انصاف کی پولیس
"تم ناحق اتنا ڈرتی ہو کیسر، پولیس کو جب ضابطے کے ساتھ اطلاع دی جائے گی تو اسکا فرض ہو جائے گا کہ ہمارے حفاظت کرے، ہم پانچ ہزار سالانہ ٹیکس دیتے ہیں، اگر پولیس نے سماعت نہ کی تو میں لاٹ صاحب سے کہوں گا۔ جب سرکار ہم سے ٹیکس لیتی ہے تو ہماری جان و مال کی حفاظت کرنا اسکا قانونی فرض ہے۔"
سیاسیات کا یہ مسئلہ کیسر کی سمجھ میں کیا آتا وہ تو کسی طرح اس خوف سے نجات پانا چاہتی تھی جو اسکے دل میں سانپ کی طرح بیٹھا پھنکار رہا تھا۔ پولیس کا اسے اب تک جو تجربہ تھا اس سے اسکے دل کو تقویت نہ ہوئی تھی، بولی۔
"پولیس والے واردات کے وقت تو نظر نہیں آتے جب واردات ہو جاتی ہے تب البتہ شان جتانے کے لیے آ پہنچتے ہیں، مثل مشہور ہے کہ پولیس اور دھنس، طوفان ختم ہو جانے کے بعد دکھائی دیتی ہے۔"
سیٹھ جی نے پولیس کی حمایت کی۔ "پولیس والے تو سرکار کا راج چلا رہے ہیں، تم کیا جانو۔" کیسر نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا۔ "اور میں کہتی ہوں کہ اگر واردات کل ہونے والی ہے تو پولیس کو خبر دینے سے آج ہو جائے گی، لوٹ کے مال میں انکا ساجھا ہوتا ہے۔"
"جانتا ہوں، دیکھ چکا ہوں اور روز دیکھتا ہوں لیکن کیا سرکار کو پانچ ہزار ٹیکس نہیں دیتے، اس پر داروغہ جی کو برابر پاپڑ اچار وغیرہ پہنچاتا رہتا ہوں۔ ابھی جاڑوں میں سپرنٹنڈنٹ صاحب شکار کھیلنے آئے تھے تو میں نے کتنی رسد پہنچائی تھی۔ ایک کنستر گھی اور ایک بوری شکر تو ایک ہی دن بھیجی تھی۔ یہ سب کھانا پلانا کس دن کام آئے گا، ہاں یہ مانتا ہوں کہ آدمی کو بالکل دوسروں کے بھروسے نہ بیٹھا رہنا چاہیے، اپنی قوت بازو سے بھی کام لینا چاہیئے، میرا نشانہ تو بے خطا ہوتا ہے، آؤ تمھیں بھی بندوق چلانا سکھا دوں۔"
یہ ایک مضحکہ خیز تجویز تھی، کیسر ہنس کر بولی۔
"ہاں اور کیا، اب آج میں بندوق چلانا سیکھوں گی۔ تم کو جب دیکھو ہنسی ہی سوجھتی ہے۔"
سیٹھ جی نے کہا۔ "اس میں ہنسی کی کیا بات ہے، آج کل تو عورتیں فوج میں بھرتی ہو رہی ہیں، سپاہیوں کی طرح عورتیں بھی قواعد کرتی ہیں، بندوق چلاتی ہیں۔"
کیسر نے اعتراض کیا۔ "ولایت کی عورتیں ہی چلاتی ہوں گی، یہاں کی عورتیں کیا چلائیں گی، ہاں انگل بھر کی زبان چاہے چلا لیں۔"
سیٹھ جی نے اس فاسد خیال کی تصحیح کی۔ "اب یہاں کی عورتیں بھی چلاتی ہیں، زمانہ بدل رہا ہے، ہم تم دونوں بندوق لیکر کھڑے ہو جائیں گے تو پچاس آدمی بھی اندر گھسنے کی ہمت نہ کر سکیں گے۔ عورت کے ہاتھ میں بندوق توپ سے بھی زیادہ قاتل ہو جاتی ہے۔"
کیسر نے آخری فیصلہ کیا۔ "نا بابا، چور کی آواز سنتے ہی چکر کھا کر گر پڑوں گی۔"
اس وقت چوکیدار نے آ کر کہا۔ "داروغہ جی نے کئی کانسٹیبل بھیجے ہیں، وہ آپ کو بلا رہے ہیں۔"
