نصیر الدین نصیر وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر

وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر
سمائے وہ میرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر

میرا کہنا یہی ہے تو نہ رُخصت ہو خفا ہو کر
اب آگے تیری مرضی، جو بھی تیرا مُدعا ہو، کر

نہ وہ محفل، نہ وہ ساقی، نہ وہ ساگر، نہ وہ بادہ
ہماری زندگی اب رہ گئی ہے بے مزہ ہو کر

معاذاللّه! یہ عالم بتوں کی خود نمائی کا
کہ جیسے چھا ہی جائیں گے خدائی پر، خدا ہو کر

بہر صورت وہ دل والوں سے دل کو چھین لیتے ہیں
مچل کر، مسکرا کر، روٹھ کر، تن کر، خفا ہو کر

نہ چھوڑو ساتھ میرا ہجر کی شب ڈوبتے تارو
نہ پھیرو مجھ سے یوں آنکھیں، مرے غم آشنا ہو کر

اِنھیں پھر کون جانچے، کون تولے گا نگاہوں میں
اگر کانٹے رہیں گُلشن میں پھولوں سے جدا ہو کر

مرے دل نے حسینوں سے مزے لوٹے محبت کے
کبھی اِس پر فدا ہو کر، کبھی اُس پر فدا ہو کر

جہاں سے وہ ہمیں ہلکی سی اک آواز دیتے ہیں
وہاں ہم جا پہنچتے ہیں محبت میں ہوا ہو کر

سنبھالیں اپنے دل کو ہم کہ روئیں اپنی قسمت کو
چلے ہیں اے نصیرِ زار، وہ ہم سے خفا ہو کر

پیر سید نصیر الدین نصیر گولڑوی
 

الف عین

لائبریرین
منتظمین سے درخواست کریں کہ ٹائپ کرنے میں دلچسپ لیتے ہیں، بلکہ جو ادھوری کتابیں بچی ہیں، ان کو مکمل کرنے کی آفر دیں تو لائبریرین بن دیا جائے گا۔ بس محفل کی سالگرہ کے قریب کچھ سرگرمی دکھائی دیتی ہے، ورنہ پھر خاموشی!! خیر سالگرہ بھی ابھی قریب ہی ہے، یکم جولائی کو۔
 
Top