وارداتِ دل سے تنگ آکر گزشتہ رات اک

وارداتِ دل سے تنگ آکر گزشتہ رات اک
ان کی یادوں کی بٹھائی ہم نے شوریٰ مستقل
ان کے انکاروں کی آوازیں متاعِ جان ہیں
شکر کرتا ہے سدا عبداً شکورا مستقل
اک غزل کافی نہیں ہے ان پہ لکھنے کے لیے
اس میں تو بن جائے گا دیوان پورا مستقل
بس اسی میں استقامت ہم نے پائی ہے سدا
ہر عمل ہم چھوڑ دیتے ہیں ادھورا مستقل
گرچہ ہم ماہر مصور تو نہیں ، پر رات بھر
دل میں اک تصویر کھینچی اس کو گھورا مستقل
چن رہے تھے کرچیاں ہم دل کی ، اس نے کردیا
پھینک کر سنگِ جفا سب چورا چورا مستقل
منتظر ہم اس شرابِ عشق کے ہیں سَرسَرؔی!
جس کو فرمایا مرے رب نے طہورا مستقل
 
Top