(2)
سیٹھ جی باہر آئے تو کانسٹیبلوں نے انہیں ادب سے سلام کیا اور ان میں سے ایک نے کہا۔ "ہمیں داروغہ جی نے آپ کے پاس یہ دریافت کرنے کو بھیجا ہے کہ آپ کے پاس دھمکی کی چھٹیاں تو نہیں آ رہی ہیں، آج کل باہر سے بہت سے ڈاکو اس علاقے میں آ گئے ہیں اور لوٹ مار کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔"
سیٹھ جی نے کانسٹیبلوں کو کرسیوں پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ "داروغہ جی کو کیسے معلوم ہو گیا، میرے پاس تو ایسے کئی خط آ چکے ہیں، ایک آج بھی آیا ہے۔ میں خود داروغہ جی کو اطلاع دینے آ رہا تھا۔"
ہیڈ کانسٹیبل نے جواب دیا۔ "حضور یہ نہ پوچھیں کہ داروغہ جی کو کیسے معلوم ہو گیا، علاقے کے سب سے بڑے سیٹھ کے پاس ایسے خط آئیں اور پولیس کو خبر نہ ہو، بھلا کوئی بات ہے۔ حکام کی برابر تاکید ہوتی رہتی ہے کہ سیٹھ جی کو شکایت کا کوئی موقع نہ دیا جائے، حضور پانچ ہزار روپے سالانہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہوتے مجال ہے کہ آپ کا بال بیکا ہو جائے۔ آج داروغہ جی بڑی دیر تک اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہے، یہ ڈاکو اتنے دلیر اور تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ تھانے کے باہر انکا مقابلہ کرنا دشوار ہے۔ داروغہ جی نے سوچا تھا کہ گارد منگوالیں گے مگر ڈاکو کہیں ایک جگہ تو رہتے نہیں، آج یہاں ہیں تو کل یہاں سے دو سو کوس پر پہنچ گئے۔ گارد منگوا کر بھی کیا کر سکتے تھے، رعایا کی تو فکر نہیں، کس کے پاس اتنا مال و اسباب رکھا ہے کہ ڈاکوؤں کا اندیشہ ہو اور اگر کسی کے پاس نہ ہو، چار سو روپے نکل ہی آئے تو اس کے لیے ڈاکوؤں کے پیچھے اپنی جان ہتھیلی پر لیے نہ پھرے گی۔ ڈاکوؤں پر کوئی ذمہ داری نہیں، وہ تو بے دریغ گولی چلاتے ہیں اور اکثر چھپ کر، ہمارے لیے تو ہزار بندشیں اور قیدیں ہیں، کوئی بات بگڑ جائے تو الٹی اپنی جان آفت میں پھنس جائے۔ اس لیے داروغہ جی نے ہمیں یہ پیغام دیکر آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ کو جس مال و اسباب کے بارے میں خطرہ ہے اسے لا کر تھانے کے خزانے میں جمع کر دیجیے، آپ کو رسید دے دی جائے گی، آپ کا قفل لگا دیا جائے گا، صندوقوں پر اپنی مہر لگا دیجیئے گا۔ جب یہ ہنگامہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو آپ اپنی چیزیں واپس لے لیجیئے گا۔ اس کے لیے سرکار آپ سے کسی قسم کی فیس نہیں لینا چاہتی، محض آپ کی حفاظت کے خیال سے یہ تجویز کی گئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ کے دفتر سے اس قسم کا کوئی حکم آیا ہے کہ جو لوگ ایک ہزار یا اس سے زیادہ ٹیکس دیتے ہوں انکی حفاظت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جائے ورنہ سخت جواب طلب کیا جائے گا۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ پولیس اتنا بڑا جوکھم کیوں سر لیتی۔ اس سے آپ کو بھی بے فکری ہو جائے گی اور ہم بھی ذمہ داری سے بچ جائیں گے، ورنہ خدانخواستہ کوئی واردات ہو جائے تو حضور کا جو نقصان ہو وہ تو ہو ہی ہمارے اوپر بھی جواب دہی آ جائے۔ یہ ڈاکو اتنے ظالم ہیں کہ محض مال و اسباب لے کر ہی جان نہیں چھوڑتے بلکہ خون بھی کر ڈالتے ہیں۔ اس لیے داروغہ جی نے بہت زور دیکر کہا ہے کہ آپ داخل کر کے رسید لے لیں۔ مزید اطمینان کے لیے آپ چاہیں تو اپنا ایک آدمی بھی وہاں تعینات کر سکتے ہیں۔ حضور کے پاس موٹر تو ہے، چار آدمی آپ کے ساتھ ہونگے راستے میں کوئی خطرہ نہیں۔ تحقیقی خبر ملی ہے کہ ڈاکوؤں کا غول اس علاقے میں کل آ گیا ہے، بیس آدمی ہیں اور سب کے سب مسلح۔ وہ سادھو بنے ہوئے ہیں اور دو پنجابیوں کے بھیس میں ہیں اور الوان اور دھسے بیچتے پھرتے ہیں، ان دونوں کے ساتھ دو بھنگی بردار بھی ہیں۔ دو ڈاکو بلوچیوں کے بھیس میں چھریاں اور تالے بیچتے ہیں۔ اور کہاں تک گناؤں، ہمارے یہاں تو ان کا پورا حلیہ آ گیا ہے۔
خطرے میں انسان کا دل کمزور ہو جاتا ہے اور وہ ایسی باتوں کا یقین کر لیتا ہے جو شاید ہوش و حواس کی حالت میں وہ نہ کرتا۔ یہاں تو شبہے کا کوئی موقع ہی نہ تھا۔ ممکن ہے اس میں داروغہ جی کی کوئی غرض شامل ہو اور وہ اس خدمت کا کچھ صلہ بھی چاہتے ہوں، اس کے لیے سیٹھ جی تیار تھے کہ اگر دو سو روپے دینے پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ایسے واقعے تو زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں، موجودہ حالت میں اس سے بہتر کوئی انتظام خیال میں نہیں آتا تھا بلکہ اسے امدادِ غیب سمجھنا چاہیے۔ انہیں کانسٹیبلوں کو کچھ دے دلا کر ساری چیزیں نکلوا لیں گے، دوسروں کا کیا بھروسہ کہیں ڈاکوؤں سے مل جائیں تو غضب ہی ہو جائے، راستے ہی میں گھیر لیے جائیں، بیس کے مقابلے میں چار آدمی کر ہی کیا سکتے ہیں اور کیا جانے ڈاکوؤں کے پاس کار نہ ہوگی۔
پھر بھی اس انداز سے بولے گویا داروغہ جی نے ان پر کوئی عنایت نہیں کی ہے، یہ ان کا ہی فرض تھا۔ "میں اس عنایت کے لیے داروغہ جی کا تہہ دل سے مشکور ہوں مگر میں نے یہاں ایسا انتظام کر لیا تھا کہ اگر ڈاکو یہاں آتے تو انکے دانت کھٹے کر دیئے جاتے، سارا محلہ مقابلے کے لیے تیار تھا، سبھی سے تو اپنا یارانہ ہے مگر داروغہ جی کی تجویز مجھے پسند ہے، اس سے وہ بھی اپنی ذمہ داری سے بری ہو جاتے ہیں اور میرے سر سے بھی فکر کا بوجھ اتر جاتا ہے جیسا آپ نے خود کہا۔ لیکن اندر سے چیزیں نکال نکال کر باہر لانا اور کار میں رکھنا میرے بوتے کی بات نہیں، آپ کی دعا سے آدمی تو کافی ہیں مگر کس کی نیت کیسی ہے، یہ کون جانتا ہے، آپ لوگ کچھ مدد کریں تو کام آسان ہو جائے، (مسکرا کر) آپ کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔"
