محمد وارث

لائبریرین
مالکن

(گزشتہ سے پیوستہ)



(3)

کئی مہینے گزر گئے، پیاری کے اختیار میں آ کر جیسے گھر میں بہار آ گئی۔ اندر باہر جہاں دیکھیے ایک لائق منتظم کے سلیقہ شعاری، صفائی پسندی اور خوش مزاجی کے آثار نظر آنے لگے۔ پیاری نے گرہستی کی مشین کی ایسی کنجی کس دی کہ سب ہی پرزے ٹھیک ٹھاک چلنے لگے۔ کھانا پہلے سے اچھا ملتا ہے اور وقت پر ملتا ہے، دودھ زیادہ ہوتا ہے، گھی زیادہ ہوتا ہے۔ پیاری نہ خود آرام کرتی ہے نہ دوسروں کو آرام کرنے دیتی ہے۔ گھر میں کچھ ایسی برکت آ گئی ہے کہ جو چیز مانگو گھر ہی میں نکل آتی ہے۔ آدمی سے لیکر جانور تک سب ہی تندرست نظر آتے ہیں۔ اب وہ پہلی سی حالت نہیں کہ کوئی چھیتھڑے لپیٹے پھر رہا ہے، کسی کو گہنے کی دھن سوار ہے۔ ہاں اگر کوئی متردد و فکر مند اور پریشان ہے تو وہ پیاری ہے پھر بھی سارا گھر اس سے جلتا ہے، یہاں تک کہ بوڑھے شیو داس بھی کبھی کبھی اس کی بد گوئی کرتے ہیں۔ کسی کو پہر رات رہے اٹھنا اچھا نہیں معلوم ہوتا، محنت سے جی چراتے ہیں۔ پھر اتنا سب ہی مانتے ہیں کہ پیاری نہ ہو تو گھر کا کام نہ چلے، اور تو اور اب دونوں بہنوں میں بھی اتنا میل نہیں ہے۔ صبح کا وقت تھا، دلاری نے ہاتھوں کے کڑے لا کر پیاری کے سامنے پٹک دیئے اور بگڑ کر بولی۔ "لے کڑے بھی بھنڈار میں بند کر دے۔"

پیاری نے کڑے اٹھا لیے اور نرم لہجے میں کہا۔ "کہہ تو دیا، ہاتھ میں روپے آنے دے بنوا دونگی۔ ابھی تو ایسے گھس نہیں گئے ہیں۔" بولی۔ "تیرے ہاتھ میں کاہے کو کبھی روپے آئیں گے اور کاہے کو کڑے بنیں گے، جوڑ جوڑ رکھنے میں مزہ آتا ہے نا۔"

پیاری نے ہنس کر کہا۔ "جوڑ جوڑ رکھتی ہوں تو تیرے ہی لیے یا میرے کوئی اور بیٹھا ہوا ہے یا میں سب سے زیادہ کھا پہن لیتی ہوں۔"

دلاری۔ "تم نہ کھاؤ، نیک نامی تو ہوتی ہے۔ تمھارے یہاں کھانے پینے کے سوا اور کیا ہے؟ میں تمھارا حساب کتاب نہیں جانتی، میرے کڑے آج بننے کو بھیج دو۔"

پیاری نے بالکل مذاق کے انداز سے پوچھا۔ "روپے نہ ہوں تو کہاں سے لاؤں؟"

دلاری نے چیخ کر کہا۔ "مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں، میں تو کڑے چاہتی ہوں۔"

اسی طرح گھر کے سب ہی آدمی اپنے اپنے موقع پر پیاری کو دو چار سخت سست سنا جاتے تھے اور وہ غریب سب کی دھونس ہنس کر برداشت کر لیتی تھی۔ مالکن کا یہ تو فرض ہے ہی کہ سب کی دھونس برداشت کرے اور کرے وہی جس میں گھر کی بھلائی ہو۔ مالکانہ ذمہ داری کے احساس پر طعن و طنز اور دھمکی کسی چیز کا اثر نہ ہوتا، اسکا مالکانہ احساس ان جملوں سے اور بھی قوی ہو جاتا تھا۔ وہ گھر کی منتظمہ ہے سبھی اپنی اپنی تکلیف اسی کے سامنے کرتے ہیں، جو کچھ وہ کرتی ہے وہی ہوتا ہے۔ اسکے اطمینان کے لیے اتنا کافی تھا۔

گاؤں میں پیاری کی تعریف ہوتی تھی، ابھی عمر ہی کیا ہے لیکن تمام گھر سنبھالے ہوئے ہے، چاہتی تو دوسرا گھر کر کے چین کرتی۔ اس گھر کے واسطے اپنے کو مٹا رہی ہے، کبھی کسی سے ہنستی بولتی بھی نہیں۔

چند روز بعد دلاری کے کڑے بن کر آ گئے، پیاری خود سنار کے گھر دوڑ کر گئی۔

شام ہو گئی تھی، دلاری اور متھرا کھیت سے لوٹے، پیاری نے نئے کڑے دلاری کو دیئے، دلاری نہال ہو گئی۔ جھٹ پٹ کڑے پہنے اور دوڑتی ہوئی جا کر کوٹھڑی میں متھرا کو کڑے دکھانے لگی۔ پیاری کوٹھڑی کے دروازے کے پیچھے کھڑی ہو کر یہ منظر دیکھنے لگی، اسکی آنکھیں اشک آلود ہو گئیں۔ دلاری اس سے بالکل تین سال ہی تو چھوٹی ہے لیکن دونوں میں کتنا فرق ہے، اسکی نظریں گویا اس پر جم گئیں۔ متاہلانہ زندگی کی وہ حقیقی مسرت، انکی محبت آگیں محویت، انکی وہ سر خوشی۔

پیاری کی ٹکٹکی سی بندھ گئی، یہاں تک کہ چراغ کی دھندلی روشنی میں وہ دونوں اسکی نظر سے غائب ہو گئے۔ اسے اپنی گزشتہ زندگی کا ایک واقعہ نگاہوں کے سامنے بار بار نئی صورت میں سامنے آنے لگا۔ ناگہاں شیو داس نے پکارا۔ "بڑی بہو ایک پیسہ دو تمباکو منگاؤں۔"

پیاری کے سلسلۂ تصور کو شکست ہوئی، بھنڈار میں پیسہ لینے چلی گئی۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مالکن

(گزشتہ سے پیوستہ)


(4)

ایک ایک کر کے پیاری کے گہنے اسکے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے، وہ چاہتی تھی کہ اسکا گھر گاؤں میں سب سے خوشحال سمجھا جائے اور اسی کو اس ہوس کی قیمت دینا پڑی تھی۔ مکان کی مرمت کیلیے، کبھی بیلوں کی نئی جوڑی کیلیے، کبھی رشتہ داروں کی خاطر مدارات کیلیے اور کبھی مریضوں کے علاج کیلیے روپے کی ضرورت پڑتی رہتی تھی اور جب بہت جوڑ کر بھی کام نہ چلتا تھا تو وہ اپنی کوئی نہ کوئی چیز نکال دیتی اور وہ چیز ایک بار ہاتھ سے نکل کر پھر واپس نہ آتی۔ وہ چاہتی تو ان میں سے بہت سے خرچوں کو ٹال جاتی لیکن جہاں عزت کی بات آ پڑتی تھی، وہ دل کھول کر خرچ کرتی تھی، اگر گاؤں میں ہیٹی ہو گئی تو کیا بات رہی اسکی بدنامی ہوگی۔ دلاری کے پاس بھی گہنے تھے، ایک دو چیزیں متھرا کے پاس بھی تھیں لیکن پیاری انکی چیزیں نہ چھوتی، انکے کھانے پینے کے دن ہیں، وہ اس جھگڑے میں کیوں پھنسے۔ دلاری کے لڑکا پیدا ہوا تو پیاری نے دھوم دھام کے ساتھ خوشی منانے کا ارادہ کیا۔

شیو داس نے مخالفت کی، "کیا فائدہ؟ جب بھگوان کی کرپا سے بیاہ بارات کا موقع آئے گا تو دھوم دھام کر لینا۔"

پیاری کا حوصلہ مند دل بھلا کیوں مانتا؟ "بولی کیسی بات کرتے ہو، دادا پہلونٹی کے لڑکے کیلیے بھی دھوم دھام نہ ہوئی تو کب ہوگی؟ دل تو نہیں مانتا، پھر دنیا کیا کہے گی، نام بڑے درشن تھوڑے، میں تم سے کچھ نہیں مانگتی اپنا تمام سامان کر لونگی۔"

"گہنے کے بغیر جائے گی اور کیا۔" شیو داس نے فکر مند ہو کر کہا۔ "اسطرح ایک روز تار بھی نہ بچے گا، کتنا سمجھایا بیٹا، بھائی بھاوج کسی کے نہیں ہوتے، اپنے پاس دو چیزیں رہیں گی تو سب منہ تکیں گے۔"

پیاری نے ایسا منہ بنایا گویا ایسی بوڑھی باتیں بہت سن چکی ہے۔ بولی، "جو اپنے ہیں وہ بات بھی نہ پوچھیں جب بھی اپنے ہی رہتے ہیں۔ میرا دھرم میرے ساتھ ہے، انکا دھرم انکے ساتھ ہے۔ مر جاؤنگی تو کیا سینے پر لاد کر لے جاؤنگی؟"

دھوم دھام سے لڑکا پیدا ہونے کی خوشی منائی گئی، برھی روز ساری برادری کا کھانا ہوا، لوگ کھا پی کر چلے گئے تو پیاری دن بھر کی تھکی ماندی آنگن میں ٹاٹ کا ایک ٹکڑا ڈال کر کمر سیدھی کرنے لگی۔ آنکھ لگ گئی۔ متھرا اسی وقت آیا، نومولود بچے کو دیکھنے کے لیے اسکا دل بے قرار ہو رہا تھا۔ دلاری زچہ خانے سے جا چکی تھی، حمل کی حالت میں اسکا جسم لاغر ہو چکا تھا، چہرہ بھی اتر گیا تھا لیکن آج چہرے پر صحت کی سرخی چھائی ہوئی تھی۔ مادرانہ غرور و ناز نے اعضا میں ایک نئی روح پیدا کر دی تھی۔ زچہ خانے کی احتیاط اور مقوی چیزوں کے استعمال نے بدن کو چکنا دیا تھا۔ متھرا اسے آنگن میں دیکھتے ہی قریب آ گیا اور ایکبار پیاری کی طرف دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ وہ سو گئی ہے، بچے کو گود میں لے لیا اور لگا اسکا منہ چومنے، آہٹ پا کر پیاری کی آنکھ کھل گئی لیکن نیند کے بہانے وہ نیم باز آنکھوں سے یہ لطف تماشا دیکھنے لگی۔ ماں باپ دونوں باری باری بچے کو چومتے اور گلے لگاتے اور اسکے منہ کو تکتے تھے۔ کیسی پر کیف مسرت تھی، پیاری کی تشنہ تمنا ایک پل کے لیے مالکانہ حیثیت کو بھول گئی۔ جسطرح لگام سے منہ بند، بوجھ سے لدا ہوا، ہانکنے والے کے کوڑے سے تکلیف زدہ، دوڑتے دوڑتے بیدم گھوڑا ہنہناہٹ کی آواز سنکر کان کھڑے کر لیتا ہے، وہ اسکی حالت ہو گئی۔ اسکی مادریت جو پنجرے میں بند خاموش بے جان پڑی ہوئی تھی، قریب سے گزرنے والی مادریت کی چہکار سے بیدار ہو گئی اور تفکرات کے اس پنجرے سے نکلنے کے لیے بازو پھڑپھڑانے لگی۔

متھرا نے کہا۔ "یہ میرا لڑکا ہے۔"

دلاری نے بچے کو سینے سے چمٹا کر کہا۔ "ہاں ہے کیوں نہیں، تم ہی نے تو نو مہینے پیٹ میں رکھا ہے۔ مصیبت تو میں نے بھگتی، باپ کہلانے کے لیے تم آ گئے۔"

متھرا۔ "میرا لڑکا نہ ہوتا تو میری صورت کا کیوں ہوتا؟ صورت و شکل سب میری سی ہے کہ نہیں؟"

دلاری۔ "اس سے کیا ہوتا ہے، بیج بنئے کے گھر سے آتا ہے، کھیت کسان کا ہوتا ہے، پیداوار بنئے کی نہیں ہوتی، کسان کی ہوتی ہے۔"

متھرا۔ "باتوں میں تم سے کوئی نہ جیتے گا۔ میرا لڑکا بڑا ہو جائے گا تو میں دروازے پر بیٹھ کر مزے سے حقہ پیا کروں گا۔"

دلاری۔ "میرا لڑکا پڑھے لکھے گا، کوئی نہ کوئی بڑا عہدہ حاصل کرے گا، تمھاری طرح دن بھر بیل کے پیچھے نہ چلے گا۔ مالکن سے کہنا ہے کل ایک جھولا بنوا دیں۔"

متھرا۔ "ایسا بہت سویرے نہ اٹھنا کرنا اور کلیجہ پھاڑ کر کام بھی نہ کرنا۔"

دلاری۔ "یہ مہارانی جینے دے گی؟"

متھرا۔ "مجھے اس بیچاری پر ترس آتا ہے، اسکے کون بیٹھا ہے، ہمیں لوگوں کے لیے تو مرتی ہے۔ بھیا ہوتے تو اب تک دو تین لڑکوں کی ماں ہو گئی ہوتی۔"

پیاری کے گلے میں آنسوؤں کا ایسا سیلاب امڈا کہ اسکے روکنے میں اسکا تمام جسم کانپ اٹھا۔

اسکی بیوگی کا سونا پن کسی خوفناک جانور کی طرح اسے نگلنے لگا۔ تصور اس بنجر زمین میں ہرا بھرا باغ لگانے لگا۔

یکایک شیو داس نے اندر آ کر کہا۔ "بہو کیا سو گئی، باجے والوں کو ابھی کھانے کو نہیں ملا۔ کیا کہہ دوں؟"


(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
مالکن

(گزشتہ سے پیوستہ)



(5)

کچھ دنوں کے بعد شیو داس بھی مر گیا، ادھر دلاری کے دو بچے ہوئے، وہ بھی زیادہ تر بچوں کی پرورش و پرداخت میں رہنے لگی۔ کھیتی کا کام مزدوروں پر آ پڑا، متھرا مزدور تو اچھا تھا مگر منتظم اچھا نہ تھا۔ اسے آزادنہ طور پر کام لینے کا موقع نہ ملا تھا، خود پہلے بھائی کی نگرانی میں کام کرتا رہا بعد کو باپ کی نگرانی میں کرنے لگا۔ کھیتی کا انداز بھی نہیں جانتا تھا، وہی مزدور اسکے یہاں ٹکتے تھے جو محنتی نہیں، خوشامد کرنے میں ہوشیار تھے۔ اس لیے اب پیاری کو دو چار چکر کھیت کے بھی لگانے پڑتے، کہنے کو تو وہ بھی مالکن تھی مگر حقیقت میں گھر بھر کی خدمت گزار تھی۔ مزدور بھی اس سے تیوریاں بدلتے، زمیندار کا پیادہ بھی اس پر دھونس جماتا، کھانے میں کفایت کرنی پڑتی، لوگوں کو تو جتنی بار مانگیں کچھ نہ کچھ چاہیئے، دلاری تو بچوں والی تھی اسے بھی پوری خوارک چاہیئے، متھرا گھر کا سردار تھا، اسکا حق اس سے کون چھین سکتا ہے، مزدور بھلا کیوں رعایت کرنے لگے تھے، ساری کسر پیاری پر نکلتی تھی۔ اسی کی ایک ذات فاضل تھی۔ آدھا ہی پیٹ کھائے جب بھی کسی کا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا تھا۔ تیس برس کی عمر میں اسکے بال سفید ہو گئے، کمر جھک گئی، آنکھوں کی روشنی کم ہو گئی، مگر وہ خوش تھی۔ مالک ہونے کا احساس ان تمام زخموں پر مرہم کا کام کرتا تھا۔

ایک روز متھرا نے کہا، "بھابھی، اب تو کہیں پردیس جانے کو جی چاہتا ہے۔ یہاں تو کمائی میں کوئی برکت نہیں، کسی طرح پیٹ کی روٹیاں چلی جاتی ہیں وہ بھی رو دھو کر، کئی آدمی پورب سے آئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وہاں دو تین روپے روز کی مزدوری ہوتی ہے، چار پانچ سال بھی رہ گیا تو مالا مال ہو جاؤنگا۔ اب لڑکے بالے ہوئے ان کے لیے تو کچھ کرنا ہی چاہیئے۔"

دلاری نے تائید کی۔ "ہاتھ میں چار پیسے ہونگے، لڑکوں کو پڑھائیں گے، ہماری تو کس طرح کٹ گئی، لڑکوں کو تو پڑھانا ہے۔"

پیاری یہ رائے سنکر حیران رہ گئی، انکا منہ تکنے لگی، اسے سے پہلے اس طرح کی بات چیت کبھی نہیں ہوئی تھی۔ انہیں یہ دھن کیسے سوار ہو گئی، اسے شک ہوا کہ شاید میری وجہ سے خیال پیدا ہوا ہے۔

بولی، "میں تو جانے کو نہیں کہوں گی، آگے تمھاری جیسی خواہش ہو، لڑکوں کو پڑھانے لکھانے کے لیے یہاں بھی سکول ہیں، پھر کیا ہمیشہ ایسا ہی وقت رہے گا، دو تین سال میں کھیتی بن جائے گی تو سب کچھ ہو جائے گا۔"

متھرا۔ "اتنے روز کھیتی کرتے ہو گئے جب اب تک نہ بنی تو اب کیا بن جائے گی، اسی طرح ایک روز چل دیں گے، دل کی دل ہی میں رہ جائے گی۔ پھر اب پاتھ پاؤں بھی تو تھک رہے ہیں۔ یہ کھیتی کون سنبھالے گا۔ لڑکوں کو اس چکی میں جوت کر انکی زندگی خراب کرنی نہیں چاہتا۔"

پیاری نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔ "بھیا گھر پر جب تک آدھی ملے، ساری کیلیئے نہ دوڑنا چاہیئے۔ اگر میری طرف سے کوئی بات ہو تو اپنا گھر بار اپنے ہاتھ میں لے لو، مجھے ٹکڑا دے دینا، پڑی رہوں گی۔"

(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
مالکن

(گزشتہ سے پیوستہ)



متھرا گلوگیر آواز سے بولا۔ "بھابھی یہ تم کیا کہتی ہو، تمھارے ہی سنبھالے یہ گھر اب تک سنبھلا ہے، نہیں تو ختم ہو چکا ہوتا۔ اس گرہستی کے پیچھے تم نے اپنے کو مٹی میں ملا دیا، اپنا جسم تک گھلا ڈالا، میں اندھا نہیں ہوں، سب کچھ سمجھتا ہوں، ہم لوگوں کو جانے دو، بھگوان نے چاہا تو گھر پھر سنبھل جائے گا۔ تمھارے لیئے ہم برابر خرچ بھیجتے رہیں گے۔"

پیاری نے کہا۔ "اگر ایسا ہی ہے تو تم چلے جاؤ، بال بچوں کو کہاں کہاں باندھے پھرو گے۔"

دلاری بولی۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بہن، یہاں دیہات میں لڑکے کیا پڑھیں لکھیں گے، بچوں کے بغیر وہاں انکا جی بھی نہ لگے گا، دوڑ دوڑ کر گھر آئیں گے اور ساری کمائی ریل کھا جائے گی، پردیس میں اکیلے جتنا خرچ ہوگا اتنے میں سارا گھر آرام سے رہے گا۔"

پیاری بولی۔ "تو میں ہی یہاں رہ کر کیا کرونگی؟ مجھے بھی لیتے چلو۔"

دلاری اسے ساتھ لے چلنے کو تیار نہ تھی۔ کچھ روز زندگی کا لطف اٹھانا چاہتی تھی اگر پردیس میں بھی یہی ضابطہ رہا تو جانے سے فائدہ ہی کیا؟ بولی۔ "بہن، تو چلتی تو کیا بات تھی لیکن پھر یہاں تو سارا کاروبار چوپٹ ہو جائے گا۔ تم کچھ نہ کچھ دیکھ بھال کرتی ہی رہو گی۔"

