وسیم بریلوی ::::: شام تک صُبح کے نظروں سے اُتر جاتے ہیں ::::: Waseem Barelvi

طارق شاہ

محفلین
غزلِ

شام تک صُبْح کی نظروں سے اُتر جاتے ہیں
اِتنے سمجھوتوں پہ جِیتے ہیں کہ مرجاتے ہیں

ہم تو بے نام اِرادوں کے مُسافر ٹھہرے
کچھ پتا ہو تو بتائیں کہ کِدھر جاتے ہیں

گھر کی گِرتی ہُوئی دِیوار ہے ہم سے اچھّی
راستہ چلتے ہُوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں

اِک جُدائی کا وہ لمحہ، کہ جو مرتا ہی نہیں
لوگ کہتے تھے سبھی وقت گُزر جاتے ہیں

پھر وہی تلخئ حالات مُقدّر ٹھہری
نشے کیسے بھی ہوں کُچھ دِن میں اُتر جاتے ہیں

وسیم بریلوی
 
Top