واہگہ بارڈر دھماکہ

زرقا مفتی

محفلین
B1hBBsuIcAAeA5o.jpg
 

Fawad -

محفلین
بات بہت سیدھی سی ہے صاحبو!
اس وقت (بطورِ خاص پچھلی تین دہائیوں سے) پاکستان بین الاقوامی سازشوں کی زد پر ہے۔ ہر پاکستانی پر لازم ہے کہ ایسے حالات میں اپنی ذمہ داریوں کا صحیح ادراک کرے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں اس تجزيے سے متفق نہيں کہ پاکستان ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان ديکھی بيرونی قوتوں کی خفيہ سازشوں کا شاخسانہ ہے۔ عالمی دہشت گردی اور ان کے خوفناک اثرات صرف پاکستان کے شہريوں نے ہی نہيں بلکہ دنيا بھر ميں درجنوں ملکوں کے عوام نے محسوس کيے ہيں۔

ضرب عضب کی حاليہ مہم اور جس دشمن کے خلاف پاک فوج گزشتہ چند ماہ سے برسرپيکار ہے وہ اس حقيقت کو واضح کرنے کے ليے کافی ہے کہ متشدد دہشت گردی کا ناسور اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرم محض قصے کہانيوں اور تجزيوں تک محدود کوئ گمنام کردار نہيں بلکہ ايک تلخ حقیقت ہيں۔

بدقسمتی سے واہگہ بارڈر پر جو ہوا وہ نوعيت کے اعتبار سے نا تو کوئ انوکھا واقعہ ہے اور نا ہی کوئ ايسا عجيب اور انوکھا عمل جس کو سمجھنے يا جس کے محرک کا ادراک کرنے کے ليے تفصيلی تجزيے يا عرق ريزی کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا يہ واقعہ بھی اپنی نوعيت اور طريقہ واردات کے اعتبار سے اسی بے رحمانہ سوچ اور دہشت گردی کے اسی طريقہ واردات کی غمازی کرتا ہے جسے دہشت گرد گروہ بڑے فخر کے ساتھ اپنی کاميابی گردانتے ہيں۔

بعض رائے دہندگان کی جانب سے واضح اور ناقابل ترديد شواہد اور سول اور فوجی قيادت کی جانب سے سرکاری سطح پر تسليم شدہ موقف کے باوجود دہشت گردی اور معاشرے ميں سرايت شدہ محدود سوچ کی حقيقت کو تسليم کرنے سے مسلسل انکار نا صرف يہ کہ قابل افسوس امر ہے بلکہ دہشت گردوں کے زہر آلود نظريات کی ترويج کی روک تھام کے ضمن ميں ايک اہم رکاوٹ بھی ہے۔

ايک جانب تو يہ دليل پيش کی جاتی ہے کہ پاکستان ميں تمام تر دہشت گردی بيرونی ہاتھوں کی مرہون منت ہے ليکن پھر اسی سوچ کے ماننے والے حيران کن طور پر اس بات پر بھی يقین رکھتے ہيں کہ يہی بيرونی ہاتھ طالبان سے مذاکرات کو سبوتاز کرنے کے ليے بھی کوشاں رہتے ہيں۔ اس ضمن ميں سوال يہ اٹھتا ہے کہ اگر اس دليل ميں واقعی کوئ وزن ہوتا اور بيرونی ہاتھ ہی تمام تر دہشت گردی کے ليے ذمہ دار ہيں تو پھر حکومت پاکستان گزشتہ کئ برسوں سے طالبان کے مختلف گروہوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے ليے کيوں سعی کر رہی ہے۔

اگر طالبان پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ليے ذمہ دار ہی نہيں ہيں تو پھر ان سے امن مذاکرات کا کيا سوال؟

ان دلائل کا حتمی نتيجہ صرف يہی نکلتا ہے کہ بحث کوئ بھی ہو، ذمہ داری کا بوجھ بہرحال امريکہ پر ڈالنا جائز ہے۔ کيونکہ تمام تر مسائل کی وجہ اور انکا حل ايک "بيرونی ہاتھ" کے پاس ہے۔ کوئ بھی باشعور شخص يہ ديکھ سکتا ہے کہ امريکہ کو ولن قرار دينے والے يہ دلائل ناقابل فہم اور اپنے اندر لاتعداد تضادات ليے ہوئے ہيں۔


طالبان کا يہ عفريت محض ايک دو واقعات کی بنياد پر سامنے نہيں آيا جس کا ذمہ دار چند افراد کو قرار ديا جا سکے۔ يہ ايک باقاعدہ مہم ہے جس کی بنياد ايک ايسی سوچ ہے جس نے گزشتہ ايک دہائ کے دوران دنيا بھر ميں تبائ اور بربادی کی ايک نئ تاريخ رقم کی ہے۔