روانگی کی تاریخ سے ایک روز پہلے ہی رام پیاری نے رات بھر جاگ کر حلوہ پوڑی پکائی، جب سے اس گھر میں آئی کبھی ایک روز کے لیے بھی تنہا رہنے کا اتفاق نہیں ہوا ،دونوں بہنیں ہمیشہ ساتھ رہیں، آج اس ہولناک موقع کو سامنے آتے دیکھ کر پیاری کا دل بیٹھا جاتا تھا۔ وہ دیکھتی جاتی تھی کہ متھرا خوش ہے، لڑکے باہر جانے کی خوشی میں کھانا پینا بھولے ہوئے ہیں تو اسکے جی میں آتا تھا کہ وہ بھی اسی طرح بے غم رہے، محبت و ہمدردی کو پیروں تلے کچل ڈالے لیکن وہ محبت جس غذا کو کھا کھا کر پلی تھی اسے اپنے سامنے سے ہٹتے جاتے دیکھ کر بے قرار ہونے سے نہ رک سکی۔ دلاری تو اس طرح بے فکر بیٹھی تھی جیسے کوئی میلا دیکھنے جا رہی تھی۔ نئی چیزوں کے دیکھنے، نئی دنیا کی سیر کرنے کے شوق نے اسے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ پیاری کے سر انتظامِ کاروبار تھا۔ دھوبی کے گھر سے سب کپڑے آئے ہیں یا نہیں، کون کون سے برتن ساتھ جائیں گے۔ سفر خرچ کیلیئے کتنے روپے کی ضرورت ہوگی۔ ایک بچے کو کھانسی آ رہی ہے، دوسرے کو کئی روز سے دست آ رہے تھے، ان دونوں کی دوائیوں کو کوٹنا پیسنا وغیرہ سینکڑوں کام اسے مصروف کیے ہوئے تھے۔ لا ولد ہو کر بھی وہ بچوں کی داشت و پرداخت میں دلاری سے ہوشیار تھی۔ دیکھو بچوں کو زیادہ مارنا پیٹنا مت، مارنے سے بچے ضدی اور بے حیا ہو جاتے ہیں، بچوں کے ساتھ آدمی کو بچہ بن جانا پڑتا ہے، کبھی انکے ساتھ کھیلنا پڑتا ہے کبھی ہنسنا پڑتا ہے۔ اگر تم چاہو کہ ہم آرام سے پڑے رہیں اور بچے چپ چاپ بیٹھے رہیں، ہاتھ پاؤں نہ ہلائیں تو یہ نہیں ہو سکتا، بچے تو طبیعت کے تیز ہوتے ہیں، انہیں کسی نہ کسی کام میں پھنسائے رکھو، دھیلے کا ایک کھلونا ہزار گھرکیوں سے بہتر ہوتا ہے۔

دلاری یہ ہدائیتیں اس بے توجہی سے سن رہی تھی گویا کوئی پاگل بک رہا ہے۔

رخصت کا روز پیاری کیلیئے امتحان کا دن تھا۔ اسکے جی میں آتا تھا کہ کہیں چلی جائے تا کہ وہ منظر نہ دیکھنا پڑے، ہائے گھڑی بھر میں یہ گھر سونا ہو جائے گا، وہ دن بھر گھر میں تنہا پڑی رہے گی، کس سے ہنسے گی، کس سے بولے گی؟ یہ سوچ کر اسکا دل لرزا جاتا تھا۔ جوں جوں وقت قریب آتا تھا اس کے حواس معطل ہوتے جاتے تھے۔ وہ کوئی کام کرتے کرتے جیسے کھو جاتی تھی اور ٹکٹکی باندھ کر کسی چیز کی طرف دیکھنے لگتی تھی، کبھی موقع پا کر تنہائی میں جا کر تھوڑا سا رو لیتی تھی۔ دل کو سمجھا رہی تھی کہ یہ لوگ اپنے ہوتے تو کیا اس طرح جاتے، یہ مانا کہ ناطہ ہے مگر کسی پر زور تو نہیں۔ دوسروں کیلیئے کتنا ہی مرو پھر بھی اپنے نہیں ہوتے، پانی تیل میں کتنا ہی ملے پھر بھی الگ ہی رہے گا۔ بچے نئے نئے کپڑے پہنے نواب بنے گھوم رہے تھے، پیاری انہیں پیار کرنے کیلیئے گود میں لینا چاہتی تھی تو رونے کا منہ بنا کر چھڑا کر بھاگ جاتے ہیں، دس بجتے بجتے دروازے پر بیل گاڑی آ گئی، لڑکے پہلے ہی سے اس پر جا بیٹھے، گاؤں کے کتنے ہی مرد عورتیں ملنے آئیں۔ پیاری کو اس وقت انکا آنا برا معلوم ہوتا تھا۔ وہ دلاری سے تھوڑی دیر تنہائی میں گلے مل کر رونا چاہتی تھی، متھرا سے ہاتھ جوڑ کر کہنا چاہتی تھی کہ میری کھوج خبر لیتے رہنا، تمھارے سوا اب دنیا میں میرا کون ہے؟ لیکن گڑ بڑ میں اسے ان باتوں کا موقع نہ ملا، متھرا اور دلاری دونوں گاڑی میں جا بیٹھے اور پیاری دروازے پر کھڑی روتی رہ گئی، وہ اتنی حواس باختہ تھی کہ اسے گاؤں کے باہر تک پہنچانے کا بھی ہوش نہ رہا۔

(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
مالکن

(گزشتہ سے پیوستہ)


(6)


کئی روز تک پیاری بیہوش سی پڑی رہی، نہ گھر سے نکلی نہ چولھا جلایا نہ ہاتھ منہ دھویا۔ اسکا ہلوایا جوکھو بار بار آ کر کہتا۔ "مالکن اٹھو، منہ ہاتھ دھوؤ، کچھ کھاؤ پیو، کب تک اسطرح پڑی رہو گی؟"

اسطرح کی تسلی گاؤں کی عورتیں بھی دیتی تھیں لیکن انکی تسلی میں ایک قسم کے بغض کا انداز پایا جاتا تھا اور جوکھو کی آواز میں سچی محبت جھلکتی تھی۔ جوکھو کام چور، باتونی اور نشے باز تھا۔ پیاری اسے برابر ڈانٹتی رہتی تھی، وہ ایک بار اسے نکال بھی چکی تھی مگر متھرا کی سفارش سے پھر رکھ لیا تھا، آج بھی جوکھو کی ہمدرد بھری باتیں سن کر جنجھلاتی کہ یہ کام کرنے کیوں نہیں جاتا، یہاں میرے پیچھے کیوں پڑا ہے مگر اسے جھڑکنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت اسے ہمدردی کی ضرورت تھی، پھل کانٹے دار درخت پر بھی ملیں تو کیا انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

رفتہ رفتہ طبیعت بہلنے لگی، زندگی کا کاروبار جاری ہوا، اب کھیتی کا سارا بار پیاری پر تھا۔ لوگوں نے رائے دی کہ ایک ہل توڑ دو اور کھیتوں کو اٹھا دو لیکن پیاری کی وضعداری یوں ڈھول پیٹ کر اپنی شکست قبول نہ کر سکتی تھی۔ تمام کام سابق کی طرح چلنے لگے، ادھر متھرا کے خط و کتابت نہ کرنے سے اس کے جذبات کو اور اشتعال ہوا، "وہ سمجھتا تھا کہ میں اسکے بھروسے بیٹھی ہوں، یہاں اسکے کھلانے کا بھی دعویٰ رکھتی ہوں، اسکے بھیجنے سے مجھے کوئی خزانہ مل جاتا، اسے اگر میری فکر نہیں ہے تو میں اسکی کب پرواہ کرتی ہوں"۔ گھر میں تو اب کوئی زیادہ کام رہا نہیں تھا، پیاری تمام کھیتی باڑی کے کاموں میں لگی رہتی، خربوزے بوئے تھے وہ خوب پھلے اور بکے۔ سب دودھ گھر میں خرچ ہو جاتا تھا اب بکنے لگا۔ پیاری کے خیالات میں بھی ایک عجیب انقلاب پیدا ہو گیا، وہ اب صاف ستھرے کپڑے پہنتی، مانگ چوٹی کی طرف سے بھی اتنی بے توجہی نہ تھی، زیوروں کا بھی شوق ہوا۔ روپے ہاتھ میں آتے ہی اس نے اپنے گروی کے گہنے چھڑائے اور کھانے میں بھی احتیاط کرنے لگی۔ تالاب پہلے کھیتوں کو سیراب کر کے خود خالی ہو جاتا تھا، اب نکاس کی نالیاں بند ہو گئیں تھیں، تالاب میں پانی جمع ہونے لگا۔ اب اس میں ہلکی ہلکی لہریں بھی تھیں، کھلے ہوئے کنول بھی تھے۔ ایک روز جوکھو کنویں سے لوٹا تو اندھیرا ہو گیا تھا، پیاری نے پوچھا، "اب تک وہاں کیا کرتا رہا۔"

جوکھو نے کہا۔ "چار کیاریاں بچ رہی تھیں، میں نے سوچا دس منٹ اور کھینچ دوں، کل کا جنھجھٹ کون رکھے۔"

جوکھو اب کچھ دنوں سے کام میں جی لگانے لگا تھا۔ جب تک مالک اسکے سر پر سوار رہتے تھے وہ حیلے بہانے کرتا تھا، اب سب کچھ اسکے ہاتھ میں تھا، پیاری سارے دن کنوئیں پر تھوڑی ہی رہ سکتی تھی، اسلیے اب اس میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔

پیاری نے پانی کا لوٹا رکھتے ہوئے کہا۔ "اچھا ہاتھ منہ دھو ڈالو، آدمی جان رکھ کر کام کرتا ہے، ہائے ہائے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، کھیت آج نہ ہوتے کل ہوتے، کیا جلدی تھی؟"

جوکھو نے سمجھا پیاری بگڑ رہی ہے، اس نے تو اپنی سمجھ میں کارگزاری کی تھی اور سمجھا تھا تعریف ہوگی، یہاں اعتراض ہوا، چڑ کر بولا۔ ""مالکن تم داہنے بائیں دونوں طرف چلتی ہو، جو بات نہیں سمجھتی ہو اس میں کیوں کودتی ہو۔ کل کے لیے تو اونچے کے کھیت پڑے سوکھ رہے ہیں۔ آج بڑی مشکل سے کنواں خالی ہوا ہے، سویرے میں نہ پہنچتا تو کوئی اور آ کر ڈٹ جاتا، پھر ہفتے بھر تک راہ دیکھنی پڑتی، تب تک تو اوکھ بدا ہو جاتی۔"

پیاری اسکی سادگی پر ہنس کر بولی۔ "ارے تو میں تجھے کچھ کہہ تھوڑی ہی رہی ہوں، میں تو کہتی ہوں کہ جان رکھ کر کام کر، کہیں بیمار پڑ گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔"

جوکھو۔ "کون بیمار پڑ جائے گا، بیس برس سے کبھی سر تک تو نہیں دکھا، آئندہ کی نہیں جانتا، کہو رات بھر کام کرتا رہوں۔"

پیاری۔ "میں کیا جانوں، تم ہی آئے دن بیٹھے رہتے تھے اور پوچھا جاتا تھا تو کہتے تھے کہ بخار آ گیا تھا، پیٹ میں درد تھا۔"

جوکھو جھینپتا ہوا بولا۔ "وہ باتیں جب تھیں جب مالک لوگ چاہتے تھے اسے پیس ڈالیں، اب تو جانتا ہوں میرے ہی سر ہے، میں نہ کرونگا تو سب چوپٹ ہو جائے گا۔"

پیاری۔ "میں کیا دیکھ بھال نہیں کرتی؟"

جوکھو۔ "تم بہت کرو گی تو دو وقت چلی جاؤ گی، تمام دن تم وہاں بیٹھی تو نہیں رہ سکتیں۔"

پیاری کو اسکی اخلاص بھری باتوں نے فریفتہ کر لیا، بولی۔ "اتنی رات گئے چولھا جلاؤ گے، بیاہ کیوں نہیں کر لیتے؟"

جوکھو نے منہ دھوتے ہوئے کہا۔ "تم بھی خوب کہتی ہو مالکن، اپنے پیٹ بھر کو تو ہوتا نہیں، بیاہ کر لوں۔ سوا سیر کھاتا ہوں، ایک وقت پورا سوا سیر، دونوں وقت کے لیے ڈھائی سیر چاہیئے۔"

پیاری۔ "آج میری رسوئی میں کھاؤ، دیکھوں کتنا کھاتے ہو؟"

جوکھو نے گلوگیر آواز میں کہا۔ "نہیں مالکن تم پکاتے پکاتے تھک جاؤ گی، ہاں آدھ آدھ سیر کی روٹیاں پکا دو کھا لوں، میں تو یہی کرتا ہوں۔ بس آٹا گوندھ کر دو روٹ بنا لیتا ہوں، اوپر سے سینک لیتا ہوں، کبھی میٹھے سے، کبھی پیاز سے، اور آ کر پڑ رہتا ہوں۔"

پیاری۔ "میں تجھے آج پھلکے کھلاؤنگی۔"

جوکھو۔ "تب تو ساری رات کھاتے ہی گزر جائے گی۔"

پیاری۔ "بکو مت، جلدی آ کر بیٹھ جاؤ۔"

جوکھو۔ "ذرا بیلوں کو چارہ پانی دیتا آؤں تو بیٹھوں۔"

-----------------

جوکھو اور پیاری میں ٹھنی ہوئی تھی۔

پیاری نے کہا۔ "میں کہتی ہوں کہ دھان روپنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جھڑی لگ جائے تو کھیت ڈوب جائے، بارش رک جائے تو کھیت سوکھ جائے، جوار، باجرہ، سن، ارہر سب تو ہیں دھان نہ سہی۔"

جوکھو نے اپنے کندھے پر پھاؤڑا رکھتے ہوئے کہا۔ "جب سب کا ہوگا تو میرا بھی ہوگا، سب کا ڈوب جائے گا تو میرا بھی ڈوب جائے گا۔ میں کیوں کسی سے پیچھے رہوں؟ بابا کے زمانے میں پانچ بیگھے سے کم نہیں روپا جاتا تھا، برجو بھیا نے اس میں ایک دو بیگھے اور بڑھا دیئے، متھرا نے بھی ہر سال تھوڑے بہت روپے تو کیا میں سب سے گیا گزرا ہوں، میں پانچ بیگھے سے کم نہیں لگاؤنگا۔"

"تب گھر کے دو جوان کام کرنے والے تھے۔"

"میں تنہا ان دونوں کے برابر کھاتا ہوں، دونوں کے برابر کام کیوں نہ کرونگا۔"

"چل جھوٹا کہیں کا، کہتا تھا دو سیر کھاتا ہوں، چار سیر کھاتا ہوں۔ آدھ سیر میں ہی رہ گیا۔"

"کسی روز تولو تو معلوم ہو۔"

"تولا ہے، بڑے کھانے والے۔ میں کہے دیتی ہوں دھان نہ روپو، مزدور ملیں گے نہیں، تمھیں ہلکان ہونا پڑے گا۔"

"تمھاری بلا سے ہلکان ہونگا، یہ بدن کس روز کام آئے گا۔"

پیاری نے اسکے کندھے سے پھاؤڑا لے لیا اور بولی۔ "پہر رات سے پہر رات تک تال میں رہو گے، نہ میرا دل گھبرائے گا۔"

جوکھو کو دل گھبرانے کا تجربہ نہ تھا، کوئی کام نہ ہو تو آدمی پڑ سو رہے، دل کیوں گھبرائے گا، بولا۔ "جی گھبرائے تو سو رہنا، میں گھر رہونگا تب تو اور جی گھبرائے گا، میں بیکار بیٹھتا ہوں تب مجھے بار بار کھانے کی سوجھتی ہے، باتوں میں دیر ہو رہی ہے اور بادل گھرتے آتے ہیں۔"

پیاری نے کہا۔ "اچھا کل جانا، آج بیٹھو۔"

جوکھو نے گویا مجبور ہو کر کہا۔ "اچھا بیٹھ گیا، کہو کیا کہتی ہو۔"

پیاری نے تمسخر کے انداز سے پوچھا۔ "کہنا کیا ہے، میں تم سے پوچھتی ہوں اپنا بیاہ کیوں نہیں کر ڈالتے، میں اکیلی مرا کرتی ہوں، تب ایک سے دو تو ہو جائیں گے۔"

جوکھو شرماتا ہوا بولا۔ "تم نے پھر وہی بات چھیڑ ڈالی مالکن، کس سے بیاہ کروں؟ میں ایسی جورو لیکر کیا کرونگا جو گہنے کیلیئے جان کھاتی رہے۔"

پیاری۔ "یہ تم نے بڑی کڑی شرط لگائی، ایسی عورت کہاں سے ملے گی جو گہنا نہ چاہتی ہو۔"

جوکھو۔ "یہ میں تھوڑا ہی کہتا ہوں کہ وہ گہنا نہ مانگے، ہاں میری جان نہ کھائے، تم نے تو کبھی گہنے کیلیئے ضد نہیں کی بلکہ اپنے گہنے دوسروں کو دے دیئے۔"

پیاری کے رخساروں پر ہلکا سا رنگ آ گیا، بولی۔ "اچھا اور کیا چاہتے ہو؟"

جوکھو۔ "میں کہنے لگوں تو بگڑ جاؤ گی۔"

پیاری کی آنکھوں میں شرم کی ایک لہر دوڑ گئی۔ "بولی بگڑنے کی بات ہوگی تو ضرور بگڑونگی۔"

جوکھو۔ "تو میں نہ کہوں گا۔"

پیاری نے اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔ "کہو گے کیسے نہیں، میں کہلا کر چھوڑونگی۔"

جوکھو۔ "اچھا تو سنو، میں چاہتا ہوں کہ وہ تمھاری طرح ہو، ایسی ہی لجانے والی ہو، ایسی ہی بات چیت میں ہوشیار ہو، ایسا ہی اچھا کھانا پکاتی ہو، ایسی ہی کفایت شعار ہو، ایسی ہی ہنس مکھ ہو، بس ایسی صورت ملے گی تو بیاہ کرونگا نہیں تو اسی طرح پڑا رہونگا۔"

پیاری کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا، پیچھے ہٹ کر بولی۔ "تم بڑے دل لگی باج ہو، ہنسی ہنسی میں سب کچھ کہہ گئے۔"


(ختم شد)
 

محمد وارث

لائبریرین
نئی بیوی


(1)

ہمارا جسم پرانا ہے لیکن اس میں ہمیشہ نیا خون دوڑتا رہتا ہے، اسی نئے خون پر زندگی قائم ہے، دنیا کے قدیم نظام میں یہ نیا پن اسکے ایک ایک ذرے میں، ایک ایک ٹہنی میں، ایک ایک قطرے میں تار میں چھپے ہوئے نغمے کی طرح گونجتا رہتا ہے اور یہ سو سال کی بڑھیا آج بھی نئی دلہن بنی ہوئی ہے۔

جب سے لالہ ڈنگا مل نے نئی شادی کی ہے انکی جوانی از سرِ نو عود کر آئی ہے۔ جب پہلی بیوی بقیدِ حیات تھی وہ بہت کم گھر رہتے تھے، صبح سے دس گیارہ بجے تک تو پوجا پاٹ ہی کرتے رہتے، پھر کھانا کھا کر دکان پر چلے جاتے، وہاں سے ایک بجے رات کو لوٹتے اور تھکے ماندے سو جاتے۔ اگر لیلا کبھی کہتی کہ ذرا اور سویرے آ جایا کرو تو بگڑ جاتے، "تمھارے لیے کیا دکان بند کر دوں یا روزگار چھوڑ دوں، یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ ایک لوٹا جل چڑھا کر لکشمی کو خوش کر لیا جائے، آج کل لکشمی کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنا پڑتا ہے تب بھی انکا منہ سیدھا نہیں ہوتا"۔ لیلا بیچاری خاموش ہو جاتی۔

ابھی چھ مہینے کی بات ہے، لیلا کو زور کا بخار تھا، لالہ جی دکان پر چلنے لگے تو لیلا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ "دیکھو، میری طبیعت اچھی نہیں ہے، ذرا سویرے آ جانا۔"

لالہ جی پگڑی اتار کھونٹی پر لٹکا دی اور بولے۔ "اگر میرے بیٹھے رہنے سے تمھارا جی اچھا ہو جائے تو میں دکان پر نہ جاؤں گا۔"

لیلا رنجیدہ ہو کر بولی۔ "میں یہ کب کہتی ہوں کہ تم دکان پر نہ جاؤ، میں ذرا سویرے آ جانے کو کہتی ہوں۔"

"تو کیا میں دکان پر بیٹھا موج کرتا ہوں؟"

