واجد علی شاہ اختر

وہ زہر ہوں کاٹے جو مجھے مار، گرے پٹ

آئے جو بدن پر مرے تلوار گرے پٹ

جلوہ جو دکھایا تھا کبھی بام کے اوپر

تاب آئے تھے کب دیکھ کہ اغیار گرے پٹ

وہ چال تری کب ہے جو دیکھےکوئی انسان

طاؤس تلک باغ میں دو چار گرے پٹ

دہقانوں میں مایہ الفت کو جلا دوں

خرمن پر اگر برق شرر گرے پٹ

زلفیں جو لٹک آئیں ترے چہرے کے اوپر

معلوم ہوا ہم کو کہ دو مار گرے پٹ

دیکھے جو کسی کوچے میں محبوب خوش آئیں

سیدھا نہ چلےمیرا دل زار گرے پٹ

قاتل مری تقدیر میں سختی ہی لکھی ہے

آئے جو تری تیغ کے بھی دہار گرے پٹ

اختر جو زمین ٹیڑھی ہو کیا کیجئے اوس میں

ہم جانتے ہیں آپ کے اشعار گرے پٹ

ابو منصور مرزا محمد واجد علی شاہ اخترؔ
1822-1887لکھنؤ
✍کلیات
صفحہ119
 
Top