وہ امریکی جیل جہاں داعش پیدا ہوئی

منقب سید

محفلین
اس لڑی پر ابھی تک امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سرکاری ترجمان کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ تشنگی سی محسوس ہو رہی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کچھ رائے دہندگان کے ليے يہ بہت سہل ہوتا ہے کہ کسی بھی ايسی خبر کی تشہير شروع کر ديتے ہيں جس سے ان کی پہلے سے طے شدہ سوچ اور واقعات کی حوالے سے سمجھ بوجھ کو مزيد تقويت ملتی ہے اور پھر ان کو بنياد کر باقی تمام شواہد کو نظرانداز کر ديا جاتا ہے۔ اگر کيمپ بوکا ميں البغدادی کی موجودگی کی رپورٹس کچھ افراد کے نزديک ايک ناقابل ترديد ثبوت ہے کہ اسے عالمی منظرنامے پر روشناس کروانے ميں کسی بھی پہلو سے امريکہ ذمہ دار ہے تو پھر ميں چاہوں گا اس رپورٹ پر بھی ايک نظر ڈالیں جس ميں يہ واضح کيا گيا ہے کہ سال 2009 ميں کيمپ سے نکلتے ہوئے اس نے وہاں کے نگرانوں کو کن الفاظ ميں دھمکی دی تھی۔


ISIS Leader: ‘See You in New York’

http://www.thedailybeast.com/articles/2014/06/14/isis-leader-see-you-in-new-york.html

ايک ايسا قيدی جو اپنی اسيری کی مدت پوری ہونے کے بعد ان عہديداروں کو دھکی دے رہا ہے جنھوں نے اسے قید کيا تھا، اس سے يہ توقع ہرگز نہيں کی جا سکتی کہ آج وہ خطے ميں ہمارے ايجنڈے کی تکميل کے ليے اپنی جان خطرے ميں ڈالنے کے ليے تيار ہو جائے گا۔ اور يقينی طور پر ہمارے جنگی طياروں کی جانب سے اس کے محفوظ ٹھکانوں پر مسلسل بمباری اور اس کے ظالمانہ تسلط سے علاقے کے لوگوں کو نجات دلانے کے ليے اپنے اسٹريجک اتحادوں کو وسائل کی فراہمی اور مکمل تعاون ايسے اقدامات ہرگز نہيں ہيں جن کی بنياد پر البغدادی اپنے اس بدترين دشمن کے اشاروں پر عمل کرنا شروع کر دے گا جس پر حملے کا اس نے وعدہ کر رکھا ہے۔

يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ کچھ رائے دہندگان جو سال 2009 ميں البغدادی کو رہا کرنے پر امريکہ کو ہدف تنقيد بناتے ہيں اور اس کے تمام مظالم کے ليے ہميں ذمہ دار سمجھتے ہيں، انھی افراد سے اگر گوانتاناموبے کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ اپنی ہی دليل کو بالکل الٹ ديتے ہيں اور انتہائ جذباتی انداز ميں امريکی حکومت پر اس حوالے سے زور ديتے ہيں کہ وہاں موجود تمام قيديوں کو غير مشروط رہائ ملنی چاہيے۔

امريکی حکومت کی کبھی بھی يہ خواہش يا کوشش نہيں رہی کہ دانستہ عالمی سطح پر دہشت گردوں کو متعارف کروايا جائے۔ ان افراد کو کيمپ بوکا، گوانتاناموبے اور ديگر مراکز ميں قيد کرنے کا مقصد ہميشہ يہی رہا ہے کہ عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ کیا جاسکے اور مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔ يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ ان ميں سے اکثر افراد کو اس وقت گرفتار کيا گيا تھا جب وہ عراق اور افغانستان ميں مسلح کاروائيوں ميں ملوث پائے گئے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

اوشو

لائبریرین
سال 2009 ميں کيمپ سے نکلتے ہوئے اس نے وہاں کے نگرانوں کو کن الفاظ ميں دھمکی دی تھی۔