لیلا کچھ نہ بولی، شوہر کی یہ بے اعتنائی اس کیلیئے کوئی نئی بات نہ تھی۔ ادھر کئی سال سے اسے اسکا دلدوز تجربہ ہو رہا تھا کہ اس گھر میں اسکی قدر نہیں ہے۔ اگر اسکی جوانی ڈھل چکی تھی تو اسکا کیا قصور تھا، کس کی جوانی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ لازم تو یہ تھا کہ 25 سال کی رفاقت اب گہرے رومانی تعلق میں تبدیل ہو جاتی جو ظاہر ہے بے نیاز رہتی ہے، جو عیب کو بھی حسن دیکھنے لگتی ہے، جو پکے پھل کی طرح زیادہ شیریں، زیادہ خوشنما ہو جاتی ہے۔ لیکن لالہ جی کا تاجر دل ہر ایک چیز کو تجارت کے ترازو پر تولتا تھا، بوڑھی گائے جب دودھ نہ دے سکتی ہو، نہ بچے تو اس کیلیئے گئو شالہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ انکے خیال میں لیلا کیلیئے بس اتنا ہی کافی تھا کہ وہ گھر کی مالکن بن رہے، آرام سے کھائے، پہنے اور پڑی رہے۔ اسے اختیار ہے چاہے جتنے زیور بنوائے، چاہے جتنی خیرات اور پوجا کرے، روزے رکھے، صرف ان سے دور رہے۔ فطرتِ انسانی کی نیرنگیوں کا ایک کرشمہ یہ تھا کہ لالہ جی جس دلجوئی اور حظ سے لیلا کو محروم رکھنا چاہتے تھے خود اسی کیلیئے ابلہانہ سرمستی سے متلاشی رہتے تھے۔ لیلا چالیس کی ہو کر بوڑھی سمجھ لی گئی تھی مگر وہ پینتالیس کے ہو کر ابھی جوان تھے۔ جوانی کے ولولوں اور مسرتوں سے بیقرار، لیلا سے اب انہیں ایک طرح کی کراہت ہوتی تھی اور وہ غریب جب اپنی خامیوں کے حسرتناک احساس کی وجہ سے فطری بے رحمیوں کے ازالے کیلیئے رنگ روغن کی آڑ لیتی تو وہ اسکی بوالہوسی سے اور بھی متنفر ہو جاتے۔ "چہ خوش، سات لڑکوں کی تو ماں ہو گئیں، بال کھچڑی ہو گئے، چہرہ دھلے ہوئے فلالین کی طرح پر شکن ہو گیا، مگر آپ کو ابھی مہادر اور سیندور، مہندی اور ابٹن کی ہوس باقی ہے۔ عورتوں کی بھی کیا فطرت ہے، نہ جانے کیوں آرائش پر اس قدر جان دیتی ہیں، پوچھو اب تمھیں اور کیا چاہیئے؟ کیوں نہیں دل کو سمجھا لیتیں کہ جوانی رخصت ہو گئی اور ان تدبیروں سے اسے واپس نہیں بلایا جا سکتا۔" لیکن وہ خود جوانی کا خواب دیکھتے رہتے تھے، طبیعت جوانی سے سیر نہ ہوتی، جاڑوں میں کشتوں اور معجونوں کا استعمال کرتے رہتے تھے، ہفتے میں دو بار خضاب لگاتے اور کسی ڈاکٹر سے بندر کے غدودوں کے متعلق خط و کتابت کر رہے تھے۔

لیلا نے انہیں شش و پنج کی حالت میں کھڑا دیکھ کر مایوسانہ انداز سے کہا۔ "کچھ بتلا سکتے ہو، کے بجے آؤ گے۔"

لالہ جی نے ملائم لہجے میں کہا۔ "تمھاری طبیعت آج کیسی ہے؟"

لیلا کیا جواب دے؟ اگر کہتی ہے، بہت خراب ہے تو شاید یہ حضرت یہیں بیٹھ جائیں اور اسے جلی کٹی سنا کر اپنے دل کا بخار نکالیں۔ اگر کہتی ہے اچھی ہوں تو شاید بے فکر ہو کر دو بجے رات کی خبر لائیں۔ ڈرتے ڈرتے بولی۔ "اب تک تو اچھی تھی لیکن اب کچھ بھاری بھاری ہو رہی ہے لیکن تم جاؤ، دکان پر لوگ تمھارے منتظر ہونگے مگر ایشور کیلیئے دو نہ بجا دینا۔ لڑکے سو جاتے ہیں، مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگتا، طبیعت گھبراتی ہے۔"

سیٹھ جی نے لہجے میں محبت کی چاشنی دیکر کہا۔ "بارہ بجے تک آؤنگا ضرور۔"

لیلا کا چہرہ اتر گیا۔ "دس بجے تک نہیں آ سکتے۔"

"ساڑھے گیارہ سے پہلے کسی طرح نہیں۔"

"ساڑھے دس بھی نہیں۔"

"اچھا گیارہ بجے۔"

گیارہ پر مصالحت ہو گئی۔ لالہ جی وعدہ کر کے چلے گئے لیکن شام کو ایک دوست نے مجرا سننے کی دعوت دی۔ اب بیچارے اس دعوت کو کیسے رد کر دیتے۔ جب ایک آدمی آپ کو خاطر سے بلاتا ہے تو یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اسکی دعوت نا منظور کر دیں، وہ آپ سے کچھ مانگتا نہیں، آپ سے کسی طرح کی رعایت کا خواستگار نہیں، محض دوستانہ بے تکلفی سے آپ کو اپنی بزم میں شرکت کی دعوت دیتا ہے، آپ پر اسکی دعوت قبول کرنا فرض ہوتا ہے۔ گھر کے جنجال سے کسے فرصت ہوتی ہے، ایک نہ ایک کام تو روز لگا ہی رہتا ہے، کبھی کوئی بیمار ہے، کبھی پوجا ہے، کبھی کچھ۔ اگر آدمی یہ سوچے کہ گھر سے بے فکر ہو کر جائیں گے تو اسے سارے دوستانہ مراسم منقطع کر لینے پڑیں گے، اسے شاید ہی گھر سے کبھی فراغت نصیب ہو۔ لالہ جی مجرا سننے چلے گئے تو دو بجے لوٹے، آتے ہی اپنے کمرے کی گھڑی کی سوئیاں پیچھے کر دیں لیکن ایک گھنٹے سے زیادہ کی گنجائش کسی طرح نہ نکال سکے، دو کو ایک کہہ سکتے ہیں، گھڑی کی تیزی کے سر الزام رکھا جاتا ہے لیکن دو کو بارہ نہیں کہہ سکتے۔ چپکے سے آ کر نوکر کو جگایا۔ کھانا کھا کر آئے تھے، اپنے کمرے میں جا کر لیٹ رہے۔ لیلا انکی راہ دیکھتی، ہر لمحہ درد اور بے چینی کی بڑھتی ہوئی شدت کا احساس کرتی نہ جانے کب سو گئی تھی۔ اسے جگانا سوئے ہوئے فتنے کو جگانا تھا۔

غریب لیلا اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکی، لالہ جی کو اسکی وفات کا بیحد روحانی صدمہ ہوا۔ دوستوں نے تعزیت کے تار بھیجے، کئی دن تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا، ایک روزانہ اخبار نے مرنے والی کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے اسکی دماغی اور اخلاقی خوبیوں کی مبالغہ آمیز تصویر کھینچی۔ لالہ جی نے ان سب ہمدردوں کا دلی شکریہ ادا کیا اور انکے خلوص اور وفاداری کا اظہار جنت نصیب لیلا کے نام سے لڑکیوں کیلیئے پانچ وظیفے قائم کرنے کی صورت میں نمودار ہوا۔ "وہ نہیں مریں صاحب، میں مر گیا۔ زندگی کی شمعِ ہدایت گل ہو گئی، اب تو جینا اور رونا ہے، میں تو ایک حقیر انسان تھا نہ جانے کس کارِ خیر کے صلے میں مجھے یہ نعمت بارگاہِ ایزدی سے عطا ہوئی تھی، میں تو اسکی پرستش کرنے کے قابل بھی نہ تھا۔" وغیرہ۔

چھ مہینے کی عزلت اور نفس کشی کے بعد لالہ ڈنگا مل نے دوستوں کے اصرار سے دوسری شادی کر لی۔ آخر غریب کیا کرتے، زندگی میں ایک رفیق کی ضرورت تو تھی ہی اور اس عمر میں تو رفیق کی ضرورت اور زیادہ ہو گئی تھی۔ لکڑی کی ضرورت تو جبھی ہوتی ہے جب پاؤں میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہتی۔


(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
نئی بیوی


(گزشتہ سے پیوستہ)


(2)

جب سے نئی بیوی آئی ہے، لالہ جی کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب ہو گیا ہے، دکان سے اب انہیں اس قدر انہماک نہیں ہے، متواتر نہ جانے سے بھی انکے کاروبار میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔ زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت جو ان میں روز بروز مضحمل ہوتی جاتی تھی، اب یہ ترشح پا کر پھر سرسبز ہو گئی ہے، اس میں نئی نئی کونپلیں پھوٹنے لگی ہیں۔ موٹر نیا آ گیا ہے، کمرے نئے فرنیچر سے آراستہ کر دیئے گئے ہیں، نوکروں کی تعداد میں معقول اضافہ ہو گیا ہے، ریڈیو بھی لگا دیا گیا ہے۔ لالہ جی کی بوڑھی جوانی، جوانوں کی جوانی سے بھی زیادہ پرچوش اور ولولہ انگیز ہو رہی ہے، اسی طرح جیسے بجلی کی روشنی چاند کی روشنی سے زیادہ شفاف اور نظر فریب ہوتی ہے۔ لالہ جی کو انکے احباب انکی اس جوان طبعی پر مبارکباد دیتے ہیں تو وہ تفاخر کے انداز سے کہتے ہیں۔ "بھئی ہم تو ہمیشہ جوان رہے اور جوان رہیں گے، بڑھاپا میرے آئے تو اسکے منہ پر سیاہی لگا کر گدھے پر الٹا سوار کر کے شہر بدر کردوں، جوانی اور بڑھاپے کو لوگ نہ جانے عمر سے کیوں منسوب کرتے ہیں، جوانی کا عمر سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا مذہب کا اخلاق سے، روپے کا ایمانداری سے، حسن کا آرائش سے۔ آجکل کے جوانوں کو آپ جوان کہتے ہیں، ارے صاحب میں انکی ایک ہزار جوانیوں کو اپنی جوانی کے ایک گھنٹے سے تبدیل نہ کروں، معلوم ہوتا ہے زندگی میں کوئی دلچسپی ہی نہیں، کوئی شوق ہی نہیں، زندگی کیا ہے گلے میں پڑا ہوا ڈھول ہے۔" یہی الفاظ وہ کچھ ضروری ترمیم کے بعد آشا دیوی کے لوحِ دل پر نقش کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ہمیشہ سینما، ٹھیٹر، سیرِ دریا کیلیئے اصرار کرتے ہیں لیکن آشا نہ جانے کیوں ان دلچسپیوں سے ذرا بھی متاثر ہو جاتی تو ہے مگر اصرار کے بعد۔ ایک دن لالہ جی نے آ کر کہا۔ "چلو آج بجرے پر دریا کی سیر کر آئیں۔"

بارش کے دن تھے، دریا چڑھا ہوا تھا، ابر کی قطاریں بین الاقوامی فوجوں کی سی رنگ برنگ وردیاں پہنے آسمان پر قواعد کر رہی تھیں۔ سڑک پر لوگ ملہار اور بارہ ماسے گاتے چلے جا رہے تھے، باغوں میں جھولے پڑ گئے تھے۔

آشا نے بے دلی سے کہا۔ "میرا تو جی نہیں چاہتا۔"

لالہ جی نے تادیب آمیز اصرار سے کہا۔ "تمھاری کیسی طبیعت ہے جو سیر و تفریح کی جانب مائل نہیں ہوتی۔"

"آپ جائیں مجھے اور کئی کام کرنے ہیں۔"

"کام کرنے کو ایشور نے آدمی دے دیئے ہیں، تمھیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟"

"مہراج اچھا سالن نہیں پکاتا، آپ کھانے بیٹھیں گے تو یونہی اٹھ جائیں گے؟"

لیلا اپنی فرصت کا بیشتر حصہ لالہ جی کیلیئے انواع و اقسام کے کھانے پکانے میں صرف کرتی تھی، کسی سے سن رکھا تھا کہ ایک خاص عمر کے بعد مردوں کی زندگی کی خاص دلچسپی لذتِ زبان رہ جاتی ہے۔ لالہ جی کے دل کی کلی کھل گئی، آشا کو ان سے اسقدر محبت ہے کہ وہ سیر کو انکی خدمت پر قربان کر رہی ہے۔ ایک لیلا تھی کہ کہیں جاؤں پیچھے چلنے کو تیار، پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا، بہانے کرنے پڑتے تھے، خود سر پر سوار ہو جاتی تھی، سارا مزہ کرکرا کر دیتی تھی۔

بولے۔ "تمھاری بھی عجیب طبیعت ہے، اگر ایک دن سالن بے مزہ ہی رہا تو ایسا کیا طوفان آ جائے گا، تم اسطرح میرے رئیسانہ چونچلوں کا لحاظ کرتی رہو گی تو مجھے بالکل آرام طلب بنا دو گی، اگر تم نہ چلو گی تو میں بھی نہ جاؤنگا۔"

آشا نے جیسے گلے سے پھندا چھڑاتے ہوئے کہا۔ "آپ بھی تو مجھے ادھر ادھر گھما کر میرا مزاج بگاڑ دیتے ہیں، یہ عادت پڑ جائے گی تو گھر کے دھندے کون کریگا؟"

لالہ جی نے فیاضانہ لہجے میں کہا۔ "مجھے گھر کے دھندوں کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے، بال کی نوک برابر بھی نہیں، میں چاہتا ہونکہ تمھارا مزاج بگڑے اور تم اس گھر کی چکی سے دور ہو اور تم مجھے بار بار آپ کیوں کہتی ہو؟ میں چاہتا ہوں تم مجھے تم کہو، تو کہو، محبت کی گالیاں دو، غصے کی صلواتیں سناؤ، لیکن تم مجھے آپ کہہ کر جیسے دیوتا کی سنگھاسن پر بٹھا دیتی ہو، میں اپنے گھر میں دیوتا نہیں شریر چھوکرا بنکر رہنا چاہتا ہوں۔"

آشا نے مسکرانے کی کوشش کر کے کہا۔ "آئے نوج، بھلا میں آپ کو تم کہونگی، تم برابر والوں کو کہا جاتا ہے یا بڑوں کو؟"

منیم جی نے ایک لاکھ کے گھاٹے کی پر ملال خبر سنائی ہوتی تب بھی لالہ جی کو شاید اتنا صدمہ نہ ہوتا جتنا آشا کے ان بھولے بھالے الفاظ سے ہوا۔ انکا سارا جوش سارا ولولہ ٹھنڈا پڑ گیا، جیسے برف کی طرح منجمد ہو گیا۔ سر پر مانکی رکھی ہوئی رنگین پھولدار ٹوپی، گلے میں پڑی ہوئی جوکٹے رنگ کی ریشمی چادر، وہ تن زیب کا بیل دار کرتہ جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے، یہ سارا ٹھاٹھ جیسے انہیں مضحکہ خیز معلوم ہونے لگا، جیسے سارا نشہ کسی منتر سے اتر گیا ہو۔

دل شکستہ ہو کر بولے۔ "تو تمھیں چلنا ہے یا نہیں؟"

"میرا جی نہیں چاہتا۔"

"لو میں بھی نہ جاؤں۔"

"میں آپ کو کب منع کرتی ہوں۔"

"پھر آپ کہا۔"

آشا نے جیسے اندر سے زور لگا کر کہا۔ "تم" اور اسکا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔

"ہاں اسطرح تم کہا کرو، تو تم نہیں چل رہی ہو؟ اگر میں کہوں کہ تمھیں چلنا پڑے گا تب؟"

"تب چلونگی، آپکے حکم کی پابندی میرا فرض ہے؟"

لالہ جی حکم نہ دے سکے۔ فرض اور حکم جیسے الفاظ سے انکے کانوں میں خراش سی ہونے لگی، کھسیانے ہو کر باہر چلے، اس وقت آشا کو ان پر رحم آ گیا، بولی، "تو کب تک لوٹو گے۔"

"میں نہیں جا رہا۔"

"اچھا تو میں بھی چلتی ہوں۔"

جسطرح ضدی لڑکا رونے کے بعد اپنی مطلوبہ چیز پا کر اسے پیروں سے ٹھکرا دیتا ہے، اسی طرح لالہ جی نے رونا منہ بنا کر کہا۔ "تمھارا جی نہیں چاہتا تو نہ چلو، میں مجبور نہیں کرتا۔"

"آپ۔۔۔۔۔۔۔نہیں تم برا مان جاؤ گے۔"

آشا سیر کرنے گئی لیکن امنگ سے نہیں، جو معمولی ساڑھی پہنے ہوئے تھی وہی پہنے چل کھڑی ہوئی، نہ کوئی ساڑھی نہ کوئی مرصع زیور نہ کوئی سنگار، جیسے بیوہ ہو۔

ایسی ہی باتوں سے لالہ جی دل میں جھنجھلاتے۔ "شادی کی تھی زندگی کا لطف اٹھانے کیلیئے، جھلملاتے ہوئے چراغ میں تیل ڈالکر اسے روشن کرنے کیلیئے، اگر چراغ کی روشنی تیز نہ ہوئی تو تیل ڈالنے سے کیا فائدہ؟ نہ جانے اسکی طبیعت کیوں اسقدر خشک اور افسردہ ہے، جیسے کوئی اوسر کا درخت ہو، کتنا ہی پانی ڈالو اس میں ہری پتیوں کے درشن ہی نہیں ہوتے، جڑاؤ زیوروں کے بھرے صندوق رکھے ہیں، کہاں کہاں سے منگوائے، دہلی سے، کلکتے سے، فرانس سے، کیسی کیسی ساڑھیاں رکھی ہوئی ہیں، ایک نہیں سینکڑوں مگر صندوق میں کیڑوں کی خوراک بننے کیلیئے۔ غریب خاندان کی لڑکیوں میں بھی یہی عیب ہوتا ہے، انکی نگاہ ہمیشہ تنگ رہتی ہے، نہ کھا سکیں نہ پہن سکیں نہ دے سکیں، انہیں تو خزانہ بھی مل جائے تو یہی سوچتی رہیں گی کہ بھلا اسے خرچ کیسے کریں۔"

دریا کی سیر تو ہوئی مگر کچھ لطف نہ آیا۔

(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
نئی بیوی


(گزشتہ سے پیوستہ)


(3)

کئی ماہ تک آشا کی طبیعت کو ابھارنے کی ناکام کوشش کر کے لالہ جی نے سمجھ لیا کہ یہ محرم کی پیدائش ہے لیکن پھر بھی برابر مشق جاری رکھی۔ اس بیوپار میں ایک خطیر رقم صرف کرنے کے بعد وہ اس سے زیادہ سے زیادہ نفع اٹھانے کے تاجرانہ تقاضے کو کیسے نظر انداز کرتے۔ دلچسپی کی نئی نئی صورتیں پیدا کی جاتیں۔ گراموفون اگر بگڑ گیا ہے، گانا نہیں، یا آواز صاف نہیں نکالتا تو اسکی مرمت کرانی پڑے گی، اسے اٹھا کر رکھ دینا، یہ تو حماقت ہے۔

ادھر بوڑھا مہراج بیمار ہو کر چلا گیا تھا اور اسکی جگہ سولہ سترہ سال کا لڑکا آ گیا تھا، کچھ عجیب مسخرا سا، بالکل اجڈ اور دہقانی، کوئی بات ہی نہ سمجھتا۔ اسکے پھلکے اقلیدس کی شکلوں سے بھی زیادہ مختلف الاشکال ہو جاتے، بیچ میں موٹے کنارے پتلے۔ دال کبھی تو اتنی پتلی جیسے چائے اور کبھی اتنی گاڑھی جیسے دہی، کبھی نمک اتنا کم کہ بالکل پھیکا کبھی اتنا تیز کہ نیبو کا نمکین اچار۔ آشا سویرے ہی سے رسوئی میں پہنچ جاتی اور اس بد سلیقے مہراج کو کھانا پکانا سکھاتی۔ "تم کتنے نالائق آدمی ہو جگل؟ آخر اتنی عمر تک تم کیا گھاس کھودتے رہے یا بھاڑ جھونکتے رہے کہ پھلکے تک نہیں بنا سکتے۔"

جگل نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔ "بہو جی، ابھی میری عمر ہی کیا ہے، سترھواں سال تو ہے۔"

آشا ہنس پڑی۔ "تو روٹیاں پکانا کیا دس بیس سال میں آتا ہے؟"

"آپ ایک مہینہ میں سکھا دیں بہو جی، پھر دیکھنا میں آپ کو کیسے پھلکے کھلاتا ہوں کہ جی خوش ہو جائے۔ جس دن مجھے پھلکے پکانے آ جائیں گے میں آپ سے کوئی انعام لونگا، سالن تو اب میں کچھ کچھ پکانے لگا ہوں نا؟"

آشا حوصلہ افزا تبسم سے بولی۔ "سالن، نہیں وہ پکانا آتا ہے لیکن ابھی کل ہی نمک اتنا تیز تھا کہ کھایا نہ گیا۔"

"میں جب سالن بنا رہا تھا تو آپ یہاں کب تھیں؟"

"اچھا تو جب میں یہاں بیٹھی رہوں تب تمھارا سالن لذیذ پکے گا؟"

"آپ بیٹھی رہتی ہیں تو میری عقل ٹھکانے رہتی ہے۔"

