عمر سیف

محفلین
گزرتا ہوا سال جیسے بھی گزرا
مگر سال کے آخری دن نہایت کٹھن ہیں
سنو۔۔
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح
یہ بجھتا ہوا دل دھڑکتا تو ہے
مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
دسمبر جب بھی آتا ہے
وہ پگلی
پھر سے بیتے موسموں کی
تلخیوں کو
یاد کرتی ہے
پرانا کارڈ پڑھتی ہے
کہ جس میں اُس نے
لکھا تھا
میں لوٹوں گا دسمبر میں

نئے کپڑے بناتی ہے
وہ سارا گھر سجاتی ہے
دسمبر کے ہر اک دن کو
وہ گن گن کر بتاتی ہے
جونہی پندرہ گزرتی ہے
وہ کچھہ کچھہ ٹوٹ جاتی ہے
مگر پھر بھی
پرانی البموں کو کھول کر
ماضی بلاتی ہے
نہیں معلوم یہ اُس کو
کہ بیتے وقت کی خوشیاں
بہت تکلیف دیتی ہیں
محض دل کو جلاتی ہیں
یونہی دن بیت جاتے ہیں
دسمبر لوٹ جاتا ہے
مگر وہ خوش فہم لڑکی
دوبارہ سے کیلنڈر میں
دسمبر کے مہینے کے صفحےکو
موڑ کر، پھر سے
پھر سے
دسمبر کے سحر میں
ڈوب جاتی ہے
کہ آخر اُس نے لکھا تھا۔۔
میں لوٹوں گا دسمبر میں
 

عمر سیف

محفلین
کبھی دامن اگر نہ چھڑا سکو
زمانے کی خود غرض محبّتوں سے
اور دسمبر کی سرد اداس راتوں میں
چاند اپنی چاندنی کی بانہوں میں
بانہیں ڈالے
تیری بالکنی میں اترے
تو بیٹھہ کر تنہائی میں
کبھی گور کرنا ۔۔ تمہیں!
میرے ادھورے افسانوں
اور ٹوٹے پھوٹے جملوں میں
کھوئے کھوئے سے لفظوں میں
اک بے زباں محبّت کا اظہار ملے گا
 

عمر سیف

محفلین
رات اُس نے پوچھا تھا
تم کو کیسی لگتی ہے
چاندنی دسمبر کی
میں نے کہنا چاہا تھا
سال و ماہ کے بارے میں
گفتگو کے کیا معنی ؟
چاہے کوئی منظر ہو
دشت ہو، سمندر ہو
جون ہو، دسمبر ہو
دھڑکنوں کا ہر نغمہ
منظروں پہ بھاری ہے
ساتھہ جب تمہارا ہو
دل کو اک سہارا ہو
ایسا لگتا ہے جیسے
اک نشہ سا طاری ہو
لیکن اُس کی قربت میں
کچھہ نہیں کہا میں نے
تکتی رہ گئی مجھہ کو
چاندنی دسمبر کی ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
کسی سر سبز وادی میں
کسی خوش رنگ جگنو کو
کبھی اُڑتے ہوئے دیکھوں
“مجھے تم یاد آتے ہو“
خوابوں میں، سوالوں میں
محبّت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتی ہوں
تمہیں واپس بلاتی ہوں
یوں خود کو آزماتی ہوں
کوئی جب نظم لکھتی ہوں
اُسے عنوان دیتی ہوں
“مجھے تم یاد آتے ہو“
کبھی باہر نکلتی ہوں
کسی رستے پہ چلتی ہوں
کہیں دو دوستوں کو کھلکھلاتے
مسکراتے دیکھہ لیتی ہوں
کسی کو گنگناتے دیکھہ لیتی ہوں
تو پھر۔۔۔
میری رفاقت کے اوّل و آخر
“مجھے تم یاد آتے ہو“
دسمبر میں جو موسم کا مزہ لینے کو جی چاہے
کوئی پیاری سہیلی فون پر بولے
بڑا ہی مست موسم ہے
چلو باہر نکلتے ہیں
چلو بوندوں سے کھیلیں گے
چلو بارش میں بھیگیں گے
تو اُس لمحے
تمہاری یاد ہولے سے
کوئی سرگوشی کرتی ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ گرتے ہیں
میں آنکھوں کو جھکاتی ہوں
بظاہر مسکراتی ہوں
فقط اتنا ہی کہتی ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
 

عمر سیف

محفلین
دیکھ دسمبر
اب مت آنا
دیکھ دسمبر
میرے اندر کتنے صحرا پھیل چکے ہیں
تنہائی کی ریت نے
میرےسارے دریا پاٹ دیئے ہیں
اب میں ہوں
اور میرے بنجر پن کی بوجھلتا ہے
!دیکھہ دسمبر
تیری برفاب شبوں میں
تیری بے خواب شبوں میں
خواب سوئیٹر کون بُنے گا
روح کے اندر گرتی برفیں کون چُنے گا
دیکھ دسمبر
اپنے دُکھہ کی برف پہن کر
دھوپ دیاروں تک مت جانا
میرے پیاروں تک مت جانا
دیکھ دسمبر
اب مت آنا
اب مت آنا۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
 

عمر سیف

محفلین
د سمبر کی بھیگی شاموں میں
کا لی لمبی راتوں میں
تیری یاد ہمراہ ہو تو
شامیں یو نہی گزر جائیں
ہم تیری یادوں میں کھو جائیں
تو یہ دسمبر تو کیا
کئی دسمبر گزر جائیں
 