کیسر نے اس تجویز کو لبیک کہا۔ کانسٹیبلوں نے بھی اپنی خدمات خوشی سے پیش کیں۔ ہیڈ کانسٹیبل نے کہا۔
"ہم حضور کے تابعدار ہیں، اس میں مدد کی کونسی بات ہے، تنخواہ سرکار سے ضرور پاتے ہیں مگر دیتے تو حضور ہی ہیں۔ آپ صرف بتاتے جائیے ہم لوگ آن کی آن میں سارا سامان نکال کر رکھ دیں گے۔"
کیسر نے خوش ہو کر کہا۔
"بھگوان نے مدد کردی، نہیں میں تو گھبرا رہی تھی، جان نکلی جاتی تھی۔"
سیٹھ جی نے ہمہ دانی کے انداز سے کہا۔ "اسی کو کہتے ہیں سرکار کا انتظام، اسی مستعدی کی بدولت سرکاری راج تھما ہوا ہے، میں تو سوچتا ہوں کوئی قیمتی چیز یہاں نہ چھوڑی جائے تا کہ وہ آئیں تو اپنا سا منہ لیکر چلے جائیں۔"
کیسر نے جھک کر کہا۔ "کنجی ان سبھوں کے سامنے پھینک دینا کہ جو چیز ہو نکال کے جاؤ۔"
دو کانسٹیبلوں نے اندر جا کر صندوقچے اور پٹارے نکالنے شروع کیے، ایک باہر سامان کار پر لاد رہا تھا اور ہیڈ کانسٹیبل نوٹ بک پر ہر ایک چیز کا اندراج کر رہا تھا۔ زیورات، اشرفیاں، نوٹ، بیش قیمت کپڑے، شال دو شالے، نقرئی ظروف، سب کار میں رکھ دیئے گئے۔ معمولی فرنیچر، برتن، فرش فروش اور غلہ وغیرہ کے سوا گھر میں اور کچھ نہ بچا اور یہ چیزیں ڈاکوؤں کے لیے بے مصرف ہیں۔ کیسر کا سنگار دان سیٹھ جی خود لائے اور ہیڈ کانسٹیبل کو دیکر بولے۔
"بھئی اسے بڑی حفاظت سے رکھنا۔"
ہیڈ کانسٹیبل نے سنگاردان لیکر کہا۔
"میرے لیے ہر ایک تنکا ہی بیش قیمت ہے۔"
سیٹھ جی کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوا، کہا۔
"اس فہرست کی نقل مجھے بھی دے دیجیئے گا۔"
ہیڈ کانسٹیبل نے کہا۔ "وہ آپ کو تھانے میں باضابطہ دی جائے گی۔"
"کیوں؟ یہیں سے دے دیجیئے۔"
"یہاں لکھنے میں دیر ہوگی اور پھر جب تک داروغہ جی کے دستخط نہ ہوں اس رسید کی وقعت ہی کیا۔ مگر آپ کے دل میں یہ شبہ کیوں پیدا ہوا؟"
سیٹھ جی نے نادم ہو کر کہا۔
"شبہ نہیں تھا، میں نے سمجھا ایک رسید میرے پاس بھی ہوتی تو اچھا تھا۔"
ہیڈ کانسٹیبل نے بے رخی سے کہا۔ "اگر آپ کے دل میں کسی قسم کا شبہ ہو تو آپ چیزیں اپنے گھر میں ہی رکھیں، ہم یہاں بھی آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں مگر ہاں اس حالت میں ذمہ داری آپ کی رہے گی۔"
سیٹھ جی اور نادم ہوئے۔ "نہیں نہیں صاحب، شبہے کی بات نہیں تھی، یوں ہی خیال آ گیا، آپ کہتے ہیں رسید تھانے میں مل جائے گی، میں بھی مانتا ہوں۔"