"اور میں نہیں رہتی تب؟، تمھارے دادا آ جائیں گے تم چلے جاؤ گے؟"

"نہیں بہو جی، کسی اور کام میں لگا دیجیئے گا، مجھے موٹر چلانا سکھوا دیجیئے گا۔ نہیں نہیں، آپ ہٹ جایئے میں پتیلی اتار لونگا، ایسی اچھی ساڑھی ہے آپکی، کہیں داغ لگ جائے گا تو کیا ہو۔"

"دور ہو، پھوہڑ تو تم ہو ہی، کہیں پتیلی پیر پر گر پڑے تو مہینوں جھیلو گے۔"

جگل افسردہ ہو گیا، نحیف چہرہ اور بھی خشک ہو گیا۔

آشا نے مسکرا کر پوچھا۔ "کیوں، منہ کیوں لٹک گیا سرکار کا۔"

"آپ ڈانٹ دیتی ہیں بہو جی تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے، سیٹھ جی کتنا ہی گھرکیں مجھے ذرا بھی صدمہ نہیں ہوتا، آپ کی نظر کڑی دیکھ کر جیسے میرا خون سرد ہو جاتا ہے۔"

آشا نے تشفی دی۔ "میں نے تمھیں ڈانٹا نہیں صرف اتنا ہی کہا کہ کہیں پتیلی پاؤں پر گر پڑے تو کیا ہو؟"

"ہاتھ تو آپ کا بھی ہے، کہیں آپ کے ہاتھ سے ہی چھوٹ پڑے تب؟"

سیٹھ جی نے رسوئی کے دروازے پر آ کر کہا۔ "آشا ذرا یہاں آنا، دیکھو تمھارے لیے کتنے خوشنما گملے لایا ہوں۔ تمھارے کمرے کے سامنے رکھے جائیں گے۔ تم وہاں دھوئیں دھکڑ میں کیا پریشان ہوتی ہو، لونڈے سے کہہ دہ کہ مہراج کو بلائے ورنہ میں کوئی دوسرا انتظام کر لونگا۔ مہراجوں کی کمی نہیں ہے، آخر کب تک کوئی رعایت کرے۔ اس گدھے کو تو ذرا بھی تمیز نہ آئی، سنتا ہے جگل، لکھ دے اپنے باپ کو۔"

چولہے پر توا رکھا ہوا تھا، آشا روٹیاں بیل رہی تھی، جگل توے کیلیے روٹیوں کا انتظار کر رہا تھا، ایسی حالت میں بھلا وہ کیسے گملے دیکھنے جاتی؟ کہنے لگی۔

"ابھی آتی ہوں ذرا روٹی بیل رہی ہوں۔ چھوڑوں گی تو جگل ٹیڑھی بیلے گا۔"

لالہ جی نے کچھ چڑ کر کہا۔ "اگر روٹیاں ٹیڑھی میڑھی بیلے گا تو نکال دیا جائے گا۔"

آشا ان سنی کر کے بولی۔ "دس پانچ دن میں سیکھ جائے گا، نکالنے کی کیا ضرورت ہے۔"

"تم چل کر بتا دو گملے کہاں رکھے جائیں۔"

"کہتی ہوں روٹیاں بیل کر آ جاتی ہوں۔"

"نہیں میں کہتا ہوں تم روٹیاں مت بیلو۔"

"تم خواہ مخواہ ضد کرتے ہو۔"

لالہ جی سناٹے میں آ گئے، آشا نے کبھی اتنی بے التفاتی سے انہیں جواب نہ دیا تھا اور یہ محض بے التفاتی نہ تھی اس میں ترشی بھی تھی۔ خفیف ہو کر چلے گئے۔ انہیں ایسا غصہ آ رہا تھا کہ ان گملوں کو توڑ کر پھینک دیں اور سارے پودوں کو چولہے میں ڈال دیں۔

جگل نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ "آپ چلی جائیں، بہو جی، سرکار ناراض ہو گئے۔"

"بکو مت، جلدی جلدی روٹیاں سینکو، نہیں تو نکال دیئے جاؤ گے اور آج مجھ سے روپے لیکر اپنے لئے کپڑے بنوا لو۔ بھیک منگوں کی سی صورت بنائے گھومتے ہو اور بال کیوں اتنے بڑھا رکھے ہیں، تمھیں نائی بھی نہیں جڑتا؟"

"کپڑے بنوا لوں تو دادا کو کیا حساب دونگا۔"

"ارے بیوقوف میں حساب میں نہیں دینے کو کہتی، مجھ سے لے جانا۔"

"آپ بنوائیں گی تو اچھے کپڑے لونگا، مہین کھدر کا کرتہ، کھدر کی دھوتی، ریشمی چادر، اچھا سا چپل۔"

آشا نے مٹھاس بھرے تبسم سے کہا۔ "اور اگر اپنے دام سے بنوانے پڑے تو؟"

"تب کپڑے بنواؤں گا ہی نہیں۔"

"بڑے چالاک ہو تم۔"

"آدمی اپنے گھر پر روکھی روٹی کھا کر سو رہتا ہے لیکن دعوت میں اچھے اچھے پکوان ہی کھاتا ہے۔"

"یہ سب میں نہیں جانتی، ایک گاڑھے کا کرتہ بنوا لو اور ایک ٹوپی، حجامت کے لیے دو آنے کے پیسے لے لو۔"

"رہنے دیجیئے میں نہیں لیتا، اچھے کپڑے پہن کر نکلوں گا تو آپ کی یاد آئے گی، سڑیل کپڑے ہوئے تو جی جلے گا۔"

"تم بڑے خود غرض ہو، مفت کے کپڑے لو گے اور اعلیٰ درجے کے۔"

"جب یہاں سے جانے لگوں گا تو آپ مجھے اپنی ایک تصویر دے دیجیئے گا۔"

"میری تصویر لیکر کیا کرو گے؟"

"اپنی کوٹھڑی میں لگا دونگا اور دیکھا کرونگا، بس وہی ساڑھی پہن کر کچھوانا جو کل پہنی تھی اور وہی موتیوں والا مالا بھی ہو مجھے ننگی ننگی صورت اچھی نہیں لگتی، آپکے پاس تو بہت گہنے ہونگے آپ پہنتی کیوں نہیں؟"

"تو تمھیں گہنے اچھے لگتے ہیں۔"

"بہت۔"

لالہ جی نے پھر آ کر خفت آمیز لہجے میں کہا۔ "ابھی تک تمھاری روٹیاں نہیں پکیں۔ جگل اگر کل سے تم نے اپنے آپ اچھی روٹیاں نہ بنائیں تو میں تمھیں نکال دونگا۔"

آشا نے فوراً ہاتھ دھوئے اور بڑی مسرت آمیز تیزی سے لالہ جی کے ساتھ جا کر گملوں کو دیکھنے لگی۔ آج اسکے چہرے پر غیر معمولی شگفتگی نظر آ رہی تھی۔ اسکے اندازِ گفتگو میں بھی دلآویز شیرینی تھی۔ لالہ جی کی ساری خفت غائب ہو گئی۔ آج اسکی آواز زبان سے نہیں دل سے نکلتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی، بولی۔ "میں ان میں سے کوئی گملا نہ جانے دونگی، سب میرے کمرے کے سامنے رکھوانا۔ سب کتنے سندر پودے ہیں واہ، انکے ہندی نام بھی بتا دینا۔"

لالہ جی نے چھیڑا۔ "یہ سب لیکر کیا کرو گی، دس پانچ پسند کر لو، باقی میں باہر باغیچے میں رکھوا دونگا۔"

"جی نہیں، میں ایک بھی نہیں چھوڑونگی، سب یہیں رکھیں جائیں گے۔"

"بڑی حریص ہو تم۔"

"حریص سہی، میں آپ کو ایک بھی نہ دونگی۔"

"دس پانچ تو دے دو، اتنی محنت سے لایا ہوں۔"

"جی نہیں، ان میں سے ایک بھی نہ ملے گا۔"


(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
نئی بیوی


(گزشتہ سے پیوستہ)


(4)

دوسرے دن آشا نے اپنے آپ کو زیوروں سے خوب آراستہ کیا اور فیروزی ساڑھی پہن کر نکلی تو لالہ جی کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ اب انکی عاشقانہ دلجوئیوں کا کچھ اثر ہو رہا ہے ضرور ورنہ انکے بار بار تقاضا کرنے پر، منت کرنے پر بھی اس نے کوئی زیور نہ پہنا تھا۔ کبھی کبھی موتیوں کا ہار گلے میں ڈال لیتی تھی وہ بھی بیدلی سے۔ آج ان زیوروں سے مرصع ہو کر وہ پھولی نہیں سماتی، اترائی جاتی ہے، گویا کہتی ہے، دیکھو میں کتنی حسین ہوں۔ پہلے جو کلی تھی وہ آج کھل گئی ہے۔

لالہ صاحب پر گھڑوں کا نشہ چڑھا ہوا ہے، وہ چاہتے ہیں انکے احباب و اعزہ آ کر اس سونے کی رانی کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کریں۔ دیکھیں کہ انکی زندگی کتنی پر لطف ہے، جو انواع و اقسام کے شکوک دشمنوں کے دلوں میں پیدا ہوئے تھے وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ اعتماد، رواداری اور فراست نے کتنا خلوص پیدا کر دیا ہے۔

انہوں نے تجویز کی، "چلو کہیں سیر کر آئیں بڑی مزیدار ہوا چل رہی ہے۔"

آشا اس وقت کیسے آ سکتی ہے، ابھی اسے رسوئی جانا ہے، وہاں سے کہیں بارہ ایک بجے تک فرصت ملے گی، پھر گھر کے کام دھندے سر پر سوار ہو جائیں گے، اسے کہاں فرصت ہے۔ پھر کل سے اسے کلیجہ میں کچھ درد بھی ہو رہا ہے۔ رہ رہ کر درد اٹھتا ہے، ایسا درد کبھی نہ ہوتا تھا، رات نہ جانے کیوں درد ہونے لگا۔

سیٹھ جی ایک بات سوچ کر دل ہی دل میں پھول اٹھے۔ وہ گولیاں رنگ لا رہی ہیں۔ راج وید نے آخر کہا بھی تھا کہ ذرا سوچ سمجھ کر انکا استعمال کیجیئے گا۔ کیوں نہ ہو، خاندانی وید ہے، اسکا باپ مہاراجہ بنارس کا معالج تھا، پرانے مجرب نسخے ہیں اسکے پاس۔

چہرے پر سراسیمگی کا رنگ بھر کر پوچھا۔ "تو رات ہی سے یہ درد ہو رہا ہے، تم نے مجھ سے کہا نہیں ورنہ وید جی سے کوئی دوا منگوا لیتا۔"

"میں نے سمجھا تھا کہ آپ ہی آپ اچھا ہو جائے گا مگر بڑھ رہا ہے۔"

"کہاں درد ہو رہا ہے، ذرا دیکھوں تو کچھ آماس تو نہیں ہے۔"

سیٹھ جی نے آشا کے آنچل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ آشا نے شرما کر سر جھکا لیا اور بولی "یہی تمھاری شرارت مجھے اچھی نہیں لگتی، جا کر دوا لا دو۔"

سیٹھ جی اپنی جوانمردی کا یہ ڈپلوما پا کر اس سے کہیں زیادہ محظوظ ہوئے جتنا شاید رائے بہادری کا خطاب پا کر ہوتے۔ اپنے اس کارِ نمایاں کی داد لیے بغیر انہیں کیسے چین ہوتا۔ جو لوگ انکی شادی کے متعلق شبہ آمیز سر گوشیاں کرتے تھے انہیں زک دینے کا کتنا نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔

پہلے پنڈت بھولا ناتھ کے گھر پہنچے اور با دلِ دردمند بولے۔ "میں تو سخت مصیبت میں مبتلا ہو گیا، کل سے انکے سینے میں درد ہو رہا ہے کچھ عقل کام نہیں کرتی۔"

بھولا ناتھ نے کچھ زیادہ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ بولے، "ہوا لگ گئی ہوگی اور کیا۔"

سیٹھ جی نے ان سے اختلاف کیا۔ "نہیں پنڈت جی ہوا کا فساد نہیں ہے، کوئی اندرونی شکایت ہے، ابھی کمسن ہیں ناں، راج وید سے کوئی دوا لیے لیتا ہوں۔"

"میں تو سمجھتا ہوں آپ ہی آپ اچھا ہو جائے گا۔"

"آپ بات نہیں سمجھتے، یہی آپ میں نقص ہے۔"

"آپ کا جو خیال ہے وہ بالکل غلط ہے مگر خیر دوا لا کر دیجیے اور اپنے لیے بھی کوئی دوا لیتے آئیے گا۔"

سیٹھ جی یہاں سے اٹھ کر اپنے دوسرے دوست لالہ بھاگ مل کے پاس پہنچے اور ان سے بھی قریب قریب انہیں الفاظ میں یہ پر ملال خبر کہی۔ بھاگ مل بڑا شہدا تھا، مسکرا کر بولا۔

"مجھے تو آپکی شرارت معلوم ہوتی ہے۔"

سیٹھ جی کی باچھیں کھل گئیں۔ "میں اپنا دکھ سنا رہا ہوں اور تمھیں مذاق سوجھتا ہے، ذرا بھی انسانیت تم میں نہیں ہے۔"

"میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ بھلا اس میں مذاق کی کیا بات، وہ ہیں کمسن نازک اندام، آپ ٹھہرے آزمودہ کار، مرد میدان۔ بس اگر یہ بات نہ نکلے تو مونچھیں منڈوا ڈالوں۔"

سیٹھ جی نے متین صورت بنائی۔ "میں تو بھئی بڑی احتیاط کرتا ہوں، تمھارے سر کی قسم۔"

"جی رہنے دیجیئے، میرے سر کی قسم نہ کھایئے، میرے بھی بال بچے ہیں، گھر کا اکیلا آدمی ہوں۔ کسی قاطع دوا کا استعمال کیجیئے۔"

"انہیں راج وید سے کوئی دوا لیے دیتا ہوں۔"

"اس کی دوا وید جی کے پاس نہیں، آپ کے پاس ہے۔"

سیٹھ جی کی آنکھوں میں نور آ گیا۔ شباب کا احساس پیدا ہوا اور اسکے ساتھ چہرے پر بھی شباب کی جھلک آ گئی۔ سینہ جیسے کچھ فراخ ہو گیا، چلتے وقت انکا پیر کچھ زیادہ مضبوطی سے زمین پر پڑنے لگا اور سر کی ٹوپی بھی خدا جانے کیوں کج ہو گئی۔ بشرے سے ایک بانکپن کی شان برس رہی تھی۔ راج وید نے مژدہ جاں فزا سنا تو بولے۔ "میں نے کہا تھا ذرا سوچ سمجھ کر ان گولیوں کا استعمال کیجیئے گا۔ آپ نے میری ہدایت پر توجہ نہ کی، ذرا مہینہ دو مہینے انکا استعمال کیجیئے اور پرہیز کے ساتھ رہیئے پھر دیکھیئے گا انکا اعجاز۔ اب گولیاں بہت کم رہی ہیں، لوٹ مچی رہتی ہے لیکن انکا بنانا اتنا مشکل اور دقت طلب ہے کہ ایک بار ختم ہو جانے پر مہینوں تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ ہزاروں بوٹیاں ہیں، کیلاش، نیپال اور تبت سے منگائی جاتی ہیں۔ اور اسکا بنانا تو آپ جانتے ہیں کتنا لوہے کے چنے چبانا ہے۔ آپ احتیاطاً ایک شیشی لیتے جائیے۔"


(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
نئی بیوی


(گزشتہ سے پیوستہ)


(5)

جگل نے آشا کو سر سے پاؤں تک جگمگاتے دیکھ کر کہا۔ "بس بہو جی، آپ اسی طرح پہنے اوڑھے رہا کریں، آج میں آپ کو چولہے کے پاس نہ آنے دونگا۔"

آشا نے شرارت آمیز نظروں سے دیکھ کر کہا۔ "کیوں، آج یہ سختی کیوں؟ کئی دن تو تم نے منع نہیں کیا۔"

"آج کی بات دوسری ہے۔"

"ذرا سنوں کیا بات ہے؟"

"میں ڈرتا ہوں کہیں آپ ناراض نہ ہو جائیں، آج آپ بہت سندر لگ رہی ہیں۔"

لالہ ڈنگا مل نے سینکڑوں ہی بار آشا کے حسن و انداز کی تعریف کی تھی مگر انکی تعریف میں اسے تصنع کی بو آتی تھی، وہ الفاظ انکے منہ سے کچھ اسطرح لگتے تھے جیسے کوئی ہیجڑا تلوار لیکر چلے۔ جگل کے ان الفاظ میں ایک کیفیت تھی، ایک سرور تھا، ایک ہیجان تھا، ایک اضطراب تھا۔ آشا کے سارے جسم میں رعشہ آ گیا، آنکھوں میں جیسے نشہ چھا جائے۔

"تم مجھے نظر لگا دو گے، اسطرح کیوں گھورتے ہو؟"

"جب یہاں سے چلا جاؤنگا تب آپ کی بہت یاد آئے گی۔"

"روٹی بنا کر تم کیا کرتے ہو؟ دکھائی نہیں دیتے۔"

"سرکار رہتے ہیں اسی لیے نہیں آتا پھر اب تو جواب مل رہا ہے، دیکھیئے بھگوان کہاں لے جاتے ہیں۔"

آشا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ "کون تمھیں جواب دیتا ہے۔"

"سرکار ہی تو کہتے ہیں تجھے نکال دونگا۔"

"اپنا کام کیے جاؤ، کوئی نہیں نکالے گا، اب تو تم روٹیاں بھی اچھی بنانے لگے ہو۔"

"سرکار ہیں بڑے غصہ ور۔"

"دو چار دن میں انکا مزاج ٹھیک کیے دیتی ہوں۔"

"آپ کے ساتھ چلتے ہیں تو جیسے آپ کے باپ لگتے ہیں۔"

"تم بڑے بدمعاش ہو، خبردار زبان سنبھال کر باتیں کرو۔"

مگر خفگی کا یہ پردہ اسکے دل کا راز نہ چھپا سکا، وہ روشنی کی طرح اسکے اندر سے باہر نکل پڑتا تھا۔ جگل نے اسی بیباکی سے کہا۔ "میری زبان کوئی بند کرے، یہاں تو سب ہی کہتے ہیں۔ کوئی میرا بیاہ پچاس سال کی بڑھیا سے کر دے تو میں گھر چھوڑ کر بھاگ جاؤں، یا تو خود زہر کھا لوں یا اسے زہر دیکر مار ڈالوں، پھانسی ہی تو ہوگی۔"

آشا مصنوعی غصہ قائم نہ رکھ سکی، جگل نے اسکے دل کے تاروں پر مضراب کی ایسی چوٹ ماری تھی کہ اسے کے بہت ضبط کرنے سے بھی دردِ دل باہر نکل ہی آیا۔

"قسمت بھی تو کوئی چیز ہے۔"

"ایسی قسمت جائے جہنم میں۔"

"تمھاری شادی کسی بڑھیا سے کر دونگی، دیکھ لینا۔"

"تو میں زہر کھا لوں گا دیکھ لیجیئے گا۔"

"کیوں؟ بڑھیا تمھیں جوان سے زیادہ پیار کرے گی، زیادہ خدمت کرے گی، تمھیں سیدھے راستے پر رکھے گی۔"

"یہ سب ماں کا کام ہے، بیوی جس کام کے لیے ہے اسی کے لیے ہے۔"

"آخر بیوی کس کام کے لیے ہے۔"

"آپ مالک ہیں نہیں تو بتلا ہی دیتا بیوی کس کام کے لیے ہے۔"

موٹر کی آواز آئی، نہ جانے کیسے آشا کے سر کا آنچل سر سے کھسک کر کندھے پر آ گیا تھا، اس نے جلدی سے آنچل سر پر کھینچ لیا اور یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی۔ "لالہ کھانا کھا کر چلے جائیں گے، تم ذرا آ جانا۔"


(ختم شد)
 

