والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی غزل ۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل ۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔

جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا
وہ ترے شہر کا نہیں ہوتا

شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتّے
پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا

آج بھی آہنی جنوں کا حق
پتھروں سے ادا نہیں ہوتا

کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں
جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا

منصفی میں دخیل ہیں کچھ لوگ
اس لئے میں بُرا نہیں ہوتا

وہ بلاتے نہیں کبھی مجھ کو
پاس جب آئینہ نہیں ہوتا

ہاتھ سونا نگاہ چاندی کی
پاس امیروں کے کیا نہیں ہوتا

وہ صدائے طلب سے ڈرتے ہیں
اِک دریچہ بھی وا نہیں ہوتا

ہے یہ ذوقِ نظر کی بات ضیاؔ
کوئی زیرِ ردا نہیں ہوتا​
 
پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا
منفرد
آج بھی آہنی جنوں کا حق
پتھروں سے ادا نہیں ہوتا
تلخ
کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں
جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا
بے نیاز
منصفی میں دخیل ہیں کچھ لوگ
اس لئے میں بُرا نہیں ہوتا
عجز
ہے یہ ذوقِ نظر کی بات ضیاؔ
کوئی زیرِ ردا نہیں ہوتا
واہ واہ بہت عمدہ
کوئی زیر ردا نہیں ہوتا
مجھے نہیں معلوم کہ محترم سید خورشید جے پوری مرحوم نے کس کیفیت میں یہ شعر کہا ہے لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ تصوف کے ساتھ ان کا تعلق معمول سے ہٹ کر تھا۔
 
Top