ايک ايسا قيدی جو اپنی اسيری کی مدت پوری ہونے کے بعد ان عہديداروں کو دھکی دے رہا ہے جنھوں نے اسے قید کيا تھا، ا

اگر اس نے دھمکی دی تھی تو اس کا کیا فوری ردِعمل ظاہر کیا گیا؟
 

Fawad -

محفلین
اگر اس نے دھمکی دی تھی تو اس کا کیا فوری ردِعمل ظاہر کیا گیا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت کا يہ کام نہيں ہے کہ دنيا بھر ميں ذاتی تشہير يا سياسی مقاصد کے ليے مذہب اور سياست کے لبادے ميں ہماری پاليسيوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بند کرنے کی سعی کرے۔ ميں نے حراست سے نکلنے کے بعد رپورٹ کيے جانے والے بيان کا حوالہ اس تناظر ميں ديا تھا کہ وہ شروع دن سے عراق ميں صدام حکومت کے خلاف امريکی کاروائ کی وجہ سے امريکہ مخالف جذبات رکھتا تھا۔ اسی ليے يہ تاثر اور سوچ بالکل غير منطقی ہے کہ اب وہ ہمارے مفادات کے ليے کام کرنے پر راضح ہو گا جبکہ ہم اس کی دہشت گرد تنظيم کو بے اثر کرنے اور اس کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے ليے ايک عالمی جدوجہد کا اہم حصہ ہيں۔

تاہم البغدادی سے قطع نظر مجموعی طور پر امريکی حکومت عراق سے اپنی افواج کے انخلاء کے بعد کسی دہشت گرد تنظيم کے اس طرح منظر عام پر نمودار ہونے کے حوالے سے نا صرف يہ کہ ادراک رکھتی تھی بلکہ بارہا اس کا اظہار بھی کيا گيا تھا۔ اور اس کی وجہ يہ خدشہ تھا کہ عراق ميں ايک نيا سياسی نظام اپنے ارتقائ مراحل ميں تھا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے فعال اور مستحکم نہيں تھے کہ آئ ايس جيسی دہشت گرد تنظيم سے نبرد آزما ہو سکيں۔

ميں چاہوں گا کہ سال 2011 ميں امريکی اور حکومت کے درميان جاری ايک اہم تنازعے کے ضمن ميں عالمی شہہ سرخيوں پر ايک سرسری نگاہ ڈاليں جب عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کے ٹائم فريم ميں ردوبدل اور اس ضمن ميں قواعد وضوابط کی بنياد پر دونوں حکومتوں ميں ٹھن گئ تھی۔ امريکی افواج کو ايک مخصوص مدت کے ليے عراق ميں روکنے کے پيچھے يہی منطق تھی کہ خطے ميں دہشت گردوں کو قدم جمانے کا موقع نا مل سکے۔

يہ سفارتی تعطل اس وقت ختم ہوا جب عراقی وزير اعظم نوری المالکی نے امريکی گزارشات کو يہ کہہ کر يکسر مسترد کر ديا تھا کہ عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کی صورت ميں انھيں مقامی عدالتوں ميں مقدمات کی صورت ميں کسی قسم کا قانونی تحفظ فراہم نہيں کيا جائے گا۔ عراقی وزيراعظم کے فيصلے سے يہ واضح ہو گيا کہ يہ عراق کی حکومت تھی جس نے امريکی شرائط پر افواج کے عراق ميں قيام پر رضامندی سے صاف انکار کر ديا تھا۔

http://www.nbcnews.com/id/44998833/...ty-issue-scuttled-us-troop-deal/#.U7QY9rHyQ-w