محمد وارث

لائبریرین
گُلّی ڈنڈا


ہمارے انگریزی خواں دوست مانیں یا نہ مانیں، میں تو یہی کہوں گا کہ گلی ڈنڈا سب کھیلوں کا راجہ ہے، اب بھی جب کبھی لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھتا ہوں تو جی لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے کہ انکے ساتھ جا کر کھیلنے لگوں۔ نہ لان (میدان) کی ضرورت ہے نہ مشن گارڈ کی، نہ نٹ کی نہ بلے کی، مزے سے کسی درخت کی ایک شاخ کاٹ لی، گلی بنائی اور دو آدمی بھی آ گئے تو کھیل شروع ہو گیا۔ ولایتی کھیلوں میں سب سبے بڑا عیب یہ ہے کہ انکے سامان بہت مہنگے ہوتے ہیں جب تک کم از کم ایک سو خرچ نہ کیجیئے، کھلاڑیوں میں شمار ہی نہیں ہو سکتا۔ یہاں گلی ڈنڈا ہے کہ بغیر ہینگ پھٹکڑی لگے چوکھا رنگ دیتا ہے لیکن ہم انگریزی کھیلوں پر ایسے دیوانے ہو رہے ہیں کہ اپنی سب چیزوں سے ہمیں نفرت سی ہو گئی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں ہر ایک لڑکے سے تین چار روپے سالانہ صرف کھیلنے کی فیس لی جاتی ہے، کسی کو یہ نہیں سوجھتا کہ ہندوستانی کھیلیں کھلائیں جو بغیر پیسے کوڑی کے کھیلے جاتے ہیں۔ انگریزی کھیل ان کے لیے ہیں جن کے پاس روپیہ ہے، بیچارے غریب لڑکوں کے سر پر یہ فضول خرچیاں کیوں منڈھتے ہو، ٹھیک ہے گلی سے آنکھ پھوٹ جانے کا اندیشہ رہتا ہے تو کیا کرکٹ سے سر پھوٹ جانے، تلی پھٹ جانے، ٹانگ ٹوٹ جانے کا اندیشہ نہیں رہتا؟ اگر ہمارے ماتھے میں گلی کا داغ آج تک لگا ہوا ہے تو ہمارے کئی دوست ایسے بھی ہیں جو بلے سے گھائل ہونے کا سرٹیفیکٹ رکھتے ہیں۔ خیر یہ تو اپنی اپنی پسند ہے۔

مجھے گلی ڈنڈا سب کھیلوں سے زیادہ پسند ہے اور بچپن کی یادوں میں گلی ڈنڈا ہی سب سے زیادہ شیریں یاد ہے، وہ علی الصبح گھر سے نکل جانا، وہ درخت پر چڑھ کر ٹہنیاں کاٹنا اور گلی ڈنڈے بنانا، وہ جوش و خروش، وہ لگن، کھلاڑیوں کے جمگھٹے، وہ پدنا اور پدانا، وہ لڑائی جھگڑے، وہ بے تکلف سادگی جس میں چھوت اچھوت اور غریب امیر کی کوئی تمیز نہ تھی، جس میں امیرانہ چونچلوں کی غرور اور خود نمائی کی گنجائش ہی نہ تھی۔ اسی وقت بھولے گا جب گھر والے بگڑ رہے ہیں۔ والد صاحب چوکے پر بیٹھے ہوئے روٹیوں پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں، اماں کی دوڑ صرف دروازے تک ہے لیکن ان کے خیال میں میرا تاریک مستقبل ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح ڈگمگا رہا ہے اور میں ہوں کہ پدانے میں مست ہوں، نہ نہانے کا خیال ہے نہ کھانے کا۔ گلی ہے تو ذرا سی مگر اس میں دنیا بھر کی مٹھائیوں کی مٹھاس اور تماشوں کا لطف بھرا ہوا ہے۔

میرے ہمجولیوں میں ایک لڑکا گیا نام کا تھا، مجھ سے دو تین سال بڑا ہوگا، دبلا لمبا، بندروں کی سی پھرتی، بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں، بندروں کی سی جھپٹ، گلی کیسی ہو اس پر لپکتا تھا جسطرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے۔ معلوم نہیں اسکے ماں باپ کون تھے، کہاں رہتا تھا، کیا کھاتا تھا، پر تھا ہمارے گلی کلب کا چمپیئن، جس کی طرف وہ آ جائے اسکی حیثیت یقینی تھی، ہم سب اسے دور سے آتا دیکھ کر اسکا استقبال کرتے تھے اور اسے اپنا گوئیاں بنا لیتے تھے۔

ایک دن ہم اور گیا دو ہی کھیل رہے تھے، وہ پدا رہا تھا میں پد رہا تھا لیکن کچھ عجیب بات ہے کہ پدانے میں ہم دن بھر مست رہ سکتے ہیں، پدنا ایک منٹ کا بھی سہا نہیں جاتا۔ میں نے گلا چھڑانے کے لیے وہ سب چالیں چلیں جو ایسے موقع پر خلافِ قانون ہوتے ہوئے بھی قابلِ معافی ہیں لیکن گیا اپنا داؤں لیے بغیر میرا پیچھا نہ چھوڑتا تھا۔ میں گھر کی طرف بھاگا، منت سماجت اور خوشامد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ گیا نے مجھے دوڑ کر پکڑ لیا اور ڈنڈا تان کر بولا۔

"میرا داؤں دے کر جاؤ، پدایا تو بہادر بن کر، پدنے کے وقت کیوں بھاگے جاتے ہو؟"

"تم دن بھر پداؤ تو میں دن بھر پدتا رہوں؟"

"ہاں تمھیں دن بھر پدنا پڑے گا۔"

"نہ کھانے جاؤں نہ پینے جاؤں؟"

"ہاں میرا داؤں دیئے بغیر کہیں نہیں جا سکتے۔"

"میں تمھارا غلام ہوں؟"

"ہاں تم میرے غلام ہو۔"

"میں گھر جاتا ہوں، دیکھوں تم میرا کیا کر لیتے ہو۔"

"گھر کیسے جاؤ گے، کوئی دل لگی ہے، داؤں دیا ہے داؤں لیں گے۔"

"اچھا کل میں نے تمھیں امرود کھلایا تھا، وہ رکھ دو۔"

"وہ پیٹ میں چلا گیا۔"

"نکالو پیٹ سے، تم نے کیوں کھایا میرا امرود۔"

"امرود تم نے دیا تب میں نے کھایا، میں تم سے مانگنے نہ گیا تھا۔"

"جب تک میرا امرود نہ دو گے میں داؤں نہ دوں گا۔"

میں سمجھتا تھا انصاف میری طرف ہے، آخر میں نے کسی غرض کے لیے ہی اسے امرود کھلایا ہوگا، کون کسی کے ساتھ بے غرضانہ سلوک کرتا ہے، بھیک تک تو غرض کے لیے ہی دیتے ہیں، جب گیا نے میرا امرود کھایا تو پھر اسے داؤں لینے کا کیا حق حاصل ہے؟ رشوت لیکر تو لوگ خون تک چھپا جاتے ہیں وہ میرا امرود ہی ہضم کر جائے گا۔ امرود پیسے کے پانچ والے تھے جو گیا کہ باپ کو بھی نصیب نہ ہونگے۔ یہ سراسر بے انصافی تھی۔

گیا نے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ "میرا داؤں دیکر جاؤ، امرود سمرود میں نہیں جانتا۔"

مجھے انصاف کا زور تھا، میں ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا وہ مجھے جانے نہ دیتا تھا، میں نے گالی دی، اس نے اس سے بھی سخت گالی دی اور گالی ہی نہیں دی، ایک چانٹا بھی جما دیا۔ میں نے اسے دانت کانٹ لیا، اس نے میری پیٹھ پر ڈنڈا جما دیا۔ میں رونے لگا، گیا میرے اس ہتھیار کا مقابلہ نہ کر سکا، بھاگا۔ میں نے فوراً آنسو پونچھ ڈالے، ڈنڈے کی چوٹ بھول گیا اور ہنستا ہوا گھر جا پہنچا۔ میں تھانے دار کا لڑکا ایک نیچ ذات کے لونڈے کے ہاتھوں پٹ گیا۔ یہ مجھے اس وقت بھی بے عزتی کا باعث معلوم ہوا لیکن گھر میں کسی سے شکایت نہ کی۔

(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
گُلّی ڈنڈا

(گزشتہ سے پیوستہ)


ان ہی دنوں والد صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا، نئی دنیا دیکھنے کی خوشی میں ایسا پھولا کہ اپنے ہمجولیوں سے جدا ہو جانے کا بالکل افسوس نہ ہوا۔ والد صاحب افسوس کرتے تھے، یہ بڑی آمدنی کی جگہ تھی، اماں جی بھی بہت افسوس کرتی تھیں، یہاں سب چیزیں سستی تھیں اور محلے کی عورتوں سے لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ لیکن میں مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا تھا، لڑکوں سے شیخی بگھارتا تھا، وہاں ایسے گھر تھوڑے ہی ہیں، ایسے ایسے اونچے مکان ہیں کہ آسمان سے باتیں کرتے ہیں، وہاں کے انگریزی اسکول میں کوئی ماسٹر لڑکوں کو پیٹے تو قید ہو جائے۔ میرے دوستوں کی حیرت سے پھیلی ہوئی آنکھیں اور متعجب چہرے صاف بتلا رہے تھے کہ میں انکی نگاہ میں کتنا اونچا اٹھ گیا ہوں۔ بچوں میں جھوٹ کو سچ بنا لینے کی وہ طاقت ہوتی ہے جسے ہم جو سچ کو جھوٹ بنا دیتے ہیں، نہیں سمجھ سکتے۔ دوست کہہ رہے تھے، "تم خوش قسمت ہو بھائی، جاؤ، ہمیں تو اسی گاؤں میں جینا بھی ہے اور مرنا بھی۔"

بیس سال گزر گئے ہیں، انجینری پاس کی اور کسی ضلع کا دورہ کرتا ہوا اسی قصبے میں پہنچا اور ڈاک بنگلے میں ٹھہرا۔ اس جگہ کو دیکھتے ہی اس قدر دلکش اور شیریں یاد تازہ ہو کر اٹھی کہ میں نے چھڑی اٹھائی اور قصبے کی سیر کو نکلا۔ آنکھیں کسی پیاسے مسافر کی طرح بچپن کے ان مقامات کو دیکھنے کے لئے بیتاب تھیں جن کے ساتھ کتنی ہی یادگاریں وابستہ تھیں لیکن اس مانوس نام کے علاوہ وہاں کوئی شناسا نہ ملا۔ جہاں کھنڈر تھا وہاں پکے مکانات کھڑے تھے، جہاں برگد کا پرانا درخت تھا وہاں اب ایک خوبصورت باغیچہ تھا، اس جگہ کی کایا پلٹ ہو گئی تھی۔ اسکے نام و نشان کا علم نہ ہوتا تو میں اسے پہچان بھی نہ سکتا تھا۔ وہ پرانی یادگاریں باہیں پھیلا پھیلا کر اپنے پرانے دوستوں کے گلے لپٹنے کے لئے بے قرار ہو رہی تھیں مگر دنیا بدل گئی تھی، جی چاہتا تھا کہ اس زمین نے لپٹ کر روؤں اور کہوں "تم مجھے بھول گئیں لیکن میرے دل میں تمھاری یاد تازہ ہے۔"

اچانک ایک کھلی جگہ میں، میں نے دو تین لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھا، ایک لمحے کے لئے میں اپنے آپ کو بھول گیا، بھول گیا کہ میں ایک اونچا افسر ہوں، صاحبی ٹھاٹھ ہیں۔ رعب اور اختیار کے لباس میں جا کر ایک لڑکے سے پوچھا۔ "کیوں بیٹے یہاں کوئی گیا نام کا آدمی رہتا ہے؟"

ایک لڑکے نے گلی ڈنڈا سمیٹ کر سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ "کون گیا، گیا چمار؟"

میں نے یونہی کہا۔ "ہاں ہاں وہی، گیا نام کا کوئی آدمی ہے تو شاید وہی ہو۔"

"ہاں ہے تو۔"

"ذرا اسے بلا سکتے ہو؟"

لڑکا دوڑا ہوا گیا اور جلد ایک پانچ ہاتھ کے کالے دیو کو ساتھ لیے آتا دکھائی دیا، میں نے دور ہی سے پہچان لیا۔ اسکی طرف لپکنا چاہتا ہی تھا کہ اسکے گلے لپٹ جاؤں مگر کچھ سوچ کر رہ گیا۔ بولا۔

"کہو، مجھے پہچانتے ہو؟"

گیا نے جھک کر سلام کیا۔ "ہاں مالک بھلا پہچانوں گا نہیں؟ آپ مزے میں رہے؟"

"بہت مزے میں، تم اپنی کہو؟"

"ڈپٹی صاحب کا سائیس ہوں۔"

"ماتا، موہن، درگا، یہ سب کہاں ہیں، کچھ خبر ہے؟"

"ماتا تو مر گیا، موہن اور درگا دونوں ڈاکیے ہو گئے ہیں، آپ؟"

"میں ضلع کا انجینیئر ہوں۔"

"سرکار تو پہلے ہی بڑے جہین تھے۔"

"اب گلی ڈنڈا کھیلتے ہو؟"

گیا نے میری طرف سوال کی آنکھوں سے دیکھا۔ "گلی ڈنڈا کیا کھیلوں گا سرکار، اب تو پیٹ کے دھندے سے ہی چھٹی نہیں ملتی۔"

"آؤ آج ہم تم کھیلیں، تم پدانا ہم پدیں گے۔ تمھارا ایک داؤں ہمارے اوپر ہے، وہ آج لے لو۔"

گیا بڑی مشکل سے راضی ہوا، وہ ٹھہرا ٹکے کا مزدور، میں ایک بڑا افسر، میرا اور اسکا کیا جوڑ، بیچارہ جھینپ رہا تھا لیکن مجھے بھی کم جھینپ نہ تھی۔ اس لیے نہیں کہ میں گیا کے ساتھ کھیلنے جا رہا تھا بلکہ لوگ اس کھیل کو عجوبہ سمجھ کر اسکا تماشہ بنائیں گے اور اچھی خاصی بھیڑ لگ جائے گی۔ اس بھیڑ میں وہ لطف کہاں رہے گا لیکن کھیلے بغیر تو رہا نہیں جاتا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ دونوں بستی سے دور تنہائی میں جا کر کھیلیں، وہاں کون دیکھنے والا بیٹھا ہوگا۔ مزے سے کھیلیں گے اور بچپن کی اس مٹھائی کو خوب مزے لے کر کھائیں گے۔ میں گیا کو لیکر ڈاک بنگلے پر آیا اور موٹر میں بیٹھ کر دونوں میدان کی طرف چلے۔ ساتھ ایک کلھاڑی لے لی۔ میں متانت کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہا تھا مگر گیا ابھی تک مذاق سمجھ رہا تھا۔ اسکے چہرے پر خوشی اور ولولے کا کوئی نشان نہ تھا، شاید ہم دونوں میں جو فرق ہو گیا تھا وہ اسے سوچنے میں محو تھا۔

میں نے پوچھا۔ "تمھیں کبھی ہماری یاد آئی تھی گیا؟ سچ کہنا۔"

گیا جھینپتا ہوا بولا۔ "میں آپ کو کیا یاد کرتا حضور، کس لائق ہوں، قسمت میں کچھ دن آپ کے ساتھ کھیلنا لکھا تھا، نہیں تو میری کیا گنتی۔"

میں نے کچھ اداس ہو کر کہا۔ "لیکن مجھے تمھاری یاد برابر آتی تھی، تمھارا وہ ڈنڈا جو تم نے تان کر جمایا تھا، یاد ہے نا۔"

گیا نے شرماتے ہوئے کہا۔ "وہ لڑکپن تھا سرکار، اسکی یاد نہ لاؤ۔"

"واہ، وہ میری ان دنوں کی سب سے رسیلی یاد ہے، تمھارے اس ڈنڈے میں جو رس تھا، وہ اب نہ عزت اور بڑائی میں پاتا ہوں نہ دولت میں، کچھ ایسی مٹھاس تھی اس میں کہ آج تک من میٹھا ہوتا رہتا ہے۔"


(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
گُلّی ڈنڈا

(گزشتہ سے پیوستہ)


اتنی دیر میں ہم بستی سے کوئی تین میل نکل آئے تھے، چاروں طرف سناٹا تھا، مغرب کی طرف سے کوسوں تک بھیم تال پھیلا ہوا تھا، جہاں آ کر ہم کسی وقت کنول کے پھول توڑنے جاتے تھے اور اسکے جھمکے بنا کر کانوں میں ڈال لیتے تھے۔ جون کی شام کیسر میں ڈوبی چلی آ رہی ہے، میں لپک کر ایک درخت پر چڑھ گیا اور ایک شاخ کاٹ لایا۔ جھٹ پٹ گلی ڈنڈا بن گیا، کھیل شروع ہو گیا۔ میں نے راب میں گلی رکھ کر اچھالی، گلی گیا کے سامنے سے نکل گئی، اس نے ہاتھ لپکایا جیسے مچھلی پکڑ رہا ہو، گلی اسکے پیچھے جا گری، یہ وہی گیا تھا جس کے ہاتھوں میں گلی جیسے آپ ہی آپ جا کر بیٹھ جاتی تھی، وہ اپنے داہنے بائیں کہیں ہو گلی اسکی ہتھیلی میں پہنچتی تھی، جیسے گلیوں پر اس نے جادو کر کے انہیں بس میں کر لیا۔ نئی گلی، پرانی گلی، چھوٹی گلی، بڑی گلی، نوک دار گلی، سبھی اس سے مل جاتی تھیں گویا اسکے ہاتھ میں کوئی مقناطیسی طاقت ہے جو گلیوں کو کھینچ لیتی ہے، لیکن آج گلی کو اس طرح سے محبت نہیں رہی۔ پھر تو میں نے پدانا شروع کیا، میں طرح طرح کے فریب کر رہا تھا، مشق کی کمی بے ایمانی سے پوری کر رہا تھا۔ داؤں پورا ہونے پر بھی ڈنڈا کھیلے جاتا تھا، حالانکہ قاعدے کی مطابق گیا کی باری آنی چاہیے تھی۔ گلی پر ہلکی چوٹ پڑتی اور وہ ذرا ہی دور گرتی تو میں لپک کر اسے خود ہی اٹھا لاتا اور دوبارہ ٹل لگاتا۔ گیا یہ ساری بے قاعدگیاں دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ بولتا تھا، گویا اسے وہ تمام قاعدے قانون بھول گئے ہوں۔ اسکا نشانہ کتنا بے خطا تھا، گلی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر اسکا کام تھا ڈنڈے سے ٹکرا جانا لیکن آج وہ گلی ڈنڈے میں لگتی ہی نہیں، کبھی داہنے جاتی تھی کبھی بائیں کبھی آگے کبھی پیچھے۔

آدھ گھنٹہ پدانے کے بعد ایک بار گلی ڈنڈے میں آ لگی، میں نے دھاندلی کی۔

"گلی ڈنڈے میں نہیں لگی، پاس سے گئی لیکن لگی نہیں۔"

گیا نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ کیا۔ "نہ لگی ہوگی۔"

"ڈنڈے میں لگتی تو کیا میں بے ایمانی کرتا۔"

"نہیں بھیا، تم بھلا بے ایمانی کرو گے۔"

بچپن میں مجال تھی کہ میں ایسا گھپلا کر کے بچتا، یہی گیا میری گردن پر چڑھ بیٹھتا لیکن آج میں اسے کتنی آسانی سے دھوکا دیئے چلا جاتا تھا، گدھا ہے ساری باتیں بھول گیا۔

اچانک گلی ڈنڈے میں لگی اور اتنے زور سے لگی جیسے بندوق چھوٹی ہو، اس ثبوت کے مقابل اب کسی طرح کے فریب چلانے کا مجھے اس وقت بھی حوصلہ نہ ہو سکا لیکن کیوں نہ ایک بار سچ کو جھوٹ بنانے کی کوشش کروں، میرا حرج ہی کیا ہے؟ مان گیا تو واہ واہ ورنہ دو چار ہاتھ پدنا ہی پڑے گا۔ اندھیرے کا بہانہ کر کے گلا چھڑا لوں گا پھر کون دواؤں دینے آتا ہے۔

گیا نے فاتحانہ انداز سے کہا۔ "لگ گئی، لگ گئی، ٹن سے بولی۔"

میں نے انجان بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ "تم نے لگتے ہوئے دیکھا، میں نے تو نہیں دیکھا۔"

"ٹن سے بولی ہے سرکار۔"

"اور جو کسی اینٹ میں لگ گئی ہو۔"

میرے منہ سے یہ فقرہ اس وقت کیسے نکل گیا، اس پر مجھے خود حیرت ہے۔ اس سچائی کا جھٹلانا ایسا ہی تھا جیسے دن کو رات بتانا، ہم دونوں نے گلی کو ڈنڈے میں زور سے لگتے دیکھا تھا، لیکن گیا نے میرا کہا مان لیا۔

"ہاں سرکار، کسی اینٹ میں لگی ہوگی، ڈنڈے میں لگتی تو اتنی آواز نہ آتی۔"

میں نے پھر پدانا شروع کیا لیکن اس قدر صاف اور صریح دھوکا دینے کے بعد گیا کی سادگی پر مجھے رحم آنے لگا، اس لیے جب تیسری بار گلی ڈنڈے میں لگی تو میں نے بڑی فراخدلی سے داؤں دینا طے کر لیا۔

گیا نے کہا۔ "اب تو اندھیرا ہو گیا ہے، بھیا کل پر رکھو۔"

میں نے سوچا کل بہت سا وقت ہوگا، نہ جانے کتنی دیر پدائے اس لئے اسی وقت معاملہ صاف کر لینا اچھا ہوگا۔ "نہیں نہیں بہت اجالا ہے تم اپنا داؤں لے لو۔"

