وہ کیسے خواب لمحے تھے۔ آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
ایک بہت پرانی نظم آج نظر سے گزری۔ احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت چاہوں گا۔
وہ کیسے خواب لمحے تھے
صبا پیغام لائی تھی
گلوں کی بے قراری کا
عجب دیوانگی سی تھی
خزاں دیدہ فضاؤں میں
ردائے خوف نے سب کو
چھپا رکھا تھا دامن میں
کہیں شبنم بہاتی تھی
زمیں پر خون کے آنسو
کہیں کلیوں کے ہونٹوں سے
تبسم روٹھ جاتا تھا
عنادل شور کرتے تھے
بہاروں کی جدائی میں
ہمارے پیار کا بادل برستا تھا جو اس لمحے
گلوں کے غمزدہ چہروں پہ
رونق لوٹ آتی تھی
ہماری گفتگو کا پھر وہاں آغاز ہوتا تھا
وہ کیسے خواب لمحے تھے
کبھی تو مسکراتی تھی
کبھی تو بات کرتی تھی
کبھی چہرے پہ زلفیں ڈالتی اور رات کرتی تھی
سمٹ کر میری بانہوں میں
کبھی تو جھول جاتی تھی
سبھی رسمیں زمانے کی
تو اس دم بھول جاتی تھی
تری جانب کبھی میں دیکھتا تھا، جب محبت سے
تو کتنی بے نیازی سے جھکاتی تھی نگاہوں کو
مرا دل جھوم اٹھتا تھا
کبھی رخسار بھی تیرا
میں بڑھ کر چوم لیتا تھا
مجھے سب یاد ہے جاناں!
گلوں کے درمیاں جب بیٹھ کر
ہم پیار کرتے تھے
ترا دیدار کرتے تھے
یہی اقرار کرتے تھے
نہ ہوں گے ہم جدا تم سے
کسے معلوم تھا لیکن
محبت کے یہی لمحے
بچھڑجانے کے لمحے تھے
. آصف شفیع.
 
Top