ميں يہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ سال 2011 ميں جاری تشدد کے واقعات ہی وہ محرک تھا جس کے سبب امريکی حکومت مزيد کچھ عرصے کے ليے فوج کا کچھ حصہ عراق ميں رکھنے پر زور دے رہی تھی۔ دونوں حکومتوں کے درميان کئ ماہ تک اس حوالے سے بحث جاری رہی کہ آيا امريکی افواج کو مزيد کچھ دير کے ليے عراق ميں رکنا چاہيے کہ نہيں – باوجود اس کے کہ سياسی لحاظ سے دونوں حکومتوں کے ليے يہ بڑا حساس معاملہ تھا۔

حتمی تجزيے ميں آئ ايس آئ ايس جيسی دہشت گرد تنظيم کا عراق ميں منظر عام پر آنا اور تشدد کے واقعات ميں حاليہ اضافے کے ليے امريکی حکومت کو مورد الزام قرار نہيں ديا جا سکتا ہے کيونکہ عراقی کی منتخب جمہوری حکومت کی جانب سے امريکی افواج کو مزید قيام کی اجازت نہيں دی گئ تھی۔

امريکی افواج کے عراق سے انخلاء کے بعد وہاں کی فعال اور خودمختار حکومت رياست کے تحفظ اور سيکورٹی کے ليے ذمہ دار ہے۔

تاہم امريکی حکومت اور صدر اوبامہ نے بذات خود بارہا اس بات پر زور ديا ہے کہ ہم بدستور عراق کے ساتھ طويل المدتی بنيادوں پر سفارتی تعلقات برقرار رکھيں گے۔ اب يہ عراق کی قيادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورت حال کی نزاکت کے مطابق فوری طور پر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کريں۔ ہم ان سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ آئين کے مطابق جلدازجلد ايک ايسی نئ حکومت کے تشکيل کے ليے ٹھوس اقدامات اٹھائيں جس ميں سب کی نمايندگی شامل ہو۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

اوشو

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت کا يہ کام نہيں ہے کہ دنيا بھر ميں ذاتی تشہير يا سياسی مقاصد کے ليے مذہب اور سياست کے لبادے ميں ہماری پاليسيوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بند کرنے کی سعی کرے۔ ميں نے حراست سے نکلنے کے بعد رپورٹ کيے جانے والے بيان کا حوالہ اس تناظر ميں ديا تھا کہ وہ شروع دن سے عراق ميں صدام حکومت کے خلاف امريکی کاروائ کی وجہ سے امريکہ مخالف جذبات رکھتا تھا۔ اسی ليے يہ تاثر اور سوچ بالکل غير منطقی ہے کہ اب وہ ہمارے مفادات کے ليے کام کرنے پر راضح ہو گا جبکہ ہم اس کی دہشت گرد تنظيم کو بے اثر کرنے اور اس کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے ليے ايک عالمی جدوجہد کا اہم حصہ ہيں۔

تاہم البغدادی سے قطع نظر مجموعی طور پر امريکی حکومت عراق سے اپنی افواج کے انخلاء کے بعد کسی دہشت گرد تنظيم کے اس طرح منظر عام پر نمودار ہونے کے حوالے سے نا صرف يہ کہ ادراک رکھتی تھی بلکہ بارہا اس کا اظہار بھی کيا گيا تھا۔ اور اس کی وجہ يہ خدشہ تھا کہ عراق ميں ايک نيا سياسی نظام اپنے ارتقائ مراحل ميں تھا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے فعال اور مستحکم نہيں تھے کہ آئ ايس جيسی دہشت گرد تنظيم سے نبرد آزما ہو سکيں۔

ميں چاہوں گا کہ سال 2011 ميں امريکی اور حکومت کے درميان جاری ايک اہم تنازعے کے ضمن ميں عالمی شہہ سرخيوں پر ايک سرسری نگاہ ڈاليں جب عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کے ٹائم فريم ميں ردوبدل اور اس ضمن ميں قواعد وضوابط کی بنياد پر دونوں حکومتوں ميں ٹھن گئ تھی۔ امريکی افواج کو ايک مخصوص مدت کے ليے عراق ميں روکنے کے پيچھے يہی منطق تھی کہ خطے ميں دہشت گردوں کو قدم جمانے کا موقع نا مل سکے۔