"گلی سوجھے گی نہیں۔"

"کچھ پرواہ نہیں۔"

گیا نے پدانا شروع کیا لیکن اسے بالکل مشق نہ تھی، اس نے دوبار ٹل لگانے کا ارادہ کیا لیکن دونوں بار چوک گیا۔ ایک منٹ سے کم میں وہ اپنا داؤں پورا کر چکا، بیچارہ گھنٹہ بھر پدا لیکن ایک منٹ ہی میں اپنا داؤں کھو بیٹھا۔ میں نے اپنے دل کی وسعت کا ثبوت دیا۔ "ایک داؤں اور لے لو، تم تو پہلے ہی ہاتھ میں ہیچ ہو گئے۔"

"نہیں بھیا، اب اندھیرا ہو گیا ہے۔"

"تمھاری مشق چھوٹ گئی، کبھی کھیلتے نہیں ہو۔"

"کھیلنے کا وقت ہی کہاں ملتا ہے بھیا۔"

ہم دونوں موٹر پر جا بیٹھے اور چراغ جلتے جلتے پڑاؤ پر پہنچ گئے۔

گیا چلتے چلتے بولا۔ "کل گلی ڈنڈا ہوگا، سبھی پرانے کھلاڑی کھیلیں گے، تم بھی آؤ گے، جب تمھیں فرصت ہو سبھی کھلاڑیوں کو بلا لوں۔"

میں نے شام کا وقت دیا اور دوسرے دن میچ دیکھنے گیا۔ کوئی دس آدمیوں کی منڈلی تھی، کئی لڑکپن کے ساتھی نکلے مگر بیشتر نوجوان تھے جنہیں میں پہچان نہ سکا۔ کھیل شروع ہوا، میں موٹر پر بیٹھا تماشا دیکھنے لگا، آج گیا کا کھیل اور اسکی کرامات دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ وہ ٹل لگاتا تو گلی آسمان سے باتیں کرتی، کل کی وہ جھجک، وہ ہچکچاہٹ وہ بے دلی آج نہ تھی۔ لڑکپن کی جو بات تھی آج اس نے اسے کمال معراج تک پہنچا دیا۔ کہیں کل اس نے مجھے اس طرح پدایا ہوتا تو میں ضرور رونے لگتا۔ اسکے ڈنڈے کی چوٹ کھا کر گلی دو سو گز کی خبر لاتی۔


(ختم شد)
 

محمد وارث

لائبریرین
سوانگ


(1)

راجپوت خاندان میں پیدا ہو جانے سے کوئی سورما نہیں بن جاتا اور نہ نام کے پیچھے "سنگھ" کی دم لگا لینے ہی سے بہادری آتی ہے۔ گجندر سنگھ کے بزرگ کسی زمانے میں راجپوت تھے اس میں شبہ کی گنجائش نہیں لیکن ادھر تین پشتوں سے تو نام کے سوا اس میں راجپوتی کی کوئی علامت نہ تھی۔ گجندر سنگھ کے جد بزرگوار وکیل تھے اور جرح یا بحث میں کبھی کبھی راجپوتی کا مظاہرہ کر جاتے تھے۔ پدر برزگوار نے کپڑے کی دکان کھول کر اس مظاہرے کی بھی گنجائش نہ رکھی اور گجندر نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔ قد و قامت میں بھی فرق آتا گیا۔۔۔۔۔۔۔بھوپندر سنگھ کا سینہ فراخ تھا، نریندر سنگھ کا شکم فراخ تھا لیکن گجندر سنگھ کا کچھ بھی فراخ نہ تھا وہ ہلکے پھلکے، گورے چٹے، عینک باز، نازک بدن، فیشن ایبل بابو تھے۔ انہیں عملی مشاغل سے دلچسپی تھی۔

مگر راجپوت کیسا ہی ہو اسکی شادی تو راجپوت خاندان ہی میں ہوگی۔ گجندر سنگھ کی شادی جس خاندان میں ہوئی تھی اس خاندان میں راجپوت جوہر بالکل فنا نہیں ہوا تھا۔ انکے خسر پنشنر صوبے دار تھے، سالے شکاری اور کشتی باز، شادی ہوئے دو سال ہو گئے تھے لیکن ابھی تک ایک بار بھی سسرال نہ آ سکا تھا۔ امتحانات سے فرصت ہی نہ ملتی تھی لیکن اب تعلیم ختم ہو چکی تھی۔ ملازمت کی تلاش تھی، اس لیے اب کی ہولی کے موقع پر سسرال سے بلاوا آیا تو اس نے کوئی حیل حجت نہ کی۔ صوبیدار کی بڑے بڑے افسروں سے شناسائی تھی، فوج افسروں کی حکام کتنی قدر و منزلت کرتے ہیں یہ اسے خوب معلوم تھا۔ ممکن ہے صوبیدار صاحب کی سفارش سے نائب تحصیل داری میں نامزد ہو جاؤں، ادھر شیام دلاری سے بھی سال بھر سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔ ایک نشانے سے دو شکار ہو رہے تھے، نیا ریشمی کوٹ بنوایا اور ہولی کے ایک دن پہلے سسرال جا پہنچا، اپنے گرانڈیل سالوں کے سامنے بچہ سا معلوم ہوتا تھا۔

تیسرے پہر کا وقت تھا، گجندر سنگھ اپنے سالوں سے زمانہ طالب علمی کے کارنامے بیان کر رہا تھا، فٹبال میں کس طرح ایک طویل قامت گورے کو پٹخنی دی، ہاکی میچ میں کسطرح تنہا گول کر لیا کہ صوبیدار صاحب دیو کی طرح آ کر کھڑے ہو گئے اور بڑے لڑکے سے بولے۔ "ارے سنو، تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو، بابو جی شہر سے آئے ہیں، انہیں لیجا کر ذرا سیر کرا لاؤ، کچھ شکار وکار کھلاؤ، یہاں ٹھیٹھر ویٹھر تو ہے نہیں، انکا جی گھبراتا ہوگا۔ وقت بھی اچھا ہے شام تک لوٹ آؤ گے۔"

شکار کا نام سنتے ہی گجندر سنگھ کی نانی مر گئی، بیچارے نے عمر بھر کبھی شکار نہ کھیلا تھا، یہ دیہاتی اجڈ لونڈے اسے نہ جانے کہاں کہاں دوڑائیں گے۔ کہیں کسی جانور کا سامنا ہو گیا تو کہیں کے نہ رہے، کون جانے ہرن ہی چوٹ کر بیٹھے، ہرن بھی راہِ فرار نہ پا کر کبھی کبھی پلٹ پڑتا ہے۔ کہیں بھیڑیا نکل آئے تو کام ہی تمام کر دے۔ بولے، "میرا تو اس وقت شکار کھیلنے کو جی نہیں چاہتا، بہت تھک گیا ہوں۔"

صوبیدار صاحب نے فرمایا۔ "تم گھوڑے پر سوار ہو لینا، یہی تو دیہات کی بہار ہے، چنّوں جا کر بندوق لا، میں بھی چلوں گا، کئی دن سے باہر نہیں نکلا، میرا رائفل بھی لیتے آنا۔"

چنّوں اور منّوں خوش خوش بندوق لینے دوڑے ادھر گجندر سنگھ کی جان سوکھنے لگی۔ پچھتا رہا ہے "تُو ناحق ان لونڈوں کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا، جانتا کہ یہ بلا سر پر آنیوالی ہے تو آتے ہی فوراً بیمار بن کر چارپائی پر پڑ رہتا، اب تو کوئی حیلہ بھی نہیں کر سکتا۔ سب سے بڑی مصیبت گھوڑے کی سواری تھی۔ دیہاں گھوڑے یونہی تھان پر بندھے بندھے ٹرے ہو جاتے ہیں اور آسن کا کچا سوار دیکھ کر تو وہ بھی شوخیاں کرنے لگتے ہیں، کہیں الف ہو گیا یا مجھے لیکر کسی نالے کی طرف بے تحاشہ بھاگا تو خیر نہیں۔"

دونوں سالے بندوقیں لیکر آ پہنچے، گھوڑا بھی پہنچ گیا۔ صوبیدار صاحب شکاری کپڑے پہن کر تیار ہو گئے۔ اب گجندر کے لئے کوئی حیلہ نہ رہا، اس نے گھوڑے کی طرف کنکھیوں سے دیکھا، بارہا زمین پر پیر پٹکتا تھا، ہنہناتا تھا، اٹھی ہوئی گردن، لال آنکھیں، کنوتیاں کھڑی، بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی۔ اسکی طرف دیکھتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ گجندر دل میں سہم اٹھا مگر بہادری دکھانے کے لیے گھوڑے کے پاس جا کر اسکی گردن پر اس طرح تھپکیاں دیں گویا پکا شہسوار ہے اور بولا، "جانور تو جاندار ہے مگر مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ آپ لوگ تو پیدل چلیں اور میں گھوڑے پر بیٹھوں۔ ایسا کچھ بہت تھکا ہوا نہیں ہوں، میں بھی پیدل ہی چلوں گا، اسکی مجھے مشق ہے۔"

صوبیدار نے کہا۔ "بیٹا، جنگل دور ہے تھک جاؤ گے، بڑا سیدھا جانور ہے، بچہ بھی سوار ہو سکتا ہے۔"

گجندر نے کہا، "جی نہیں مجھے بھی یونہی چلنے دیجیئے، گپ شپ کرتے ہوئے چلے چلیں گے، سواری میں وہ لطف کہاں۔ آپ بزرگ ہیں سوار ہو جائیں۔"

چاروں آدمی پیادہ چلے، لوگوں پر گجندر کے اس انکسار کا بہت اچھا اثر ہوا، "تہذیب اور اخلاق تو شہر والے ہی جانتے ہیں، اُس پر علم کی برکت۔"

(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
سوانگ

(گزشتہ سے پیوستہ)


تھوڑی دیر کے بعد پتھریلا راستہ ملا، ایک طرف ہرا بھرا میدان، دوسری طرف پہاڑ کا سلسلہ، دونوں ہی طرف ببول، کریل، کروندے اور ڈھاک کے جنگل تھے۔ صوبیدار صاحب اپنی فوجی زندگی کے پامال قصے کہتے چلے آتے تھے۔ گجندر تیز چلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بار بار بچھڑ جاتا تھا اور اسے دو چار قدم دوڑ کر ان کے برابر ہونا پڑتا تھا۔ پسینے میں تر، ہانپتا ہوا، اپنی حماقت پر پچھتاتا چلا جاتا تھا۔ "یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی، ابھی سے یہ حال ہے، شکار نظر آ گیا تو نہ معلوم کیا آفت آئے گی۔ میل دو میل کی دوڑ تو ان کے لیے معمولی بات ہے مگر یہاں کو کچومر ہی نکل جائے گا۔ شاید بیہوش ہو کر گر پڑوں، پیر ابھی سے من من کے ہو رہے ہیں۔"

یکایک راستے میں سیمل کا ایک درخت نظر آیا، نیچے لال لال پھول بچھے ہوئے تھے، اوپر سارا درخت گلنار ہو رہا تھا، گجندر وہیں کھڑا ہو گیا اور اس لالہ زار کو مستانہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

چنو نے پوچھا۔ "کیا ہے جیجا جی رک کیسے گئے۔"

گجندر نے عاشقانہ وارفتگی سے کہا۔ "کچھ نہیں، اس درخت کا حسنِ دل آویز دیکھ کر دل باغ باغ ہوا جا رہا ہے۔ آہا کیا بہار ہے، کیا مذاق ہے، کیا شان ہے گویا جنگل کی دیوی نے شفق کو شرمندہ کرنے کیلیئے زعفرانی جوڑا زیب تن کیا ہو۔ پارشیوں کی پاک روحیں سفر جاوداں میں یہاں آرام کر رہی ہوں یا قدرت کا نغمہ شیریں شکل پذیر ہو کر دنیا پر موہنی منتر ڈال رہا ہو، آپ لوگ شکار کھیلنے چلیے، مجھے اس آبِ حیات سے شاد کام ہونے دیجیئے۔"

دونوں نوجوان فرط حیرت سے گجندر کا منہ تاکنے لگے، انکی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ یہ حضرت کہہ کیا رہے ہیں۔ دیہات کے رہنے والے، جنگلوں میں گھومنے والے، سیمل ان کیلیئے کوئی انوکھی چیز نہ تھی۔ اسے روز دیکھتے تھے، کتنی بار اس پر چڑھے تھے، اسکے نیچے دوڑے تھے، اسکے پھولوں کی گیند بنا کر کھیلتے تھے، ان پر یہ مستی کبھی نہ طاری ہوئی تھی، حسن پرستی وہ کیا جانیں۔

صوبیدار صاحب آگے بڑھ گئے تھے، ان لوگوں کو ٹھہرا ہو دیکھ کر لوٹ آئے اور بولے۔ "کیوں بیٹا، ٹھہر کیوں گئے۔"

گجندر نے دست بستہ گذارش کی۔ "آپ لوگ مجھے معاف فرمائیں، میں شکار کھیلنے نہ جا سکوں گا۔ اس گلزار کو دیکھ کر مجھ پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔ میری روح نغمۂ جنت کا مزہ لے رہی ہے، آہا یہ میرا ہی دل ہے جو پھول کر چمک رہا ہے، مجھ میں بھی وہی سرخی ہے، وہی حسن ہے، وہی لطافت ہے۔ میرے دل پر صرف گیان کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ کس کا شکار کریں؟ جنگل کے معصوم جانوروں کا، ہمیں تو جانور ہیں، ہمیں تو پرند ہیں۔ یہ ہمارے ہی تصورات کا آئینہ ہے جس میں عالمِ اجسام کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ کیا اپنا ہی خون کریں، نہیں آپ لوگ شکار کھیلنے جائیں مجھے اس مستی و بہار میں محو رہنے دیں بلکہ میں تو عرض کرونگا کہ آپ بھی شکار کھیلنے سے باز آئیں۔ زندگی مسرت کا خزانہ ہے اسکا خون نہ کیجیئے، نظارہ ہائے قدرت سے چشمِ باطن کو مسرور کیجیئے۔ قدرت کے ایک ایک پھول میں، ایک ایک ہستی میں مسرت کی شعائیں چمک رہی ہیں۔ خونریزی سے مسرت کے اس لازوال چشمے کو ناپاک نہ کیجیئے۔"

اس تصوف آمیز تقریر نے سبھی کو متاثر کر دیا۔ صوبیدار صاحب نے چنو سے آہستہ سے کہا۔ "عمر تو کچھ نہیں ہے لیکن کتنا گیان بھرا ہوا ہے۔" چنو نے بھی اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ "علم سے روح بیدار ہو جاتی ہے، شکار کھیلنا ہے برا۔"

صوبیدار نے عارفانہ انداز سے کہا۔ "ہاں برا تو ہے، چلو لوٹ چلیں، جب ہر ایک چیز میں اسی کا جلوہ ہے تو شکاری کون اور شکار کون، اب کبھی شکار نہ کھیلوں گا۔"

پھر وہ گجندر سے بولے۔ "بھیا تمھارے اپدیش نے ہماری آنکھیں کھول دیں، قسم کھاتے ہیں اب کبھی شکار نہ کھیلیں گے۔"

گجندر پر مستانہ کیفیت طاری تھی، اس سرور کے عالم میں بولے۔ "ایشور کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اسنے آپ لوگوں کو یہ توفیق عطا کی۔ مجھے خود شکار کا کتنا شوق تھا، عرض نہیں کرسکتا۔ ان گنت جنگلی سور، ہرن، تیندوے، نیل گائیں، مگر، ہلاک کئے ہونگے، ایک بار چیتے کو مار ڈالا تھا مگر آج مئے عرفان کا وہ نشہ ہوا کہ ماسوا کا کہیں وجود ہی نہیں رہا۔"


(جاری ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
سوانگ

(گزشتہ سے پیوستہ)


(2)

ہولی جلنے کی مہورت نو بجے رات کو تھی۔ آٹھ ہی بجے سے گاؤں کے عورت مرد بوڑھے بچے گاتے بجاتے، کبیریں اڑاتے ہولی کی طرف چلے۔ صوبیدار صاحب بھی بال بچوں کو لئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ ہولی جلانے چلے۔

گجندر نے ابھی تک کسی بڑے گاؤں کی ہولی نہ دیکھی تھی، اسکے شہر میں تو ہر محلے میں لکڑی کے موٹے موٹے دوچار کندے جلا دیئے جاتے تھے، جو کئی دن جلتے رہتے تھے۔ یہاں کی ہولی ایک وسیع میدان میں کسی کوہسار کی بلند چوٹی کی طرح آسمان سے باتیں کر رہی تھی، جوں ہی پنڈت جی نے منتر پڑھ کر نئے سال کا خیر مقدم کیا، آتشبازی چھوٹنے لگی۔ چھوٹے بڑے سبھی پٹاخے، چھچھوندریں، ہوائیاں چھوڑنے لگے۔ گجندر کے سر پر سے کئی چھچھوندریں سنسناتی ہوئی نکل گئیں۔ ہر ایک پٹاخے پر بیچارہ دو دو چار چار قدم پیچھے ہٹ جاتا تھا اور دل میں ان اجڈ دیہاتیوں کو بد دعائیں دیتا تھا۔ یہ کیا بیہودگی ہے، بارود کہیں کپڑے میں لگ جائے، کوئی واردات ہو جائے تو ساری شرارت نکل جائے۔ روز ہی تو ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں مگر ان دہقانوں کو کیا خبر۔ یہاں تو دادا نے جو کچھ کیا وہی کریں گے، چاہے اس میں کوئی تک ہو یا نہ ہو۔

دفعتاً نزدیک سے ایک بم کے گولے کے چھوٹنے کی فلک شگاف آواز آئی، گویا بجلی کڑکی ہو۔ گجندر سنگھ چونک کر کوئی دو فٹ اونچے اچھل گئے۔ اپنی زندگی میں وہ شاید کبھی اتنا نہ کودے تھے، دل دھک دھک کرنے لگا، گویا توپ کے نشانے کے سامنے کھڑے ہوں۔

چنوں نے کہا۔ "جیجا جی، آپ کیا چھوڑیں گے؟ کیا لاؤں؟"

منو بولا۔ "ہوائیاں چھوڑیئے جیجا جی، بہت اچھی ہیں، آسمان میں نکل جاتی ہیں۔"

چنوں۔ "ہوائیاں بچے چھوڑتے ہیں کہ یہ چھوڑیں گے، آپ بم کا گولہ چھوڑیں بھائی صاحب۔"

گجندر نے کہا۔ "مجھے ان چیزوں کا شوق نہیں، مجھے تو تعجب ہو رہا ہے کہ بوڑھے بھی کتنی دلچسپی سے آتشبازی چھوڑ رہے ہیں۔"

منو۔ "دو چار ماہتابیاں تو ضرور چھوڑیئے۔"

گجندر کو ماہتابیاں بے ضرر معلوم ہوئیں۔ انکی سرخ، سبز، سنہری چمک کے سامنے انکے گورے چہرے اور خوبصورت بالوں اور ریشمی کرتے کی دلفریبی کتنی بڑھ جائیگی۔ کوئی خطرے کی بات بھی نہیں، مزے سے ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں۔ گل ٹپ ٹپ نیچے گر رہا ہے اور سب کی نگاہیں انکی طرف لگی ہوئی ہیں۔ انکا فلسفی دماغ بھی خودنمائی کے شوق سے خالی نہ تھا۔ فوراً ماہتابی لے لی، گو ایک شانِ بے نیازی کے ساتھ مگر پہلی ہی ماہتابی چھوڑنا شروع کی تھی کہ دوسرا بم کوئی ہتھوڑا سا گر پڑا۔ ماہتابی ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی اور سینے میں اختلاج ہونے لگا، ابھی دھماکے سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ دوسرا دھماکہ ہوا جیسے آسمان پھٹ پڑا ہو، ساری فضا متلاطم ہو گئی۔ چڑیاں گھونسلوں سے نکل نکل کر شور مچاتی ہوئی بھاگیں، جانور رسیاں تڑا تڑا کر بھاگے اور گجندر بھی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے سرپٹ اور سیدھے گھر پر آ کر دم لیا۔ چنو اور منو دونوں گھبرا گئے، صوبیدار صاحب کے ہوش اڑ گئے، تینوں آدمی بکٹٹ دوڑے ہوئے گجندر کے پیچھے چلے، دوسروں نے جو انہیں بھاگتے دیکھا تو سمجھے کہ شاید واردات ہو گئی تو سب کے سب مہمان کے پیچھے ہو لیے۔ گاؤں میں ایک معزز مہمان کا آنا معمولی بات نہ تھی سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے، مہمان کو ہو کیا گیا ہے، ماجرا کیا ہے؟ کیوں یہ لوگ دوڑے جا رہے ہیں؟ ایک لمحے میں سینکڑوں آدمی صوبیدار صاحب کے دروازے پر پرسش کیلیئے جمع ہو گئے۔ گاؤں کا داماد کم رو ہونے پر بھی قابلِ زیارت اور بدحال ہوتے ہوئے بھی منظورِ نظر ہوتا ہے۔