کار پر سارا سامان رکھ دیا گیا، محلے کے سینکڑوں آدمی تماشا دیکھ رہے تھے۔ کار بہت بڑی تھی مگر بالکل بھر گئی، پانچ آدمیوں کے لیے بڑی مشکل سے جگہ نکلی، سیٹھ جی تو پیچھے والی جگہ پر بیٹھے، باقی چاروں آدمی اگلی سیٹ پر سمٹ کر بیٹھ گئے، کیسر دروازے پر اس انداز سے کھڑی تھی گویا اسکی لڑکی رخصت ہو رہی ہو۔
(3)
پانچ میل کا سفر تھا، قصبے سے باہر نکلتے ہی پہاڑوں کی خاموش اور اُودی بلندیاں نظر آئیں، جنکے دامن میں ہرا بھرا سبزہ زار تھا اور اس میدان کے بیچ سے سرخ بجری کی سڑک سیندور بھری مانگ کی طرح نکل گئی تھی۔ ایک میل جانے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل نے سیٹھ جی سے پوچھا۔
"یہ کہاں تک صحیح ہے سیٹھ جی کہ پچیس سال پہلے آپ یہاں بالکل خالی ہاتھ آئے تھے۔" نانک چند تفاخر کے انداز سے بولے۔
"بالکل صحیح ہے خاں صاحب، میرے پاس کل تین روپے تھے، لٹیا ڈور کندھے پر تھی اور چھڑی ہاتھ میں، بس بھگوان کا بھروسہ تھا، بالکل تقدیر کا کھیل ہے اور بھگوان کی مرضی چاہیئے، آدمی کے بنتے بگڑتے دیر نہیں لگتی۔"
"میں نے سنا ہے آپ دوسرے سیٹھ ساہوکاروں کی طرح بخیل نہیں ہیں۔"
"میرا اصول یہ ہے کہ اصلی بچت وہی ہے جو آرام سے زندگی بسر کرنے کے بعد بچ رہے، جب تھوڑی آمدنی تھی تب بھی میرا یہی اصول تھا۔"
"آخر یہ دولت آپ کو کہاں سے ملی؟"
"آڑھت، لین دین، رہن بیع، سبھی کچھ تو ہے خاں صاحب، یہ سمجھ لیجیئے کہ صبح سے آدھی رات تک سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی۔ صرف کھانا کھانے اندر جاتا ہوں۔"
"آپ بجا فرماتے ہیں، محنت کے بغیر کسی کام میں کامیابی نہیں ہوتی، آپ کو اپنے ہاتھ سے بھی بہت سا کام کرنا پڑتا ہوگا؟"
"کچھ نہیں صاحب، نوکر چاکر سب کچھ کر لیتے ہیں، میں تو بیٹھا نگرانی کرتا ہوں۔"
"آپ نے کئی لاکھ پیدا کیے ہونگے؟"
"دو سوا دو لاکھ کی جائیداد ہے خاں صاحب، بیس ہزار کا تو مکان ہی کھڑا ہے، آج بیچوں تو پچاس ہزار سے کم نہ ملے۔"
"لیکن اصلی سرمایہ وہی آپ کے تین روپے تھے۔"
"سرمایہ تو آدمی کی ساکھ ہے خاں صاحب، آج چاہوں تو کہیں سے لاکھوں کا مال منگا سکتا ہوں۔"
"آپ کی زندگی واقعی ہمارے لیے نمونہ ہے۔"
"آپ لوگوں کی دعا سے اب تک تو آرام سے کٹ گئی ہے، آگے کی بھگوان جانے۔"
"اب تو اور بھی آرام سے کٹے گی کیونکہ آپ کی ساکھ بہت بڑھ گئی ہے۔"
"اس میں کیا شک ہے خاں صاحب، اپنی ساکھ تو بنانے سے بنتی ہے۔"
"یہ مال و اسباب اور جائیداد آپ کے لیے فضول ہے، آپ اپنی ساکھ سے اپنا روزگار کر سکتے ہیں۔"