ٹی ٹی پی کو حکومت پاکستان نے کالعدم قرار ديا ہے اور يقینی طور پر اس کی نوعبت نا آتی اگر ان کے ہاتھ صاف ہوتے اور کوئ ان ديکھے بيرونی ہاتھ پاکستان ميں دہشت گردی کے ان سب واقعات کے ليے ذمہ دار ہوتے۔

وقت آ گيا ہے کہ ان بے مقصد سازشی کہانيوں کو مسترد کر کے عقل اور دانش کے ساتھ صورت حال کا تجزيہ کيا جائے۔ دہشت گردی کی تلخ حقیقت سب پر عياں ہے اور اس کے تدارک کے ليے سب کو مشترکہ کوشش کرنا ہو گی ورنہ دہشت گردوں کی جانب سے کم سن بچے خود کش حملہ آوروں کے طور پر دہشت گردوں کا آلہ کار بنتے رہيں گے اور ہم بے معنی قسم کی سازشی کہانيوں میں الجھے رہيں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں اس تجزيے سے متفق نہيں کہ پاکستان ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان ديکھی بيرونی قوتوں کی خفيہ سازشوں کا شاخسانہ ہے۔ عالمی دہشت گردی اور ان کے خوفناک اثرات صرف پاکستان کے شہريوں نے ہی نہيں بلکہ دنيا بھر ميں درجنوں ملکوں کے عوام نے محسوس کيے ہيں۔

ضرب عضب کی حاليہ مہم اور جس دشمن کے خلاف پاک فوج گزشتہ چند ماہ سے برسرپيکار ہے وہ اس حقيقت کو واضح کرنے کے ليے کافی ہے کہ متشدد دہشت گردی کا ناسور اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرم محض قصے کہانيوں اور تجزيوں تک محدود کوئ گمنام کردار نہيں بلکہ ايک تلخ حقیقت ہيں۔

بدقسمتی سے واہگہ بارڈر پر جو ہوا وہ نوعيت کے اعتبار سے نا تو کوئ انوکھا واقعہ ہے اور نا ہی کوئ ايسا عجيب اور انوکھا عمل جس کو سمجھنے يا جس کے محرک کا ادراک کرنے کے ليے تفصيلی تجزيے يا عرق ريزی کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا يہ واقعہ بھی اپنی نوعيت اور طريقہ واردات کے اعتبار سے اسی بے رحمانہ سوچ اور دہشت گردی کے اسی طريقہ واردات کی غمازی کرتا ہے جسے دہشت گرد گروہ بڑے فخر کے ساتھ اپنی کاميابی گردانتے ہيں۔

بعض رائے دہندگان کی جانب سے واضح اور ناقابل ترديد شواہد اور سول اور فوجی قيادت کی جانب سے سرکاری سطح پر تسليم شدہ موقف کے باوجود دہشت گردی اور معاشرے ميں سرايت شدہ محدود سوچ کی حقيقت کو تسليم کرنے سے مسلسل انکار نا صرف يہ کہ قابل افسوس امر ہے بلکہ دہشت گردوں کے زہر آلود نظريات کی ترويج کی روک تھام کے ضمن ميں ايک اہم رکاوٹ بھی ہے۔

ايک جانب تو يہ دليل پيش کی جاتی ہے کہ پاکستان ميں تمام تر دہشت گردی بيرونی ہاتھوں کی مرہون منت ہے ليکن پھر اسی سوچ کے ماننے والے حيران کن طور پر اس بات پر بھی يقین رکھتے ہيں کہ يہی بيرونی ہاتھ طالبان سے مذاکرات کو سبوتاز کرنے کے ليے بھی کوشاں رہتے ہيں۔ اس ضمن ميں سوال يہ اٹھتا ہے کہ اگر اس دليل ميں واقعی کوئ وزن ہوتا اور بيرونی ہاتھ ہی تمام تر دہشت گردی کے ليے ذمہ دار ہيں تو پھر حکومت پاکستان گزشتہ کئ برسوں سے طالبان کے مختلف گروہوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے ليے کيوں سعی کر رہی ہے۔

اگر طالبان پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ليے ذمہ دار ہی نہيں ہيں تو پھر ان سے امن مذاکرات کا کيا سوال؟

