وادئ ناران کی سیر

اسکول کے دنوں میں استادِ محترم (مرحوم) ہر تفریحی دورے کے بعد اس کی روداد لکھوایا کرتے تھے لیکن قسمت کی خوبی دیکھیے کہ تب ہمیں ان دوروں پر جانے کی اجازت ہی نہ ملتی تھی. جب تفریحی دوروں پر جانے لگی تو روداد لکھوانے والے اللہ میاں کو پیارے ہوگئے. آج بڑے عرصے بعد پہلی بار 'رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے' کا خیال آتا ہے مگر اب یادداشت ایسی ہوگئی ہے کہ یاد نہیں پڑتا کیا پہلے ہوا تھا اور کیا بعد می‍ں، تو لفظ ہاتھ باندھے کیونکر کھڑے ہوں. فوٹوگرافی سے بھی کچھ کم ہی شغف ہے بس چند ایک بار چار و ناچار کیمرے کو تکلیف دی ہو تو ہو. اس لڑی میں سولہ سے انیس اگست تک کے ہمارے خیبرپختونخوا کے تفریحی دورے کی چند تصاویر وقتا فوقتا شریک کی جائیں گی، جو کہ مجھے یقین ہے آپ کی بصر خراشی کی مرتکب نہ ہوں گی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ قدرتی حسن کا مقابلہ بھلا کیا چیز کر سکتی ہے! اس کے علاوہ میں کوشش کروں گی کہ ساتھ ساتھ کچھ مختصر جملے شریک کرتی جاؤں کہ اس سفر سے میں نے کیا سیکھا.
:)
 
آخری تدوین:
سیف الملوک کی کچھ مزید تصاویر: (غیر روایتی)



29296308367_af4837bfe2_z.jpg
 
میرے سارے سفر میں سب سے کم خوبصورت سیف الملوک لگی اور سب سے زیادہ مزا بھی سیف الملوک پر آیا. کم خوبصورت اس لیے لگی کیونکہ پہلے لولوسر جھیل دیکھ چکے تھے اور اس لیے بھی کیونکہ بچپن سے ایک فینٹیسی تھی کہ خدا جانے کیا ہے جہاں پریاں اترتی ہیں، ہماری نصاب کی کتاب میں بھی سیف الملوک ہی تو شامل ہوا کرتی تھی لیکن جھیل کا پانی اس قدر گدلا تھا کہ ہمارے جذبات پر اوس پڑ گئی. استادِ محترم نے بتایا کہ آج سے بیس برس قبل وہ یہاں آئے تھے تو اس پانی کی شفافیت اپنی مثال آپ تھی مگر اب اس کا گدلا پن دیکھ کر دل کہتا ہے کہ ہم اپنے ملک کے قدرتی حسن کی حفاظت نہ کر سکے.
 
آخری تدوین:
یہاں سب سے زیادہ مزا اس لیے آیا کیونکہ کچھ مقامی بچوں اور خواتین سے سلام دعا ہوگئی جن کے توسط سے خصوصی طور پر ایک خچر مل گیا. وہاں خچر صرف تصویر کھنچوانے یا جھیل کے کنارے سیدھا سا چلنے کی خانہ پُری کو استعمال ہوتے ہیں. میں خچر پر سوار ہوئی اور اسے جھیل کی دوسری جانب کے پہاڑ پر چڑھانے لگی. اگرچہ سڑک نہ تھی اور جانور نت نئی سواریوں کے لیے سدھایا ہوا بھی نہ تھا مگر مانوس تھا. پہاڑ کی چوٹی تک جا کر پھر اسی پر واپس جھیل پر آئی. شاید پندرہ بیس منٹ لگے ہوں، اس کا پاؤں کبھی پتھر سے ٹکراتا تھا اور کبھی وہ کچھ لڑکھڑاتا تھا لیکن بہت زبردست محسوسات تھے! :)
 

ابوعبید

محفلین
خوبصورت روداد ۔
ملکہ پربت کے بارے میں ایک چیز مشہور ہے کہ اس کی چوٹی پہ ہروقت بادل کا ایک ٹکڑا موجود رہتا ہے ۔ اس میں کس حد تک صداقت ہے ؟؟
جب مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا تب سارے دن کے دوران بادل کے کچھ ٹکڑے موجود رہے تھے وہاں ۔
 

ابوعبید

محفلین
یہاں سب سے زیادہ مزا اس لیے آیا کیونکہ کچھ مقامی بچوں اور خواتین سے سلام دعا ہوگئی جن کے توسط سے خصوصی طور پر ایک خچر مل گیا. وہاں خچر صرف تصویر کھنچوانے یا جھیل کے کنارے سیدھا سا چلنے کی خانہ پُری کو استعمال ہوتے ہیں. میں خچر پر سوار ہوئی اور اسے جھیل کی دوسری جانب کے پہاڑ پر چڑھانے لگی. اگرچہ سڑک نہ تھی اور جانور نت نئی سواریوں کے لیے سدھایا ہوا بھی نہ تھا مگر مانوس تھا. پہاڑ کی چوٹی تک جا کر پھر اسی پر واپس جھیل پر آئی. شاید پندرہ بیس منٹ لگے ہوں، اس کا پاؤں کبھی پتھر سے ٹکراتا تھا اور کبھی وہ کچھ لڑکھڑاتا تھا لیکن بہت زبردست محسوسات تھے! :)
خچر وہاں سے آنسو جھیل کے بیس کیمپ تک جانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر رستہ کھلا ہو تو آنسو جھیل بھی اپنے حسن میں کوئی ثانی نہیں رکھتی۔لیکن وہاں تک پہنچنا کافی مشقت کا کام ہے ۔
 
Top