"بہت اچھی طرح خاں صاحب، یہ سب تو مایا جال ہے جس میں پھنس جانے کے بعد پھر نجات نہیں ملتی، مر کر ہی گلا چھوٹتا ہے۔ اب دھرم شالہ بنوانے کا ارادہ ہے، سامان کر لیا ہے، کوئی اچھا مہورت دیکھ کر ہاتھ لگا دیتا ہوں۔ ایک لڑکا بھی گود لینا چاہتا ہوں، بس پھر بھگوان کا بھجن کرونگا۔"
"آپ کے کوئی اولاد ہوئی نہیں؟"
"تقدیر میں نہ تھی خاں صاحب اور کیا کہوں، جن کے گھر میں بھونی بھاگ نہیں ان کے ہاں تو گھاس پھوس کی طرح بچے نکلتے ہیں، جنہیں بھگوان نے کھانے کو دیا ہے وہ اولاد کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے ہیں۔"
"آپ بالکل ٹھیک فرماتے ہیں سیٹھ جی، آپ کی باتیں بڑی پُر مغز ہوتی ہیں، اگر ہم آپ کو اس مایا جال سے چھڑا دیں تو یقیناً آپ ہمارے احسانمند ہونگے۔"
سیٹھ جی ہنسے اور بولے۔ "بھگوان کے سوا اس مایا جال سے کون چھڑا سکتا ہے خاں صاحب؟"
ہیڈ کانسٹیبل نے سنجیدہ چہرہ بنا کر کہا۔ "بھگوان کیوں چھڑانے لگے، آپ خود کیوں نہیں چھوٹ جاتے، دولت سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں، اسے کیوں نہ غریبوں میں تقسیم کر دیجیئے، بے فائدہ سینے پر بوجھ لادنے سے کیا مطلب؟"
"بھلا ایسا کہیں ہو سکتا ہے خاں صاحب، مایا جال کہیں ٹوٹ سکتا ہے؟"
"میں تو توڑنے کو تیار ہوں اس وقت۔"
"اسی دولت کے لیے آدمی اپنا خون پسینہ ایک کر دیتا ہے خاں صاحب، دغا، فریب، بے ایمانی اور ظلم سب کچھ اسی کے لیے کرتا ہے، بغیر اپنا ضمیر بیچے دولت نہیں ملتی، ایسی بیش قیمت چیز کون چھوڑ سکتا ہے؟"
"لیکن آپ نے فرمایا کہ صرف آپ کے اقبال کا ظہور ہے، آپ نے کوئی خاص محنت نہیں کی۔"
"نگرانی میں کچھ کم محنت ہے خاں صاحب۔"
"آپ دن بھر دھوپ میں ٹھیلہ کھینچنا پسند کریں گے یا گدی پر بیٹھے نگرانی کرنا؟"
"مگر سب آدمی سبھی کام تو نہیں کر سکتے۔"
"آخر یہ روپیہ آپ کے پاس آیا کہاں سے؟ آپ نے کسی اسامی کو سو روپیہ قرض دیئے ہونگے یقیناً اس سے کچھ نہ کچھ سود لیا ہی ہوگا۔ کبھی کبھی تو سود کے دو سو تین سو چار سو تک وصول کیے ہونگے، آپکے روپے نے تو بچے دیئے نہیں۔ اسامی کی محنت سے روپے آپ کے ہاتھ لگے، بسا اوقات دو چار سو روپے قرض دیکر آپ نے پورے خاندان کو اپنا غلام بنا لیا ہوگا اور انکی شبانہ روز کی مشقت کی کمائی آپ کے ہاتھ لگی ہوگی۔"
سیٹھ جی نے حیرت کی نگاہ سے خاں صاحب کی طرف دیکھا، یہ تو کوئی بڑا عجیب آدمی ہے، خواہ مخواہ بحث کر رہا ہے، مانا میں نے دوسروں کی محنت سے ہی دولت پیدا کی تو پھر جو سب کرتے ہیں وہی میں نے کیا کوئی نئی بات نہیں کی، بولے۔
"اسطرح تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے سبھی دولت مند مفت خور ہیں۔"