ان دلائل کا حتمی نتيجہ صرف يہی نکلتا ہے کہ بحث کوئ بھی ہو، ذمہ داری کا بوجھ بہرحال امريکہ پر ڈالنا جائز ہے۔ کيونکہ تمام تر مسائل کی وجہ اور انکا حل ايک "بيرونی ہاتھ" کے پاس ہے۔ کوئ بھی باشعور شخص يہ ديکھ سکتا ہے کہ امريکہ کو ولن قرار دينے والے يہ دلائل ناقابل فہم اور اپنے اندر لاتعداد تضادات ليے ہوئے ہيں۔


طالبان کا يہ عفريت محض ايک دو واقعات کی بنياد پر سامنے نہيں آيا جس کا ذمہ دار چند افراد کو قرار ديا جا سکے۔ يہ ايک باقاعدہ مہم ہے جس کی بنياد ايک ايسی سوچ ہے جس نے گزشتہ ايک دہائ کے دوران دنيا بھر ميں تبائ اور بربادی کی ايک نئ تاريخ رقم کی ہے۔

ٹی ٹی پی کو حکومت پاکستان نے کالعدم قرار ديا ہے اور يقینی طور پر اس کی نوعبت نا آتی اگر ان کے ہاتھ صاف ہوتے اور کوئ ان ديکھے بيرونی ہاتھ پاکستان ميں دہشت گردی کے ان سب واقعات کے ليے ذمہ دار ہوتے۔

وقت آ گيا ہے کہ ان بے مقصد سازشی کہانيوں کو مسترد کر کے عقل اور دانش کے ساتھ صورت حال کا تجزيہ کيا جائے۔ دہشت گردی کی تلخ حقیقت سب پر عياں ہے اور اس کے تدارک کے ليے سب کو مشترکہ کوشش کرنا ہو گی ورنہ دہشت گردوں کی جانب سے کم سن بچے خود کش حملہ آوروں کے طور پر دہشت گردوں کا آلہ کار بنتے رہيں گے اور ہم بے معنی قسم کی سازشی کہانيوں میں الجھے رہيں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

میں نے "ان دیکھی" نہیں کہا اور نہ آپ کا مجھ سے متفق ہونا ضروری ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
وطن عزیز سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی جب تک گرفتار دہشت گردوں کو پھانسی نہ دی جائے ۔دہشت گردوں کی پھانسی کا مطالبہ کوئی سیاسی اور نام نہاد مذہبی جماعت نہیں کرتی قرآنی تعلیمات کے مطابق قصاص میں قوموں کی حیات ہے –پاکستان میں 8,000 سے زیادہ قیدیوں کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے جن میں اکثریت کی اپیل کے حق کی مدت بھی ختم ہو چکی ان میں وہ دہشت گرد بھی شامل ہیں جن سے راکٹ لانچر ، ٹنوں بارود ، خود کش جیکٹس برامد ہوئے ۔ مگر وہ جیلوں میں سرکاری پیسہ پر پل رہے ہیں او ر مقتولوں کے ورثا رب کائنات کی طرف دیکھ رہے ہیں جب کہ غلام حکمران اشارہ ابرہ کے منتظڑ ہیں کہ کب امریکہ صاحب بہادر ان کو رہا کرنے کا حکم دے جیسا کہ پہلے ایک سے زائد مرتبہ یہی کالعدم تنظیموں کے گرفتار دہشت گرد امریکہ کے کہنے پر رہا کئے گئے ۔ اللہ جانے اب وہ داعش میں اپنے حصے کا کردار ادا کر رہے ہوں ہے۔پاکستان میں سزائے موت پر آخری مرتبہ 2008ء کے اواخر میں عملدرآمد کیا گیا تھا، اس کے بعد سے سزائے موت پر عملدرآمد معطل ہے۔ ان کی سزئے موت کے لئے صرف رضا عابدی ہی صدا بلند کرتا ہے ۔ ورنہ سب جماعتوں کو کہیں مولانا سمیع الحق کے ووٹوں کی ضرورت ہے تو کہیں لدھیانوی اور کہیں نعیمی ہیں تو کہیں اشرفی ۔یہ ووٹروں اور دہشتگردوں کے ہول سیل ڈیلر ہیں ۔ یہ سب باخبر ہیں کہ خود کش حملہ آور کون سپلائی کرتا ہے اور ٹارگٹ کلر کا سٹاک کس کے پاس ہے ۔ خام مال کہاں سے آتا ہے او ر تیارکنندگان کون ہیں
رہی عوام تو وہ اپنی باری کے منتظر ، بے حس ہو چکے ہیں ۔قوت عمل کھو چکے ہیں ۔ ان گھٹیا نام نہاد رہنماوں کے جلوس میں شریک ہوتے ہیں اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں بلند کرتے ۔
اللہ ہم پر رحم کرے (آمین)
اگر پاکستان میں امن چاہتے ہیں تو اس الہی ائیں پر عمل کریں
 
Top