عمر سیف

محفلین
دسمبر میں چلے آؤ۔۔۔
قبل اس کے
دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے
جسم بے جان ہو جائے
تمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں
بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہوجائے
برسوں کی ریاضت سے
جو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے
تمہارے نام کی تسبیح بھلادیں دھڑکنیں میری
یہ دل نادان ہو جائے
تیری چاہت کی خوشبو سے بسا آنگن جو دل کا ہے
وہ پھر ویران ہوجائے
قریب المرگ ہونے کا کوئی سامان ہوجائے
قبل اس کے۔۔۔۔
دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں
شراروں کی طرح بن کر، میرا دامن جلا ڈالیں
بہت ممکن ہے
پھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے
ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں۔۔۔ کہ تیری یاد بھی
کہیں آہ بن کر نکل جائے
موسمِ دل بدل جائے
یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے
!قبل اس کے۔۔۔
دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے تم کو یہ آواز دیتے ہیں
کہ تم ملنے چلے آؤ
دسمبر میں چلے آؤ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اُس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چھو گیا
پل بھرمہک اُٹھا

دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کئے ذرّے ستارے ہیں
گل و بلبل ، مہ و انجم وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمہ سُناتی ہے
دسمبر! ہم سےمت پوچھہ ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹہری ہے
محبّت برف جیسی ہے یہاں، اور دھوپ کھیتوں میں اُگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے تو۔۔ شب کے
سارے سپنے راکھہ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو
ڈبو کر ہم سُنہرے خواب بُنتے ہیں پھر
اُن خوابوں میں جیتے ہیں
اُنہی خوابوں میں مرتے ہیں
دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی۔۔
دسمبر! اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا

 

عمر سیف

محفلین
اُسے کہنا دسمبر آگیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کے گُپھا میں
ڈوب جائے گا
اُسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اُسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کے کُہرے
دیواروں میں لرزاں ہیں
اُسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور اُن پر برف کی چادر بچھی ہے
اُسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اُسے کہنا کہ لوٹ آئے
 

عمر سیف

محفلین
دسمبر۔۔۔
جیسے کوئی بہت اپنا
چند دنوں کی رخصت لے کر
دور کہیں کسی دیس سے آئے
سب کے دُکھہ سُکھہ بانٹے
اور
بہت سی یادوں کو دہرائے
اور جب لوٹ کے جانا ہو
تو امیدیں اور آس بندھائے
کہ وہ پھر سے لوٹ آئے گا۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
دسمبر لوٹ آیا ہے
تمہارے لوٹ آنے کی
نئی اُمید جاگی ہے

ابھی پچھلے برس تم نے
میرے سینے پہ سر رکھہ کر
حیا سے منہ چھپایا تھا

ابھی پچھلے برس ہی تو
دسمبر کے مہینے میں
تمہیں بانہوں میں تھاما تھا

مگر اپریل آنے تک
تمہاری جھیل آنکھوں میں
نیا سپنا سمایا تھا

میرے چھوٹے سے آنگن میں
تمہیں وحشت سی ہوتی تھی
مجھے تم نے بتایا تھا

کسی کی قید میں رہنا
مجھے اچھا نہیں لگتا
میں اک آزاد پنچھی ہوں

سُنا ہے پھر سے تنہا ہو
ستمبر کے مہینے سے
بہت خاموش رہتی ہو

کہ جس کو تم نے چاہا تھا
وفا کے نام سے اُس کو
بہت وحشت سی ہوتی تھی

وہ اک آزاد پنچھی تھا
کسی کی قید میں رہنا
اُسے اچھا نہ لگتا تھا

سُنا ہے میرے آنگن کی
تمہیں اب یاد آتی ہے
سُنا ہے تم پشیماں ہو

چلو پھر ایسا کرتے ہیں
دسمبر کا مہینہ ہے
نیا آغآز کرتے ہیں

تمہیں بانہوں میں لے لوں میں
میرے سینے پہ سر رکھہ کر
حیا سے منہ چُھپا لو تم

دسمبر لوٹ آیا ہے
سُنو اب لوٹ آؤ تم ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
سرمئی شام میں بکھری
ملگجے دھندلکوں میں لپٹی
تمہاری کئی یادیں
دسمبر کے ساتھہ پھر لوٹ آئیں ہیں
!!یہ سرد موسم
تمہارے وعدوں اور ارادوں کی طرح
لبوں پر ایک جامد چپ لیے
خشک پتّوں کی طرح
!!میری دہلیز پر بکھر گیا ہے
بکھر گیا ہے اور جانے کیوں ؟؟؟
اس کی سرسراہٹ سے
جب بھی ایک مانوس سی آہٹ اُبھرتی ہے
یوں محسوس ہوتا ہے
تم سارے وعدے ایفا کرنے
پھر لوٹ آؤ گے
 

عمر سیف

محفلین
کچھ تیری یاد میں‌ بھی شدت ہے
اور کچھ بھیگتا دسمبر ہے
اور موسم بھلا میں‌کیا دیکھوں
مجھ پہ ٹہھرا ہوا دسمبر ہے
 

عیشل

محفلین
آج پھر تیری یاد مانگی تھی
آج پھر وقت ہم کو ٹال گیا
تو دسمبر کی بات کرتا ہے
اور ہمارا تو سارا سال گیا
 
Top