وقت کی رائیگانی سے ڈرلگتاہے

زبیر مرزا

محفلین
وقت کی رائیگانی سے ڈرلگتاہے
تیری بے زبانی سے ڈرلگتاہے

اب تو تاریک جنگلوں میں بسر ہو
سورج کی تابانی سے ڈرلگتا ہے

بلاعنوان کٹے گی زندگی میری
کہ حرف ومعانی سے ڈرلگتاہے

مجھہ کو محافظوں نے لوٹا
اب ہرنگہبانی سے ڈرلگتاہے

میں ہوں ہابیل مجھہ کو اب تک
ابن آدم کی کہانی سے ڈرلگتاہے
 

الف عین

لائبریرین
غزل میں ایک چیز عروض بھی ہوتی ہے جس سے کچھ نہ کچھ واقفیت ضروری ہے، ویسے لوگ گنگنا کر، یا بقول ابن صفی کے، ’ابے کھٹ کھٹ‘ سے بھی تقطیع کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ اس غزل میں ردیف قوافی تو ہیں، لیکن موزونیت کا فقدان ہے۔ ایک شعر کی اصلاح کر رہا ہوں، محض موزونیت کی حد تک
وقت کی رائگانی سے ڈر لگ رہا ہے
پھر تری بے زبانی سے ڈر رہا ہے
(فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فع÷فاع
یا
وقت کی رائیگانی سے لگتا ہے ڈر
پھر تری بے زبانی سے لگتا ہے ڈر

فاعلن 4 بار)
 
Top