وقت کی ڈائری سے اک لمحہ

ماہا عطا

محفلین
وقت کی ڈائری سے اک لمحہ

سفرِ زیست نے خو ش گمانی کے سبب تو کم ہی دے تھے مگر درونِ دل اعتبار کا ستارہ بے شک جھلملاتا ہوا احساس کے دریچے میں منور تھا. کائنات اپنی وسعت کے اعتبار سے تضاد کی حامل بھی ہے ، مگر کچھ خاص لوگوں کے حوالے سے دل کی دنیا تضاد کے زائقہ سے نا آشن تھی.......زیست کا دیا جل رہا تھا . لامحدود کائنات اپنے محور پہ روا ں دواں تھی کہ اچانک وقت کے دامن میں کچھ محبت بھرے لمحے درک کر بکھر گئے .............. عجب بےبسی تھی,. وحشتوں کا طوفان.......جیسے کہ اوراقِ دل کے سبھی ورق اُڑ گئے ھوں .

دھند اور ہولناک سناٹا موم کے گرم قطروں کی طرح وجود کی سرحدوں میں پھیل گیا تھا،زندگی احساسِ سود و زیاں سے بیگانہ سی لگتی تھی مگر وقت کا پرندہ کبھی لمحے بھر کو بھی سانس لینے کو نہیں تھمتا........ لمحہ مشکل تھا مگر زندگی اپنے تقاضوں کے ساتھ مجھ سے رو برو تھی ،جس نے دشوار لمحوں کو مزید دشوار کر دیا تھا . بے حد کمزور لمحوں میں مجھے یہ ادراک ہوا کہ حساسیت اور کائنات کی لا محدودیت تبھی ہم آہنگ ہوتی ہے جب ہم جذباتی طور پہ متوازن ہوں........ گر جو کوئی لمحہ ہاتھ سے چھوٹا تو کوئی ہاتھ ہمیں اپنے حوصلوں سے کبھی تھامےگا نہیں ، نہ ہی ہمارے خاطر اپنے حوصلوں کو آزمایگا ،نہ تھم کر انتظار ہی کر پایگا ...... جب یقین کا پرندہ اپنا آشیانہ چھوڈ پرواز کر جاتا ہے تو یقین کے مالا کی کچھ موتی درک کر ٹوٹ جاتے ہیں ........ تاریک لمحوں کے دامن میں کچھ گرم قطرے بھیگے موسم بن کر لہو کو جل تھل کر جاتے ہیں، وقت کچھ اور مشکل ہو جاتا ہے . محبتوں کی حقیقت زندگی میں محض لفظوں کی طرح نہیں ہوتی وہ تو حرارتِ حیات ہے ....... مگر جب یہی حرارتِ حیات لفظوں کے پیرہن میں مقید ہو تو لگتا ہے محورِ کائنات تھم گئی ہے...... تھمنے کا احساس شاید اس لئے ہوتا ہو کہ زندگی کو تو بہرحال رکنا نہیں ہے ، پرواز اپنا رخ بدل سکتی ہے ابنی رفتار نہیں

.مدتوں تلک یہ سوال روح پہ بوجھ کی طرح رہتا ہے کہ کیا رشتوں کی روانی، شادابی ،حرارت صرف اسلئے تھی کہ میں بھی روانیِ کائنات کا اہم جْز تھی......تھامنے والے ہاتھ وادیِ وفا میں اس لئے نہیں رہ پائے کہ میرے مخاطب میں زورِ کمال نہ تھا......... جن کے لئے کبھی (دو گھڑی کو ہی سہی ) روک کر انتظار کیا تھا...... وہ لمحے کرب بن کر احساسِ ریگاں کا درد دے رہے تھے..... شب کی تاریکی سِمٹنے کو تھی کو تھی،ہر طرف خاموشی کا عالم تھا....... نصاب کا دفتر تھا ، وجود کٹگھرے میں کھڑا تزکیہ کر رہا تھا......... جرم یہ نکلا کہ امید کو حوصلوں سے بلند رکھنے کی خطا سر زد ہو گئی ہے....... رات اپنی نیند پوری کر چکا تھا ،بیداری کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور میں نے سفرِ زیست کی تھکن سمیت کر گوشیۂ تنہائی اختیار کر لی تھی .........اب مجھکو اپنے مسافرت میں امید سے زیادہ حوصلوں کو بلند رکھنا ہے . خواہشات کانچ کی طرح ہوتی ہیں اور ٹوٹ کر چبھ جاتیں ہیں...... اس احساس سے رہائی بھی درکار تھی ....... زندگی کا وہ لمحہ اگرچہ سرک گیا ہے ، حوصلوں کی بازگشت اب کچھ

!!!............... اپنی اپنی سی لگنے لگی ہے ،مگر وہ وقت کچھ سوالوں کا زخم دے گیا ہے
 

نایاب

لائبریرین
یاد کے جگنو کبھی آنکھ نم کر دیں تو کبھی لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر دیں ۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب شراکت
 
Top