والدین کے نام!

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت چشم کشا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ میرا خیال ہے جس کے غلط ہونے کے وسیع امکانات بھی ہیں ۔ والدین کی سب سے پہلی ترجیح بچہوں کی صحت اور بہترین تربیت ہونی چاہئیے ۔ بہترین تربیت ہی زندگی گزارنے کی تعلیم ہے ورنہ دیگر علوم تو پیشہ ورانہ تعلیم کے زمرے میں آتے ہیں ، ضروری نہیں کہ ایک بہترین قابل ڈاکٹر ایک اچھا با اخلاق ، با تہذیب ، با کردار شخص بھی ہو ۔ بہترین تربیت ہی دونوں جہانوں میں کامیابی کی کلید ہے ۔تعلیم اور دولت یہ نصیبوں کی بات ہے ۔ والدین کی ذمہ داری بچوں کی اچھی صحت اور اچھی تربیت ہے درسی تعلیم ضرور دلائیں یہ بھی ذمہ داری ہے مگر ترجیح تربیت ہی کو ہے ۔میں ابھی ایک پرائیویٹ کیڈٹ کالج کی ملازمت چھوڑ کر آیا ہوں وہاں کے تجربات و مشاہدات ان شا اللہ جلد شئیر کروں گا ۔ کہ کن کے بچے کیسے بچے کن لوگوں کے زیر تربیت ہوتے ہیں ۔
بہت ہی مختصر مگر نہایت ہی پر اثر تحریر ہے۔ ہر بات سولہ آنے درست ہے۔ دو رائے ہو ہی نہیں سکتی۔ حقیقت ہے کہ جینے کا سلیقہ تہذیب سکھاتی ہے۔ تعلیم سے آدمی کی جہالت نہیں جاتی۔

پرائیوٹ کیڈٹ کالج سے متعلق آپ کے تجربات اور مشاہدات کا انتظار رہے گا۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت عنایت آپ کی۔ میں تو خود آپ سے نیک دلی اور بہت سی اچھی باتیں سیکھتا رہتا ہوں۔
ویسے ہمیشہ طالب علم رہنے کا بھی اپنا مزا ہے :)
بالکل ٹھیک کہا آپ نےطالب علم بن کر رہنے کا بھی اپنا ایک مزا ہے۔ مگر طالب علم کو پیسے نہیں ملتے، پروفیسر کو ملتے ہیں۔ :(
 
