وہ ملاقات آخری ہائے۔ برائے اصلاح

اس کی شوخی میں سادگی بھی تھی
اور اداوں میں دلکشی بھی تھی
اس کے آنے سے گھر منور تھا
لوگ کہتے ہیں چاندنی بھی تھی
دل یہ کہتا ہے مجھ سے رو رو کر
وہ جو پہلی تھی آخری بھی تھی
داد تو دو کہ ہم کو ظالم سے
واسطہ تھا ہی دل لگی بھی تھی
دل نے اس بار آہ تک نہ کی
آنکھ ان سے مری لڑی بھی تھی
وہ ملاقات آخری ہائے!
ہنستے ہنستے وہ رو پڑی بھی تھی
ہر ادا اس کی یاد ہے ہم کو
وہ جو سادہ تھی چنچلی بھی تھی
ہم نے ڈر ڈر کے کہہ دیا آخر
بات مشکل تھی لازمی بھی تھی
وہ جسے شعر سے شغف نہ تھا
ایک شاعر کی شاعری بھی تھی
اب تو گویا کہ مر گیا ہوں میں
ساتھ وہ تھی تو زندگی بھی تھی
آج بلبل جسے تو روندے ہے
یہ جو خس ہے کبھی کلی بھی تھی
ضعف شمع پہ طنز کرتے ہو!
شام سے تا سحر جلی بھی تھی
وہ بچھڑنے کی بات پر مجھ سے
شان کئی بار تو لڑی بھی تھی
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار درست ہیں
واسطہ تھا ہی دل لگی بھی تھی
دل نے اس بار آہ تک نہ کی
پہلے مصرع میں 'ایک' کی کمی ہے اس طرح دیکھیں
ربط اک تھا ہی....
دل نے اس بار آہ تک نہ کی
آنکھ ان سے مری لڑی بھی تھی
'نہ کی 'میں میں دو حرفی نا آ رہا ہے جسے پسند نہیں کیا جاتا
دل نے اس بار آہ تک بھی نہ کی
کیا جا سکتا ہے

ہم نے ڈر ڈر کے کہہ دیا آخر
بات مشکل تھی لازمی بھی تھی
بات تو مونث ہے لیکن کہہ دیا کے ساتھ استعمال ہوا ہے

وہ جسے شعر سے شغف نہ تھا
ایک شاعر کی شاعری بھی تھی
پہلا مصرع وہی نہ کا تلفظ
شغف ہی نہ تھا
کر دیں تو بیانیہ مزید بہتر ہو جائے گا

آج بلبل جسے تو روندے ہے
یہ جو خس ہے کبھی کلی بھی تھی
کلی تو کبھی خس بن ہی نہیں سکتی

ضعف شمع پہ طنز کرتے ہو!
شام سے تا سحر جلی بھی تھی
شمع کی ع پرجزم ہے۔ غلط تلفظ باندھا گیا ہے
 
Top