خاں صاحب نے انکی تائید کی۔ "بیشک، میں بڑے زور سے دعویٰ کرتا ہوں، یہاں تک کہ سبھی سلطنتیں بھی اسی ذیل میں آ جاتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ آپ اسامیوں سے روپے وصول کر کے رکھ چھوڑتے ہیں، سرکار اس سے ملک کا انتظام کرتی ہے، عدالتیں اور پولیس قائم کرتی ہے کہ آپ اور آپ کے بھائی بہ اطمینان غربا کا خون چوس سکیں، اگر کوئی غریب سرکشی کرے اور آپ کا منہ اپنی رگ سے ہٹا دینا چاہے تو سرکار کی پولیس اور عدالت اور فوج آپ کی مدد کرے۔ دراصل آپ نے سود یا نفع یا مال گزاری کی شکل میں جو کچھ بھی پایا ہے وہ غریبوں کی کمائی ہے جو آپ نے ان سے جبراً چھین لی ہے اور جو آپ ہی کے لفظوں میں آپ کے پاس بیکار پڑی ہوئی ہے۔ آپ کو مسروقہ مال گھر میں رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے، آپ ان چیزوں کو پولیس کے حوالے کر کے گھر کی راہ لیجیئے۔ ہم سرکاری پولیس کے سپاہی نہیں، انصاف پولیس کے سپاہی ہیں۔ ہم نے متواتر خطوط سے آپ کو آگاہ کیا یہاں تک کہا کہ آپ ہمیں صرف پچیس ہزار روپے دیجیئے لیکن آپ سرکاری امداد کے زعم میں بیٹھے رہے، مجبوراً ہمیں یہ چال چلنی پڑی۔"
سیٹھ جی کا خون خشک ہو گیا، لیکن نہیں یہ پولیس والے ڈرا رہے ہیں اور میری بزدلانہ بدحواسی کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں، بولے۔
"خاں صاحب آپ بڑے دل لگی باز ہیں لیکن سچ مچ ڈاکوؤں نے یہ چال چلی ہوتی تو اس وقت دھوکے میں آ چکا ہوتا۔"
"تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ڈاکوؤں نے سچ مچ آپ کے ساتھ چال چلی ہے اور آپ دھوکے میں آ گئے ہیں، اس میں شک و شبہ کی مطلق گنجائش نہیں۔"
گاڑی رُک گئی، سیٹھ جی دھکیل کر نیچے گرا دیئے گئے اور دروازہ بند کر لیا گیا۔ موٹر آہستہ آہستہ چلی، سیٹھ چلاتے ہوئے موٹر کے پیچھے دوڑے۔ "حضور سرکار بھائیو، بالکل تباہ ہو جاؤنگا، رحم کیجیئے، گھر میں ایک کوڑی بھی نہیں ہے، ہمارے بڑھاپے پر رحم کیجیئے، میں خوشی سے آپ کو پچیس ہزار روپے دے دونگا، آپ نے کہا ہے آپ انصاف کی پولیس ہیں، یہ بے انصافی نہ کیجیئے۔"
خاں صاحب نے دروازے سے سر نکال کر کہا۔
"کاش یہ پچیس ہزار آپ نے پہلے دیئے ہوتے، اب تو معیاد گزر چکی، اپنے آپ کو کتنے خطرے میں ڈال کر ہم نے یہ دولت پائی ہے، اسکا خیال کیجیئے آپ کو ذرا بھی شبہ ہو جاتا تو اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوتیں اور بے بھاؤ کی پڑ رہی ہوتی، اب آپ آرام سے تشریف لے جائیے۔ یہ وہ تین روپے ہیں جو آپ ساتھ لیکر یہاں آئے تھے، اب جا کر پھر دولت جمع کیجیئے، دس پانچ برس میں ہم پھر آپ کو مایا جال سے نکالیں گے۔"
موٹر تیز ہو گئی اور سیٹھ جی چیختے رہ گئے۔
"دوڑو، دوڑو، دوڑو، لُوٹے لیے جا رہے ہیں۔"
لیکن وہ ساری فریاد، فریاد بہ صحرا تھی۔
(ختم شد)