بالکل ٹھیک کہا آپ نےطالب علم بن کر رہنے کا بھی اپنا ایک مزا ہے۔ مگر طالب علم کو پیسے نہیں ملتے، پروفیسر کو ملتے ہیں۔ :(
لیکن جو دولت طالب علم کو ملتی ہے اس کے مقابلے میں پروفیسر کو ملنے والے پیسے کچھ بھی نہیں۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
السلام علیکم ، اور معاذرت کہ وعدہ کر کے واپس آنے میں دیر ہو گئی :) ۔۔۔ خیر ، موضوع بھی اچھا ہے اور تمہید بھی ،، میرا ذاتی خیال اگر پوچھیں تو ، میں سمجھتا ہوں دونوں اطراف سے غیر ذمہ داری مشاہدے میں آتی ہے ،، اب جاننے کی بات یہ ہے کہ اولاد کی غیر ذمہ دارانہ حرکات تمام نہیں تو اکثر والدین کی غیر ذمہ داری سے متحرک ہوتی ہیں ، یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ سب دوست یہ نہ سمجھیں کہ والدین کو اب غصہ ہی نہیں کرنا چاہیئے! ایسا نہیں ہے میں فرداً فرداً بیان کرتا ہوں ، ہم اس مسئلہ کے حل کے لیئے اگر معاملہ کو چوٹی سے پکڑیں تو بہتر ہے ، اس سب کی معقول وجہ مجھے علم کی کمی ہی نظر آتی ہے! اور یہ صرف والدین یا بچوں کا ہی قصور نہیں ،، اگر تعلیمی دائرے میں آنے والے کسی بھی محرک کو شامل تفتیش کر لیا جائے تو بہتر ہو گا ( تعلیمی نظم و نسق کے ذمہ دار حکومتی ادارے خاص طور پر )۔ درسگاہیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک ہماری زندگی کا کچھ حصہ ہوتی ہے ، جیسے مدرسہ اور دودری تمام عمر ( رضائے ربی سے ) یعنی ماں باپ۔ اب تعلیمی ادراوں میں اکثر دوست جانتے ہوں گے کہ اساتذہ اکرام کی اپنی تربیت کا نظام کیسا ناقص ہے ،، اکثر تعلیمی درجوں/مراحل پر تو ہے ہی نہیں! ( بچوں سے پہلے اساتذہ کی تربیعت ) دوسری جانب ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ والدین کی تربیت کی ضرورت نہیں تو یہ ایک بھیانک غلطی ہو گی، ماں کو خاص طور درسگاہِ اصل بھی بلایا جاتا ہے۔ اگر اس درسگاہ کو ہم ایک فرضی ڈھانچہ تصور کریں اور مختلف حصوں میں تحلیل کر دیں، اور کچھ فرد لا کر ان کو ان حصوں کی ذمہ داری سونپ دیں تو کیا کم علم لوگوں کو وہ ذمہ داریاں سونپ سکتے ہیں ؟ نہیں نا ! تو اب آپ خود تصور کر سکتے ہیں کہ اگر ایک عورت کم علم رکھے زندگی کے مختلف حصوں کے بارے تو اس درسگاہ کے طالب علم کیا اور کیسے ہوں گے۔
والدین کی تعلیم کیا ہے؟ میں اس سوال کا جواب اپنی بسات بھر ہی دے سکوں گا، انسان کو سمجھنا ہو تو اس کا سب سے بڑا اور حساس حصہ نفسیات ( ایک طرح سے خصلتِ انسانی ) ہو گی ، وہ سمجھ گئے تو سب سمجھ گئے ! یہی وجہ ہے کہ دنیا کے صحت مند تعلیمی نسق سنبھالنے ولوں نے ایک طریقہ رائج کر رکھا ہے۔ بچے کو انتہائی شروع میں ہی کچھ اشیاء دکھا کر اس کی سوچ کا بہاؤ طے کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی رسمی تعلیم میں اس کا ہمیشہ خیال رکھا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ڈی این اے ( خون کا ایک رکن ) میں ہمارے بارے بے بہا تفصیلات رب العزت نے تحریر کر رکھی ہیں۔ ان میں ایک تحریر ہماری اس خصلت یا رُخِ خیال کی بھی ہے جو لے کر ہم پیدا ہوتے ہیں، جی بالکل باقی کی خصلت جو در اصل ہماری عادات کا مجموعہ ہے ہم بعد میں خود لکھتے ہیں (مجھ سے یہ ہو گیا ، میں نے یہ کیا ، میں یہ کبھی کبھی کرتا ہوں ، میں یہ اکثر کرتا ہوں ، میں اس کے بنا اب رہ نہیں سکتا ، خدارا کہیں سے یہ لا دو ورنہ میں مر جاؤں گا! ) ، دیکھا! صرف ایک چھوٹی سی بات طے کرنے کے لیئے کتنا جاننا پڑتا ہے۔ اس واسطے والدین کی درسگاہ کی اپنی تربیت کو درگزر کرنا تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اور اب وہ والدین جو یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم اب باہر تو ہر لمحہ بچوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ہاں مگر آپ کی بات رہ سکتی ہے ، اسے اتنا طاقتور ہونا چاہیئے کہ وہ شعور میں نہیں بلکہ لاشعور پر بھی قابض ہو ، ہم کچھ اور سوچتے ہوئے بھی کبھی بازار سے واپسی پر گھر کا راستہ نہیں بھولے! وہ ہمارے شعور اور لا شعور پر یوں حاوی ہوتا ہے۔ لیکن اس راستے یا گھر نے ہمیں کبھی ڈرایا نہیں، دھمکایا نہیں، پھر ایسا کیا ہے کہ وہ یوں قابض ہے ہم پر؟ میں نے اوپری ایک سطر میں کچھ لکھا تھا ، (مجھ سے یہ ہو گیا ، میں نے یہ کیا ، میں یہ کبھی کبھی کرتا ہوں ، میں یہ اکثر کرتا ہوں ، میں اس کے بنا اب رہ نہیں سکتا ، خدارا کہیں سے یہ لا دو ورنہ میں مر جاؤں گا! ) ، جی بالکل یہ وہ کلیہ ہے جس کی کچھ کڑیوں نے وہ راستہ میں اب اس کے بنا نہیں رہ سکتا تک پہنچایا ،، تو ہمیں ایسے طریقے سے بات کو بچوں تک پہنچایا ہے کہ وہ آخری حد نہ سہی مگر اس سے پہلے والے درجہ کو حاصل کر لیں۔ اور یقیناً وہ راستہ خوف کی انتہا نہیں ہو سکتی ، خوف کی اتنہا تو انسان کو چور بنا دیتی ہے ، انسان کا طرز سوچ یہ ہو جاتا ہے ( مجھے یہ نہیں کرنے دیتے نا ، دیکھنا میں کر کے ہی رہوں گا ) ، اور یا پھر ایسا کہ جن حادثات کی طرف عبد الرحمن بھائی نے توجہ دلائی! خوف ایک اچھا متحرک بن سکتا ہے مگر یہ وہ دوا ہے جس کی زائد مقدار انسان کی جان لے لیتی ہے :) مگر آزادی اور ڈر دونوں اعتدال میں ہونے چاہیئں ،، اور کسی بھی انسان میں اس کا تعین کرنے سے پہلے کہ کس انسان کو کس دوا کی مقدار کتنی دینی ہے ، کچھ ٹیسٹ کیئے جاتے ہیں ، یعنی اس کی خصلت کے بارے جاننا وغیرہ اور یہ سب خود بھی سیکھنے کے بنا نہیں آ سکتا والدین کا بے مثال پیار کافی نہیں ہوتا اس واسطے، اس کی بھی تعلیم لازم ہے اور یہ سب ہم انفرادی طور ایک حد تک تو نبھا سکتے ہیں مگر اس سے آگے ہمیں حکومتی ساتھ چاہیئے! ،گمر یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرنے سے بات اور بگڑے گی تو کم از کم جو اپنے اختیار میں ہے اسے کیوں در گزر کیا جائے ؟
اس کے علاوہ بہت ڈھیروں باتیں ہیں مگر اس موضوع پر بات کے لیئے بہت وقت درکار ہے ، ہاں اوپری درج عبد الرحمن بھائی کے متن کا جواب شائد اتنی باتوں میں سمجھ میں آ جائے گا :) :)
اللہ رب العزت آپ سب کو بہت آسانیاں عطا فرمائے ، ثُم آمین !!
 
Top