وہ سُنا رہے تھے لیکن نہ سنا گیا فسانہ - سید محمد حنیف اخگر

کاشفی

محفلین
غزل
(سید محمد حنیف اخگر)

وہ سُنا رہے تھے لیکن نہ سنا گیا فسانہ
ذرا آنکھ لگ گئی تھی کہ گزر گیا زمانہ

غم نو بہ نو کی زد سے ہے محال دل بچانا
کبھی دکھ کے تازیانے کبھی درد کا فسانہ

اسی کشمکش میں الفت کا گزر گیا زمانہ
کبھی آپ ہچکچائے کبھی دل کہا نہ مانا

کہیں تم بھی ہو نہ جانا مری حیرتوں میں شامل
مجھے آئینہ بنا کر مرے رو برو نہ آنا

وہ بہار تازہ بن کر جو ادا سے آرہے ہیں
ہے اُنہیں چمن میں شاید کوئی اور گل کھلانا

ہیں نئے نئے تصور تو نئی نئی ہے قامت
کسی جسم پر نہیں ہے کوئی پیرہن پرانا

رہ و رسم عاشقی میں یہ ہے اپنا حال اخگر
کبھی دوسروں پہ ہنسنا، کبھی خود پہ مُسکرانا
 
Top