح ہم جہا ں سیلاب بلا کی آفات سے محفوظ ہو جائیں گے وہیں "چشم زن" کے متعدد فیوض سے بھی تو محروم ہو جائیں گے کیونکہ اس بات پر تو تمام طبی ماہرین متفق ہیں کہ خواتین کی آنکھوں کی خوبصورتی میں سامان آرائش چشم سے زیادہ ان کے آنسوؤں کا دخل ہے۔ پھر بن موسم کے برسات کا مزہ بھی تو انہی آنکھوں میں ہے کہ :
مزے برسات کے چاہو، تو آ بیٹھو ان آنکھوں میں​
سیاہی ہے، سفیدی ہے، شفق ہے، ابر باراں ہے​
رونے کی اس قسم کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ اسے جہاں "دکھ" میں استعمال کیا جا سکتا ہے وہیں اس کا استعمال "سکھ" کے موقع پر بھی بلا تکلف و بے دریغ جائز ہے۔ بلکہ بیشتر خواتین تو رونے کے لئے دکھ سکھ کا بھی انتظار نہیں کرتیں اور اکثر اوقات بات بے بات بھی رونے لگ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی خاتون کو روتا دیکھ کر عقلمند سے عقلمند شخص بھی ان کے رونے کی وجہ نہیں بتلا سکتا۔ تاہم "متعلقہ فرد" کو عموماً یہ پیشگی علم ہوتا ہے۔کہ خاتون خانہ (یا غیر خاتون خانہ۔۔۔ جو بھی صورت ہو) کے آئندہ رونے کا سبب کیا ہو گا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہماری پولیس کے متعلقہ افراد کو یہ پیشگی علم ہوتا ہے کہ شہر میں ہونے والا اگلا جرم کب اور کہاں وقوع پذیر ہو گا۔​
 

شمشاد

لائبریرین
رونے کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو سکہ رائج الوقت کی طرح آجکل مقبول عام ہے۔ جی ہاں! یہ رونا مردوں کا رونا ہے۔ گو رونے کی ابتدا بچوں نے کی ہے۔ مگر اسے آرٹ کا درجہ خواتین نے بخشا جبکہ اس کی موجودہ "پروفیشنل" حیثیت مَردوں کی مرہون منت ہے۔ پروفیشنلزم کے اس جدید دور میں وہی لوگ کامیاب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ رونے کے فن پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اسے موقع محل کے مطابق "کیش" کروانے کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں۔ آپ خود دیکھتے رہتے ہیں کہ اگر کسی حکومت کو رونے دھونے پر ملکہ حاصل ہوتا ہے تو وہ "بین الاقوامی خطرات" کا رونا رو کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لیتی ہے اور اپنے اقتدار کو طول دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر حزب اختلاف رونے دھونے میں حزب اقتدار سے بازی لے جائے تو وہ عوام کو حزب اقتدار کی غلامی سے آزاد کرا کر اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ اگر آجر رونے میں کمال حاصل کر لے تو اپنے ملازمین کے سامنے اپنے "بُرے حالات" اور دوسروں کی "زیادتی" کا رونا رو کر اسے کم سے کم تنخواہ پر زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی ملازم اپنے خود ساختہ مصائب کا رونا رو کر آجر کی ہمدردیاں حاصل کر لے تو تنخواہ کے علاوہ بونس بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تاجر رونے کے فن میں ماہر ہو جائے تو وہ اپنے مال کی قیمتوں میں اضافہ کروانے اور اپنے اوپر عائد ٹیکسوں کو کم کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ غرض کہ رونا دھونا ایک ایسا فن ہے کہ جس کسی نے بھی اس میں کمال حاصل کر لیا، وہ اداکار کمال سمیت تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اور (نام نہاد) عزت (جائز و ناجائز) دولت اور (اچھی بری) شہرت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے۔ درحقیقت یہی اس کے لئے "پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ" ہے۔ ایک ایسا ایوارڈ جس کے حصول کے لئے کسی کے آگے جھکنا نہین پڑتا۔ صرف ہر ایک کے آگے رونا پڑتا ہے۔​
قارئین کرام! ہم نے بھی اس فن میں مہارت حاصل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ابتدائی مشق کے طور پر ہم یہ انشائیہ تحریر کر رہے ہیں بعد ازاں "ریاض" کا باقاعدہ آغاز ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ دوران ریاض ہم روتے روتے (تھک ہار کر) سو جائیں ایسے میں اگر متذکرہ بالا عزت دولت شہرت یعنی "عین دال شین سسٹرز" ہمارے گھر پر دستک دینے لگیں تو بلا تکلف ہمیں اٹھا دیجئے گا۔ اور ہماری امی جان کی اس ممانعت پر ہرگز کان نہ دھریئے گا کہ :​
سرہانے "میر" کے آہستہ بولو​
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے​
واضح رہے کہ "میر" ہمارے اصلی نام کا مخفف ہے اور ہماری امی جان پیار سے ہمیں اسی نام سے پکارتی ہیں۔ دیکھئے! ہمیں جگا ضرور دیجئے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں سوتا پا کر "عین دال شین سسٹرز" ہمارے پڑوسی کے گھر پہنچ جائیں۔ اور رونے میں مہارت حاصل کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا پڑے کہ ع منزل انہیں ملی جو (رونے دھونے میں) شریک سفر نہ تھے۔​
 
Top