صوبیدار صاحب نے سہمی ہوئی آواز سے پوچھا۔ "تم وہاں سے کیوں بھاگ آئے بھیا؟"

گجندر کو کیا معلوم کہ اسکے چلے آنے سے یہ تہلکہ مچ جائے گا، مگر اسکے حاضر دماغ نے جواب سوچ لیا تھا اور جواب بھی ایسا کہ گاؤں والوں پر اسکی ضمارسی کا سکہ بٹھا دے۔ بولا، "کوئی خاص بات نہ تھی، دل میں کچھ ایسا ہی آیا کہ یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔"

"نہیں کوئی بات ضرور تھی۔"

"آپ پوچھ کر کیا کریں گے؟ میں اسے ظاہر کر کے آپ کے جشن میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا۔"

"جب تک بتلا نہ دو گے بیٹا ہمیں تسلی نہ ہوگی، سارا گاؤں گھبرایا ہے۔"

گجندر نے پھر صوفیوں کا سا چہرہ بنایا، آنکھیں بند کر لیں، جمائیاں لیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بولے۔

"بات یہ ہے کہ جونہی میں نے ماہتابی ہاتھ میں لی، مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے اسے میرے ہاتھ سے چھین کر پھینک دیا، میں نے کبھی آتشبازیاں نہیں چھوڑیں، ہمیشہ اسکی مذمت کرتا رہا، آج میں نے وہ فعل کیا جو میرے ضمیر کے خلاف تھا، بس غضب ہی تو ہو گیا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میری روح مجھ پر نفرین کر رہی ہے، شرم سے میری گردن خم ہو گئی اور میں اسی عالم میں وہاں سے بھاگا۔ اب آپ لوگ مجھے معاف فرمائیں میں آپ کے جشن میں شریک نہ ہو سکوں گا۔"

صوبیدار صاحب نے اس انداز سے گردن ہلائی گویا انکے سوا وہاں کوئی اس تصوف کا راز نہیں سمجھ سکتا، انکی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ "آتی ہیں تم لوگوں کی سمجھ میں باتیں، تم بھلا کیا سمجھو گے، ہم بھی کچھ کچھ ہی سمجھتے ہیں۔"

ہولی تو وقتِ معینہ پر جلائی گئی مگر آتشبازی دریا میں ڈال دی گئی۔ شریر لڑکوں نے کچھ اس لیے چھپا کر رکھ لیں کہ گجندر چلے جائیں گے تو مزے سے چھوڑیں گے۔

شیام دلاری نے تخلیئے میں کہا۔ "تم تو وہاں سے خوب بھاگے۔"

گجندر کڑک کر بولے۔ "بھاگتا کیوں، بھاگنے کی تو کوئی بات نہ تھی۔"

"میری تو جان نکل گئی کہ معلوم نہیں کیا ہو گیا، تمھارے ہی ساتھ میں دوڑی آئی، ٹوکری بھر آتشبازی پانی میں پھینک دی گئی۔"

"یہ تو روپے کو آگ میں پھونکنا ہے۔"

"ہولی میں بھی نہ چھوڑیں تو کب چھوڑیں، تیوہار اسی لئے تو آتے ہیں۔"

"تیوہار میں گاؤ بجاؤ، اچھی اچھی چیزیں پکاؤ کھاؤ، خیرات کرو، عزیزوں سے ملو، سب سے محبت سے پیش آؤ، بارود اڑانے کا نام تیوہار نہیں ہے۔"

رات کے بارہ بج گئے تھے، کسی نے دروازے پر دھکا مارا۔

گجندر نے چونک کر پوچھا۔ "یہ دھکا کس نے مارا؟"

شیاما نے لاپرواہی سے کہا۔ "بلی ولی ہوگی۔"

کئی آدمیوں کے کھٹ پٹ کرنے کی آوازیں آئیں۔ پھر کواڑ پر دھکا پڑا۔ گجندر کو لرزہ آ گیا۔ لالٹین لیکر دروازے سے جھانکا تو چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ چار پانچ آدمی کرتے پہنے، پگڑیاں باندھے، داڑھیاں لگائے، شانے پر بندوقیں رکھے، کواڑ کو توڑ ڈالنے کی سرگرم کوشش میں مصروف تھے۔ گجندر کان لگا کر باتیں سننے لگا۔

"دونوں سو گئے ہیں، کواڑ توڑ ڈالو، مال الماری میں ہے۔"

"اگر دونوں جاگ گئے؟"

"عورت کیا کر سکتی ہے، مرد کو چارپائی سے باندھ دیں گے۔"

"سنتے ہیں گجندر کوئی بڑا پہلوان ہے۔"

"کیسا ہی پہلوان ہو، چار ہتھیار بند آدمیوں کے سامنے کیا کر سکتا ہے۔"

گجندر کے کاٹو تو بدن میں خون نہیں، شیام دلاری سے بولے۔ "یہ ڈاکو معلوم ہوتے ہیں، اب کیا ہوگا، میرے ہاتھ پاؤں تو کانپ رہے ہیں۔"

"چور چور پکارو، جاگ ہو جائے گی، آپ بھاگ جائیں گے۔ نہیں میں چلاتی ہوں، چور کا دل آدھا۔"

"دیکھنا کہیں ایسا غضب نہ کرنا، ان سبھوں کے پاس بندوقیں ہیں، گاؤں میں اتنا سناٹا کیوں ہے؟ گھر کے آدمی کیا ہوئے؟"

"بھیا اور منو دادا کھلیان میں سونے گئے، کاکا دروازے پر پڑے ہونگے، انکے کانوں پر توپ چھوٹے تب بھی نہ جاگیں گے۔"

"اس کمرے میں کوئی دوسری کھڑکی بھی تو نہیں ہے، کہ باہر آواز پہنچے، مکان ہیں یا قید خانے؟"

"میں تو چلاتی ہوں۔"

"ارے نہیں بھائی، کیوں جان دینے پر آمادہ ہو، میں تو سوچتا ہوں ہم دونوں چپ سادھ کر لیٹ جائیں اور آنکھیں بند کر لیں۔ بدمعاشوں کو جو کچھ کے جانا ہو، لے جائیں، جان تو بچے۔ دیکھو کواڑ ہل رہے ہیں، کہیں ٹوٹ نہ جائیں، یا ایشور کہاں جاؤں، اس مصیبت میں تمھارا ہی بھروسہ ہے، کیا جانتا تھا کہ یہ آفت آنے والی ہے، نہیں تو آتا ہی کیوں۔ بس چپ سادھ لو اگر ہلائیں ولائیں تو بھی سانس مت لینا۔"

"مجھ سے چپی سادھ کر پڑا نہ رہا جائے گا۔"

"زیور اتار کر رکھ کیوں نہیں دیتیں، شیطان زیور ہی تو لیں گے۔"

"زیور نہ اتاروں گی چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے۔"

"کیوں جان دینے پر تلی ہوئی ہو؟"

"خوشی سے تو زیور نہ اتاروں گی، زبردستی کی اور بات ہے۔"

"خاموش، سنو سب کیا باتیں کر رہے ہیں۔"

باہر سے آواز آئی۔ "کواڑ کھول دو، نہیں تو ہم کواڑ توڑ کر اندر آ جائیں گے۔"

گجندر نے شیام دلاری کی منت کی۔ "میری بات مانو شیاما، زیور اتار کر رکھ دو، میں وعدہ کرتا ہوں بہت جلد نئے زیور بنوا دونگا۔"

باہر سے آواز آئی۔ "کیوں شامتیں آئی ہیں، بس ایک منٹ کی مہلت اور دیتے ہیں، اگر کواڑ نہ کھولے تو خیریت نہیں۔"

گجندر نے شیام دلاری سے پوچھا۔ "کھول دوں؟"

"ہاں بلا لو، تمھارے بھائی بند ہیں، وہ دروازے کو باہر سے دھکیلتے ہیں تم اندر سے باہر کو ٹھیلو۔"

"اور جو دروازہ میرے اوپر گر پڑے؟ پانچ پانچ جوان ہیں۔"

"وہ کونے میں لاٹھی رکھی ہے، لیکر کھڑے ہو جاؤ۔"

"تم پاگل ہو گئی ہو؟"

"چنوں دادا ہوتے تو پانچوں کو گرا دیتے۔"

"میں لٹھ باز نہیں ہوں۔"

"تو آؤ منہ ڈھانپ کر لیٹ جاؤ، میں ان سب کو سمجھ لوں گی۔"

"تمھیں تو عورت سمجھ کر چھوڑ دینگے، ماتھے میرے جائے گی"

"میں چلاتی ہوں۔"

"تم میری جان لے کر چھوڑو گی۔"

"مجھ سے تو اب صبر نہیں ہوتا، میں کواڑ کھولے دیتی ہوں۔"

اسنے دروازہ کھول دیا، پانچوں چور کمرے میں بھڑ بھڑا کر گھس آئے۔

ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔ "میں اس لونڈے کو پکڑے ہوئے ہوں، تم عورت کے سارے گہنے اتار لو۔"

دوسرا بولا۔ "اس نے تو آنکھیں بند کر لیں، ارے تم آنکھیں کیوں نہیں کھولتے جی؟"

تیسرا۔ "یار عورت تو حسین ہے۔"

چوتھا۔ "سنتی ہے او مہریا، زیور دیدے نہیں تو گلا گھونٹ دونگا۔"

گجندر دل میں بگڑ رہے تھے کہ یہ چڑیل زیور کیوں نہیں اتار دیتی۔

شیام دلاری نے کہا۔ "گلا گھونٹ دو چاہے گولی مار دو، زیور نہ اتارونگی۔"

پہلا۔ "اسے اٹھا لے چلو، یوں نہ مانے گی، مندر خالی ہے۔"

دوسرا۔ "بس یہی مناسب ہے، کیوں ری چھوکری ہمارے ساتھ چلے گی؟"

شیام دلاری۔ "تمھارے منہ میں کالکھ لگا دونگی۔"

تیسرا۔ "نہ چلے گی تو اس لونڈے کو لے جا کر بیچ ڈالیں گے۔"

شیام۔ "ایک ایک کو ہتھکڑی لگوادونگی۔"

چوتھا۔ :کیوں اتنا بگڑتی ہے مہارانی، ذرا ہمارے ساتھ چلی کیوں نہیں چلتی، کیا ہم اس لونڈے سے بھی گئے گزرے ہیں۔ کیا رہ جائے گا اگر ہم زبردستی تجھے اٹھا کر لے جائیں گے، یوں سیدھی طرح نہیں مانتی ہو، تم جیسی ماہ رو پر ظلم کرنے کو جی نہیں چاہتا۔"

پانچواں۔ "یا تو سارے زیور اتار کر دے یا ہمارے ساتھ چل۔"

پہلا۔ "یوں نہ مانے گی، اس لونڈے کو اٹھائے لے چلو، تب آپ ہی پیروں پڑے گی۔"

دو آدمیوں نے ایک چادر سے گجندر کے ہاتھ پاؤں باندھے۔ گجندر بے حس پڑے ہوئے تھے، سانس تک نہ آتی تھی، دل میں جھنجھلا رہے تھے، ہائے کتنی بے وفا عورت ہے، زیور نہ دے گی چاہے یہ سب مجھے جان سے مار ڈالیں، اچھا زندہ بچوں گا تو دیکھوں گا، بات تک تو پوچھوں نہیں۔"

جب ڈاکوؤں نے گجندر کو اٹھا لیا اور لیکر آنگن میں جا پہنچے تو شیام دلاری دروازے پر کھڑی ہو کر بولی۔ "انہیں چھوڑ دو تو میں تمھارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔"

پہلا۔ "پہلے ہی کیوں نہ راضی ہو گئی، چلے گی نہ؟"

شیام دلاری۔ "چلونگی کہتی تو ہوں۔"

تیسرا۔ "اچھا تو چل، ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں۔"

دونوں چوروں نے گجندر کو لا کر چارپائی پر لٹا دیا اور شیام دلاری کو لیکر چل دیئے۔ کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ گجندر نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں، کوئی نظر نہ آیا، اٹھ کر دروازے سے جھانکا، صحن میں کوئی نہ تھا، تیر کی طرح نکل کر صدر دروازے پر آئے لیکن باہر نکلنے کا حوصلہ نہ ہوا، چاہا کہ صوبیدار کو جگائیں مگر منہ سے آواز نہ نکلی۔

اسی وقت قہقہے کی آواز آئی، پانچ عورتیں چہل کرتی ہوئی شیام دلاری کے کمرے میں آئیں، گجندر کا وہاں پتہ نہ تھا۔

ایک۔ "کہاں چلے گئے؟"

شیام دلاری۔ "باہر چلے گئے ہونگے۔"

دوسری۔ "بہت شرمندہ ہونگے۔"

تیسری۔ "مارے خوف کے انکی سانس بند ہو گئی تھی۔"

گجندر نے بول چال سنی تو جان میں جان آئی، سمجھے گھر میں جاگ ہو گئی، لپک کر کمرے کے دروازے پر آئے اور بولے۔

"ذرا دیکھیئے، شیاما کہاں ہے، میری تو نیند نہیں کھلی، جلد کسی کو دوڑایئے۔"

یکایک انہیں عورتوں کے بیچ میں شیاما کو کھڑے ہنستے دیکھ کر حیرت میں آ گئے۔

پانچوں سہیلیوں نے ہنسنا اور تالیاں پیٹنا شروع کر دیں۔

ایک بولی۔ "واہ جیجا جی، دیکھ لی آپ کی بہادری۔"

شیام دلاری۔ "تم سب کی سب شیطان ہو۔"

تیسری۔ "بیوی تو چوروں کے ساتھ چلی گئی اور آپ نے سانس تک نہ لی۔"

گجندر سمجھ گئے بڑا دھوکہ کھایا، مگر زبان کے شیر تھے، فوراً بگڑی بات بنا لی۔

بولے۔ "تو کیا تمھارا سوانگ بگاڑ دیتا، میں بھی اس تماشے کا لطف اٹھا رہا تھا۔ اگر سبھوں کو پکڑ کر مونچھیں اکھاڑ لیتا تو تم کتنی شرمندہ ہوتیں، میں اتنا بے رحم نہیں ہوں۔"

سب کی سب گجندر کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔


(ختم شد)
 

محمد وارث

لائبریرین
انصاف کی پولیس

"تم ناحق اتنا ڈرتی ہو کیسر، پولیس کو جب ضابطے کے ساتھ اطلاع دی جائے گی تو اسکا فرض ہو جائے گا کہ ہمارے حفاظت کرے، ہم پانچ ہزار سالانہ ٹیکس دیتے ہیں، اگر پولیس نے سماعت نہ کی تو میں لاٹ صاحب سے کہوں گا۔ جب سرکار ہم سے ٹیکس لیتی ہے تو ہماری جان و مال کی حفاظت کرنا اسکا قانونی فرض ہے۔"

سیاسیات کا یہ مسئلہ کیسر کی سمجھ میں کیا آتا وہ تو کسی طرح اس خوف سے نجات پانا چاہتی تھی جو اسکے دل میں سانپ کی طرح بیٹھا پھنکار رہا تھا۔ پولیس کا اسے اب تک جو تجربہ تھا اس سے اسکے دل کو تقویت نہ ہوئی تھی، بولی۔

"پولیس والے واردات کے وقت تو نظر نہیں آتے جب واردات ہو جاتی ہے تب البتہ شان جتانے کے لیے آ پہنچتے ہیں، مثل مشہور ہے کہ پولیس اور دھنس، طوفان ختم ہو جانے کے بعد دکھائی دیتی ہے۔"

سیٹھ جی نے پولیس کی حمایت کی۔ "پولیس والے تو سرکار کا راج چلا رہے ہیں، تم کیا جانو۔" کیسر نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا۔ "اور میں کہتی ہوں کہ اگر واردات کل ہونے والی ہے تو پولیس کو خبر دینے سے آج ہو جائے گی، لوٹ کے مال میں انکا ساجھا ہوتا ہے۔"

"جانتا ہوں، دیکھ چکا ہوں اور روز دیکھتا ہوں لیکن کیا سرکار کو پانچ ہزار ٹیکس نہیں دیتے، اس پر داروغہ جی کو برابر پاپڑ اچار وغیرہ پہنچاتا رہتا ہوں۔ ابھی جاڑوں میں سپرنٹنڈنٹ صاحب شکار کھیلنے آئے تھے تو میں نے کتنی رسد پہنچائی تھی۔ ایک کنستر گھی اور ایک بوری شکر تو ایک ہی دن بھیجی تھی۔ یہ سب کھانا پلانا کس دن کام آئے گا، ہاں یہ مانتا ہوں کہ آدمی کو بالکل دوسروں کے بھروسے نہ بیٹھا رہنا چاہیے، اپنی قوت بازو سے بھی کام لینا چاہیئے، میرا نشانہ تو بے خطا ہوتا ہے، آؤ تمھیں بھی بندوق چلانا سکھا دوں۔"

یہ ایک مضحکہ خیز تجویز تھی، کیسر ہنس کر بولی۔

"ہاں اور کیا، اب آج میں بندوق چلانا سیکھوں گی۔ تم کو جب دیکھو ہنسی ہی سوجھتی ہے۔"

سیٹھ جی نے کہا۔ "اس میں ہنسی کی کیا بات ہے، آج کل تو عورتیں فوج میں بھرتی ہو رہی ہیں، سپاہیوں کی طرح عورتیں بھی قواعد کرتی ہیں، بندوق چلاتی ہیں۔"

کیسر نے اعتراض کیا۔ "ولایت کی عورتیں ہی چلاتی ہوں گی، یہاں کی عورتیں کیا چلائیں گی، ہاں انگل بھر کی زبان چاہے چلا لیں۔"

سیٹھ جی نے اس فاسد خیال کی تصحیح کی۔ "اب یہاں کی عورتیں بھی چلاتی ہیں، زمانہ بدل رہا ہے، ہم تم دونوں بندوق لیکر کھڑے ہو جائیں گے تو پچاس آدمی بھی اندر گھسنے کی ہمت نہ کر سکیں گے۔ عورت کے ہاتھ میں بندوق توپ سے بھی زیادہ قاتل ہو جاتی ہے۔"

کیسر نے آخری فیصلہ کیا۔ "نا بابا، چور کی آواز سنتے ہی چکر کھا کر گر پڑوں گی۔"

اس وقت چوکیدار نے آ کر کہا۔ "داروغہ جی نے کئی کانسٹیبل بھیجے ہیں، وہ آپ کو بلا رہے ہیں۔"


(2)

سیٹھ جی باہر آئے تو کانسٹیبلوں نے انہیں ادب سے سلام کیا اور ان میں سے ایک نے کہا۔ "ہمیں داروغہ جی نے آپ کے پاس یہ دریافت کرنے کو بھیجا ہے کہ آپ کے پاس دھمکی کی چھٹیاں تو نہیں آ رہی ہیں، آج کل باہر سے بہت سے ڈاکو اس علاقے میں آ گئے ہیں اور لوٹ مار کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔"

سیٹھ جی نے کانسٹیبلوں کو کرسیوں پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ "داروغہ جی کو کیسے معلوم ہو گیا، میرے پاس تو ایسے کئی خط آ چکے ہیں، ایک آج بھی آیا ہے۔ میں خود داروغہ جی کو اطلاع دینے آ رہا تھا۔"

