وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا ۔ اطہر نفیس

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا

اِک ہِجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دِل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اُٹھائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خُود بھی کسی کے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

اِک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صُورت گر کچھ چہروں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
کلام : اطہر نفیس​
 

فرقان احمد

محفلین
ایک راز کی بات ہے، واقعے کی تفصیل نہ بتا پاؤں گا۔ اس غزل کو سن کر کوئی فرد خودکشی بھی کر سکتا ہے کیا؟ جی ہاں! ایسا ہوا۔ اور اب تو زمانے گزر گئے! اف! بڑی بے درد غزل ہے ۔۔۔
وہ زہر جو دل میں اتار لیا، پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا! :love-over:
 
آخری تدوین:
ایک راز کی بات ہے، واقعے کی تفصیل نہ بتا پاؤں گا۔ اس غزل کو سن کر کوئی فرد خودکشی بھی کر سکتا ہے کیا؟ جی ہاں! ایسا ہوا۔ اور اب تو زمانے گزر گئے! اف! بڑی بے درد غزل ہے ۔۔۔
وہ زہر جو دل میں اتار لیا، پھر اس کے ناز اٹھائیں! :love-over:
جب انسان کلام کو خود پر طاری کرلے تو وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہوجاتا ہے اسے ہوش نہیں رہتا اور وہ گزرے وقتوں کی تلخ یادوں میں خود کو ڈبو لیتا ہے۔
 
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂِ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
 
Top