يہ سفارتی تعطل اس وقت ختم ہوا جب عراقی وزير اعظم نوری المالکی نے امريکی گزارشات کو يہ کہہ کر يکسر مسترد کر ديا تھا کہ عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کی صورت ميں انھيں مقامی عدالتوں ميں مقدمات کی صورت ميں کسی قسم کا قانونی تحفظ فراہم نہيں کيا جائے گا۔ عراقی وزيراعظم کے فيصلے سے يہ واضح ہو گيا کہ يہ عراق کی حکومت تھی جس نے امريکی شرائط پر افواج کے عراق ميں قيام پر رضامندی سے صاف انکار کر ديا تھا۔

http://www.nbcnews.com/id/44998833/...ty-issue-scuttled-us-troop-deal/#.U7QY9rHyQ-w

ميں يہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ سال 2011 ميں جاری تشدد کے واقعات ہی وہ محرک تھا جس کے سبب امريکی حکومت مزيد کچھ عرصے کے ليے فوج کا کچھ حصہ عراق ميں رکھنے پر زور دے رہی تھی۔ دونوں حکومتوں کے درميان کئ ماہ تک اس حوالے سے بحث جاری رہی کہ آيا امريکی افواج کو مزيد کچھ دير کے ليے عراق ميں رکنا چاہيے کہ نہيں – باوجود اس کے کہ سياسی لحاظ سے دونوں حکومتوں کے ليے يہ بڑا حساس معاملہ تھا۔

حتمی تجزيے ميں آئ ايس آئ ايس جيسی دہشت گرد تنظيم کا عراق ميں منظر عام پر آنا اور تشدد کے واقعات ميں حاليہ اضافے کے ليے امريکی حکومت کو مورد الزام قرار نہيں ديا جا سکتا ہے کيونکہ عراقی کی منتخب جمہوری حکومت کی جانب سے امريکی افواج کو مزید قيام کی اجازت نہيں دی گئ تھی۔

امريکی افواج کے عراق سے انخلاء کے بعد وہاں کی فعال اور خودمختار حکومت رياست کے تحفظ اور سيکورٹی کے ليے ذمہ دار ہے۔

تاہم امريکی حکومت اور صدر اوبامہ نے بذات خود بارہا اس بات پر زور ديا ہے کہ ہم بدستور عراق کے ساتھ طويل المدتی بنيادوں پر سفارتی تعلقات برقرار رکھيں گے۔ اب يہ عراق کی قيادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورت حال کی نزاکت کے مطابق فوری طور پر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کريں۔ ہم ان سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ آئين کے مطابق جلدازجلد ايک ايسی نئ حکومت کے تشکيل کے ليے ٹھوس اقدامات اٹھائيں جس ميں سب کی نمايندگی شامل ہو۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

پچھلے 239 سال کی امریکی تاریخ میں امریکہ اب تک کتنے سال اندرونی و بیرونی جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا؟
کیا امن ِ عالم کے لیے کام اس طرح کیا جاتا ہے؟
 

زیک

مسافر
پچھلے 239 سال کی امریکی تاریخ میں امریکہ اب تک کتنے سال اندرونی و بیرونی جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا؟
کیا امن ِ عالم کے لیے کام اس طرح کیا جاتا ہے؟
پچھلے چودہ سو سال میں عالم اسلام کتنے سال جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا؟ کیا امن و سلامتی اسی کا نام ہے؟
 