ہیڈ کانسٹیبل نے جواب دیا۔ "حضور یہ نہ پوچھیں کہ داروغہ جی کو کیسے معلوم ہو گیا، علاقے کے سب سے بڑے سیٹھ کے پاس ایسے خط آئیں اور پولیس کو خبر نہ ہو، بھلا کوئی بات ہے۔ حکام کی برابر تاکید ہوتی رہتی ہے کہ سیٹھ جی کو شکایت کا کوئی موقع نہ دیا جائے، حضور پانچ ہزار روپے سالانہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہوتے مجال ہے کہ آپ کا بال بیکا ہو جائے۔ آج داروغہ جی بڑی دیر تک اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہے، یہ ڈاکو اتنے دلیر اور تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ تھانے کے باہر انکا مقابلہ کرنا دشوار ہے۔ داروغہ جی نے سوچا تھا کہ گارد منگوالیں گے مگر ڈاکو کہیں ایک جگہ تو رہتے نہیں، آج یہاں ہیں تو کل یہاں سے دو سو کوس پر پہنچ گئے۔ گارد منگوا کر بھی کیا کر سکتے تھے، رعایا کی تو فکر نہیں، کس کے پاس اتنا مال و اسباب رکھا ہے کہ ڈاکوؤں کا اندیشہ ہو اور اگر کسی کے پاس نہ ہو، چار سو روپے نکل ہی آئے تو اس کے لیے ڈاکوؤں کے پیچھے اپنی جان ہتھیلی پر لیے نہ پھرے گی۔ ڈاکوؤں پر کوئی ذمہ داری نہیں، وہ تو بے دریغ گولی چلاتے ہیں اور اکثر چھپ کر، ہمارے لیے تو ہزار بندشیں اور قیدیں ہیں، کوئی بات بگڑ جائے تو الٹی اپنی جان آفت میں پھنس جائے۔ اس لیے داروغہ جی نے ہمیں یہ پیغام دیکر آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ کو جس مال و اسباب کے بارے میں خطرہ ہے اسے لا کر تھانے کے خزانے میں جمع کر دیجیے، آپ کو رسید دے دی جائے گی، آپ کا قفل لگا دیا جائے گا، صندوقوں پر اپنی مہر لگا دیجیئے گا۔ جب یہ ہنگامہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو آپ اپنی چیزیں واپس لے لیجیئے گا۔ اس کے لیے سرکار آپ سے کسی قسم کی فیس نہیں لینا چاہتی، محض آپ کی حفاظت کے خیال سے یہ تجویز کی گئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ کے دفتر سے اس قسم کا کوئی حکم آیا ہے کہ جو لوگ ایک ہزار یا اس سے زیادہ ٹیکس دیتے ہوں انکی حفاظت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جائے ورنہ سخت جواب طلب کیا جائے گا۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ پولیس اتنا بڑا جوکھم کیوں سر لیتی۔ اس سے آپ کو بھی بے فکری ہو جائے گی اور ہم بھی ذمہ داری سے بچ جائیں گے، ورنہ خدانخواستہ کوئی واردات ہو جائے تو حضور کا جو نقصان ہو وہ تو ہو ہی ہمارے اوپر بھی جواب دہی آ جائے۔ یہ ڈاکو اتنے ظالم ہیں کہ محض مال و اسباب لے کر ہی جان نہیں چھوڑتے بلکہ خون بھی کر ڈالتے ہیں۔ اس لیے داروغہ جی نے بہت زور دیکر کہا ہے کہ آپ داخل کر کے رسید لے لیں۔ مزید اطمینان کے لیے آپ چاہیں تو اپنا ایک آدمی بھی وہاں تعینات کر سکتے ہیں۔ حضور کے پاس موٹر تو ہے، چار آدمی آپ کے ساتھ ہونگے راستے میں کوئی خطرہ نہیں۔ تحقیقی خبر ملی ہے کہ ڈاکوؤں کا غول اس علاقے میں کل آ گیا ہے، بیس آدمی ہیں اور سب کے سب مسلح۔ وہ سادھو بنے ہوئے ہیں اور دو پنجابیوں کے بھیس میں ہیں اور الوان اور دھسے بیچتے پھرتے ہیں، ان دونوں کے ساتھ دو بھنگی بردار بھی ہیں۔ دو ڈاکو بلوچیوں کے بھیس میں چھریاں اور تالے بیچتے ہیں۔ اور کہاں تک گناؤں، ہمارے یہاں تو ان کا پورا حلیہ آ گیا ہے۔

خطرے میں انسان کا دل کمزور ہو جاتا ہے اور وہ ایسی باتوں کا یقین کر لیتا ہے جو شاید ہوش و حواس کی حالت میں وہ نہ کرتا۔ یہاں تو شبہے کا کوئی موقع ہی نہ تھا۔ ممکن ہے اس میں داروغہ جی کی کوئی غرض شامل ہو اور وہ اس خدمت کا کچھ صلہ بھی چاہتے ہوں، اس کے لیے سیٹھ جی تیار تھے کہ اگر دو سو روپے دینے پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ایسے واقعے تو زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں، موجودہ حالت میں اس سے بہتر کوئی انتظام خیال میں نہیں آتا تھا بلکہ اسے امدادِ غیب سمجھنا چاہیے۔ انہیں کانسٹیبلوں کو کچھ دے دلا کر ساری چیزیں نکلوا لیں گے، دوسروں کا کیا بھروسہ کہیں ڈاکوؤں سے مل جائیں تو غضب ہی ہو جائے، راستے ہی میں گھیر لیے جائیں، بیس کے مقابلے میں چار آدمی کر ہی کیا سکتے ہیں اور کیا جانے ڈاکوؤں کے پاس کار نہ ہوگی۔

پھر بھی اس انداز سے بولے گویا داروغہ جی نے ان پر کوئی عنایت نہیں کی ہے، یہ ان کا ہی فرض تھا۔ "میں اس عنایت کے لیے داروغہ جی کا تہہ دل سے مشکور ہوں مگر میں نے یہاں ایسا انتظام کر لیا تھا کہ اگر ڈاکو یہاں آتے تو انکے دانت کھٹے کر دیئے جاتے، سارا محلہ مقابلے کے لیے تیار تھا، سبھی سے تو اپنا یارانہ ہے مگر داروغہ جی کی تجویز مجھے پسند ہے، اس سے وہ بھی اپنی ذمہ داری سے بری ہو جاتے ہیں اور میرے سر سے بھی فکر کا بوجھ اتر جاتا ہے جیسا آپ نے خود کہا۔ لیکن اندر سے چیزیں نکال نکال کر باہر لانا اور کار میں رکھنا میرے بوتے کی بات نہیں، آپ کی دعا سے آدمی تو کافی ہیں مگر کس کی نیت کیسی ہے، یہ کون جانتا ہے، آپ لوگ کچھ مدد کریں تو کام آسان ہو جائے، (مسکرا کر) آپ کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔"

کیسر نے اس تجویز کو لبیک کہا۔ کانسٹیبلوں نے بھی اپنی خدمات خوشی سے پیش کیں۔ ہیڈ کانسٹیبل نے کہا۔

"ہم حضور کے تابعدار ہیں، اس میں مدد کی کونسی بات ہے، تنخواہ سرکار سے ضرور پاتے ہیں مگر دیتے تو حضور ہی ہیں۔ آپ صرف بتاتے جائیے ہم لوگ آن کی آن میں سارا سامان نکال کر رکھ دیں گے۔"

کیسر نے خوش ہو کر کہا۔

"بھگوان نے مدد کردی، نہیں میں تو گھبرا رہی تھی، جان نکلی جاتی تھی۔"

سیٹھ جی نے ہمہ دانی کے انداز سے کہا۔ "اسی کو کہتے ہیں سرکار کا انتظام، اسی مستعدی کی بدولت سرکاری راج تھما ہوا ہے، میں تو سوچتا ہوں کوئی قیمتی چیز یہاں نہ چھوڑی جائے تا کہ وہ آئیں تو اپنا سا منہ لیکر چلے جائیں۔"

کیسر نے جھک کر کہا۔ "کنجی ان سبھوں کے سامنے پھینک دینا کہ جو چیز ہو نکال کے جاؤ۔"

دو کانسٹیبلوں نے اندر جا کر صندوقچے اور پٹارے نکالنے شروع کیے، ایک باہر سامان کار پر لاد رہا تھا اور ہیڈ کانسٹیبل نوٹ بک پر ہر ایک چیز کا اندراج کر رہا تھا۔ زیورات، اشرفیاں، نوٹ، بیش قیمت کپڑے، شال دو شالے، نقرئی ظروف، سب کار میں رکھ دیئے گئے۔ معمولی فرنیچر، برتن، فرش فروش اور غلہ وغیرہ کے سوا گھر میں اور کچھ نہ بچا اور یہ چیزیں ڈاکوؤں کے لیے بے مصرف ہیں۔ کیسر کا سنگار دان سیٹھ جی خود لائے اور ہیڈ کانسٹیبل کو دیکر بولے۔

"بھئی اسے بڑی حفاظت سے رکھنا۔"

ہیڈ کانسٹیبل نے سنگاردان لیکر کہا۔

"میرے لیے ہر ایک تنکا ہی بیش قیمت ہے۔"

سیٹھ جی کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوا، کہا۔

"اس فہرست کی نقل مجھے بھی دے دیجیئے گا۔"

ہیڈ کانسٹیبل نے کہا۔ "وہ آپ کو تھانے میں باضابطہ دی جائے گی۔"

"کیوں؟ یہیں سے دے دیجیئے۔"

"یہاں لکھنے میں دیر ہوگی اور پھر جب تک داروغہ جی کے دستخط نہ ہوں اس رسید کی وقعت ہی کیا۔ مگر آپ کے دل میں یہ شبہ کیوں پیدا ہوا؟"

سیٹھ جی نے نادم ہو کر کہا۔

"شبہ نہیں تھا، میں نے سمجھا ایک رسید میرے پاس بھی ہوتی تو اچھا تھا۔"

ہیڈ کانسٹیبل نے بے رخی سے کہا۔ "اگر آپ کے دل میں کسی قسم کا شبہ ہو تو آپ چیزیں اپنے گھر میں ہی رکھیں، ہم یہاں بھی آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں مگر ہاں اس حالت میں ذمہ داری آپ کی رہے گی۔"

سیٹھ جی اور نادم ہوئے۔ "نہیں نہیں صاحب، شبہے کی بات نہیں تھی، یوں ہی خیال آ گیا، آپ کہتے ہیں رسید تھانے میں مل جائے گی، میں بھی مانتا ہوں۔"

کار پر سارا سامان رکھ دیا گیا، محلے کے سینکڑوں آدمی تماشا دیکھ رہے تھے۔ کار بہت بڑی تھی مگر بالکل بھر گئی، پانچ آدمیوں کے لیے بڑی مشکل سے جگہ نکلی، سیٹھ جی تو پیچھے والی جگہ پر بیٹھے، باقی چاروں آدمی اگلی سیٹ پر سمٹ کر بیٹھ گئے، کیسر دروازے پر اس انداز سے کھڑی تھی گویا اسکی لڑکی رخصت ہو رہی ہو۔


(3)

پانچ میل کا سفر تھا، قصبے سے باہر نکلتے ہی پہاڑوں کی خاموش اور اُودی بلندیاں نظر آئیں، جنکے دامن میں ہرا بھرا سبزہ زار تھا اور اس میدان کے بیچ سے سرخ بجری کی سڑک سیندور بھری مانگ کی طرح نکل گئی تھی۔ ایک میل جانے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل نے سیٹھ جی سے پوچھا۔

"یہ کہاں تک صحیح ہے سیٹھ جی کہ پچیس سال پہلے آپ یہاں بالکل خالی ہاتھ آئے تھے۔" نانک چند تفاخر کے انداز سے بولے۔

"بالکل صحیح ہے خاں صاحب، میرے پاس کل تین روپے تھے، لٹیا ڈور کندھے پر تھی اور چھڑی ہاتھ میں، بس بھگوان کا بھروسہ تھا، بالکل تقدیر کا کھیل ہے اور بھگوان کی مرضی چاہیئے، آدمی کے بنتے بگڑتے دیر نہیں لگتی۔"

"میں نے سنا ہے آپ دوسرے سیٹھ ساہوکاروں کی طرح بخیل نہیں ہیں۔"

"میرا اصول یہ ہے کہ اصلی بچت وہی ہے جو آرام سے زندگی بسر کرنے کے بعد بچ رہے، جب تھوڑی آمدنی تھی تب بھی میرا یہی اصول تھا۔"

"آخر یہ دولت آپ کو کہاں سے ملی؟"

"آڑھت، لین دین، رہن بیع، سبھی کچھ تو ہے خاں صاحب، یہ سمجھ لیجیئے کہ صبح سے آدھی رات تک سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی۔ صرف کھانا کھانے اندر جاتا ہوں۔"

"آپ بجا فرماتے ہیں، محنت کے بغیر کسی کام میں کامیابی نہیں ہوتی، آپ کو اپنے ہاتھ سے بھی بہت سا کام کرنا پڑتا ہوگا؟"

"کچھ نہیں صاحب، نوکر چاکر سب کچھ کر لیتے ہیں، میں تو بیٹھا نگرانی کرتا ہوں۔"

"آپ نے کئی لاکھ پیدا کیے ہونگے؟"

"دو سوا دو لاکھ کی جائیداد ہے خاں صاحب، بیس ہزار کا تو مکان ہی کھڑا ہے، آج بیچوں تو پچاس ہزار سے کم نہ ملے۔"

"لیکن اصلی سرمایہ وہی آپ کے تین روپے تھے۔"

"سرمایہ تو آدمی کی ساکھ ہے خاں صاحب، آج چاہوں تو کہیں سے لاکھوں کا مال منگا سکتا ہوں۔"

"آپ کی زندگی واقعی ہمارے لیے نمونہ ہے۔"

"آپ لوگوں کی دعا سے اب تک تو آرام سے کٹ گئی ہے، آگے کی بھگوان جانے۔"

"اب تو اور بھی آرام سے کٹے گی کیونکہ آپ کی ساکھ بہت بڑھ گئی ہے۔"

"اس میں کیا شک ہے خاں صاحب، اپنی ساکھ تو بنانے سے بنتی ہے۔"

"یہ مال و اسباب اور جائیداد آپ کے لیے فضول ہے، آپ اپنی ساکھ سے اپنا روزگار کر سکتے ہیں۔"

"بہت اچھی طرح خاں صاحب، یہ سب تو مایا جال ہے جس میں پھنس جانے کے بعد پھر نجات نہیں ملتی، مر کر ہی گلا چھوٹتا ہے۔ اب دھرم شالہ بنوانے کا ارادہ ہے، سامان کر لیا ہے، کوئی اچھا مہورت دیکھ کر ہاتھ لگا دیتا ہوں۔ ایک لڑکا بھی گود لینا چاہتا ہوں، بس پھر بھگوان کا بھجن کرونگا۔"

"آپ کے کوئی اولاد ہوئی نہیں؟"

"تقدیر میں نہ تھی خاں صاحب اور کیا کہوں، جن کے گھر میں بھونی بھاگ نہیں ان کے ہاں تو گھاس پھوس کی طرح بچے نکلتے ہیں، جنہیں بھگوان نے کھانے کو دیا ہے وہ اولاد کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے ہیں۔"

"آپ بالکل ٹھیک فرماتے ہیں سیٹھ جی، آپ کی باتیں بڑی پُر مغز ہوتی ہیں، اگر ہم آپ کو اس مایا جال سے چھڑا دیں تو یقیناً آپ ہمارے احسانمند ہونگے۔"

سیٹھ جی ہنسے اور بولے۔ "بھگوان کے سوا اس مایا جال سے کون چھڑا سکتا ہے خاں صاحب؟"

ہیڈ کانسٹیبل نے سنجیدہ چہرہ بنا کر کہا۔ "بھگوان کیوں چھڑانے لگے، آپ خود کیوں نہیں چھوٹ جاتے، دولت سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں، اسے کیوں نہ غریبوں میں تقسیم کر دیجیئے، بے فائدہ سینے پر بوجھ لادنے سے کیا مطلب؟"

"بھلا ایسا کہیں ہو سکتا ہے خاں صاحب، مایا جال کہیں ٹوٹ سکتا ہے؟"

"میں تو توڑنے کو تیار ہوں اس وقت۔"

"اسی دولت کے لیے آدمی اپنا خون پسینہ ایک کر دیتا ہے خاں صاحب، دغا، فریب، بے ایمانی اور ظلم سب کچھ اسی کے لیے کرتا ہے، بغیر اپنا ضمیر بیچے دولت نہیں ملتی، ایسی بیش قیمت چیز کون چھوڑ سکتا ہے؟"

"لیکن آپ نے فرمایا کہ صرف آپ کے اقبال کا ظہور ہے، آپ نے کوئی خاص محنت نہیں کی۔"

"نگرانی میں کچھ کم محنت ہے خاں صاحب۔"

"آپ دن بھر دھوپ میں ٹھیلہ کھینچنا پسند کریں گے یا گدی پر بیٹھے نگرانی کرنا؟"

"مگر سب آدمی سبھی کام تو نہیں کر سکتے۔"

"آخر یہ روپیہ آپ کے پاس آیا کہاں سے؟ آپ نے کسی اسامی کو سو روپیہ قرض دیئے ہونگے یقیناً اس سے کچھ نہ کچھ سود لیا ہی ہوگا۔ کبھی کبھی تو سود کے دو سو تین سو چار سو تک وصول کیے ہونگے، آپکے روپے نے تو بچے دیئے نہیں۔ اسامی کی محنت سے روپے آپ کے ہاتھ لگے، بسا اوقات دو چار سو روپے قرض دیکر آپ نے پورے خاندان کو اپنا غلام بنا لیا ہوگا اور انکی شبانہ روز کی مشقت کی کمائی آپ کے ہاتھ لگی ہوگی۔"

سیٹھ جی نے حیرت کی نگاہ سے خاں صاحب کی طرف دیکھا، یہ تو کوئی بڑا عجیب آدمی ہے، خواہ مخواہ بحث کر رہا ہے، مانا میں نے دوسروں کی محنت سے ہی دولت پیدا کی تو پھر جو سب کرتے ہیں وہی میں نے کیا کوئی نئی بات نہیں کی، بولے۔

"اسطرح تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے سبھی دولت مند مفت خور ہیں۔"

خاں صاحب نے انکی تائید کی۔ "بیشک، میں بڑے زور سے دعویٰ کرتا ہوں، یہاں تک کہ سبھی سلطنتیں بھی اسی ذیل میں آ جاتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ آپ اسامیوں سے روپے وصول کر کے رکھ چھوڑتے ہیں، سرکار اس سے ملک کا انتظام کرتی ہے، عدالتیں اور پولیس قائم کرتی ہے کہ آپ اور آپ کے بھائی بہ اطمینان غربا کا خون چوس سکیں، اگر کوئی غریب سرکشی کرے اور آپ کا منہ اپنی رگ سے ہٹا دینا چاہے تو سرکار کی پولیس اور عدالت اور فوج آپ کی مدد کرے۔ دراصل آپ نے سود یا نفع یا مال گزاری کی شکل میں جو کچھ بھی پایا ہے وہ غریبوں کی کمائی ہے جو آپ نے ان سے جبراً چھین لی ہے اور جو آپ ہی کے لفظوں میں آپ کے پاس بیکار پڑی ہوئی ہے۔ آپ کو مسروقہ مال گھر میں رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے، آپ ان چیزوں کو پولیس کے حوالے کر کے گھر کی راہ لیجیئے۔ ہم سرکاری پولیس کے سپاہی نہیں، انصاف پولیس کے سپاہی ہیں۔ ہم نے متواتر خطوط سے آپ کو آگاہ کیا یہاں تک کہا کہ آپ ہمیں صرف پچیس ہزار روپے دیجیئے لیکن آپ سرکاری امداد کے زعم میں بیٹھے رہے، مجبوراً ہمیں یہ چال چلنی پڑی۔"

سیٹھ جی کا خون خشک ہو گیا، لیکن نہیں یہ پولیس والے ڈرا رہے ہیں اور میری بزدلانہ بدحواسی کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں، بولے۔

"خاں صاحب آپ بڑے دل لگی باز ہیں لیکن سچ مچ ڈاکوؤں نے یہ چال چلی ہوتی تو اس وقت دھوکے میں آ چکا ہوتا۔"

"تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ڈاکوؤں نے سچ مچ آپ کے ساتھ چال چلی ہے اور آپ دھوکے میں آ گئے ہیں، اس میں شک و شبہ کی مطلق گنجائش نہیں۔"

گاڑی رُک گئی، سیٹھ جی دھکیل کر نیچے گرا دیئے گئے اور دروازہ بند کر لیا گیا۔ موٹر آہستہ آہستہ چلی، سیٹھ چلاتے ہوئے موٹر کے پیچھے دوڑے۔ "حضور سرکار بھائیو، بالکل تباہ ہو جاؤنگا، رحم کیجیئے، گھر میں ایک کوڑی بھی نہیں ہے، ہمارے بڑھاپے پر رحم کیجیئے، میں خوشی سے آپ کو پچیس ہزار روپے دے دونگا، آپ نے کہا ہے آپ انصاف کی پولیس ہیں، یہ بے انصافی نہ کیجیئے۔"

خاں صاحب نے دروازے سے سر نکال کر کہا۔

"کاش یہ پچیس ہزار آپ نے پہلے دیئے ہوتے، اب تو معیاد گزر چکی، اپنے آپ کو کتنے خطرے میں ڈال کر ہم نے یہ دولت پائی ہے، اسکا خیال کیجیئے آپ کو ذرا بھی شبہ ہو جاتا تو اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوتیں اور بے بھاؤ کی پڑ رہی ہوتی، اب آپ آرام سے تشریف لے جائیے۔ یہ وہ تین روپے ہیں جو آپ ساتھ لیکر یہاں آئے تھے، اب جا کر پھر دولت جمع کیجیئے، دس پانچ برس میں ہم پھر آپ کو مایا جال سے نکالیں گے۔"

موٹر تیز ہو گئی اور سیٹھ جی چیختے رہ گئے۔

"دوڑو، دوڑو، دوڑو، لُوٹے لیے جا رہے ہیں۔"

لیکن وہ ساری فریاد، فریاد بہ صحرا تھی۔

(ختم شد)
 
Top