اوشو

لائبریرین
پچھلے چودہ سو سال میں عالم اسلام کتنے سال جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا؟ کیا امن و سلامتی اسی کا نام ہے؟
ایک پنجابی مثال یاد آ رہی ہے۔
چھڈ ومج چھڈے وڑدا کٹے تھلے
جب چودہ سو سال کی اسلامی جنگی سرگرمیوں کے بارے میں جاننا ہو گا تو آپ کو ضرور زحمت دوں گا۔
فی الحال میرے مخاطب امریکی حکومت کے ترجمان فواد ہیں اور اس سوال کا جواب بھی میں انہی سے چاہوں گا۔ ان کی اس خوبی کی تعریف کروں گا کہ وہ سوال کا ٹو دی پوائنٹ جواب دیتے ہیں۔ پڑھے لکھے جاہلوں کی طرح ہر بات پر تنقید برائے تنقید یا سوال برائے سوال نہیں کرتے۔
@Fawad -
 
مریکی حکومت کے ترجمان فواد ہیں اور اس سوال کا جواب بھی میں انہی سے چاہوں گا۔ ان کی اس خوبی کی تعریف کروں گا کہ وہ سوال کا ٹو دی پوائنٹ جواب دیتے ہیں۔ پڑھے لکھے جاہلوں کی طرح ہر بات پر تنقید برائے تنقید یا سوال برائے سوال نہیں کرتے۔
@Fawad -
یہ فواد کا پرفیسشنل ازم ہے سر جی۔ امریکیوں کی اس بات کا تو میں بھی مداح ہوں :)
 
یہ فواد کا پرفیسشنل ازم ہے سر جی۔ امریکیوں کی اس بات کا تو میں بھی مداح ہوں :)
بھائی یہ خوبی تو اصل میں سارے عالم اسلام کی تھی بس اب فواد کی طرح کےچند ایک دوستوں میں رہ گئی ہے ۔ جبکہ غیر مسلموں نے اسے اچھی طرح اپنا لیا ہے۔
 

x boy

محفلین
عراق میں کوئی امریکی جیل نہیں وہ تو عراقی جیل ہے رافضیوں کا جہاں ایسے لوگ پیدا کردیئے جاتے ہیں
 

زیک

مسافر
پچھلے 239 سال کی امریکی تاریخ میں امریکہ اب تک کتنے سال اندرونی و بیرونی جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا؟
کیا امن ِ عالم کے لیے کام اس طرح کیا جاتا ہے؟

پچھلے چودہ سو سال میں عالم اسلام کتنے سال جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا؟ کیا امن و سلامتی اسی کا نام ہے؟
ان دونوں پوسٹس کو پڑھ کر واضح ہونا چاہیئے کہ میرا سوال rhetorical تھا جس کا مقصد اصل سوال کا ہی غلط ہونا ثابت کرنا تھا۔ مگر اسلام کا ذکر کرتے ہی مسلمانی اخلاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے خدا حافظ
 
آخری تدوین:
پچھلے چودہ سو سال میں عالم اسلام کتنے سال جنگی سرگرمیوں میں مصروف رہا؟ کیا امن و سلامتی اسی کا نام ہے؟
امریکہ ایک ملک ہے ۔۔۔۔ مذہب نہیں
امریکہ کی جنگوں کا تقابل کرنا ہے تو روس، برطانیہ، چین، جاپان، اٹلی، ترکی، اسرائیل سے کی جیے۔ اسلام کی جنگوں کا تقابل کرنا ہے تو مسیحیت، یہودیت، ہندو مت اور بدھ مت سے کی جیے۔
 

اوشو

لائبریرین

یہ فواد کا پرفیسشنل ازم ہے سر جی۔ امریکیوں کی اس بات کا تو میں بھی مداح ہوں :)
جی بالکل بجا فرمایا۔ لیکن آپ اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ کچھ لوکل اور کچھ امپورٹڈ امریکیوں کی عادت ہے کہ بات چاہے کچھ بھی ہو رہی ہو وہ اپنی چھابڑی لگا کر اسلام مخالف یا پاکستان مخالف منجن بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔
 
Top